جمہوریت دشمن اقدامات
اس قدر جلدی کس بات کی ہے کہ وہ مسلسل آئین و قانون کی دھجیاں اڑا کر اپنے من پسند آرڈیننسز اور قوانین بنا رہے ہیں۔
موجودہ ہائیبرڈ جمہوری نظام میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے کہ ملک کی معیشت کی سمت درست کرکے ملک کو خطے کا ایک ترقی یافتہ اور مضبوط ملک بنانا ہے، جس میں طے کیا گیا ہے کہ کسی بھی طور پارلیمانی جمہوریت اور اس کے مروجہ طور طریقے نہیں اپنانے ہیں، بلکہ جہاں ضروری سمجھا جائے وہاں غیر متعلقہ آرڈیننسزکا غیر پارلیمانی سہارا لے کر ، اسمبلی سے لے کر عوام کے ووٹ اور عوام کے منتخب اسمبلی ارکان کی توہین کی جائے اور اگرکسی بھی ہائبرڈ تجویز پر سیاسی پارٹیوں میں اتفاق نہ ہوسکے تو اس نظام کے علم برداروں کی خواہش ، تجویز یا قانون کو پورا کرنے کے لیے ہر وہ غیر پارلیمانی طریقہ طاقتوروںکو خوش کرنے کے لیے اپنایا جائے جو غیر مرئی قوتوں کو خوش رکھ سکے۔
یہی نہیں بلکہ اس ''خواہش'' پر غیر جمہوری اقدامات کو جمہوریت کا نام دے کر عوام کے حقوق اور جمہوری آزادی کے کفن دفن کا بھی انتظام کیا جائے۔
آجکل ہمارے دیس میں مذکورہ طریقہ اختیار کرکے جھوٹ اور ڈھٹائی سے ٹی وی اسکرین پر تسلسل کے ساتھ ہائیبرڈ نظام کے حمایتی وزراء آتے رہتے ہیں اور جھوٹ بولنے اور دھمکیاں دینے کی یا تو وضاحتیں دیتے ہیں یا پھر بڑی ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرنے کی کوششوں میں جتے رہتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ جھوٹ پرکیوں پارلیمانی نظام جمہوریت کو دائو پر لگایا جا رہا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ ''ہائبرڈ نظام '' کے فوائد اور جمہوری قدروں کو مضبوط کرنے کے خواص کو واضح طور سے عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟ عوام کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ''ہائیبرڈ نظام'' عوام کی جمہوری آزادی اور ملکی ترقی میں کتنا کار آمد یا فائدہ مند ہے یا ملکی دولت کا کس قدر حصہ اس دیس کی معیشت کو درست سمت دینے میں قربان کریں گے یا کہ اس ''آرڈیننسز'' کی وزارت قانون کی فیکٹری پارلیمان کو جوابدہ ہے یا سلیکٹرزکو؟
ملک کے سیاسی اور ادارتی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو حکمران اور ان کے وزرا ملکی اداروں حتی کہ عدالتوں کو دھونس دھمکی اور طاقت کے نشے میں بے توقیر کرتے ہوئے آئین اور پارلیمانی طرز حکومت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نہایت ڈھٹائی اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اظہار رائے پر پابندیاں عائد کرکے نظام کو بزور طاقت نافذ کروانے کے در پہ جتے رہتے ہیں۔
ملک میں اظہار رائے کو پابند کرنے کے لیے پی ایم ڈی اے کی تشکیل کا شوشہ چھوڑا گیا ، جو ملک میں صحافیوں اور انسانی حقوق و سماجی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے پرزور احتجاج پر صرف موخرکیا گیا ہے ، ختم نہیں کیا گیا۔
