ایران یا امریکا   فاتح کون ہے

وینز ویلا کو تیل کی امداد پہنچانے کے بعد ایران کا یہ دوسرا بڑا قدم ہے۔


Sabir Karbalai September 19, 2021

امریکا دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سیاست کے منظر نامہ پر دنیا کے سامنے ایک عالمی طاقت کے طور پر نمایاں ہوا اور دنیا میں اس کا تعارف سپر پاور کے عنوان سے کیا جانے لگا۔

امریکا کی طاقت کا گھمنڈ چند سال بعد ہی ٹوٹ چکا تھا ، لیکن دنیا کے متعدد کمزور ممالک کی حکومتوں کی سب سے بڑی مشکل یہی رہی کہ انھوں نے ہمیشہ امریکا کو ہی نجات دہندہ سمجھا اور عالمی طاقت سمجھتے ہوئے ، اس کے سامنے گھٹنے ٹیکے رکھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد خطے میں امریکا اور اس کے نظام کو سب سے بڑا دھچکا لگانے والا ایران ہی تھا۔

1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی خطے میں اسلام پسند اور مسلمان حکومت کے عنوان سے پہلی بڑی کامیابی تھی۔ امریکا کو اپنے ایک عزیز دوست شاہ ایران سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ دوسری جانب اسلامی انقلاب کے بانی نے امریکا کو نہ صرف ایران بلکہ مسلمانوں اور دنیا کا دشمن قرار دے کر تعلقات ختم کر ڈالے۔ یہ امریکا اور اس کے عالمی استعماری نظام کی سب سے بری شکست تھی ، جسے تاریخ کبھی فراموش نہ کر پائے گی۔

بات یہاں تک ہی نہیں رکی بلکہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی نے اپنے پیروکاروں کو ایک ایسی نظریاتی اور فکری بنیاد فراہم کی کہ جس کی بدولت امریکا کو مستقبل میں لبنان ، شام ، فلسطین ، عراق ، افغانستان اور یمن سمیت خطے کے ہر اس مقام پر شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ جہاں امریکی حکومت اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی تھی۔

یہ تو بات تھی صرف غرب ایشیائی ممالک کی تاہم امام خمینی کے فکر کی بنیادیں صرف غرب ایشیائی ممالک تک نہیں رکی، بلکہ اس کے اثرات افریقی ممالک میں بھی دیکھے گئے۔ افریقی ممالک سے بات آگے نکل کر لاطینی امریکا کے ممالک تک جا پہنچی۔

خلاصہ کرتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھنے والے امام خمینی نے جو نظام سیاست اور فکری بنیاد متعارف کی تھی، اس فکری بنیاد نے دنیا کی تمام سرحدوں کو عبور کر کے عالمی استعماری نظام کے سامنے قیام کیا۔ ایشیائی ممالک سے شروع کر افریقی اور لاطینی امریکائی ممالک تک امریکا کے مقابلہ کی لڑی کا سہرا ، اگر کسی کے سر جاتا ہے تو یہ کارنامہ انجام دینے والی شخصیت امام خمینی ہی ہیں۔

بطور سیاسیات کے طالب علم مطالعہ اور مشاہدات سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایران کی حکومت کے لیے جس نظام یعنی ولایت فقیہ کو منتخب کیا گیا ہے حقیقت میں یہ نظام ہی ہے کہ جس نے دنیا کے عالمی استعماری نظام کا راستہ روکا ہے اور موجودہ زمانہ میں بھی یہی نظام ہے کہ جس نے امریکا اور اس کے حواریوں اور ان کے عالمی استعماری نظام کا راستہ روک رکھا ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں ہی ایران کے خلاف کئی ایک سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ، لیکن ایران کے اس سیاسی نظام کی پائیداری یہ ہے کہ اس نظام نے امریکی نظام کا مقابلہ کیا ہے اور ابھی تک کر رہا ہے۔ امریکا نے وینز ویلا کے خلاف پابندیاں عائد کی، اس ملک میں تیل کی قلت پیدا کی تا کہ عوام اپنے ہی ملک میں مظاہرے کریں اور حکومت کے خلاف احتجاج پر اتر آئیں اور اس طرح امریکا اپنا ایجنڈا مکمل کرے ، لیکن یہاں بھی امریکی استعماری نظام کو شکست دینے میں ایران میں رائج سیاسی نظام یعنی ولایت فقیہ ہی نے مقابلہ کیا ہے۔

