22 لوگ آوازوں کا خزانہ 2
خزانے گننے بیٹھیے تو وہ کب اتنی جلدی گننے میں آتے ہیں۔
ہمارے یہاں بہت دنوں سے خزانے کو دھن دولت کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہ خزانے بھی ہوتے ہیں جو اشرفیوں اور جواہرات سے کہیں زیادہ بیش بہا ہوتے ہیں۔
ہمارے سجاد پرویز نے ''22 لوگ'' نامی اس کتاب میں وہ جواہرات ریزے اکٹھے کیے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ انھیں اپنے وائس چانسلر اور دوسرے ساتھیوںکی مہربانیوں سے ان لوگوں کی من موہنی باتیںسنانے کو ملیں کہ وہ کہیں اور سناکرے کوئی۔
آوازوں کے اس مجموعے میں زہرا نگاہ ، فہمیدہ ریاض ، نصرت فتح علی خان ، انتظار حسین ، شکیل عادل زادہ ، رضا علی عابدی ، انور مقصود ، اے حمید ، پٹھانے خان، ضیاء محی الدین، عبداللہ حسین، سلیمہ ہاشمی، مسرت کلانچوی اور وجاہت مسعود سب ہی اپنی اپنی چھب دکھا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جنھیں تقسیم نے زیر زبرکردیا۔ کوئی تیرگھاٹ سے آیا اور کوئی میرگھاٹ سے، سب ہی کی خواہش کہ اگر نو عمر ہیں تو کچھ کر دکھائیں اور اگر نوجوان ہیں تو اس ملک کو سجائیں اور سنواریں۔ اس کی چھب میں کیسے کیسے اضافے کریں۔
انور مقصود نے کس محبت سے یاد کیا ہے خالدہ ریاست کو۔ وہ لکھتے ہیں کہ '' خالدہ ریاست کو کینسر ہوگیا تھا۔ وہ میرے پاس آئیں۔ جی میں لاہور سے آئی ہوں اور میں نے تمہارا کوئی اسکرپٹ نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ کیا کرو؟ بولی مجھے کینسر ہے اور ڈاکٹرز نے مجھے بتایا ہے کہ میں جنوری تک زندہ رہوں گی۔ میں نے کہا تم اکتوبر میں مجھے کہہ رہی ہو کہ جنوری تک نہیں رہوں گی اور میں 90 منٹس کا اسکرپٹ لکھوں۔ وہ مجھے یار کہتی تھیں۔ بولی یار لکھ دو نا۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر کراچی رکو۔ وہ اپنی بہن عائشہ کے ہاں کراچی میں رہیں۔
میں نے ''ہاف پلیٹ'' لکھا اور جب یہ ڈرامہ نشر ہوا تو لکھنو یونیورسٹی سے فون آیا اس ڈرامے کے ڈائریکٹر محسن علی کے پاس کہ ہمیں اس ڈرامے کا اسکرپٹ چاہیے۔ ہم یونیورسٹی کے طلبہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ہے ڈرامہ۔ پھر میں نے اسکرپٹ ذرا سا بدلا اور ان کو بھجوا دیا۔ مگر خالدہ اس ڈرامے میں اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کرگئی تھیں۔ وہ اداکارہ بہت اچھی تھیں اور معین نے بھی ان کے ہمراہ اس ڈرامے میں غضب کی اداکاری کی۔ ان دونوں کے علاوہ اس ڈرامے میں ارشد محمود ، لطیف کپاڈیہ ، بدر خلیل، جمشید انصاری۔ ان سب نے بہت اچھا پرفارم کیا۔
اسی طرح پٹھانے خان سے انھوں نے کیسی باتیں کیں کہ آنکھیںنم ہوجاتی ہیں۔ پٹھانے خان اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں:
'' یہ تو مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ میں کب سے گا رہا ہوں۔ چھوٹی عمر میں جب ہم لوگ اسکول میں جاتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل کے زمانے کا اسکول جہاں ہندو اور مسلمان بچے سب مل کر پڑھتے تھے۔ اسی دور میں میری طبیعت گائیکی کی طرف مائل ہونا شروع ہوئی۔ مجھے بچپن ہی سے یتیمی کا زخم لگا اور غربت نے میری زندگی میں قدم رکھا۔ یہ وہ کیفیات تھیں جن کے باعث میری آواز میں درد کی کیفیات نمایاں ہیں۔
میں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سرائیکی وسیب میں رہنے کی وجہ سے خواجہ غلام فرید سے مجھے خصوصی عقیدت ہے۔ جس وقت میں نے گانے کی ابتدا کی تو خواجہ غلام فرید کا کلام گانا شروع کیا اور دھیرے دھیرے صوفیانہ کلام سے عشق ہونے لگا اور یہ عشق اتنا بڑھا کہ میں ان کے کلام کے حصار میں بندھ گیا اور آج جو کچھ بھی ہوں ان کے کلام کی ہی بدولت ہوں۔ جن میں ایمان، سچائی اور انسانیت کا درس ہے۔ حصول تعلیم کے دوران ہی میں اس عشق میں گرفتار ہوچکا تھا اور پھر جیسے جیسے زندگی گزرتی گئی اس عشق کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔
رضا علی عابدی اردو دنیا کا ایک ایسا نام ہیں جو دیس بہ دیس مشہور ہیں۔ انھوں نے سجاد پرویزکو جو انٹرویو دیے، مجھے خوشی ہے کہ عابدی صاحب نے اس میں ایک الجھن سلجھا دی۔ وہ پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہیں:
ہم لوگ اتر پردیش (یوپی) کے شہر روڑ کی میں رہتے تھے۔ چودہ اگست کی رات آئی ، وہ بہت زیادہ یاد ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ہمارے گھر میں بہت ہی ولولہ انگیز لمحات تھے کہ ریڈیو لاہور جو ہے آل انڈیا ریڈیو کا، وہ ر ات بارہ بجے سے پاکستان ریڈیو ہوجائے گا۔ اسے سننا ضروری ہے۔ جاگنا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اس رات کیوں کہ کہنے کو پاکستان 14 اگست کو بنا اور ہندوستان 15 اگست کو آزاد ہوا۔ لیکن جشن دونوںنے ایک ہی وقت میں منایا۔ وہاں ہندوستان والے 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات جشن منا رہے تھے اور اہل پاکستان بھی 14 اور 15 کی درمیانی رات کو ہی جشن منا رہے تھے۔
درحقیقت رات ٹھیک 12 بجے سے پہلے پاکستان قائم کردیا گیا جوکہ انگریز ہی کرسکتے تھے۔ اگر وہ ہندوستان قائم کردیتے تو پھر پاکستان ہندوستان کو قائم کرتا۔ یعنی بھارت قائم کرتا تو بارہ بجے سے پہلے پاکستان کو آزادی کا پروانہ دیا گیا اور اس کے بعد کسی بھی لمحے پنڈتوں اور جوتشیوں نے کہا تھا کہ پندرہ اگست کو آزادی لینا چاہیے تو اسی مناسبت سے بارہ بجے کے بعد کسی وقت ان کو بھی آزادی کا پروانہ دیا گیا۔
انھوںنے جگن ناتھ آزاد کے لکھے ہوئے نغمے کا اور ان کی پاکستان سے محبت کا ذکر بہت خاص انداز میں کیا ہے۔
سلیمہ ہاشمی کا پہلا تعارف یہ ہے کہ وہ فیض صاحب کی بیٹی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تیس سال تک منسلک رہیں۔ ان کی دوسری پہچان پی ٹی وی پر مزاحیہ خاکوں کا پروگرام ''اکڑ بکڑ'' شروع ہوا۔ جس میں ان کے فنکار شوہر شعیب ہاشمی شامل تھے لیکن اس وقت کے آمر مطلق نے اسے بند کردیا۔ ان سے جب ان کے والدین کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا۔ ''یادیں پرانی تو ہیں ، لیکن آج جب دائیں بائیں ایک نظر دوڑاتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ آج کی بات ہی ہے۔ کتنے لوگ اس وقت اپنی آزادی سے محروم ہیں؟ پاکستان میں کتنے لوگ اس وقت اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں؟ تو میں سوچتی ہوں کہ ان کی بھی بیٹیاں ہوں گی، ان کی بھی بیویاں ہوں گی، ان کی بھی مائیں ہوں گے۔
ہماری دادی پر کیا گزری؟ ہماری والدہ نے کس قدر بہادری سے گھرکا محاذ بھی سنبھالا اور انھوں نے ہماری روٹی پانی کا بھی انتظام کیا۔ نوکری کی اور پھر جب ان کے شوہر حیدرآباد جیل میں تھے، ان کے پاس بھی جاتی تھیں اور ان کی ہمت بڑھاتی تھیں۔ کئی سال بعد ان کے جب خطوط شایع ہوئے تو میں نے دوبارہ سے دیکھا اور فیض کو تو سب جانتے ہیں کتنے لوگوںکو معلوم ہے کہ ایلس کا کتنا بڑا ہاتھ تھا ان کے کام میں، فیض صاحب کو اس قسم کی آسائش اور آرام پہنچانا جس کی وجہ سے ان کی عمر قدرے لمبی ہوگئی۔ آپ کو پتہ ہے شاعر لوگ جو ہیں، وہ لمبی عمر نہیں پاتے اس دنیا میں، لیکن میری والدہ واقعی میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ شیرنی تھیں۔
شکیل عادل زادہ ہمارے ان دوستوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنا تحریری سفر عالمی ڈائجسٹ سے شروع کیا اور پھر ''سب رنگ'' میں اپنے عروج پر پہنچے۔ ان کی زندگی ایک دلچسپ اور کچھ پراسرار سی کہانی ہے۔ اس میں ''امر بیل'' کا قصہ بھی ہے۔ اور ''بازی گر'' کا بھی۔ سجاد پرویز سے ہونے والی گفتگو میں شوکت صدیقی کے ناول ''جانگلوس'' کا بھی تذکرہ ہوا۔
یہ طے ہوگیا تھا کہ چونکہ شوکت صدیقی صاحب کو ہم پیسے دیتے تھے تو وہ کہانی ''سب رنگ'' کی ملکیت تھی لیکن جب ''سب رنگ'' کی اشاعت میں عدم تواتر ہوا تو شوکت صاحب بہت پریشان ہوئے کہ یار یہ کتاب تو کبھی نہیں چھپ سکے گی تو ان کے ایک دوست تھے نثار صاحب ان کا خود ایک اشاعتی ادارہ تھا۔ وہ بھی اس کہانی کو کتابی صورت میں شایع کرنے کے لیے اصرار کررہے تھے۔ پھر پی ٹی وی کے تاجدار عادل نے ان سے ٹی وی کے لیے بات کی تو شوکت صاحب تیار ہوگئے۔
ٹی وی کے لیے ہم نے ان سے اتناکہا کہ ٹی وی پر چلے تو ٹھیک ہے لیکن اس میں بشکریہ''سب رنگ'' ضرور ہونا چاہیے۔ اس پر ٹی وی والے آمادہ نہیں ہوئے۔ ہم نے ٹی وی پر مقدمہ کردیا۔ اس وقت بے نظیر بھٹو صاحب ملک کی وزیر اعظم تھیں اور یہ طے ہوگیا تھا کہ اگر یہ ''جانگلوس'' مزید چلتا رہا تو ملک کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے مظالم اور عزائم بے نقاب ہوجائیں گے۔ لہٰذا ٹی وی نے 17 اگست کے بعد ''جانگلوس'' کو اپنی طرف سے اچانک بندکردیا۔ اور لوگ یہ سمجھے کہ ''سب رنگ'' مقدمہ جیت گیا ہے۔
ہم نے کہا ٹھیک ہے لیکن جس زمانے میں مقدمے بازی ہورہی تھی تو اس زمانے میں انٹرویو بہت چھپ رہے تھے۔ میرے ، شوکت صاحب اور ٹی وی والوں کے جب کہ اس چکر میں ''سب رنگ'' کی بھی خوب پبلسٹی ہورہی تھی۔ اچھا پھر''جانگلوس'' کو میںنے بکوا دیا۔ شوکت صاحب کا معاہدہ کروایا میں نے بڑے اچھے پیسوں میں اور آخر میں یہ ہوا کہ شوکت صاحب شدید بیمار ہوئے اور ٹی وی چینل ان کے پیسے نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سے بار بار کہتے کہ یار میرا ایک انجکشن 300 روپے کا آتا ہے وہ مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔ بہرحال میں نے بڑی کوشش کی اور ان کو تمام پیسے مل گئے۔
