بھارت خطے میں دہشت گردی کا ماخذ ہے

بھارت داعش کو خطے میں پنپنے اور جڑیں پکڑنے کےلیے ہر طرح کی سہولت اور معاونت فراہم کررہا ہے


ایمان ملک September 20, 2021
بین الاقوامی تنظیمیں اور عالمی رہنما خطے میں بڑھتی بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لیں۔ (فوٹو: فائل)

حال ہی میں پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک تہلکہ خیز ڈوزیئر کی نقاب کشائی کی ہے۔ جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ نئی دہلی کس طرح مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ مزید یہ کہ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے بھارت بین الاقوامی عسکریت پسند گروہ داعش کو اس خطے میں پنپنے اور جڑیں پکڑنے کےلیے ہر طرح کی سہولت اور معاونت فراہم کررہا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کے ساتھ شاہ محمود قریشی نے ڈوزیئر میں موجود جامع نتائج پر میڈیا کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی اور مطالبہ کیا کہ عالمی برادری بھارت کی ان زیادتیوں کا نوٹس لے۔

خاص طور پر قابل غور بات یہ ہے کہ ڈوزیئر میں پیش کیے گئے ثبوتوں کے ساتھ ساتھ، ان بھارتی عہدیداروں کے نام بھی شامل ہیں جو ان سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔

ان ناموں میں بھارتی فوج کے جرنیل، بریگیڈیئر اور کرنل رینک تک کے علاوہ مختلف بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں کے دیگر عہدیداران بھی شامل ہیں۔ ڈوزیئر ان کیمپوں کے مقامات کی بھی نشاندہی کرتا ہے جو بظاہر بھارت نے دہشت گرد تنظیم داعش کےلیے قائم کیے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ سال اسی طرح کے شواہد پر مبنی ایک ڈوزیئر جاری کیا تھا جس میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارتی ریاست کے ملوث ہونے کی تفصیلات اور ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو روکنے کےلیے بھارت کے جاری سفاکانہ ہتھکنڈوں کو بڑی تفصیل سے دستاویزی شکل دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں، داعش کی ہندوستان کی سرپرستی کی طرف اشارہ کرنے والے شواہد انتہائی پریشان کن ہیں، مگر نئی دہلی کے اپنے مفادات کے حصول کےلیے دانستہ طور پر تشدد پر بڑھتے ہوئے انحصار کے پیش نظر شاید یہ مکمل طور پر حیران کن نہیں ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کی موجودہ بی جے پی حکومت کے دور میں کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے مظالم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بین الاقوامی برادری نے اس غم و غصے کا اظہار نہیں کیا کہ جس ریاستی تشدد کی یہ بھارتی حرکتیں مستحق تھیں۔ نیز بھارتی ہندو کمیونٹی میں اس بات کا زیادہ ادراک پایا جاتا ہے کہ مودی کا بھارت عدم برداشت، آمرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک حد تک اکثریت پسند ہوچکا ہے۔ لیکن اچنبھے کی بات یہ کہ ان بھارتی خصلتوں کا جو عالمی ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا وہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ شاید عالمی برادری کی زبانیں سل چکی ہیں یا کٹ گئی ہیں۔

بہرحال، پاکستان اپنا فرض نبھاتے ہوئے افغانستان میں ہندوستانی ریاست کے زیراہتمام تشدد اور دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت عالمی برادری کو مسلسل فراہم کررہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں اور عالمی رہنما اٹھ بیٹھیں اور خطے میں بڑھتی بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لیں۔ واضح رہے کہ خطے کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے بھارت سنگین عدم استحکام کا شکار ہے، جو کہ پوری دنیا کےلیے کبھی بھی غیر متوقع نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ درحقیقت، یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ بھارت اس جنوبی ایشیا کے خطے میں عدم استحکام کا سب سے طاقتور عنصر بن چکا ہے اور اگر اسے ابھی بھی اپنی سرحدوں کے پار تشدد کو برآمد کرنے سے نہیں روکا گیا، اور یہ یوںہی اس علاقے میں ایندھن فراہم کرتا رہا جہاں یہ غیر قانونی طور پر قابض ہے، تو جان لیجیے خطے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز اس کی جنگ کا شکار بن سکتے ہیں۔

المختصر، پاکستان نے اب تک بھارت کے مذکورہ بالا دہشت گردانہ اقدامات اور سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کے ضمن میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ مزید برآں، پاکستانی وزیر خارجہ اور این ایس اے کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ڈوزیئر اور اس کے مندرجات صرف بین الاقوامی برادری کے ساتھ شیئر نہیں کیے جاتے بلکہ اہم دارالحکومتوں میں بیٹھے اہم پالیسی سازوں کو بھی پیش کیے گئے شواہد کی سچائی کے متعلق قائل کرنا اشد ناگزیر ہوتا ہے۔ اور اس کےلیے مؤثر سفارت کاری اور تیز ترین مواصلات کی ضرورت ہوتی ہے۔

لہٰذا، اگر نازک علاقائی صورتحال، اور مذکورہ بالا بھاری ذمے داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پاکستان کے پاس اب مزید ضائع کرنے کےلیے ہرگز وقت نہیں ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس پریس کانفرنس کو اس سمت میں ایک مربوط کوشش کا آغاز سمجھا جانا چاہیے اور تسلسل کے ساتھ آگے بھی اس ضمن میں مزید شواہد قوم و عالمی برادری کے ساتھ شیئر ہوتے رہنے چاہئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں