اقتصادی استحکام کے ذریعے عوامی آسودگی

حقیقت یہ ہے کہ ملک کے بیشتر سیاسی و اقتصادی مسائل خود ہمارے پالیسی سازوں کے پیدا کردہ ہیں


Editorial January 31, 2014
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے بیشتر سیاسی و اقتصادی مسائل خود ہمارے پالیسی سازوں کے پیدا کردہ ہیں. فوٹو:فائل

وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ کوئٹہ اور بعد ازاں سندھ میں تھرکول پروجیکٹ کے افتتاح سے مترشح ہے کہ حکومت ملکی معیشت استحکام، روزگار کی فراہمی، توانائی کے بحران کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے ایک پر کشش ماحول کی تیاری کی مہم بھی پیش نظر رکھے ہوئے ہے جو ملکی اقتصادیات اور پیدا شدہ سیاسی تناؤ کو کم کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ حقیقت میں سندھ و بلوچستان کے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور تعلیمی مسائل پر توجہ دینا اور ان کے عوام کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلی لانا وقت کا تقاضا ہے جب کہ توانائی بحران کے ملک گیر حل کے ساتھ ساتھ ان دو صوبوں کے قدرتی وسائل کو بطور خاص بروئے کار لانے کے لیے جتنی کوششیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے ہو رہی ہیں، ان کا نتیجہ فی الفور تو نہیں نکل سکتا لیکن طویل المیعاد منصوبہ بندی کی جائے تو قوم کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، بجلی کی تقسیم کے شفاف نظام اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کی نوید دی جا سکتی ہے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ بلوچستان و سندھ ایک اہم پیش رفت ہے۔

وزیر اعظم نے بلوچستان کی مقامی سیاسی قیادت کی مشاورت سے بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے ساتھ مصالحت اور امن و امان کے قیام کے لیے کمیٹی بنانے کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ بلوچستان سمیت پورے ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، انھوں نے مستونگ میں زائرین کی بس پر حملے پر شدید دکھ کا اظہار کیا، ان کا یہ کہنا درست ہے کہ امن و امان کا مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں پورے ملک کو درپیش ہے اس پر جلد قابو پانا ہو گا۔ بلوچستان کے عوام کی ڈھارس بندھاتے ہوئے انھوں نے کہا وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ اکیلے ہیں بلکہ حکومت اور پوری قوم ان کے درد و غم میں برابر کی شریک ہے۔ وفاقی حکومت نے نوجوان بزنس لون اسکیم متعارف کرائی ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، وزیر اعظم کے مطابق کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی، جس صوبے کا جتنا کوٹہ ہے وہ وہاں کے عوام کو پورا ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ آج بلوچستان کی چار اہم شاہراہوں کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے، ان شاہراہوں میں قلعہ سیف اللہ ژوب N-50، قلات کوئٹہ چمن N-25، سوراب خوشاب N-85 اور گوادر تربت خوشاب N-8 شامل ہیں۔ ان شاہراہوں کو مکمل کرنے کے لیے حکومت بھرپور اقدامات کر رہی ہے تا کہ صوبہ بلوچستان کی دوسرے صوبوں کے ساتھ آمد و رفت کے سلسلے میں آسانیاں پیدا ہوں اور عوام کو ریلیف ملے۔

دریں اثناء کوئٹہ میں سدرن کمانڈ ہیڈکوارٹرز میں صوبہ میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ناراض بلوچ نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لانے، ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی کے مطالبات اور ان کے علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ جس طرح مرکز میں مذاکرات کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس نوعیت کی ایک با اختیار کمیٹی بلوچستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے بھی قائم کی جائے گی جو مفاہمت کا عمل شروع کرے گی۔ اس کمیٹی کو تمام سیاسی قیادت کی مشاورت حاصل ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت مفاہمت کا عمل شروع کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بے روزگاری کے خاتمے اور وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ ہے۔ دوسری جانب تھرپارکر میں وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے مشترکہ طور پر تھر کول پاور پروجیکٹ کا افتتاح کرتے ہوئے سیاسی رواداری، جمہوری اسپرٹ اور قومی یکجہتی کا ایک منفرد سنگ بنیاد بھی رکھا۔ تھر کول منصوبہ سندھ سمیت ملک کو توانائی کے گمبھیر مسائل سے نجات دلانے کی سمت ایک بر وقت اقدام ہے، 1.6 بلین ڈالر لاگت کے اس منصوبہ سے 660 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی، اسے سندھ حکومت کے اشتراک سے 2017ء تک مکمل کیا جائے گا جو انرجی سیکٹر کے اہداف کی ایک اہم کڑی ہے۔

