ماحولیاتی آلودگی اورحکومتی اقدامات

پاکستان مشکل ماحولیاتی حالات پر قابو پا سکتا ہے اور پائیدار مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے

محکمہ موسمیات کے اعدادوشمارکے مطابق اگست رواں سال کا چوتھا گرم ترین مہینہ تھا فوٹو: فائل

محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے مون سون کے آخری دنوں میں بارشوں کا زیادہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ماضی میں ستمبرکے مہینے میں حالیہ بارشوں سے کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں، اس ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات فضائی آلودگی ہے، بلین ٹری منصوبے، یوروفیول کے استعمال اوردیگرحکومتی اقدامات کے نتیجے میں آلودگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات میں درختوں اورجنگلات کی بے تحاشا کٹائی، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی شرح، آبادی میں اضافہ، انڈسٹری اورگاڑیوں کا دھواں، ایئرکنڈیشنر اور ریفریجریٹرز سے خارج ہونے والی گیسوں کا اخراج ہیں۔

محکمہ موسمیات کے اعدادوشمارکے مطابق اگست رواں سال کا چوتھا گرم ترین مہینہ تھا۔اس مہینے میں زیادہ سے درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ کم سے کم 26 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، اوسط درجہ حرات 30 اعشاریہ چار ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈکیاگیا۔ ستمبرمیں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 35 جبکہ کم سے کم 24 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے۔ مون سون سیزن میں ستمبر کے مہینے کے دوران ابتک اوسط 73 ملی میٹربارش ریکارڈ کی جاچکی ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ سال 2022 میں لاہور میں اگست میں درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 37 اعشاریہ 7 جبکہ کم سے کم 26 اعشاریہ ایک اوراوسط 29 اعشاریہ 7 ڈگری سینٹی گریڈ رہنے کا امکان ہے۔

محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹر نسیم الرحمان نے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی نے ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیاکومتاثرکیا ہے اوریہ ایک گلوبل ایشوبن چکا ہے۔ ہم اگرپاکستان کی بات کریں تویہاں ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں بلین ٹری منصوبہ، اینٹوں کے بھٹوں کی زگ زیگ میتھالوجی پر منتقلی، یورو5 فیول کا استعمال، ائیرکنڈینشنر اور ریفریجریٹرزمیں سی ایف سی ٹیکنالوجی کااستعمال ہے۔ اسی طرح گاڑیوں میں یورواسٹینڈرڈ انجن استعمال ہورہے ہیں جس سے سے گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں کے اثرات بتدریج کم ہورہے ہیں۔ بڑی گاڑیوں میں یوروفیول کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے چھوٹی گاڑیوں میں سی این جی استعمال کی جارہی ہے.


نسیم الرحمان کہتے ہیں پاکستان سمیت دنیابھرمیں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لئے جواقدامات اٹھائے جارہے ہیں ان کے نتیجے میں اوزون کی سطح میں جوسوراخ پیداہورہے تھے وہ واپس بھرناشروع ہوگئے ہیں لیکن یہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ انہوں نے بتایا اس وقت پاکستان میں سی ایف سی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے لیکن 2040 تک ہم نے ایچ سی ایف سی ٹیکنالوجی کولازمی طورپرلاگوکرنا ہے۔ آنیوالے دس ،پندرہ برسوں میں ماحول میں بہتری آئے گی.

ماہرماحولیات ڈاکٹر نعیم مرتضٰی کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں نوشتہ دیوار ہیں جس سے دنیا کا کوئی ملک انکار نہیں کرسکتا۔ آج 2021 میں فضاء میں کاربن کی شدت تقریبا 419 پارٹس فی ملین تک جاچکی ہے ،یہ شدت تاریخ میں 300-350 سے زیادہ نہیں تھی ۔اس وقت زمین کا درجہ حرارت ایک سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ اگر ہم آسان الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو حالیہ کچھ عرصہ میں امریکا، آسٹریلیا اور ترکی کے جنگلات میں لگنے والی آگ، بحراوقیانوس اور چین میں آنے والے سیلاب اور پچھلے سال پاکستان بھارت میں ٹڈیوں کا حملہ انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے ثبوت ہیں اور اس کے نقصانات ہم دیکھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر نعیم مرتضٰی نے بتایا ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اس وقت دنیا ایک ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے اس سے نمٹنے کے لئے تمام ممالک چاہے ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے، 1994 سے پاکستان میں کاربن کا اخراج 123 فیصد تک بڑھا ہے اور گرین گیسوں کے اخراج میں ہر سال مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اگر پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ہنگامی اقدامات نہ کئے تو 2030 تک زندگی گزارنے کے لئے ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ پاکستان کو گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کے پروگراموں پہ توجہ دینے کے ساتھ ان پہ عملدرآمد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حکومت ایسے اقدامات اٹھا رہی کہ 2030 تک گرین گیسوں کے اخراج میں 20فیصد تک کمی لائی جائے۔ ملک میں 25 فیصد تک جنگلات میں اضافے سے 40 فیصد تک کاربن کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے سماجی و معاشی حالات پر مجموعی طور پہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات دیکھتے ہوئے عوامی سطح پہ آگاہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم سب نے ملکر ماحولیاتی تبدیلی کے ماحول اور معیشت پہ اثرات کو سمجھنا ہے اسی طرح پاکستان ان مشکل ماحولیاتی حالات پر قابو پا سکتا ہے اور پائیدار مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔
Load Next Story