بھائی شکیل نے اس ملاقات میں مرحومہ مینا کماری اور گلزار دہلوی کا بھی خوب ذکر کیا ہے۔ خزانے گننے بیٹھیے تو وہ کب اتنی جلدی گننے میں آتے ہیں۔ ضیا محی الدین، فہمیدہ ریاض، اور وجاہت مسعود کے بغیر ان آوازوں کی اشرفیوں کو کیسے گنا جائے۔ (جاری ہے)
ہمارے سجاد پرویز نے ''22 لوگ'' نامی اس کتاب میں وہ جواہرات ریزے اکٹھے کیے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ انھیں اپنے وائس چانسلر اور دوسرے ساتھیوںکی مہربانیوں سے ان لوگوں کی من موہنی باتیںسنانے کو ملیں کہ وہ کہیں اور سناکرے کوئی۔
آوازوں کے اس مجموعے میں زہرا نگاہ ، فہمیدہ ریاض ، نصرت فتح علی خان ، انتظار حسین ، شکیل عادل زادہ ، رضا علی عابدی ، انور مقصود ، اے حمید ، پٹھانے خان، ضیاء محی الدین، عبداللہ حسین، سلیمہ ہاشمی، مسرت کلانچوی اور وجاہت مسعود سب ہی اپنی اپنی چھب دکھا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جنھیں تقسیم نے زیر زبرکردیا۔ کوئی تیرگھاٹ سے آیا اور کوئی میرگھاٹ سے، سب ہی کی خواہش کہ اگر نو عمر ہیں تو کچھ کر دکھائیں اور اگر نوجوان ہیں تو اس ملک کو سجائیں اور سنواریں۔ اس کی چھب میں کیسے کیسے اضافے کریں۔
انور مقصود نے کس محبت سے یاد کیا ہے خالدہ ریاست کو۔ وہ لکھتے ہیں کہ '' خالدہ ریاست کو کینسر ہوگیا تھا۔ وہ میرے پاس آئیں۔ جی میں لاہور سے آئی ہوں اور میں نے تمہارا کوئی اسکرپٹ نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ کیا کرو؟ بولی مجھے کینسر ہے اور ڈاکٹرز نے مجھے بتایا ہے کہ میں جنوری تک زندہ رہوں گی۔ میں نے کہا تم اکتوبر میں مجھے کہہ رہی ہو کہ جنوری تک نہیں رہوں گی اور میں 90 منٹس کا اسکرپٹ لکھوں۔ وہ مجھے یار کہتی تھیں۔ بولی یار لکھ دو نا۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر کراچی رکو۔ وہ اپنی بہن عائشہ کے ہاں کراچی میں رہیں۔
میں نے ''ہاف پلیٹ'' لکھا اور جب یہ ڈرامہ نشر ہوا تو لکھنو یونیورسٹی سے فون آیا اس ڈرامے کے ڈائریکٹر محسن علی کے پاس کہ ہمیں اس ڈرامے کا اسکرپٹ چاہیے۔ ہم یونیورسٹی کے طلبہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ہے ڈرامہ۔ پھر میں نے اسکرپٹ ذرا سا بدلا اور ان کو بھجوا دیا۔ مگر خالدہ اس ڈرامے میں اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کرگئی تھیں۔ وہ اداکارہ بہت اچھی تھیں اور معین نے بھی ان کے ہمراہ اس ڈرامے میں غضب کی اداکاری کی۔ ان دونوں کے علاوہ اس ڈرامے میں ارشد محمود ، لطیف کپاڈیہ ، بدر خلیل، جمشید انصاری۔ ان سب نے بہت اچھا پرفارم کیا۔
اسی طرح پٹھانے خان سے انھوں نے کیسی باتیں کیں کہ آنکھیںنم ہوجاتی ہیں۔ پٹھانے خان اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں:
'' یہ تو مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ میں کب سے گا رہا ہوں۔ چھوٹی عمر میں جب ہم لوگ اسکول میں جاتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل کے زمانے کا اسکول جہاں ہندو اور مسلمان بچے سب مل کر پڑھتے تھے۔ اسی دور میں میری طبیعت گائیکی کی طرف مائل ہونا شروع ہوئی۔ مجھے بچپن ہی سے یتیمی کا زخم لگا اور غربت نے میری زندگی میں قدم رکھا۔ یہ وہ کیفیات تھیں جن کے باعث میری آواز میں درد کی کیفیات نمایاں ہیں۔
میں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سرائیکی وسیب میں رہنے کی وجہ سے خواجہ غلام فرید سے مجھے خصوصی عقیدت ہے۔ جس وقت میں نے گانے کی ابتدا کی تو خواجہ غلام فرید کا کلام گانا شروع کیا اور دھیرے دھیرے صوفیانہ کلام سے عشق ہونے لگا اور یہ عشق اتنا بڑھا کہ میں ان کے کلام کے حصار میں بندھ گیا اور آج جو کچھ بھی ہوں ان کے کلام کی ہی بدولت ہوں۔ جن میں ایمان، سچائی اور انسانیت کا درس ہے۔ حصول تعلیم کے دوران ہی میں اس عشق میں گرفتار ہوچکا تھا اور پھر جیسے جیسے زندگی گزرتی گئی اس عشق کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔
رضا علی عابدی اردو دنیا کا ایک ایسا نام ہیں جو دیس بہ دیس مشہور ہیں۔ انھوں نے سجاد پرویزکو جو انٹرویو دیے، مجھے خوشی ہے کہ عابدی صاحب نے اس میں ایک الجھن سلجھا دی۔ وہ پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہیں:
ہم لوگ اتر پردیش (یوپی) کے شہر روڑ کی میں رہتے تھے۔ چودہ اگست کی رات آئی ، وہ بہت زیادہ یاد ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ہمارے گھر میں بہت ہی ولولہ انگیز لمحات تھے کہ ریڈیو لاہور جو ہے آل انڈیا ریڈیو کا، وہ ر ات بارہ بجے سے پاکستان ریڈیو ہوجائے گا۔ اسے سننا ضروری ہے۔ جاگنا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اس رات کیوں کہ کہنے کو پاکستان 14 اگست کو بنا اور ہندوستان 15 اگست کو آزاد ہوا۔ لیکن جشن دونوںنے ایک ہی وقت میں منایا۔ وہاں ہندوستان والے 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات جشن منا رہے تھے اور اہل پاکستان بھی 14 اور 15 کی درمیانی رات کو ہی جشن منا رہے تھے۔
درحقیقت رات ٹھیک 12 بجے سے پہلے پاکستان قائم کردیا گیا جوکہ انگریز ہی کرسکتے تھے۔ اگر وہ ہندوستان قائم کردیتے تو پھر پاکستان ہندوستان کو قائم کرتا۔ یعنی بھارت قائم کرتا تو بارہ بجے سے پہلے پاکستان کو آزادی کا پروانہ دیا گیا اور اس کے بعد کسی بھی لمحے پنڈتوں اور جوتشیوں نے کہا تھا کہ پندرہ اگست کو آزادی لینا چاہیے تو اسی مناسبت سے بارہ بجے کے بعد کسی وقت ان کو بھی آزادی کا پروانہ دیا گیا۔
انھوںنے جگن ناتھ آزاد کے لکھے ہوئے نغمے کا اور ان کی پاکستان سے محبت کا ذکر بہت خاص انداز میں کیا ہے۔
سلیمہ ہاشمی کا پہلا تعارف یہ ہے کہ وہ فیض صاحب کی بیٹی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تیس سال تک منسلک رہیں۔ ان کی دوسری پہچان پی ٹی وی پر مزاحیہ خاکوں کا پروگرام ''اکڑ بکڑ'' شروع ہوا۔ جس میں ان کے فنکار شوہر شعیب ہاشمی شامل تھے لیکن اس وقت کے آمر مطلق نے اسے بند کردیا۔ ان سے جب ان کے والدین کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا۔ ''یادیں پرانی تو ہیں ، لیکن آج جب دائیں بائیں ایک نظر دوڑاتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ آج کی بات ہی ہے۔ کتنے لوگ اس وقت اپنی آزادی سے محروم ہیں؟ پاکستان میں کتنے لوگ اس وقت اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں؟ تو میں سوچتی ہوں کہ ان کی بھی بیٹیاں ہوں گی، ان کی بھی بیویاں ہوں گی، ان کی بھی مائیں ہوں گے۔
