آخر کب تک
جن کا وہاں اس وقت اقتدار ہے اس کے اندر سے جو لاوا نکل رہا ہے،ہمارے لیے بہت ہی برا ہونے جارہاہے۔
حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ کچھ وقت پہلے جو تبدیلی مہینوں میں آیا کرتی تھی، اب ہفتوں میں آرہی ہے۔
پاکستان کی اندرونی سیاست کے اندر آنے والی تبدیلیوں میں کچھ تو افغانستان کی عنایت ہے، کچھ بڑھتے ہوئے چین اور امریکا کے اندر تضادات تو پھر جو ہم نے اس ملک خداداد میں دکھانے کے لیے جمہوریت کی شکل بنائی ہوئی ہے، مہنگائی سے کچھ ایسی بربادی آئی ہے کہ ایک وقت میں رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے، جو ایک عام آدمی کو سمجھ اور نظر آرہا ہے ،وہ جو یہ مسند پے بیٹھے ہیں انھیں یہ کیوں نہیں نظر آرہا۔
بریگیڈیئر سالک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ'' مشرقی پاکستان چلا گیا پھر بھی جنرل یحی خان اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے'' اور اسی بات کی تصدیق اپنی سوانح حیات میں شیر باز مزاری بھی کرتے ہیں کہ ''تب جاکے چھوڑا جب فوج کے اندر شدید بحث چھڑ گئی کہ اب تک کیوں یہ یہاں پے بیٹھے ہوئے ہیں۔''
شاید اقتدار چیز ہی ایسی ہے چھوڑی نہیں جاتی تا وقت کہ کوئی انہونی نہ ہو۔ الیکشن مشین لے آئیں، چاہے الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھڑا کردیں ، جو کرنا ہے کریں، خان صاحب کی حکومت اگلے پانچ سال سے بالکل گئی ہوئی ہے اور یہ پانچ سال بھی پورے کرنا، ان کے لیے بھی بہت مشکل ہے۔
ڈالر 170 روپے کے ہندسے کو چھوگیا، پیٹرول پانچ روپے مزید مہنگا اور آٹا بارہ روپے فی کلو بڑھ گیا، پھر بھی آپ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ مہنگائی کے ماضی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، صحافت پر قدغن کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، وکیل سڑکوں پر ہیں اور آپ اس میں خوش ہیں کہ پی ڈی ایم کچھ نہیں کر سکتی ۔ پی ڈی ایم کچھ کرے نہ کرے لیکن پھر بھی آپ کلین بولڈ ہیں۔
اب وقت یہاں تک آن پہنچا ہے کہ آئیے، بیٹھے اور وہ بھی سر جوڑ کے کوئی راستہ نکلے ۔ میں نے یہ بات شاید پچھلے ہفتے کے کالم میں کہی تھی لیکن مجھے نہیں لگتا یہ بات ایک ہی ہفتے کے اندر مجھے دہرانا پڑے گی اور اگلے ہفتے تک مجھے کسی کے پائوں نہ پکڑنے پڑ جائیں گے ، حکومت آپ سے چلنے والی نہیں ہے اور جن پتوں پر آپ کو ناز تھا وہ ابھی سے ہوائیں دینے لگے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ چین کے سفیر نے مجھے کہا کہ ''سی پیک پر کام بند ہے، ادھر بائیڈن صاحب چوبیس تاریخ کو مودی سے مل رہے ہیں اور ہمیں فون کرنے کے لیے تیار نہیں، سعودی عرب آج کل ہندوستان کے قریب ہے۔ ہمارا ماجرا یہ ہے کہ ہم تیرے بنا نہیں جی سکتے اور تیرے بنا بھی نہیں جی سکتے۔ ایک طرف چائنہ ہے اور دوسری طرف امریکا اور تیسری طرف دبئی اور سعودی عرب ۔ اور مان لیجیے ہماری خارجہ پالیسی بالکل بیٹھ گئی ہے۔
اور یہ ہے کہ ہم ایک طرف ہوجائیں اور باقی ماندہ جو دنیا ہے اس کو خدا حافظ کہہ دیں ،ایسا کرنے سے جو ڈالر اونچی اڑان اڑے گا وہ تو الگ، اتنی تباہی کورونا بھی نہیں کرسکا ہوگا جتنی اب کے بار مہنگائی،قرضوں کا بوجھ، بیلنس آف پے منٹ کا بحران، افراط زر، وغیرہ وغیرہ کرنے جارہی ہیں ۔ یہ ہے چالیس سال سے چلتے ہوئے افغانستان کے کرائسز کا انت ۔ دنیا نے ہمیں طالبان کے ساتھ ایک کردیا ہے۔
اب کے بار امریکا ہمیں دھمکی دے ہی نہیں سکتا مگر طاقت کا سرچشمہ کوئی مانے نہ مانے ہمارے حساب سے اب بھی امریکا ہے کیوں کہ ہمارے دو بڑے اتحادی سعودی عرب اور دبئی اسی کے ساتھ ہیں ۔ طالبان کے قریب جوچار ممالک ہیں پاکستان، ایران، چین اور روس۔ ان میں سے ہماری بنتی صرف چین کے ساتھ ہے ۔ روس کے ساتھ بھی ہوگی مگر امریکا ، برطانیہ ،یورپی یونین ، سعودی عرب، دبئی ہماری جڑوں میں بیٹھے ہیں اور خود چین ، روس، ایران اور سینٹرل ایشیا کی ریاستیں منفی اثرات پیدا ہورہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آرہی ہے۔
ادھر افغانستان میں طالبان حکومت ہے کے اندر بھی بہت سے تضادات پیدا ہورہے ہیں جو کچھ بھی ہے یہ بات طے ہے کہ طالبان افغانستان کو جمہوری طریقے سے چلا کر دنیا اورلوگوں کے دلوں کے اندر اپنی جگہ بنا نہیں سکتے ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ صدر غنی اور حامد کرزئی کے ادوار میں، ہندوستان نے افغانستان کی سر زمین سے ہمارے خلاف جوکیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے اور یہ بھی سو فیصد درست کہ طالبان کے افغانستان سے کم از کم ہمارے خلاف کچھ نہیںکیا جاسکتا ۔
کاش کہ یہ بات اتنی سلیس ہوتی ،معاملہ ہمارے لیے طالبان نہیں ہیں، یہ چند لوگوں کا معاملہ ہوسکتا ہے جو جمہوریت اور پاکستان کے آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی ، الیکشن کمیشن کی آزادی میڈیا کی آزادی نہیں چاہتے ، جو پاکستان کو بحیثیت وفاق چلانا نہیں چاہتے ۔ان کے لیے بہت سادہ تشریح یہ ہے۔ فیض کی ان سطروں کی طرح۔
''جلوہ گاہ وصال کی شمع
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں ''
یہ وطن برصغیر کا حصہ ہے، یہ پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، خدانخواستہ کہیں سے بھی ڈور کٹ جائے توانجام اچھا نہیں ہو گا ۔ ایک طرف مہنگائی ہے ،دوسری طرف طالبان ہیں، تیسری طرف امریکا اور ہندوستان ہیں ،چوتھی طرف سعودی عرب اور دبئی کا چپکے سے یہ سب کچھ دیکھنا ہے اور پانچویں طرف چین ہے اور ان کا سی پیک ہے اور اس بیچ بھنور میں ہم ہیں ، ہم جیسا ملک دنیا میں شاید ہی کوئی ہو ۔ درد کی اس لو پر مجھے تو بیگم اختر کی گائی ہوئی غزل کی وہ سطریں یاد آرہی ہیں۔
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
اس افغانستان کی جو موجودہ صورتحال ہے اور جن کا وہاں اس وقت اقتدار ہے اس کے اندر سے جو لاوا نکل رہا ہے،ہمارے لیے بہت ہی برا ہونے جارہاہے۔
پاکستان کی اندرونی سیاست کے اندر آنے والی تبدیلیوں میں کچھ تو افغانستان کی عنایت ہے، کچھ بڑھتے ہوئے چین اور امریکا کے اندر تضادات تو پھر جو ہم نے اس ملک خداداد میں دکھانے کے لیے جمہوریت کی شکل بنائی ہوئی ہے، مہنگائی سے کچھ ایسی بربادی آئی ہے کہ ایک وقت میں رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے، جو ایک عام آدمی کو سمجھ اور نظر آرہا ہے ،وہ جو یہ مسند پے بیٹھے ہیں انھیں یہ کیوں نہیں نظر آرہا۔
بریگیڈیئر سالک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ'' مشرقی پاکستان چلا گیا پھر بھی جنرل یحی خان اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے'' اور اسی بات کی تصدیق اپنی سوانح حیات میں شیر باز مزاری بھی کرتے ہیں کہ ''تب جاکے چھوڑا جب فوج کے اندر شدید بحث چھڑ گئی کہ اب تک کیوں یہ یہاں پے بیٹھے ہوئے ہیں۔''
شاید اقتدار چیز ہی ایسی ہے چھوڑی نہیں جاتی تا وقت کہ کوئی انہونی نہ ہو۔ الیکشن مشین لے آئیں، چاہے الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھڑا کردیں ، جو کرنا ہے کریں، خان صاحب کی حکومت اگلے پانچ سال سے بالکل گئی ہوئی ہے اور یہ پانچ سال بھی پورے کرنا، ان کے لیے بھی بہت مشکل ہے۔
ڈالر 170 روپے کے ہندسے کو چھوگیا، پیٹرول پانچ روپے مزید مہنگا اور آٹا بارہ روپے فی کلو بڑھ گیا، پھر بھی آپ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ مہنگائی کے ماضی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، صحافت پر قدغن کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، وکیل سڑکوں پر ہیں اور آپ اس میں خوش ہیں کہ پی ڈی ایم کچھ نہیں کر سکتی ۔ پی ڈی ایم کچھ کرے نہ کرے لیکن پھر بھی آپ کلین بولڈ ہیں۔
اب وقت یہاں تک آن پہنچا ہے کہ آئیے، بیٹھے اور وہ بھی سر جوڑ کے کوئی راستہ نکلے ۔ میں نے یہ بات شاید پچھلے ہفتے کے کالم میں کہی تھی لیکن مجھے نہیں لگتا یہ بات ایک ہی ہفتے کے اندر مجھے دہرانا پڑے گی اور اگلے ہفتے تک مجھے کسی کے پائوں نہ پکڑنے پڑ جائیں گے ، حکومت آپ سے چلنے والی نہیں ہے اور جن پتوں پر آپ کو ناز تھا وہ ابھی سے ہوائیں دینے لگے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ چین کے سفیر نے مجھے کہا کہ ''سی پیک پر کام بند ہے، ادھر بائیڈن صاحب چوبیس تاریخ کو مودی سے مل رہے ہیں اور ہمیں فون کرنے کے لیے تیار نہیں، سعودی عرب آج کل ہندوستان کے قریب ہے۔ ہمارا ماجرا یہ ہے کہ ہم تیرے بنا نہیں جی سکتے اور تیرے بنا بھی نہیں جی سکتے۔ ایک طرف چائنہ ہے اور دوسری طرف امریکا اور تیسری طرف دبئی اور سعودی عرب ۔ اور مان لیجیے ہماری خارجہ پالیسی بالکل بیٹھ گئی ہے۔
اور یہ ہے کہ ہم ایک طرف ہوجائیں اور باقی ماندہ جو دنیا ہے اس کو خدا حافظ کہہ دیں ،ایسا کرنے سے جو ڈالر اونچی اڑان اڑے گا وہ تو الگ، اتنی تباہی کورونا بھی نہیں کرسکا ہوگا جتنی اب کے بار مہنگائی،قرضوں کا بوجھ، بیلنس آف پے منٹ کا بحران، افراط زر، وغیرہ وغیرہ کرنے جارہی ہیں ۔ یہ ہے چالیس سال سے چلتے ہوئے افغانستان کے کرائسز کا انت ۔ دنیا نے ہمیں طالبان کے ساتھ ایک کردیا ہے۔
اب کے بار امریکا ہمیں دھمکی دے ہی نہیں سکتا مگر طاقت کا سرچشمہ کوئی مانے نہ مانے ہمارے حساب سے اب بھی امریکا ہے کیوں کہ ہمارے دو بڑے اتحادی سعودی عرب اور دبئی اسی کے ساتھ ہیں ۔ طالبان کے قریب جوچار ممالک ہیں پاکستان، ایران، چین اور روس۔ ان میں سے ہماری بنتی صرف چین کے ساتھ ہے ۔ روس کے ساتھ بھی ہوگی مگر امریکا ، برطانیہ ،یورپی یونین ، سعودی عرب، دبئی ہماری جڑوں میں بیٹھے ہیں اور خود چین ، روس، ایران اور سینٹرل ایشیا کی ریاستیں منفی اثرات پیدا ہورہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آرہی ہے۔
ادھر افغانستان میں طالبان حکومت ہے کے اندر بھی بہت سے تضادات پیدا ہورہے ہیں جو کچھ بھی ہے یہ بات طے ہے کہ طالبان افغانستان کو جمہوری طریقے سے چلا کر دنیا اورلوگوں کے دلوں کے اندر اپنی جگہ بنا نہیں سکتے ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ صدر غنی اور حامد کرزئی کے ادوار میں، ہندوستان نے افغانستان کی سر زمین سے ہمارے خلاف جوکیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے اور یہ بھی سو فیصد درست کہ طالبان کے افغانستان سے کم از کم ہمارے خلاف کچھ نہیںکیا جاسکتا ۔
کاش کہ یہ بات اتنی سلیس ہوتی ،معاملہ ہمارے لیے طالبان نہیں ہیں، یہ چند لوگوں کا معاملہ ہوسکتا ہے جو جمہوریت اور پاکستان کے آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی ، الیکشن کمیشن کی آزادی میڈیا کی آزادی نہیں چاہتے ، جو پاکستان کو بحیثیت وفاق چلانا نہیں چاہتے ۔ان کے لیے بہت سادہ تشریح یہ ہے۔ فیض کی ان سطروں کی طرح۔
''جلوہ گاہ وصال کی شمع
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں ''
یہ وطن برصغیر کا حصہ ہے، یہ پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، خدانخواستہ کہیں سے بھی ڈور کٹ جائے توانجام اچھا نہیں ہو گا ۔ ایک طرف مہنگائی ہے ،دوسری طرف طالبان ہیں، تیسری طرف امریکا اور ہندوستان ہیں ،چوتھی طرف سعودی عرب اور دبئی کا چپکے سے یہ سب کچھ دیکھنا ہے اور پانچویں طرف چین ہے اور ان کا سی پیک ہے اور اس بیچ بھنور میں ہم ہیں ، ہم جیسا ملک دنیا میں شاید ہی کوئی ہو ۔ درد کی اس لو پر مجھے تو بیگم اختر کی گائی ہوئی غزل کی وہ سطریں یاد آرہی ہیں۔
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
اس افغانستان کی جو موجودہ صورتحال ہے اور جن کا وہاں اس وقت اقتدار ہے اس کے اندر سے جو لاوا نکل رہا ہے،ہمارے لیے بہت ہی برا ہونے جارہاہے۔