حکومت نے اپنی ناکام کارکردگی اور مہنگائی و بیروزگاری سے تنگ عوام کے غصے اور آیندہ الیکشن میں دوبارہ سلیکشن نہ ہونے کے خطرے کے پیش نظر آیندہ الیکشن ای وی ایم کے ذریعے کرنے کا آرڈیننس نافذ کیا جو دونوں ایوانوں سے مسترد کردیا گیا جب کہ الیکشن کمیشن کے 37 اعتراضات پر الیکشن کمشنر اور ادارے کو جلانے اور پیسے کھانے کے الزامات سے نوازا گیا ، جس پر غیر جمہوری انداز اپناتے ہوئے اس ووٹنگ مشین ذریعے الیکشن کروانے کو غیر پارلیمانی انداز سے جوائنٹ سیشن میں پاس کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، جو قوی امید ہے کہ عوام اور سیاسی جماعتیں عدالت میں چیلنج کریں گی تاکہ غیر جمہوری فیصلوں کو عدالت کے ذریعے ردکروایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر جلدی کس بات کی ہے کہ وہ مسلسل آئین و قانون کی دھجیاں اڑا کر اپنے من پسند آرڈیننسز اور قوانین بنا رہے ہیں۔کیوں یہ غیر پارلیمانی طریقے سے قوانین کا نفاذ چاہتا ہے اورکیوں حکمران میڈیا پر پابندیاں لگوا کر اپنا جھوٹا بیانیہ مہنگائی اور بیروزگاری سے پستی عوام پر ٹھوسنا چاہتے ہیں۔
طاقتور حلقے آخرکیوں جمہوری نظام کو بے توقیرکرکے اپنے من پسند فیصلے اسی دور میں کروانا چاہتے ہیں۔ اس کو سمجھنا نہایت آسان ہے کہ پی پی پی کی حمایت یا سہولت کاری کے باوجود آیندہ انتخابات میں گود لینے والی پی پی کی اکثریت بھی شاید نہ لے پائیں گے، لہٰذا ''ہائیبرڈ نظام '' کے خالق اپنی فرمانبردار سیاسی جماعتوں پی پی، پی ٹی آئی اور ق لیگ کا ایک ایسا اتحاد بنانے کے درپہ ہیں جو مستقبل میں شکستہ ہونے والے نظام کی بیساکھی بن سکے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسمبلی میں تمامتر من مانی کے باوجود اور پی پی و ق لیگ کی سہولت کاری کے بعد بھی دو تہائی اکثریت ن لیگ کے بغیر نا ممکن ہے ، لہٰذا جوائنٹ سیشن کے غیر پارلیمانی انداز اپنا کر جمہوریت کو داغدارکرنے یا ارکان کو قابو میں رکھنے کا طریقہ دراصل جمہوری قدروں کو کمزور کرنے کی ایسی گھنائونی کوشش ہے جس کے لیے صحافی ، وکلا ، انسانی حقوق کی تنظیمیں ، طلبہ ، ٹریڈ یونین، اور سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ تحریک جوڑنی ہوگی تاکہ جمہوریت کو تلپٹ کرنے والے ''ہائیبرڈ نظام'' کا مکمل صفایا کیا جاسکے اور آنے والی نسلوں کو عوام دشمن اور جمہوریت دشمنوں سے بچایا جا سکے، اس مرحلے پر یہ جمہوری قدروں کی وہ فیصلہ کن جنگ ہونے جا رہی ہے جو اس ملک میں نئے سویرے کی نوید بھی بن سکتی ہے۔
روشنی کے چراغ جلانے تک
اندھیروں کا سر کچلتے رہو
یہی نہیں بلکہ اس ''خواہش'' پر غیر جمہوری اقدامات کو جمہوریت کا نام دے کر عوام کے حقوق اور جمہوری آزادی کے کفن دفن کا بھی انتظام کیا جائے۔
آجکل ہمارے دیس میں مذکورہ طریقہ اختیار کرکے جھوٹ اور ڈھٹائی سے ٹی وی اسکرین پر تسلسل کے ساتھ ہائیبرڈ نظام کے حمایتی وزراء آتے رہتے ہیں اور جھوٹ بولنے اور دھمکیاں دینے کی یا تو وضاحتیں دیتے ہیں یا پھر بڑی ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرنے کی کوششوں میں جتے رہتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ جھوٹ پرکیوں پارلیمانی نظام جمہوریت کو دائو پر لگایا جا رہا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ ''ہائبرڈ نظام '' کے فوائد اور جمہوری قدروں کو مضبوط کرنے کے خواص کو واضح طور سے عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟ عوام کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ''ہائیبرڈ نظام'' عوام کی جمہوری آزادی اور ملکی ترقی میں کتنا کار آمد یا فائدہ مند ہے یا ملکی دولت کا کس قدر حصہ اس دیس کی معیشت کو درست سمت دینے میں قربان کریں گے یا کہ اس ''آرڈیننسز'' کی وزارت قانون کی فیکٹری پارلیمان کو جوابدہ ہے یا سلیکٹرزکو؟
