تقریر اور حقائق
جب تک طبقاتی نظام رہے گا اس وقت تک یہ دہرا معیار اور بے ضابطگیاں ہوتی رہیں گی۔
گزشتہ دنوں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تفصیلی خطاب کیا۔ خطاب کے دوران حزب اختلاف نے نعرے بازی کی اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے اور باہر صحافی اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ صدر صاحب نے مختلف موضوعات پر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ۔
انھوں نے دوران تقریر جی ڈی پی میں اضافے، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، افراط زر میں کمی اور قوت خرید میں اضافے، اسٹیٹ بینک کی جانب سے سود میں کمی کے علاوہ خواتین میں دو دو ہزار اور بیواؤں میں 12,000روپے یک مشت دینے، مائیکرو فنانس کے ذریعے آسان قسطوں میں قرض دینا کے موضوعات پر خطاب کیا مگر مہنگائی اور بے روزگاری کا ذکر کرنا بھول گئے۔
قومی اسمبلی کے اراکین تو تین سال میں تین بار اپنی تنخواہیں بڑھوا چکے ہیں۔ تنخواہیں بڑھوانے کے معاملے پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے سب اراکین متفق ہوگئے۔ کوئی اختلاف تھا اور نہ کوئی اعتراض۔ اس نکتے پر سب ایک ہو جاتے ہیں۔ مگر مزدوروں کی 25,000 روپے تنخواہ نہیں کرواتے جو خود انھوں نے اعلان کر رکھا ہے۔ اب رہا جی ڈی پی میں اضافہ، ایک تو اضافہ ہوا ہی نہیں اور اگر اضافے کی بات مان بھی لی جائے تو اس کے ثمرات نظر نہیں آتے، شاید یہ ثمرات صاحب جائیداد طبقات تک پہنچے ہوں۔
اسٹاک ایکسچینج سے عوام کاکیا لینا دینا؟ وہ تو دال دلیہ کی بات کرتے ہیں دو وقت کی روٹی مل جائے تو بھی غنیمت ہے۔ جہاں تک افراط زر کی بات ہے تو زر یعنی رقم روز بروز زیادہ دے کر سودا لینا پڑتا ہے۔ اس لیے لوگوں کو پتا ہے کہ قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے۔
جس مزدور کی 10000روپے تنخواہ ہے وہ تو بینک کی صورت ہی نہیں دیکھ سکتا ہے، سود کا کیا پتا؟ اور خواتین کو دو دو ہزار یا بیواؤں کو 12,000 روپے دیے گئے تو وہ کتنے دن چلے گا؟ مشکل سے 2/4 دن یا ایک ہفتہ، مگر انھیں تو سارا سال کھانا کھانا پڑتا ہے۔ مائیکرو فنانس پر قرض بھی اتنی قلیل رقم ہے کہ اس سے وہ پرچون کی دکان بھی نہیں کھول سکتا ہے۔
22 کروڑ کی آبادی میں ساڑھے چار کروڑ بے گھر ہیں، اگر ان میں سے 10/20 ہزار یا ایک لاکھ کو بھی مکان بنا کر دیں تو کیا فرق پڑتا ہے اور جو مکان دیے جا رہے ہیں اس کی رقم بھی وصول کی جا رہی ہے خواہ کچھ کم ہی پیسے کیوں نہ لیے جا رہے ہوں۔ اس ملک کا اصل مسئلہ ہے مہنگائی اور بے روزگاری کا۔ شوکت ترین نے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں کمی کرنے کی بات کی ہے وہ بھی 5/10 روپے۔ جب کہ انھوں نے برملا کہا کہ ایندھن کے تیل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔
ہمارے اراکین اسمبلی تو پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں ان کو اپنی تنخواہوں میں اضافے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ انھیں تنخواہ لینے سے ہی انکار کرنا چاہیے۔ صدر صاحب کو یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ہم تمام مزدوروں کے لیے 25,000 روپے تنخواہ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں گے۔
پڑوسی ممالک چین کے علاوہ کسی سے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ سی پیک کے بعد اب تک پاکستان کا تجارتی خسارہ سب سے زیادہ چین کے ساتھ ہوا ہے۔ ہندوستان کو تو دشمن ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ افغانستان سے تو 1947 سے اختلافات چلے آ رہے ہیں۔ ایران سے امریکی حکم کو مانتے ہوئے تجارت اور توانائی کے معاہدے پر عمل بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ 11ستمبر کو بلدیہ ٹاؤن میں شہید ہونے والے 268 مزدوروں کی 9 ویں برسی تھی اور چند روز قبل مہران ٹاؤن کورنگی کراچی میں 17 مزدور جھلس کر شہید ہوئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ صدر صاحب ان مزدور شہدا کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے۔ سیکڑوں خواتین اور لڑکیوں کے اغوا، ریپ اور قتل ہونے والے بچوں کی تعزیت اور ان کے لواحقین کو تسلی دینے کی خاطر اظہار یکجہتی کرتے اور پاکستانی عوام کو یہ یقین دلاتے کہ ہم آیندہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل کے انتقال پر تعزیت کرتے اور بلوچ عوام کی خبر گیری کرتے، وہ یہ بھی اعلان کرسکتے تھے کہ آٹا اور دال کی قیمتوں میں 50 فیصد کی کمی کریں گے، کسی کو بھوکا نہیں مرنے دیں گے۔ اگر اس کے لیے آئی ایم ایف سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے تو کریں گے۔
وہ مشترکہ اجلاس میں ببانگ دہل یہ اعلان کرتے کہ آج ہی سے جاگیرداری کا خاتمہ ہونا چاہیے اور زمین کسانوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ وہ اپنے وزیر اعظم کی تقلید میں یہ اعلان کرتے کہ صحافیوں کے مطالبات پر غور کریں اور ان سے مذاکرات کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم صحافت کی مکمل آزای پر یقین رکھتے ہیں، کسی کے کہنے پر صحافت پر قدغن نہیں لگانی چاہیے۔
اگر وہ اپنی تقریر میں کہتے کہ صحافیوں کی گیلری میں صحافیوں کو آنے سے کیوں روکاگیا ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تو پھر ان کی واہ واہ ہوتی ۔ کچھ صدر ایسے گزرے ہیں کہ وہ حکمران پارٹی کے ہونے کے باوجود اپنی حد تک کوشش کی کہ وہ سب کی نمایندگی کریں جس پر ایوان میں تالیاں بھی پڑیں۔ مگر نیب کے یکطرفہ فیصلے ا ور الیکشن کمیشن پر اعظم ہوتی اور فواد چوہدری کے الزامات نے حکمرانوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
درحقیقت اس نظام میں یہی سب کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ خرابی اس نظام کی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ جب تک طبقاتی نظام رہے گا اس وقت تک یہ دہرا معیار اور بے ضابطگیاں ہوتی رہیں گی۔
انھوں نے دوران تقریر جی ڈی پی میں اضافے، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، افراط زر میں کمی اور قوت خرید میں اضافے، اسٹیٹ بینک کی جانب سے سود میں کمی کے علاوہ خواتین میں دو دو ہزار اور بیواؤں میں 12,000روپے یک مشت دینے، مائیکرو فنانس کے ذریعے آسان قسطوں میں قرض دینا کے موضوعات پر خطاب کیا مگر مہنگائی اور بے روزگاری کا ذکر کرنا بھول گئے۔
قومی اسمبلی کے اراکین تو تین سال میں تین بار اپنی تنخواہیں بڑھوا چکے ہیں۔ تنخواہیں بڑھوانے کے معاملے پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے سب اراکین متفق ہوگئے۔ کوئی اختلاف تھا اور نہ کوئی اعتراض۔ اس نکتے پر سب ایک ہو جاتے ہیں۔ مگر مزدوروں کی 25,000 روپے تنخواہ نہیں کرواتے جو خود انھوں نے اعلان کر رکھا ہے۔ اب رہا جی ڈی پی میں اضافہ، ایک تو اضافہ ہوا ہی نہیں اور اگر اضافے کی بات مان بھی لی جائے تو اس کے ثمرات نظر نہیں آتے، شاید یہ ثمرات صاحب جائیداد طبقات تک پہنچے ہوں۔
اسٹاک ایکسچینج سے عوام کاکیا لینا دینا؟ وہ تو دال دلیہ کی بات کرتے ہیں دو وقت کی روٹی مل جائے تو بھی غنیمت ہے۔ جہاں تک افراط زر کی بات ہے تو زر یعنی رقم روز بروز زیادہ دے کر سودا لینا پڑتا ہے۔ اس لیے لوگوں کو پتا ہے کہ قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے۔
جس مزدور کی 10000روپے تنخواہ ہے وہ تو بینک کی صورت ہی نہیں دیکھ سکتا ہے، سود کا کیا پتا؟ اور خواتین کو دو دو ہزار یا بیواؤں کو 12,000 روپے دیے گئے تو وہ کتنے دن چلے گا؟ مشکل سے 2/4 دن یا ایک ہفتہ، مگر انھیں تو سارا سال کھانا کھانا پڑتا ہے۔ مائیکرو فنانس پر قرض بھی اتنی قلیل رقم ہے کہ اس سے وہ پرچون کی دکان بھی نہیں کھول سکتا ہے۔
22 کروڑ کی آبادی میں ساڑھے چار کروڑ بے گھر ہیں، اگر ان میں سے 10/20 ہزار یا ایک لاکھ کو بھی مکان بنا کر دیں تو کیا فرق پڑتا ہے اور جو مکان دیے جا رہے ہیں اس کی رقم بھی وصول کی جا رہی ہے خواہ کچھ کم ہی پیسے کیوں نہ لیے جا رہے ہوں۔ اس ملک کا اصل مسئلہ ہے مہنگائی اور بے روزگاری کا۔ شوکت ترین نے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں کمی کرنے کی بات کی ہے وہ بھی 5/10 روپے۔ جب کہ انھوں نے برملا کہا کہ ایندھن کے تیل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔
ہمارے اراکین اسمبلی تو پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں ان کو اپنی تنخواہوں میں اضافے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ انھیں تنخواہ لینے سے ہی انکار کرنا چاہیے۔ صدر صاحب کو یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ہم تمام مزدوروں کے لیے 25,000 روپے تنخواہ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں گے۔
پڑوسی ممالک چین کے علاوہ کسی سے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ سی پیک کے بعد اب تک پاکستان کا تجارتی خسارہ سب سے زیادہ چین کے ساتھ ہوا ہے۔ ہندوستان کو تو دشمن ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ افغانستان سے تو 1947 سے اختلافات چلے آ رہے ہیں۔ ایران سے امریکی حکم کو مانتے ہوئے تجارت اور توانائی کے معاہدے پر عمل بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ 11ستمبر کو بلدیہ ٹاؤن میں شہید ہونے والے 268 مزدوروں کی 9 ویں برسی تھی اور چند روز قبل مہران ٹاؤن کورنگی کراچی میں 17 مزدور جھلس کر شہید ہوئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ صدر صاحب ان مزدور شہدا کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے۔ سیکڑوں خواتین اور لڑکیوں کے اغوا، ریپ اور قتل ہونے والے بچوں کی تعزیت اور ان کے لواحقین کو تسلی دینے کی خاطر اظہار یکجہتی کرتے اور پاکستانی عوام کو یہ یقین دلاتے کہ ہم آیندہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل کے انتقال پر تعزیت کرتے اور بلوچ عوام کی خبر گیری کرتے، وہ یہ بھی اعلان کرسکتے تھے کہ آٹا اور دال کی قیمتوں میں 50 فیصد کی کمی کریں گے، کسی کو بھوکا نہیں مرنے دیں گے۔ اگر اس کے لیے آئی ایم ایف سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے تو کریں گے۔
وہ مشترکہ اجلاس میں ببانگ دہل یہ اعلان کرتے کہ آج ہی سے جاگیرداری کا خاتمہ ہونا چاہیے اور زمین کسانوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ وہ اپنے وزیر اعظم کی تقلید میں یہ اعلان کرتے کہ صحافیوں کے مطالبات پر غور کریں اور ان سے مذاکرات کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم صحافت کی مکمل آزای پر یقین رکھتے ہیں، کسی کے کہنے پر صحافت پر قدغن نہیں لگانی چاہیے۔
اگر وہ اپنی تقریر میں کہتے کہ صحافیوں کی گیلری میں صحافیوں کو آنے سے کیوں روکاگیا ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تو پھر ان کی واہ واہ ہوتی ۔ کچھ صدر ایسے گزرے ہیں کہ وہ حکمران پارٹی کے ہونے کے باوجود اپنی حد تک کوشش کی کہ وہ سب کی نمایندگی کریں جس پر ایوان میں تالیاں بھی پڑیں۔ مگر نیب کے یکطرفہ فیصلے ا ور الیکشن کمیشن پر اعظم ہوتی اور فواد چوہدری کے الزامات نے حکمرانوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
درحقیقت اس نظام میں یہی سب کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ خرابی اس نظام کی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ جب تک طبقاتی نظام رہے گا اس وقت تک یہ دہرا معیار اور بے ضابطگیاں ہوتی رہیں گی۔