ہماری دادی پر کیا گزری؟ ہماری والدہ نے کس قدر بہادری سے گھرکا محاذ بھی سنبھالا اور انھوں نے ہماری روٹی پانی کا بھی انتظام کیا۔ نوکری کی اور پھر جب ان کے شوہر حیدرآباد جیل میں تھے، ان کے پاس بھی جاتی تھیں اور ان کی ہمت بڑھاتی تھیں۔ کئی سال بعد ان کے جب خطوط شایع ہوئے تو میں نے دوبارہ سے دیکھا اور فیض کو تو سب جانتے ہیں کتنے لوگوںکو معلوم ہے کہ ایلس کا کتنا بڑا ہاتھ تھا ان کے کام میں، فیض صاحب کو اس قسم کی آسائش اور آرام پہنچانا جس کی وجہ سے ان کی عمر قدرے لمبی ہوگئی۔ آپ کو پتہ ہے شاعر لوگ جو ہیں، وہ لمبی عمر نہیں پاتے اس دنیا میں، لیکن میری والدہ واقعی میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ شیرنی تھیں۔
شکیل عادل زادہ ہمارے ان دوستوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنا تحریری سفر عالمی ڈائجسٹ سے شروع کیا اور پھر ''سب رنگ'' میں اپنے عروج پر پہنچے۔ ان کی زندگی ایک دلچسپ اور کچھ پراسرار سی کہانی ہے۔ اس میں ''امر بیل'' کا قصہ بھی ہے۔ اور ''بازی گر'' کا بھی۔ سجاد پرویز سے ہونے والی گفتگو میں شوکت صدیقی کے ناول ''جانگلوس'' کا بھی تذکرہ ہوا۔
یہ طے ہوگیا تھا کہ چونکہ شوکت صدیقی صاحب کو ہم پیسے دیتے تھے تو وہ کہانی ''سب رنگ'' کی ملکیت تھی لیکن جب ''سب رنگ'' کی اشاعت میں عدم تواتر ہوا تو شوکت صاحب بہت پریشان ہوئے کہ یار یہ کتاب تو کبھی نہیں چھپ سکے گی تو ان کے ایک دوست تھے نثار صاحب ان کا خود ایک اشاعتی ادارہ تھا۔ وہ بھی اس کہانی کو کتابی صورت میں شایع کرنے کے لیے اصرار کررہے تھے۔ پھر پی ٹی وی کے تاجدار عادل نے ان سے ٹی وی کے لیے بات کی تو شوکت صاحب تیار ہوگئے۔
ٹی وی کے لیے ہم نے ان سے اتناکہا کہ ٹی وی پر چلے تو ٹھیک ہے لیکن اس میں بشکریہ''سب رنگ'' ضرور ہونا چاہیے۔ اس پر ٹی وی والے آمادہ نہیں ہوئے۔ ہم نے ٹی وی پر مقدمہ کردیا۔ اس وقت بے نظیر بھٹو صاحب ملک کی وزیر اعظم تھیں اور یہ طے ہوگیا تھا کہ اگر یہ ''جانگلوس'' مزید چلتا رہا تو ملک کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے مظالم اور عزائم بے نقاب ہوجائیں گے۔ لہٰذا ٹی وی نے 17 اگست کے بعد ''جانگلوس'' کو اپنی طرف سے اچانک بندکردیا۔ اور لوگ یہ سمجھے کہ ''سب رنگ'' مقدمہ جیت گیا ہے۔
ہم نے کہا ٹھیک ہے لیکن جس زمانے میں مقدمے بازی ہورہی تھی تو اس زمانے میں انٹرویو بہت چھپ رہے تھے۔ میرے ، شوکت صاحب اور ٹی وی والوں کے جب کہ اس چکر میں ''سب رنگ'' کی بھی خوب پبلسٹی ہورہی تھی۔ اچھا پھر''جانگلوس'' کو میںنے بکوا دیا۔ شوکت صاحب کا معاہدہ کروایا میں نے بڑے اچھے پیسوں میں اور آخر میں یہ ہوا کہ شوکت صاحب شدید بیمار ہوئے اور ٹی وی چینل ان کے پیسے نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سے بار بار کہتے کہ یار میرا ایک انجکشن 300 روپے کا آتا ہے وہ مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔ بہرحال میں نے بڑی کوشش کی اور ان کو تمام پیسے مل گئے۔
بھائی شکیل نے اس ملاقات میں مرحومہ مینا کماری اور گلزار دہلوی کا بھی خوب ذکر کیا ہے۔ خزانے گننے بیٹھیے تو وہ کب اتنی جلدی گننے میں آتے ہیں۔ ضیا محی الدین، فہمیدہ ریاض، اور وجاہت مسعود کے بغیر ان آوازوں کی اشرفیوں کو کیسے گنا جائے۔ (جاری ہے)