ملک کے سیاسی اور ادارتی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو حکمران اور ان کے وزرا ملکی اداروں حتی کہ عدالتوں کو دھونس دھمکی اور طاقت کے نشے میں بے توقیر کرتے ہوئے آئین اور پارلیمانی طرز حکومت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نہایت ڈھٹائی اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اظہار رائے پر پابندیاں عائد کرکے نظام کو بزور طاقت نافذ کروانے کے در پہ جتے رہتے ہیں۔
ملک میں اظہار رائے کو پابند کرنے کے لیے پی ایم ڈی اے کی تشکیل کا شوشہ چھوڑا گیا ، جو ملک میں صحافیوں اور انسانی حقوق و سماجی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے پرزور احتجاج پر صرف موخرکیا گیا ہے ، ختم نہیں کیا گیا۔
حکومت نے اپنی ناکام کارکردگی اور مہنگائی و بیروزگاری سے تنگ عوام کے غصے اور آیندہ الیکشن میں دوبارہ سلیکشن نہ ہونے کے خطرے کے پیش نظر آیندہ الیکشن ای وی ایم کے ذریعے کرنے کا آرڈیننس نافذ کیا جو دونوں ایوانوں سے مسترد کردیا گیا جب کہ الیکشن کمیشن کے 37 اعتراضات پر الیکشن کمشنر اور ادارے کو جلانے اور پیسے کھانے کے الزامات سے نوازا گیا ، جس پر غیر جمہوری انداز اپناتے ہوئے اس ووٹنگ مشین ذریعے الیکشن کروانے کو غیر پارلیمانی انداز سے جوائنٹ سیشن میں پاس کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، جو قوی امید ہے کہ عوام اور سیاسی جماعتیں عدالت میں چیلنج کریں گی تاکہ غیر جمہوری فیصلوں کو عدالت کے ذریعے ردکروایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر جلدی کس بات کی ہے کہ وہ مسلسل آئین و قانون کی دھجیاں اڑا کر اپنے من پسند آرڈیننسز اور قوانین بنا رہے ہیں۔کیوں یہ غیر پارلیمانی طریقے سے قوانین کا نفاذ چاہتا ہے اورکیوں حکمران میڈیا پر پابندیاں لگوا کر اپنا جھوٹا بیانیہ مہنگائی اور بیروزگاری سے پستی عوام پر ٹھوسنا چاہتے ہیں۔
طاقتور حلقے آخرکیوں جمہوری نظام کو بے توقیرکرکے اپنے من پسند فیصلے اسی دور میں کروانا چاہتے ہیں۔ اس کو سمجھنا نہایت آسان ہے کہ پی پی پی کی حمایت یا سہولت کاری کے باوجود آیندہ انتخابات میں گود لینے والی پی پی کی اکثریت بھی شاید نہ لے پائیں گے، لہٰذا ''ہائیبرڈ نظام '' کے خالق اپنی فرمانبردار سیاسی جماعتوں پی پی، پی ٹی آئی اور ق لیگ کا ایک ایسا اتحاد بنانے کے درپہ ہیں جو مستقبل میں شکستہ ہونے والے نظام کی بیساکھی بن سکے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسمبلی میں تمامتر من مانی کے باوجود اور پی پی و ق لیگ کی سہولت کاری کے بعد بھی دو تہائی اکثریت ن لیگ کے بغیر نا ممکن ہے ، لہٰذا جوائنٹ سیشن کے غیر پارلیمانی انداز اپنا کر جمہوریت کو داغدارکرنے یا ارکان کو قابو میں رکھنے کا طریقہ دراصل جمہوری قدروں کو کمزور کرنے کی ایسی گھنائونی کوشش ہے جس کے لیے صحافی ، وکلا ، انسانی حقوق کی تنظیمیں ، طلبہ ، ٹریڈ یونین، اور سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ تحریک جوڑنی ہوگی تاکہ جمہوریت کو تلپٹ کرنے والے ''ہائیبرڈ نظام'' کا مکمل صفایا کیا جاسکے اور آنے والی نسلوں کو عوام دشمن اور جمہوریت دشمنوں سے بچایا جا سکے، اس مرحلے پر یہ جمہوری قدروں کی وہ فیصلہ کن جنگ ہونے جا رہی ہے جو اس ملک میں نئے سویرے کی نوید بھی بن سکتی ہے۔
روشنی کے چراغ جلانے تک
اندھیروں کا سر کچلتے رہو