کوئی پوچھنے والا نہیں
جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، ایک مثبت اور ایک منفی، اسی طرح اجارہ داری بھی بذات خود کوئی بری یا غلط شے نہیں
ISLAMABAD:
ایک حکمران کو اپنے لیے خوب صورت اور پرآسائش محل بنانے کا خیال سوجھا۔ اس نے اپنی سلطنت کے بیس چوٹی کے معماروں سے اپنے مطلوبہ محل کی ''کوٹیشن'' طلب کیں، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنی نیابت کرنے والے معمار کا نام بھی تحریر کریں۔ بیس عدد معماروں نے محل کی تفصیلات اور اخراجات کی فہرست بادشاہ کے حضور پیش کردیں۔ حیرت انگیز طور پر بیس میں سے اٹھارہ معماروں (آرکیٹکٹس) نے اپنے نائب کے طور پر ایک ہی معمار کا نام لکھا کہ وہ خود کو اسسٹ کرنے کے لیے اسی معمار پر بھروسہ کریں گے۔ حکمران ذہین اور مردم شناس تھا۔ اس نے بیس کے بیس نام مسترد کرکے محل کی تعمیر کا ٹھیکہ اسی نائب معمار کو سونپ دیا، جس کا نام 18 معماروں نے اپنے معاون کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ کہلاتی ہے دنیا کی سب سے بہترین اور حکمت سے بھرپور اجارہ داری۔ اس اجارہ داری کی بنیادیں اپنے کام سے لگن، پیشہ ورانہ مہارت، اخلاص، محنت اور ایمانداری کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہیں اور یہ اجارہ داری اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کوئی دوسرا آپ سے بہتر پرفارمنس کا مظاہرہ نہیں کرتا یا پھر آپ خود اپنے پیشے یا کام سے مخلص نہیں رہتے۔
جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، ایک مثبت اور ایک منفی، اسی طرح اجارہ داری بھی بذات خود کوئی بری یا غلط شے نہیں، صرف اس اجارہ داری کو حاصل کرنے کا طریقہ کار صحیح یا غلط ہوسکتا ہے۔ کاروبار میں اجارہ داری قانونی طریقے سے خریدی بھی جاتی ہے، مثلاً کوئی ڈسٹری بیوٹر کسی کمپنی کی بنی ہوئی پروڈکٹ کسی مخصوص علاقے میں فروخت کرنے کا معاہدہ کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتا ہے کہ کمپنی کی تیار کردہ تمام کی تمام مصنوعات صرف وہی کمپنی سے خرید کر آگے فروخت کرے، یہ مصنوعات اس کی کمپنی کسی دوسری خریدار پارٹی کو فروخت نہ کرے۔ یہ حقوق حاصل کرنے کے لیے وہ ڈسٹری بیوٹر اس کی اجارہ داری الگ سے خریدنے کا معاہدہ کرتا ہے اور دونوں فریق اس معاہدے کے تحت اس بات کے پابند ہوجاتے ہیں۔
یہ تو ہوا قانونی طریقے سے اجارہ داری حاصل کرنے کا صحیح اور قانونی طریقہ، لیکن ہم نے جس اجارہ داری کو موضوع بحث بنایا ہے وہ سراسر دھونس، دھاندلی، بدمعاشی اور بلیک میلنگ کی بنیاد پر مختلف گروہ یا افراد نے اس ملک میں حاصل کی ہوئی ہیں۔ انھیں آپ مافیا کہہ لیں، کارٹل یا طاقت کا بے رحمانہ استعمال، ان سب کا نتیجہ صرف یہی نکلتا ہے کہ کروڑوں عوام کی جیبوں پر چند افراد دن دہاڑے ڈاکا ڈال کر اربوں روپے اپنی تجوریوں میں بھر لیتے ہیں اور عوام بے بس نظر آتے ہیں۔ قانون ایک کونے میں منہ چھپائے کھڑا رہتا ہے۔ لٹنے والے سب کچھ جانتے ہوئے بھی مسلسل لٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کے یہ اجارہ دار، مافیاز اور کارٹلز بڑے دھڑلے کے ساتھ بلاخوف اپنے اس کالے دھن میں اضافہ کرکے ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور لٹنے والوں کی زبان پر صرف یہی ایک جملہ مچلتا سنائی دیتا ہے کہ ''کوئی پوچھنے والا نہیں ہے''۔
