ایک نئے کھیل کا آغاز
امریکا نے ایک بار پھر سکھ کا سانس لیا کہ اب کوئی ولن نہیں رہا جو اسے چیلنج کر سکے۔
بچپن میں مجھ جیسے لاکھوں بچے لکی ایرانی سرکس کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔یہ سرکس دماغ کو چکرا دینے والے کرتب باز ہاتھیوں، گھوڑوں، چست لباس جمناسٹوں، موت کے کنوئیں کے موٹر سائیکلسٹ سرپھروں، سر کٹے انسان سمیت بیسیوں دہشت انگیز کرداروں اور پراسرار اشیا پر مشتمل عجائب گھر اور تیز گھومتی رنگ برنگی روشنیوں کے بیچ چلنتر گانوں کی دھن پر چوبی پٹڑے پر ٹھمکتے دل نواز زرق برق خواجہ سراؤں کی جادوئی دنیا تھا۔
یہ سرکس ملک کے ہر بڑے اور درمیانے قصبے کے باہر کھلے میدان میں کئی کئی ماہ کے لیے طنابیں گاڑ دیتا اور پھر اگلی منزل پر منتظر تماشائیوں کے لیے روانہ ہو جاتا۔یعنی یہ سرکس ہر پانچ ، دس یا پندھرویں برس کے پھیر سے شائقین کے پاس دوبارہ پہنچ جاتا۔اس دوران اس میں مزید نت نئے کرتبوں اور تازہ و توانا چہروں کا اضافہ ہو جاتا۔
سنا ہے لکی ایرانی سرکس لپٹ چکا ہے کیونکہ اس کا زمانہ بھی لپٹ چکا ہے۔لیکن ان دنوں مجھے وہ بے طرح یاد آ رہا ہے۔کیونکہ میرے پڑوس میں پچھلے بیس برس سے لگا سرکس بھی گزشتہ ماہ اکھڑ گیا۔مگر اب خوشخبری یہ ملی ہے کہ گریٹ امریکن سرکس لپٹا نہیں بس پڑوس بدل لیا ہے۔اب وہ یہاں سے اٹھ کر جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ بعید کے تماشائیوں کے منتقل ہو گیا ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ امریکا کو گزشتہ ایک سو برس سے عالمی چوکیدارے کا کس قدر شوق ہے۔مگر گرگِانِ باراںدیدہ یورپی نو آبادیاتی طاقتوں کے برعکس امریکا اپنا شوقِ جہاں گیری کبھی بھی کہیں بھی یکسو ہو کے پورا نہیں کر پایا۔براعظم جنوبی امریکا کو ہر امریکی انتظامیہ نے اپنا تزویراتی پچھواڑہ سمجھا۔مگر جنوبی امریکا میں بھی کئی تحریکیں اور ممالک واشنگٹن کو اکثر پھوڑے پھنسی کی طرح تنگ کرتے رہے۔بالخصوص کیوبا تو پچھلے باسٹھ برس سے واشنگٹن کے لیے ہرنیا بن چکا ہے اور امریکا ہزار کوشش کے باوجود اس موئے کیوبا کا کچھ نابگاڑ پایا، نا کہیں اپنے سے دور دھکیل پایا۔
جب امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے اختتامی مراحل میں جاپان پر دو ایٹم بم ٹکا دیے تو یہ بھی فرض کر لیا کہ اب عالمی گلیوں میں رانجھا بن داس پھرے گا۔ پھر کم بخت سوویت یونین راستے میں کھڑا ہو گیا۔اسے گھیرنے کے لیے ناٹو سے سینٹو تک پوری غربی شرقی اسٹرٹیجک زنجیر بنائی گئی۔چپے چپے پر طفیلیے اور اڈے کھڑے کیے گئے۔مگر گھیرا کبھی مکمل نہ ہو پایا۔اس دوران ویتنام سے انگولا تک جوتے الگ سے پڑے۔وہ الگ بات کہ اس گھیرے کو بنانے اور توڑنے کے چکر میں ہتھیاروں اور اثر و نفوذ کی دوڑ میں سوویت یونین ہلکان ہو کر خود ہی ٹوٹ ٹاٹ گیا۔
امریکا نے ایک بار پھر سکھ کا سانس لیا کہ اب کوئی ولن نہیں رہا جو اسے چیلنج کر سکے۔اب تو اکیسویں صدی بھی امریکی صدی ہی ہے۔لیکن ایک بڑا حریف چت ہوا تو ایسے ایسے چیلنجز ایسی ایسی جگہوں سے نکل آئے جو امریکا کے سان گمان میں بھی نہ تھے۔جیسے ایران ، عراق، شام ، لیبیا ، شمالی کوریا ، القاعدہ ، داعش ، سفید نسل پرست وغیرہ وغیرہ ۔اور پھر ٹام اینڈ جیری والی ہڑبونگ مچ گئی۔
نائن الیون کے بعد سے ٹام نے شمالی افریقہ تا افغانستان جیری اینڈ برادرز کو پکڑ کے کچا چبا ڈالنے والے طیش میں وہ دھما چوکڑی مچائی کہ کیا گیہوں کیا گھن، سب کا بربادہ کر دیا۔اس دوران کئی بار ٹام کا منہ جھلس گیا۔کبھی پنجہ زخمی ہوا ، کہیں کے بال ادھڑ گئے، بتیسی ہل گئی۔مگر ٹام کی سمجھ میں کچھ آئے تو اسے ٹام کون کہے۔
مان لیا جائے کہ اگر پچھلی صدی امریکا کی تھی تو اکیسویں صدی چین کی ہے۔ امریکا کی خواہش تو یہی ہے کہ چین کو چاروں کھونٹوں گھیر کے باندھ دیا جائے۔مگر ایسا ہو نہیں پا رہا۔چین کے جنوب مغرب میں بس ایک بھارت ہی ہے جو اس کارِ خیر میں امریکا کے کام کا ہے۔مگر ایسا کیوں لگتا ہے کہ بھارت بھی چین کے سامنے کھڑا ہونے کا تاثر دیتے ہوئے امریکا سے اسٹرٹیجک فلرٹ کر رہا ہے اور امریکا کی مشکل یہ ہے کہ اس خطے میں اس کے پاس بھارت کا متبادل نہیں۔
بھلے وقتوں میں پاکستان اس علاقے میں امریکا کا چھوٹا رہ چکا ہے۔ تب بھارت سوویت یونین کا آڑی تھا۔اب چین نہ صرف روس کو ساتھ ملا کر چل رہا ہے بلکہ افغانستان، ایران اور پاکستان بھی امریکا کے کام کے نہیں رہے۔لے دے کہ امریکا عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ان ممالک کی ڈبری ٹائٹ کر سکتا ہے مگر اب اسٹرٹیجک بالاخانے پر چین بھی تازہ گڈیاں لہرا کے پیشگی مجرے بک کروا کے روایتی شرفا کو زچ کرنا سیکھ چکا ہے ۔
اب رہ گیا چین کا مشرق یعنی بحیرہ جنوبی چین، بحیرہ جاپان اور بحرالکاہل۔یہاں اس وقت چین کے بالمقابل ایک تو تائیوان ہے جسے امریکا اپنا سب سے بڑا طیارہ بردار جہاز قرار دیتا ہے۔اس کے علاوہ جاپان میں ایک سو بیس فوجی مراکز اور اڈوں پر چون ہزار امریکی فوجی، جنوبی کوریاکے تہتر امریکی اڈوں پر ساڑھے چھبیس ہزار ، گوام کے چون فوجی اڈوں پر چھ ہزار اور آسٹریلیا کے گیارہ فوجی مراکز پر سوا دو ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔
جس طرح سرد جنگ کے آعاز پر انیس سو اکیاون میں امریکا ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے سوویت اثر و نفوذ کے توڑ کے لیے مشترکہ دفاعی معاہدہ ( آنزس ) کیا تھا۔بالکل اسی طرح گزشتہ برس آسٹریلیا ، جاپان ، بھارت اور امریکا نے بحرِ ہند اور بحر الکاہل میں چینی اثر و نفوذ سے نمٹنے کے لیے کوارٹز ( چوکڑی ) کے نام سے ایک عسکری اتحاد تشکیل دیا ہے۔اس کا اگلا سربراہ اجلاس واشنگٹن میں منعقد ہو رہا ہے۔اس میں جاپانی، آسٹریلوی و بھارتی وزرائے اعظم اور صدر جو بائیڈن شرکت کررہے ہیں۔آگے چل کر اس اتحاد میں ویتنام، فلپینز اور انڈونیشیا بھی شریک ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی امریکا ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے مشرقی و جنوبی ایشیا میں چینی عزائم پر نگاہ رکھنے کے لیے آ کوس کے نام سے ایک سہ فریقی فوجی اتحاد کا بھی اعلان کیا ہے۔اس کے تحت آسٹریلیا کو جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزوں کی تیاری کی امریکی ٹیکنالوجی منتقل کی جائے گی اور چین کے علاقائی عزائم کے مقابلے کے لیے مشترکہ حالتِ تیاری کو اگلے مرحلے تک لے جایا جائے گا۔
ظاہر ہے چین نے اس تازہ صف بندی کو ایک نئی سرد جنگ کا اعلان قرار دیا ہے۔جب کہ فرانس نے اس اعلان کو اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے جیسا قرار دیا ہے۔ کیونکہ امریکی یقین دہانی کے بعد آسٹریلیا نے فرانس سے بارہ آبدوزوں کی خریداری کا سودا منسوخ کردیا ہے۔
کیا بوالعجبی ہے کہ امریکا جن دو طاقتوں کو سب سے بڑا عالمی حریف سمجھتا ہے ان میں سے چین کا سالانہ دفاعی بجٹ دو سو باون ارب ڈالر اور روس کا بجٹ باسٹھ ارب ڈالر ہے۔جب کہ خود امریکا کا دو ہزار بیس کا فوجی بجٹ سات سو اسی ارب ڈالر ہے۔یعنی تنہا امریکا کا دفاعی بجٹ چوٹی کے دس دیگر ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔پھر بھی امریکا احساس ِ عدم تحفظ میں مبتلا ہونے کی اوور ایکٹنگ سے باز نہیں آ رہا۔
سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے
اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے
( احمد نوید )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)