ماورائے قانون گرفتاریاں
میڈیا کے توسط سے کسی بھی علاقے میں پولیس مقابلوں کی براہ راست رپورٹنگ ڈھکی چھپی بات نہیں
DUBAI:
ڈسٹرکٹ سیشن کورٹس کی جانب سے 70 پولیس اہلکاروں کے وارنٹ گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے۔ قابل ذکر یہ وارنٹس ان مقدمات پر جاری کیے گئے جس میں پولیس نے اپنی کارکردگیوں میں درجنوں بے گناہ شہریوں کو جعلی پولیس مقابلے کے الزام میں ایف آر درج کرکے جیل میں قید کروایا۔ پولیس افسران کے نزدیک ترقیاں حاصل کرنے کا سب سے تیز تر بہدف نسخہ رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ پولیس افسران جعلی پولیس مقابلوں میں مقدمات قائم کرنے کے بعد عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔
گزشتہ دنوں ''پولیس مقابلے: چشم کشا حقائق '' کے نام سے کالم لکھا تھا، کالم کی اشاعت کے بعد متعدد قیدیوں نے رابطے کیے اور پولیس کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کیا۔ کالم میں چند قیدیوں کے احوال قلم بند کیے تھے۔ حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں پر معزز عدالت کے جج صاحبان نے ایکشن لیے اور راقم کی اپیل کی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔
خاص کر کراچی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ویسٹ عبدالنعیم میمن نے زیر سماعت مقدمے میں دو ایسے ملزمان رہا کیے جنھیں پولیس نے رینجرز کی جانب سے گرفتار ی دیے جانے کے بعد عدالت کے سامنے پیش کیا۔ معزز جج نے سختی سے پوچھ گچھ کی تو پولیس افسر عدالت کو مطمئن نہ کرسکا۔ تفتیشی آفیسر نے تسلیم کیا کہ وہ اس مقابلے سے ناواقف ہے۔ راقم اپنے کالم میں عدالتوں سے استدعا کرچکا تھا کہ جج صاحبان جب محسوس کریں کہ جعلی پولیس مقابلے کا مقدمہ جھوٹا ہے تو ایسے ملزمان کو رہا کردیا کریں تاکہ بے گناہ شہری جیل کی صعوبتوں سے بچ سکے۔
سب سے اہم پیش رفت اسسٹنٹ سیشن جج ایاز مصطفی جوکھیو نے کی۔ جس میں انھوں نے زیر سماعت 50 سے زائد شہریوں پر پولیس مقابلے کے الزام کے تحت پبلک پراسیکیوٹر سے جواب طلب کیا اور مقدمات چلانے کا حکم دیا۔ لیکن سرکاری وکیل نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ پولیس افسران نے پولیس فائنل، کیس پراپرٹی، کریمنل ایگزیمز رپورٹ، ایف ایس ایل رپورٹ، فائنل ایم ایل رپورٹ، پولیس پارٹی کی تھانے سے روانگی اور واپسی روزنامچے کی انٹری فراہم نہیں کی، جس کی وجہ سے شواہد کی عدم دستیابی پر ملزمان کے خلاف مقدمات چلانے سے قاصر ہیں۔
پبلک پراسیکیوٹر نے عدالت سے ایسے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی استدعا کی جس پر عدالت نے 70 سے زائد افسران کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر اگلی سماعت پر شواہد پیش نہ کیے گئے تو ملزمان کو رہا کردیا جائے گا۔ یہ ملزمان دو سے تین سال تک جیل میں قید ہیں اور پولیس افسران کی عدم دلچسپی کے باعث مقدمات نے طوالت اختیار کرلی تھی۔ ان پولیس افسران کی نااہلی کی بنا پر جہاں عدالتوں میں کریمنل مقدمات کے بوجھ بڑھ گئے تو دوسری جانب پبلک پراسیکیوٹرز کو بھی عدالت کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے اہم نقطہ یہی ہے کہ ان عوامل میں سب سے زیادہ نقصان اس قیدی کا ہوتا ہے جو برسوں سے جیل میں قید اپنی ضمانت اور رہائی کے حوالے سے پولیس اور عدالتوں کے محتاج بن کر رہ جاتے ہیں۔
پولیس کی جانب سے ٹارگٹڈ آپریشن کے درمیان ساڑھے تین سو سے زائد پولیس مقابلے ظاہر کیے گئے جس میں 79 ملزمان کی ہلاکت ظاہر کی گئی ہے۔
پولیس مقابلے کے دوران ملزمان کی ہلاکت کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام خود پولیس مقابلوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلشن اقبال میں منی بس F-11 میں ڈاکوؤں کی لوٹ مار کے دوران پولیس مقابلے میں ڈاکو کی ہلاکت کے بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات کی جانب سے پولیس اسٹیشن کا دورہ اور پولیس پارٹی کو نقد انعامات، ظاہر کرتے ہیں کہ پولیس مقابلہ کس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
میڈیا کے توسط سے کسی بھی علاقے میں پولیس مقابلوں کی براہ راست رپورٹنگ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن ٹارگٹڈ آپریشن میں جتنی تعداد ظاہر کی گئی اور 90 دنوں میں 79 ملزمان کی ہلاکت بذات خود ایک بڑی خبر ہے کہ میڈیا اتنی بڑی تعداد سے یا تو بے خبر رہا یا پھر میڈیا کے نزدیک پولیس مقابلہ اہمیت نہیں رکھتا۔ تاہم لیاری میں پولیس مقابلوں کی حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ سیکڑوں کی تعداد میں پولیس اہلکار میڈیا کو فائرنگ کرتے دکھائی تو دیتے ہیں لیکن علاقے میں داخلے سے محروم رہتے ہیں۔
اصل اور اہم بات یہ ہے کہ کیا پولیس میں اتنی استعداد موجود ہے کہ تربیت یافتہ جرائم پیشہ عناصر سے مڈبھیڑ کی صورت میں مقابلہ کرسکے؟ یقینی طور پر پولیس کے محکمے میں ایمانداری اور جرأت سے کام کرنے والے اہلکاروں کی کمی نہیں ہے لیکن حقائق یہی ہیں کہ پولیس نے جب جب مقابلہ کیا ہے تو یہ تمام مقابلے مشکوک پائے گئے ہیں۔ پولیس نے بعض افسران کی جانب سے ملزمان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ بعض افسران نے ماورائے عدالت ان کا قتل کیا اور میڈیا نے محسوس کیا کہ ان مقابلوں میں سقم موجود ہے۔ اس لیے کبھی بھی میڈیا کی رپورٹنگ دیکھیں تو ان کی خبر میں یہ ضرور لکھا جاتاہے کہ ''پولیس کا دعویٰ'' ٹارگٹڈ آپریشن میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات انتہائی کم ہیں اور 1992، 1995 کے آپریشن کے برعکس ایسے زیادہ واقعات منظر عام پر نہیں آئے ہیں کہ کسی ملزم کو آپریشن کے دوران پکڑ کر ماضی کی طرح ہلاک کردیا گیا ہو۔
گو کہ چیدہ چیدہ واقعات ضرور ہوئے ہیں لیکن دس ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کے مقابلے میں جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاکت کے واقعات نہ ہونے کا سبب یہ نہیں ہے کہ عدالتوں نے اس کا نوٹس لیا ہے بلکہ اس کا واحد سبب میڈیا کی جانب سے واقعات کی فی الفور رپورٹنگ ہے، جو واقعے کے پرمنٹ کے بعد براہ راست نشر کردی جاتی ہے، جس سے پولیس خوف زدہ رہتی ہے، تاہم جعلی پولیس مقابلوں میں بڑی تعداد میں گرفتاریاں ضرور جاری ہیں۔ اہل اور ایماندار پولیس افسران اور اہلکاروں کی قربانیوں کی مثال قابل تسلیم اور سلام ہے لیکن ایسے جرأت مند اور قابل افسران کی تعداد بہت کم ہے کیوںکہ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جو ایماندار پولیس افسر ہوگا وہ رشوت نہیں لے گا اور جرائم کی بیخ کنی ضرور کرے گا۔ لہٰذا تھانے جو روپے کمانے کی اہم صنعتیں ہیں وہاں ایماندار اور قابل افسران کی تعیناتی، رشوت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اگر پولیس افسر ایماندار ہوگا تو وہ رشوت نہ لے گا اور نہ دے گا۔ اس لیے اس محکمے کی بھیڑ چال کے مطابق تھانوں میں تعینات قابل اور ایماندار پولیس افسران کی تعداد انتہائی کم ہے۔
عدالتیں اگر ماورائے قانون گرفتاریوں پر سخت رویہ اختیار کرلیں تو پھر ممکن ہے کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور تھوڑے فائدے کے لیے بے گناہ شہریوں کو مشق ستم بنانے کی روش ختم ہوسکے۔