مافیا کے بارے میں دنیا کو اس وقت آگاہی حاصل ہوئی اور اس کی طاقت کا اندازہ ہوا جب اٹلی کے معروف شہر سسلی میں عوام اور میڈیا کو اس کے وجود سے آگاہی حاصل ہوئی۔ مافیاز دراصل اس متوازی حکومت کے نظام کو کہا جاتا ہے، جس کی بنیاد خوف پر رکھی جاتی ہے اور ٹیکس کلیکشن جو کہ حکومت کا حق ہوتا ہے یہ مافیا اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ مافیا کا سربراہ یا ڈان ریاست کا کوئی معزز اور بااثر دولت مند شخص ہوتا تھا، اس کے کارندے ہر قسم کے غیر قانونی دھندوں کو چلا رہے ہوتے تھے، جس میں قتل و غارت گری جیسے سنگین جرائم بھی شامل ہوتے تھے۔ جس وقت مافیا کے کارندے کسی سنگین جرم کا ارتکاب کرتے، ٹھیک اسی وقت مافیا کا ڈان ایک ایسی پارٹی میں پولیس کے سربراہ کے ساتھ موجود ہوتا جس میں شہر کے چند گنے چنے معززین بھی موجود ہوتے۔ جائے واردات سے عدم موجودگی کے اتنے معزز گواہان کی موجودگی میں ڈان پر صرف الزام ہی لگ سکتا ہے کہ فلاں قتل کے پیچھے ڈان کا ہاتھ ہے لیکن اسے ثابت کرنا اور ڈان کو اس کے جرم کی سزا دینا ناممکن ہوتا ہے۔ پھر یہ مافیاز ریاست کے طاقتور عہدے داران کو لالچ، رشوت اور دولت کی ترغیب دے کر یا پھر ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر اپنے ساتھ ملالیا کرتے اور ایک ایسی متوازی حکومت کا نظام وجود میں آجاتا جو ''صاف چھپتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں''۔
ہمارے ملک میں کاروبار، خدمات کے شعبہ جات، سماجی بہبود کے نیٹ ورک سمیت بنیادی سہولتوں کی فراہمی، سرکاری ملازمین اور انتہا یہ کہ سیاست اور امور ریاست چلانے کے معاملات پر بھی انھی مختلف مافیاز اور کارٹلز کی آہنی گرفت قائم ہے۔ ان کے چہرے نظر نہیں آتے لیکن ان کی موجودگی کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے مثلاً کراچی شہر کے سب سے بڑے اور قدیم کاروباری مرکز صدر کے تمام بازاروں اور مارکیٹوں میں سڑکوں کے کناروں پر تعمیر کیے گئے فٹ پاتھ، جن پر پیدل چلنے والوں کا حق عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ایک مخصوص مافیا قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ پیدل چلنے والے سڑک پر چلنے کے لیے مجبور ہیں اور فٹ پاتھوں پر پتھاروں کی شکل میں دکانیں قائم ہیں، جس کا کرایہ یومیہ بنیاد پر وصول کیا جاتا ہے اور یہ کرایہ کروڑوں روپے کی شکل میں اس طاقتور مافیا کی جیبوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اس مافیا کو آج تک کوئی توڑ نہیں سکا ہے۔ جس نے بھی ایسی کوئی کوشش کی وہ خود ٹوٹ گیا، لیکن یہ مافیا آج بھی موجود ہے۔ یہ صرف صدر کی مارکیٹ کا حال نہیں پورے شہر کے تمام بازار اور وہاں پر تعمیر کردہ تمام فٹ پاتھ اسی کام کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔
اسی طرح پانی کے ٹینکرز کی مافیا ہے۔ یہ اتنی طاقتور ہے کہ اسے ہاتھ لگانے والے وزرا تک اپنی وزارتوںسے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لیکن اس مافیا کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا معاملہ ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ کے معاملات، یہ سب کے سب مسائل گزشتہ پچاس برسوں سے ایسے ہی کھڑے ہیں جیسے کہ پہلے روز تھے۔ پورے ملک کی چھیاسی شوگر ملز کے مالکان کی اکثریت پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں چینی کی فی کلو قیمت راتوں رات 28 روپے سے چھلانگ لگا کر 72 روپے پر پہنچ گئی۔ اس وقت کے چیئر مین نیب جنرل جمشید کیانی نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی لیکن اگلے ہی دن انھیں روک دیا گیا۔ چیئرمین نیب کو اس معاملے کی تحقیقات سے روکنے کا حکم آخر کون دے سکتا تھا؟ ظاہر ہے خود صدر مملکت۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ راتوں رات اربوں روپے کمانے والی اس کارٹل کو کتنی طاقت حاصل تھی اور اب بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں زندگی کے ہر چھوٹے بڑے شعبے میں یہ مافیاز اتنا عمل دخل کیوں رکھتی ہیں؟ جو کہ دوسرے معاشروں میں کم پایا جاتا ہے۔ کرپشن کے یہ سوتے ہمارے معاشرے میں کیوں اتنے زیادہ پھوٹتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے؟ کسی مسئلے پر تنقید کی جائے، مرض دریافت کیا جائے اور پھر اس کا علاج نہ تجویز کیا جائے تو ایسی تنقید سے فائدہ؟ اگلی نشست میں ہم اس کی وجوہات کا جائزہ لیں گے، فی الحال تو یہی صورت ہے کہ ''کوئی پوچھنے والا نہیں''۔