ایل این جی سمیت مختلف شعبوں میں 205 ارب روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
آڈٹ رپورٹ میں نقصان کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مالی سال 2019-20 کے دوران لیکوڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی درآمد میں مس مینجمنٹ، مہنگی ایل این جی کی خریداری سمیت پٹرولیم سیکٹر،ٹیلی کام سیکٹر،این ایچ اے، پی ڈبلیو ڈی اسٹیٹ آفس اور اوگرا سمیت دیگر اداروں میں205 ارب روپے سے زائد کی بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان آفس نے پٹرولیم سیکٹر، ٹیلی کام سیکٹر،این ایچ اے،سی ڈی اے،پی ڈبلیو ڈی، اسٹیٹ آفس اور اوگرا سمیت دیگر اداروں کا اسپیشل آڈٹ مکمل کرلیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین آج آڈٹ رپورٹ ایوان میں پیش کریں گے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ان شعبوں کی آڈٹ رپورٹ 2020-21 تیار کی ہے جس میں ان اداروں کے مالی سال 2019-20 کے حسابات کا آڈٹ کیا گیا ہے۔
مالی سال 2019-20 کے دوران مجموعی طور پر 1637 ارب 72 کروڑ ستر لاکھ روپے مالیت کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کی گئیںِ۔ اسی سال مقامی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 93 لاکھ نوے ہزار بیرل تھا لیکن دو کروڑ 91 لاکھ ساٹھ ہزار بیرل پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار ہوئی۔ اسی سال ایک ارب بائیس کروڑ نوے لاکھ بیرل پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر استعمال ہوئے۔
مالی سال 2019-20 کے دوران ملک میں ستائیس کروڑ دس لاکھ بیرل پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر باقی بچے تھے۔ پٹرولیم سیکٹر میں سب سے زیادہ 31 کروڑ چودہ لاکھ ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی اور اس سیکٹر سے نان ٹیکس ریونیو کی مد میں قومی خزانے میں 428 ارب ستاون کروڑ دس لاکھ روپے جمع ہوئے۔
اسی سال ملک میں گیس کی مقامی پیداوار1.46ٹی سی ایف رہی۔ مجموعی طور پر 60.04 ٹی سی ایف گیس کے ذخائر تھے جس میں سے41.097 ٹی سی ایف گیس استعمال کی گئی جبکہ تیس جون 2020 تک قابل وصول20.914 ٹی سی ایف گیس کے ذخائر تھے۔
ملک میں گیس کی ڈیمانڈ 2.190 ٹی سی ایف سالانہ ہے جبکہ 0.79 ٹی سی ایف سالانہ خسارے کا سامنا ہے۔ خسارہ پورا کرنے کیلئے اس ایک سال کے دوران 0.12ٹی سی ایف ایل این جی درآمد کی گئی اور مقامی سطح پر ایل پی جی کی پیداوار کو بھی استعمال میں لایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ مالی سال 2019-20 میں ایل این جی کارگو کی درآمد کی مس مینجمنٹ کے باعث قومی خزانے کو ایک ارب 65 کروڑ ستانوے لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ ایل این جی کے ٹینڈرز میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے مہنگی ایل این جی خریدی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی اس نقصان کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ایل این جی کی درآمد کی ناقص منصوبہ بندی کے دوسرے آڈٹ کیس میں بھی قومی خزانے کو ایک ارب 31 کروڑ39 لاکھ روپے سے زائد کے نقصان کا انکشاف کیا گیا۔
مالی سال 2019-20 میں پورٹ چارجز کی اضافی ادائیگیوں کی مد میں قومی خزانے کو 8 ارب ستر کروڑ پینتالیس لاکھ روپے کے نقصان کا بھی انکشاف ہوا۔ مینجمنٹ فیس پر کم سیلز ٹیکس چارج کرنے کی مد میں قومی خزانے کو 18کروڑ 79لاکھ روپے نقصان پہنچایا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں مجموعی طور پر 57 آڈٹ پیراز میں مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی اور دو ارب 37 کروڑ چودہ لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے کی ریکوری کی نشاندہی کی گئی۔
ٹیلی کام سیکٹر میں ہیومن ریسورس اور ملازمین کو ادائیگیوں کی مد میں تیرہ کروڑ اکیانوے لاکھ 18 ہزار روپے کی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں ۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) میں مالی بے قاعدگیوں کے حوالے سے تین ارب 32 کروڑ 61 لاکھ روپے سے زائد کی آڈٹ آبزرویشنز سامنے آئیں جن میں 39 کروڑ اٹھارہ لاکھ 84 ہزار روپے کی ریکوریوں کی بھی نشاندہی کی گئی ۔