یاد رہے کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے سندھ حکومت پہلی ہی20 ارب روپے انفرا اسٹرکچر، لیفٹ بینک آؤٹ ڈرین (LBOD ) کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی، بدین اور ٹھٹھہ سے سڑکوں کی تعمیر اور دیگر بنیادی ضروریات کے ضمن میں خرچ کر چکی ہے جب کہ 230 کلومیٹر ٹرانسمیٹر لائنیں پلانٹ کو نیشنل گرڈ سے ملائیں گی۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ ممتاز سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کول پروجیکٹ کی نگرانی پر مامور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئلہ کی قابل قدر مقدار کے ذریعے آیندہ عشروں میں ہزاروں میگاواٹ بجلی سستے داموں دستیاب ہو سکے گی۔ تھر کول مائننگ کے 12 بلاکس تیار کیے جا چکے ہیں، پاکستان میں کوئلے کے مجموعی ذخائر دنیا کے چھٹے سب سے بڑے ذخائر میں سے ہیں جس کا تخمینہ اور پتا1919ء میں جیولوجیکل سروے ڈپارٹمنٹ نے لگایا تھا ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک کے بیشتر سیاسی و اقتصادی مسائل خود ہمارے پالیسی سازوں کے پیدا کردہ ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز کو اﷲ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے، انھیں بروئے کار لایا جائے، سائنس اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جائے، ملک کی افرادی قوت کے استعمال کو یقینی بنایا جائے اور لاکھوں ایکڑ بے آب و گیاہ اراضی کو قابل کاشت اور جگہ جگہ چھوٹے ڈیم بنا کر غربت، تاریکی، پسماندگی، کو خوشحالی اور عوامی آسودگی میں بدلا جائے۔ قیادتیں ملکی بحرانوں کے حل کے لیے سر جوڑ کر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چیلنجوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف اور آصف زرداری نے وفاق و صوبہ کے رضاکارانہ ملاپ سے قومی منصوبہ کا شانہ بشانہ افتتاح کر کے قومی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کی، اس مدبرانہ اور روادارانہ اسپرٹ اور سیاسی اسپورٹس مین شپ کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان اور سندھ قدرتی وسائل اور تیل و گیس اور معدنی دولت سے مالامال ہیں۔ اب ان سائنس دانوں، انجینئروں کو آگے لانے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مشترکہ منصوبوں کی ترغیب دینے اور محنت کشوں کی ہنرمندانہ صلاحیتوں سے کام لینے کا وقت ہے تا کہ ملک کا ہر فرد ملکی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے تا کہ قومی معیشت مستحکم ہو اور بحرانوں کا زور توڑا جا سکے۔ کئی ملکوں کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ ملا ہے۔ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن نے کہا ہے کہ برطانیہ پاکستان کے ساتھ تجارت تعلیم اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میری کوشش ہو گی کہ پاک برطانیہ تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں۔ ادھر اوور سیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذرایع کا کہنا ہے کہ چیمبر سے وابستہ فرمز پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، اوور سیز چیمبر کے کیے گئے ''پرسیپشن اینڈ انوسٹمنٹ'' سروے کے تحت رکن فرمز نے پاکستان کو کاروبار کے لحاظ سے بھارت سمیت علاقائی ملکوں بنگلہ دیش، فلپائن، سری لنکا اور ویت نام سے بہتر یا اس کے برابر قرار دیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ملکی معیشت کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کے لیے سیاسی سطح پر یکجہتی، مفاہمت، خیر سگالی کے اسی جذبہ سے کام لیا جائے گا ۔ غربت، مہنگائی، عدم مساوات، دولت کے ارتکاز، بیروزگاری اور جرائم کے جس طبقاتی اور اشرافیائی گرداب میں پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی ناؤ پھنسی ہوئی ہے اسے کوئی حضرت سلیمان ؑ کا جن نکالنے نہیں آئیگا بلکہ اس کے لیے ارباب اختیار کو کرپشن اور بدانتظامی کے قابل نفرت ''جن'' کو بوتل میں بند کر کے سمندر برد کرنا ہو گا، تب جا کر پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے عوام آسودہ و خوشحال ہو سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں