ستمبر یا ستمگر
روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔
ستمبر کے مہینے میں بعض ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ جن کے حوالے سے اگر اسے ستمگر کہا جائے تو شاید زیادہ مناسب ہوگا ۔ یہی وہ مہینہ ہے کہ جس کی 6 تاریخ کو وطن عزیز کی سر زمین پر ہمارے دشمن بھارت نے اچانک شب خون مارا تھا۔ تب پوری پاکستانی قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دشمن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئی تھی۔
افواج ِ پاکستان نے دشمن کے اس اچانک حملے کا منہ توڑ جواب دے کر اُس کے جارحانہ عزائم کو نہ صرف خاک میں ملا دیا تھا بلکہ اُسے چَھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا پوری قوم افواج ِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی تھی اور وطن عزیز کا بچہ بچہ جوش ِجہاد سے سر شار تھا فضا اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اُٹھی تھی اور افواجِ پاکستان اور پاکستانی عوام یک جان دو قالب بن گئے تھے۔
وطن عزیز کے شاعر، گلو کار ، موسیقار اس جنگ میں برابر کے شریک تھے اور اُن کے نغمے دشمن کے خلاف افواجِ پاکستان کے شیروں اور دلیروں کے حوصلے بلند سے بلند تر کر رہے تھے مِلّی نغموں نے ایک عجب سماں پیدا کر دیا تھا ۔ملکہ ترنم میڈ م نور جہاں کہ گائے ہوئے اور جمیل الدین علی کے تحریر کردہ مِلّی نغمے
اے وطن کے سجیلے جوانوں
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
نے فوجی جوانوں کے حوصلے نہایت بلند کر دیے تھے اور وہ دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے پیش قدمی کر رہے تھے۔ دوسری جانب پاکستانی فضائیہ اور بحریہ نے اپنے اپنے محاذوں پر مکّار اور عیار دشمن کے چھکے چھڑا دیے تھے پاکستانی قوم اس عظیم معرکہ میں ریڈیو پاکستان کے کلیدی کردار کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتی جس کی نشریات نے افواج ِ پاکستان کے حوصلے بلند کرنے اور دشمن کی بزدل سینا کے حوصلے پست کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔
اس وقت ہمیں اپنے ہم نام ریڈیو پاکستان کے نیوز ریڈر شکیل احمد کی شدت سے یاد آرہی ہے کہ جن کے خبریں پڑھنے کے انداز سے پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان کے حوصلے بلند ہو جاتے تھے اور دشمن کی صفوں پر خوف طاری ہوجاتا تھا ۔
ستمبر کی سات تاریخ ہمارے لیے ایک عظیم سانحہ کا سبب ہے کیونکہ اس روز ہمارے پیارے بہنوئی رحلت فرماگئے۔ اللہ تعالیٰ اُنکی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے اسی ماہ کے دوران تحریک ِ آزادی مقبوضہ کشمیر کے روحِ رواں سید علی گیلانی انتقال فرما گئے جن کا نعرہ تھا کشمیر بنے گا پاکستان، اس کے علاوہ ابھی چند روز قبل ہمارے ریڈیو پاکستان کے ایک پرانے ساتھی عظیم سرور بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے (مرحوم) ایک نیک دل انسان اور عظیم نشر کار اور کالم نگار تھے۔ ربِّ کریم ان کی مغفرت فرمائے آمین۔
ستمبر میں ہی وطن عزیز کو سب سے بڑااور ناقابل ِ فراموش سانحہ پیش آیا تھا اور وہ تھا بانی ِ پاکستان اور بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کی وفات جن کی برسی ہم ہر سال کی گیارہ ستمبر کو نہایت عقیدت اور احترام سے مناتے ہیں اس روزمزارِ قائد پر باقاعدہ حاضری دی جاتی ہے اور پھولوں کی چادر چڑھائی جاتی ہے ۔مگر افسوس یہ کام ہمارے اربابِ اختیار محض دنیا کے دِکھاوئے کے طور پر انجام دیتے ہیں ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے اقتدار کی ہوس میں قائد کے زریں اصولوں کوبالائے طاق رکھ دیا اورسچ پوچھئے تو پاکستان کو اغوا کر لیا جس کے نتیجے میں قوم کی کشتی طوفان میں پھنس گئی وہ منزل ِ مراد ابھی تک حاصل نہیں ہوسکی جس کے لیے بے شمار اور بے مثال قربانیاں دی گئی تھیں انجام کار ملک دو لخت ہوگیا۔ مگر افسوس اس سانحہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا اس مقصد کو ہی فراموش کر دیا گیا جس کی خاطر یہ ملک قائم ہوا تھا ۔
یوں کہنے کو تو وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو یہ اسلامی ہے اور نہ جمہوریہ ہے ۔ قائدنے ہمیں جن باتوں سے روکا تھا اور جن پر عمل کرنے کو کہا تھا ہم نے انھیں فراموش کر دیا جسکا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
وطن ِ عزیز کو اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے خطرات درپیش ہیں اور دشمن گھات لگائے ہوئے ہے ، لیکن ہم ان خطرات سے غافل ہوکر آپس کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ پرانے پاکستان کو گنوانے کے بعد اب نیا پاکستان کا نعرہ لگایا جا رہا ہے لیکن تاحال محض زبانی جمع خرچ کے سوائے ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔عوام کو تاثر تویہ دیا جارہا ہے کہ جلد دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جائیں گی ، لیکن عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا ہے ۔
روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی دعوے تو عوام دوستی کے کیے جارہے ہیں ۔لیکن عوام دُشمنی کا سلسلہ جاری ہے ستم بالائے ستم ایسے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں جن کے نتیجے میں عوام کا دم نکل رہا ہے ۔ پٹرول کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے ۔ خدا جانے بے بس اور بے کس عوام کو یہ لارے کب تک دیے جائیں گے اور ظلم و ستم کا یہ کھیل تماشہ کب تک اسطرح جاری رہے گا۔ قتیلؔ شفائی نے کیا خوب کہا ہے:
دنیا میں قتیل ایسا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
ستمبر کے اِسی پُرآشوب مہینے میں آبرو صحافت رحیم اللہ یوسف زئی بھی ملکِ عدم روانہ ہوگئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔خاکساری، انکساری، دیانت داری، ملنساری اور رواداری اُن پر ختم تھی۔ وہ صحافت میں حق گوئی اور سچائی کے علمبردار تھے اور انتہائی اعتدال پسند اور بے نیاز قسم کے انسان تھے۔
افواج ِ پاکستان نے دشمن کے اس اچانک حملے کا منہ توڑ جواب دے کر اُس کے جارحانہ عزائم کو نہ صرف خاک میں ملا دیا تھا بلکہ اُسے چَھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا پوری قوم افواج ِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی تھی اور وطن عزیز کا بچہ بچہ جوش ِجہاد سے سر شار تھا فضا اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اُٹھی تھی اور افواجِ پاکستان اور پاکستانی عوام یک جان دو قالب بن گئے تھے۔
وطن عزیز کے شاعر، گلو کار ، موسیقار اس جنگ میں برابر کے شریک تھے اور اُن کے نغمے دشمن کے خلاف افواجِ پاکستان کے شیروں اور دلیروں کے حوصلے بلند سے بلند تر کر رہے تھے مِلّی نغموں نے ایک عجب سماں پیدا کر دیا تھا ۔ملکہ ترنم میڈ م نور جہاں کہ گائے ہوئے اور جمیل الدین علی کے تحریر کردہ مِلّی نغمے
اے وطن کے سجیلے جوانوں
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
نے فوجی جوانوں کے حوصلے نہایت بلند کر دیے تھے اور وہ دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے پیش قدمی کر رہے تھے۔ دوسری جانب پاکستانی فضائیہ اور بحریہ نے اپنے اپنے محاذوں پر مکّار اور عیار دشمن کے چھکے چھڑا دیے تھے پاکستانی قوم اس عظیم معرکہ میں ریڈیو پاکستان کے کلیدی کردار کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتی جس کی نشریات نے افواج ِ پاکستان کے حوصلے بلند کرنے اور دشمن کی بزدل سینا کے حوصلے پست کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔
اس وقت ہمیں اپنے ہم نام ریڈیو پاکستان کے نیوز ریڈر شکیل احمد کی شدت سے یاد آرہی ہے کہ جن کے خبریں پڑھنے کے انداز سے پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان کے حوصلے بلند ہو جاتے تھے اور دشمن کی صفوں پر خوف طاری ہوجاتا تھا ۔
ستمبر کی سات تاریخ ہمارے لیے ایک عظیم سانحہ کا سبب ہے کیونکہ اس روز ہمارے پیارے بہنوئی رحلت فرماگئے۔ اللہ تعالیٰ اُنکی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے اسی ماہ کے دوران تحریک ِ آزادی مقبوضہ کشمیر کے روحِ رواں سید علی گیلانی انتقال فرما گئے جن کا نعرہ تھا کشمیر بنے گا پاکستان، اس کے علاوہ ابھی چند روز قبل ہمارے ریڈیو پاکستان کے ایک پرانے ساتھی عظیم سرور بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے (مرحوم) ایک نیک دل انسان اور عظیم نشر کار اور کالم نگار تھے۔ ربِّ کریم ان کی مغفرت فرمائے آمین۔
ستمبر میں ہی وطن عزیز کو سب سے بڑااور ناقابل ِ فراموش سانحہ پیش آیا تھا اور وہ تھا بانی ِ پاکستان اور بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کی وفات جن کی برسی ہم ہر سال کی گیارہ ستمبر کو نہایت عقیدت اور احترام سے مناتے ہیں اس روزمزارِ قائد پر باقاعدہ حاضری دی جاتی ہے اور پھولوں کی چادر چڑھائی جاتی ہے ۔مگر افسوس یہ کام ہمارے اربابِ اختیار محض دنیا کے دِکھاوئے کے طور پر انجام دیتے ہیں ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے اقتدار کی ہوس میں قائد کے زریں اصولوں کوبالائے طاق رکھ دیا اورسچ پوچھئے تو پاکستان کو اغوا کر لیا جس کے نتیجے میں قوم کی کشتی طوفان میں پھنس گئی وہ منزل ِ مراد ابھی تک حاصل نہیں ہوسکی جس کے لیے بے شمار اور بے مثال قربانیاں دی گئی تھیں انجام کار ملک دو لخت ہوگیا۔ مگر افسوس اس سانحہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا اس مقصد کو ہی فراموش کر دیا گیا جس کی خاطر یہ ملک قائم ہوا تھا ۔
یوں کہنے کو تو وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو یہ اسلامی ہے اور نہ جمہوریہ ہے ۔ قائدنے ہمیں جن باتوں سے روکا تھا اور جن پر عمل کرنے کو کہا تھا ہم نے انھیں فراموش کر دیا جسکا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
وطن ِ عزیز کو اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے خطرات درپیش ہیں اور دشمن گھات لگائے ہوئے ہے ، لیکن ہم ان خطرات سے غافل ہوکر آپس کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ پرانے پاکستان کو گنوانے کے بعد اب نیا پاکستان کا نعرہ لگایا جا رہا ہے لیکن تاحال محض زبانی جمع خرچ کے سوائے ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔عوام کو تاثر تویہ دیا جارہا ہے کہ جلد دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جائیں گی ، لیکن عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا ہے ۔
روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی دعوے تو عوام دوستی کے کیے جارہے ہیں ۔لیکن عوام دُشمنی کا سلسلہ جاری ہے ستم بالائے ستم ایسے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں جن کے نتیجے میں عوام کا دم نکل رہا ہے ۔ پٹرول کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے ۔ خدا جانے بے بس اور بے کس عوام کو یہ لارے کب تک دیے جائیں گے اور ظلم و ستم کا یہ کھیل تماشہ کب تک اسطرح جاری رہے گا۔ قتیلؔ شفائی نے کیا خوب کہا ہے:
دنیا میں قتیل ایسا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
ستمبر کے اِسی پُرآشوب مہینے میں آبرو صحافت رحیم اللہ یوسف زئی بھی ملکِ عدم روانہ ہوگئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔خاکساری، انکساری، دیانت داری، ملنساری اور رواداری اُن پر ختم تھی۔ وہ صحافت میں حق گوئی اور سچائی کے علمبردار تھے اور انتہائی اعتدال پسند اور بے نیاز قسم کے انسان تھے۔