پی ٹی اے کی جانب سے کمرشل بینکوں کے ساتھ اکاؤنٹس کی مینجمنٹ کی مد میں چار کروڑ چھتیس لاکھ چالیس ہزار روپے کی مالی بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ نیشنل بینک آف پاکستان سے سے سود کی رقم ریکور کرکے ایف سی ایف میں جمع کروائی جائے جبکہ تین ارب 28 کروڑ پچیس لاکھ روپے کی متفرق نوعیت کی مالی بے قاعدگیاں بھی پائی گئی ہیں ۔
پی ٹی اے کی جانب سے نجی موبائل فون کمپنی سے اضافی فریکوئنسی اسپیکٹرم کی عدم واپسی سے قومی خزانے کو ایک کروڑ 73 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے ٹیلی کام آپریٹرز سے سالانہ لائسنس فیس، یو ایس ایف چارجز، آر اینڈ ڈی کنٹری بیوشن سمیت دیگر ریگولیٹری چارجز کی عدم ریکوری سے قومی خزانے کو 43 کروڑ ننانوے لاکھ چھیانوے ہزار روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔
پی ٹی اے کی جانب سے ٹیلی کام آپریٹرز سے مقررہ تاریخ کے بعد ادائیگیوں پر ایڈیشن فیس اور لائسنس کی تجدید کی فیس کی عدم ریکوری کی مد میں قومی خزانے کو سات کروڑ پچیس لاکھ باسٹھ ہزار ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ۔ پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ کیس عدالتوں میں ہونے کی وجہ سے یہ ریکوری نہیں ہوسکی ہے جس پر آڈٹ آفس کی جانب سے سفارش کی گئی ہے کہ ٹیلی کام آپریٹرز کے کیسوں کی موثر پیروی کرکے انہیں نمٹایا جائے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سالانہ ریڈیو فریکوئنسی اسپیکٹرم فیس کم کلیم کرنے کی مد میں قومی خزانے کو 19 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ پی ٹی اے کے مفاد میں لائسنس کی شرائط پر نظر ثانی کی جائے ۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سروسز پر سیلز ٹیکس کی عدم کٹوتی کی مد میں بھی قومی خزانے کو چھبیس لاکھ 68 روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے اور رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس حوالے سے ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی(ڈی اے سی)کی سفارشات پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان آفس نے پٹرولیم سیکٹر، ٹیلی کام سیکٹر،این ایچ اے،سی ڈی اے،پی ڈبلیو ڈی، اسٹیٹ آفس اور اوگرا سمیت دیگر اداروں کا اسپیشل آڈٹ مکمل کرلیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین آج آڈٹ رپورٹ ایوان میں پیش کریں گے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ان شعبوں کی آڈٹ رپورٹ 2020-21 تیار کی ہے جس میں ان اداروں کے مالی سال 2019-20 کے حسابات کا آڈٹ کیا گیا ہے۔
مالی سال 2019-20 کے دوران مجموعی طور پر 1637 ارب 72 کروڑ ستر لاکھ روپے مالیت کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کی گئیںِ۔ اسی سال مقامی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 93 لاکھ نوے ہزار بیرل تھا لیکن دو کروڑ 91 لاکھ ساٹھ ہزار بیرل پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار ہوئی۔ اسی سال ایک ارب بائیس کروڑ نوے لاکھ بیرل پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر استعمال ہوئے۔
مالی سال 2019-20 کے دوران ملک میں ستائیس کروڑ دس لاکھ بیرل پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر باقی بچے تھے۔ پٹرولیم سیکٹر میں سب سے زیادہ 31 کروڑ چودہ لاکھ ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی اور اس سیکٹر سے نان ٹیکس ریونیو کی مد میں قومی خزانے میں 428 ارب ستاون کروڑ دس لاکھ روپے جمع ہوئے۔
اسی سال ملک میں گیس کی مقامی پیداوار1.46ٹی سی ایف رہی۔ مجموعی طور پر 60.04 ٹی سی ایف گیس کے ذخائر تھے جس میں سے41.097 ٹی سی ایف گیس استعمال کی گئی جبکہ تیس جون 2020 تک قابل وصول20.914 ٹی سی ایف گیس کے ذخائر تھے۔
ملک میں گیس کی ڈیمانڈ 2.190 ٹی سی ایف سالانہ ہے جبکہ 0.79 ٹی سی ایف سالانہ خسارے کا سامنا ہے۔ خسارہ پورا کرنے کیلئے اس ایک سال کے دوران 0.12ٹی سی ایف ایل این جی درآمد کی گئی اور مقامی سطح پر ایل پی جی کی پیداوار کو بھی استعمال میں لایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ مالی سال 2019-20 میں ایل این جی کارگو کی درآمد کی مس مینجمنٹ کے باعث قومی خزانے کو ایک ارب 65 کروڑ ستانوے لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ ایل این جی کے ٹینڈرز میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے مہنگی ایل این جی خریدی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی اس نقصان کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ایل این جی کی درآمد کی ناقص منصوبہ بندی کے دوسرے آڈٹ کیس میں بھی قومی خزانے کو ایک ارب 31 کروڑ39 لاکھ روپے سے زائد کے نقصان کا انکشاف کیا گیا۔
مالی سال 2019-20 میں پورٹ چارجز کی اضافی ادائیگیوں کی مد میں قومی خزانے کو 8 ارب ستر کروڑ پینتالیس لاکھ روپے کے نقصان کا بھی انکشاف ہوا۔ مینجمنٹ فیس پر کم سیلز ٹیکس چارج کرنے کی مد میں قومی خزانے کو 18کروڑ 79لاکھ روپے نقصان پہنچایا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں مجموعی طور پر 57 آڈٹ پیراز میں مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی اور دو ارب 37 کروڑ چودہ لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے کی ریکوری کی نشاندہی کی گئی۔
ٹیلی کام سیکٹر میں ہیومن ریسورس اور ملازمین کو ادائیگیوں کی مد میں تیرہ کروڑ اکیانوے لاکھ 18 ہزار روپے کی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں ۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) میں مالی بے قاعدگیوں کے حوالے سے تین ارب 32 کروڑ 61 لاکھ روپے سے زائد کی آڈٹ آبزرویشنز سامنے آئیں جن میں 39 کروڑ اٹھارہ لاکھ 84 ہزار روپے کی ریکوریوں کی بھی نشاندہی کی گئی ۔
پی ٹی اے کی جانب سے کمرشل بینکوں کے ساتھ اکاؤنٹس کی مینجمنٹ کی مد میں چار کروڑ چھتیس لاکھ چالیس ہزار روپے کی مالی بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ نیشنل بینک آف پاکستان سے سے سود کی رقم ریکور کرکے ایف سی ایف میں جمع کروائی جائے جبکہ تین ارب 28 کروڑ پچیس لاکھ روپے کی متفرق نوعیت کی مالی بے قاعدگیاں بھی پائی گئی ہیں ۔
پی ٹی اے کی جانب سے نجی موبائل فون کمپنی سے اضافی فریکوئنسی اسپیکٹرم کی عدم واپسی سے قومی خزانے کو ایک کروڑ 73 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے ٹیلی کام آپریٹرز سے سالانہ لائسنس فیس، یو ایس ایف چارجز، آر اینڈ ڈی کنٹری بیوشن سمیت دیگر ریگولیٹری چارجز کی عدم ریکوری سے قومی خزانے کو 43 کروڑ ننانوے لاکھ چھیانوے ہزار روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔
پی ٹی اے کی جانب سے ٹیلی کام آپریٹرز سے مقررہ تاریخ کے بعد ادائیگیوں پر ایڈیشن فیس اور لائسنس کی تجدید کی فیس کی عدم ریکوری کی مد میں قومی خزانے کو سات کروڑ پچیس لاکھ باسٹھ ہزار ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ۔ پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ کیس عدالتوں میں ہونے کی وجہ سے یہ ریکوری نہیں ہوسکی ہے جس پر آڈٹ آفس کی جانب سے سفارش کی گئی ہے کہ ٹیلی کام آپریٹرز کے کیسوں کی موثر پیروی کرکے انہیں نمٹایا جائے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سالانہ ریڈیو فریکوئنسی اسپیکٹرم فیس کم کلیم کرنے کی مد میں قومی خزانے کو 19 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ پی ٹی اے کے مفاد میں لائسنس کی شرائط پر نظر ثانی کی جائے ۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سروسز پر سیلز ٹیکس کی عدم کٹوتی کی مد میں بھی قومی خزانے کو چھبیس لاکھ 68 روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے اور رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس حوالے سے ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی(ڈی اے سی)کی سفارشات پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