ایران ہی دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس نے وینز ویلا کی اس مشکل ترین حالت میں عملی مدد کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ایران اور اس کا رائج نظام ہی دنیا کی نجات کا باعث ہے۔ بلا رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق کے وینز ویلا کے لیے تیل کے بحری جہاز روانہ کیے، حالانکہ امریکا اور اس کے حواریوں نے خوب دھمکیاں دی تھیں کہ ایران کے تیل بردار جہازوں کو وینز ویلا داخل نہیں ہونے دیں گے لیکن یہ ایران کی قدرت تھی کہ جس نے امریکی استعماری نظام اور اس کے حواریوں کی دھمکیوں کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے وینز ویلا کی مدد کی اور تاحال یہ مدد جاری ہے اور تیل کے بحری جہازوں کو وینز ویلا پہنچایا۔

حالیہ دنوں غرب ایشیاء میں لبنان کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت اختیار چکا ہے۔ امریکی دبائو کے باعث متعدد ممالک نے لبنان کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور یہاں پر تیل کی سپلائی بند کردی گئی ہے۔ کوئی ملک بھی امریکی پابندیوں کی وجہ سے لبنان کو تیل کی سپلائی کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے سخت حالات میں کہ جب لبنان کی معاشی صورتحال بالکل ختم ہو نے کو ہے ، ایران ہی نجات دہندہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔

ایران نے گزشتہ ہفتے دو تیل بردار بحری جہاز لبنان کے لیے روانہ کیے اور یہ اعلان کیا کہ اگر امریکا یا اسرائیل یا پھر کسی بھی امریکی اتحادی کی جانب سے ان تیل بردار جہازوں کو روکنے یا حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بہرحال اب تادم تحریر موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق دونوں تیل بردار ایرانی جہاز شام کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوچکے ہیں جہاں سے اب آئل ٹینکروں کے ذریعہ تیل کو لبنان میں سپلائی کیا جائے گا۔

وینز ویلا کو تیل کی امداد پہنچانے کے بعد ایران کا یہ دوسرا بڑا قدم ہے، لبنان کی تیل کی قلت کو پورا کرنے کے لیے ایران نے تیل بردار جہازوں کو پہنچایا ہے اور مزید تیل کی سپلائی جاری رہنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ عالمی سیاست کے منظر نامہ پر اگر فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہاں بھی امریکا کی پراکسی اسرائیل لڑتا ہے لہٰذا ایران کی فلسطین کے لیے مدد اور فلسطینی گروہوں کے لیے مسلح مدد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، یعنی امریکا اس محاذ پر بھی ایران کے مقابلہ میں شکست پذیر ہے۔ اسی طرح لبنان کی بات کریں تو حالیہ تیل بردار ایرانی جہازوں کی آمد نے ایک مرتبہ پھر خطے میں امریکی گھمنڈ اور پراکسی جنگ لڑنے والی جعلی ریاست اسرائیل کو شکست دے دی ہے۔

شام کے متعلق اگر بات کی جائے تو امریکا اور اسرائیل سمیت مغربی ممالک نے مشترکہ کوشش کے باوجود شام کی حکومت اور شام کو تقسیم کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا ہے، ان کی اس ناکامی اور بد ترین شکست کے پیچھے بھی ایران ہی مد مقابل تھا۔ اب اگر یمن میں امریکی منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر امریکا کو ایران کے مد مقابل شکست کا سامنا ہے۔

افغانستان کی حالیہ صورتحال میں کہ جہاں سے امریکا کو نکل جانا پڑا ہے اگرچہ طالبان کی ظاہری فتح ضرور ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی شہید کی طالبان رہنمائوں کے ساتھ بیٹھک اور حکمت عملی بھی اس بات کا باعث بنی ہے کہ امریکا کو خطے میں شکست کا سامنا ہوا ہے۔

وینز ویلا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں امریکا منصوبہ کے مقابل میں ایران ہی پشت پناہ رہا ہے ،جب قطر کا بائیکاٹ کیا گیا تو اس موقع پر بھی ایران ہی تھا جس نے امریکا کے دبائو اور تمام تر دھونس دھمکیوں کے باوجود قطر کے لیے امدادی جہاز روانہ کرنے میں پہل کی۔

اسی طرح شمالی کوریا اور بولیویا سمیت لیبیا ، مصر اور مراکش سمیت متعدد ممالک میں امریکا کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور دنیا میں ایران اور اس کے نظام کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امریکا نہ صرف غرب ایشیاء میں بلکہ افریقی ممالک میں اور لاطینی امریکا میں بھی شکست پذیر ہو رہا ہے، ایران فاتح ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں