فروغ تعلیم پہلی ترجیح
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کا شعبہ اس قدر کسمپرسی کا شکار کیوں ہے؟
ہمارے درویش صفت صدر مملکت ممنون حسین نے بین الاقوامی ترقی کی ایک ادارے کے سربراہ رچرڈ منٹگمری کی سربراہی میں برطانیہ سے آئے ہوئے ایک وفد سے ملاقات کے دوران اور باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ کی ہے کہ ''ہماری حکومت کی اولین ترجیح فروغ تعلیم ہے''۔ صدر مملکت نے 2008ء کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس برطانوی ادارے کی طرف سے فراہم کی گئی ایک ارب 17 کروڑ 40 لاکھ پونڈ کی امداد کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ برطانیہ کا ان شعبوں میں تعاون جاری رہے گا۔ رچرڈ منٹگمری نے صدر کو اپنے ادارے کے کردار اور مختلف شعبوں خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں پاکستان کو دی جانے والی امداد سے آگاہ کیا۔
جن ملکوں کی حکومتیں عوام سے مخلص ہوتی ہیں، وہ عوام کی فلاح و بہبود، ان کے مسائل کے حل کے لیے ضرورت کے مطابق مختصر اور طویل مدتی منصوبے بنا کر عوام کے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جن ملکوں کے حکمرانوں کی ساری توجہ قومی دولت کی لوٹ مار پر لگی رہتی ہے انھیں نہ عوامی مسائل سے دلچسپی رہتی ہے، نہ انھیں حل کرنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی منصوبہ بندی سے کوئی سروکار ہوتا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے ایسے ہیں جن کی ترقی کے لیے مختصر اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی گئی نہ کوئی مختصر یا طویل مدتی پلان بنایا گیا۔ جس کا نتیجہ ان دونوں اہم ترین شعبوں کی ابتری کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
تعلیم کسی بھی ملک کی سیاسی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس شعبے کو پچھلے 66 برسوں سے کسی حکومت نے ترقی دینے کی کوشش نہیں کی۔ یعنی خوش کن بیانات پر ہی ٹرخاتے رہے۔ اس منظرنامے میں صدر مملکت کا یہ بیان بلاشبہ خوش کن ہے، جس میں انھوں نے فروغ تعلیم کو حکومت کی اولین ترجیح بتایا ہے، چونکہ ہمارے صدر ایک سنجیدہ اور متین آدمی سمجھے جاتے ہیں، اس لیے ان کی خواہش اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے ان کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے ان ہی کالموں میں فروغ تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور مختلف حلقوں سے دہرے نظام کو ہماری تعلیمی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی کہا جا رہا ہے لیکن ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی تعلیمی شعبے کی ترقی کے لیے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کرتی نظر نہیں آتی۔ ہمارے تعلیمی شعبے کی پسماندگی کی کئی وجوہات ہیں، ان میں دو وجوہات سب سے زیادہ نقصان دہ بنی ہوئی ہیں۔ ایک نصاب تعلیم، دوسرے دہرا نظام تعلیم۔ دنیا پر نظر ڈالی جائے تو کم از کم نصاب تعلیم کے حوالے سے یہ ملک مثبت راستہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ جدید دنیا میں قوموں کی ترقی کے لیے سائنسی علوم کو بنیادی پتھر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم اپنے نصاب تعلیم پر نظر ڈالیں تو انتہائی مایوسی اس لیے ہوتی ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم میں سائنسی علوم کو نہ وہ اہمیت دی گئی جس کی قومی ترقی کے لیے ضرورت ہے، نہ اعلیٰ تعلیم کو سائنسی علوم کی بنیاد پر استوار کیا گیا۔ سائنسی علوم کی ترقی کے لیے تحقیق اور ایجادات دو بنیادی شرائط ہوتی ہیں، ان حوالوں سے اگر ہم اپنے سائنسی علوم کو جائزہ لیں تو ایک سناٹا نظر آتا ہے اور اس کے ہر شعبے میں گرد اڑتی نظر آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کا شعبہ اس قدر کسمپرسی کا شکار کیوں ہے؟ اس کی وجہ یا جواب یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ جس میں سرفہرست وڈیرہ شاہی طبقہ ہے، اسے نہ سائنسی علوم سے کوئی دلچسپی ہے نہ تحقیق کے شعبے کی اہمیت سے وہ واقف ہے۔ اس کے برخلاف صورت حال یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں ہر جگہ گھوسٹ اسکول قائم ہیں، جہاں اسکول وڈیروں کے مویشی خانے بنے ہوئے ہیں اور اساتذہ گھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ وڈیرہ شاہی نظام میں اعلیٰ اور سائنسی تعلیم کو تو چھوڑیے ابتدائی تعلیم کو بھی یہ طبقہ اپنے طبقاتی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دیہی معاشروں سے جڑی ہوئی 60 فیصد آبادی ابتدائی تعلیم سے بھی محروم رہے کیوں کہ تعلیم یافتہ نوجوان کسی قیمت پر بھی اس طبقے کا ہاری یا کسان بننے پر آمادہ نہیں ہو سکتا اور اس کی زرعی حیثیت پر اجارہ داری کے لیے ہاری کسان، بے زبان انسان ضروری ہیں۔
دینی مدرسے ہماری پرانی تعلیمی روایات کا ایک حصہ ہیں اور عموماً ان مدرسوں میں مذہبی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی تا کہ اپنی ابتدائی عمر میں بچے دینی تعلیمات سے آگاہ ہوں، اس تعلیم کا ایک اہم مقصد بچوں میں اخلاقی نظام کو ترویج دینا ہوتا تھا تا کہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اخلاقی پہلو نظروں سے اوجھل نہ رہ جائے لیکن افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد امریکا نے جہاں ہمارے ملک میں مقامی مذہبی قیادت کی سرپرستی میں دینی مدرسوں کو فوجی تربیت کے اکھاڑوں میں بدل دیا، وہیں ان کی تعداد میں اتنا اضافہ کر دیا کہ آج ہمارے ملک میں لگ بھگ 60 ہزار دینی مدرسے موجود ہیں، جن میں کوئی 20 لاکھ سے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں۔ ان مدرسوں میں نہ صرف تعلیم مفت مہیا کی جاتی ہے بلکہ کھانا اور رہائش بھی مفت ہی فراہم ہوتی ہے۔ اس غیر معمولی سہولت سے وہ غریب خاندانوں کے بچے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے ماں باپ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ایک اچھی سہولت ضرور ہے لیکن کیا ان مدرسوں میں زیر تعلیم طلبا جدید علوم سے آراستہ ہوتے ہیں، جو کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے؟
ہمارے یہاں جو نظام تعلیم 66 سال سے رائج ہے اسے ہم دہرے نظام تعلیم کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ اس نظام میں کم آمدنی والے غرباء کے لیے سرکاری اسکول ہیں، جن کا نصاب تعلیم دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ ان اسکولوں کے اساتذہ بھی بس واجبی سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور اسکولوں میں اپنا زیادہ وقت ''غیر نصابی'' سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں، ان اسکولوں کا حال بھی دیہی علاقوں کے اسکولوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت وہ ہوتی ہے جن کے ماں باپ بچوں کو گلی محلوں کی بداخلاقی اور جرائم سے بچانے کے لیے ان اسکولوں میں بھیجتے ہیں لیکن جہاں پڑھنے والے بچے ان بیماریوں سے بچنے کے بجائے ان میں زیادہ مبتلا دیکھے جاتے ہیں ان اسکولوں کے نصاب تعلیم پر گفتگو اس لیے بیکار ہے کہ جب کوئی نصاب پڑھایا ہی نہیں جاتا تو اس کے اچھے برے ہونے پر بات کرنا بے سود ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کا دوسرا حصہ وہ کاروباری انگلش میڈیم اسکول ہیں جو اب ایک انتہائی منافع بخش کاٹج انڈسٹری میں بدل گئے ہیں یہاں عموماً لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے زیر تعلیم رہتے ہیں اور گرتے پڑتے ہائر ایجوکیشن یعنی سیکنڈری لیول سے ہائر سیکنڈری تعلیم تک پہنچ جاتے ہیں۔ تیسرا حصہ ان مہنگے ترین جدید علوم سے آراستہ اسکولوں کا ہے جہاں یا تو کرپٹ مڈل کلاس کے بچے پڑھتے ہیں یا پھر ایلیٹ کی اولاد پڑھتی ہے اور حصول تعلیم کے بعد اس کا مقصد سول بیوروکریسی کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ اس سونے پر سہاگہ یہ کہ تعلیمی اداروں میں حصول علم کے مقابلے کے بجائے تعلیمی اداروں پر قبضوں کا کلچر اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ تعلیم کا تصور ہی مفقود ہو گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں دہرے نظام تعلیم کو ختم کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں، نہیں معلوم کہ عمران خان دہرے نظام تعلیم کے خاتمے کے ساتھ اس صوبے کے تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم میں عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں یا نہیں، لیکن یہ بہرحال ایک مثبت کوشش ہے۔ صدر محترم اگر اپنے وزیر اعظم کو اس بات کے لیے قائل کریں کہ تعلیم کا فروغ محض بیانات سے نہیں بلکہ مختصر اور طویل جامع منصوبہ بندی ہی سے ممکن ہے تو ان کی یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