جلتے بجھتے چراغ
شرمندگی اب تو ہر مقام پر ہمارا تعاقب کرنے لگی ہے۔ چلو بھر پانی ڈھونڈ رہے ہیں مگر پانی نہیں ملتا،
''وہ دیکھو مرغا پھنس گیا'' دوران سفر میری دوست نے کہا اور میں چونک گئی ''سڑک کے موڑ پر مرغا کہاں سے آگیا'' میں نے حیران ہوکر پوچھا ''وہ سامنے دیکھو'' اس نے جواب دیا۔ میرے سامنے دو پولیس کانسٹیبل ایک اسکوٹر کو روکے کھڑے ہوئے تھے۔ بات چیت جاری تھی، اب میری سمجھ میں اپنی دوست کی بات آرہی تھی، وہ اکثر ایسی ہی باتیں کرتی ہے۔ اگر بات سمجھ میں آگئی تو درست ورنہ وہ افسردہ ہوجاتی ہے کہ اس کی بات ضایع گئی۔ میں اکثر سمجھاتی ہوں کہ لوگوں کی تو عمر رائیگاں چلی جاتی ہے اور تم اپنے ایک فقرے کی ناقدری پر افسردہ ہوگئیں۔ خیر معلوم نہیں کیوں اکثر ہماری باتوں میں غیر متعلقہ اضافی باتیں آجاتی ہیں، عادت سی ہوگئی ہے۔
ابھی سفر جاری تھا کہ سڑک کے درمیان ایک عدد چپل پڑی ہوئی نظر آئی اگر پوری جوڑی ہوتی تو کسی کے کام آجاتی مگر کسی نے بطور امداد برائے ننگے پاؤں قصداً تو پھینکی نہ تھی کہ پوری جوڑی بیچ سڑک پھینکتا۔ ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی، آگے ویگن جارہی تھی، اکلوتی۔ جی ہاں اکلوتی ویگن کیوںکہ اسی دن سی این جی کی بندش تھی اور مسافر ویگن کے دروازے کھڑکی اور چھت میں اس طرح چمٹے ہوئے تھے جیسے شہد پر مکھیاں۔ اب ہم انسان کو مکھی کہہ کر انسان کی توہین تو کر نہیں سکتے۔ حالانکہ یہ بیچارہ انسان توہین کے عمل سے روز کئی مرتبہ گزرتا ہے۔ دیر سے دفتر پہنچنے پر توہین، پیر میں ایک جوتی پر توہین، شکن آلود کپڑوں پر توہین، غرض توہین کے بہت سے جواز اس کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ مگر آفرین ہے ہماری قوم پر ماتھے پر شکن تک نہیں آتی، ویگن کی چھت پر ہنستے مسکراتے ہوئے نظارہ عام کرتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ گویا ''حوادث سے الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے۔''
مسکرا تو ہم بھی رہے تھے قوانین پر۔ بغیر نمبر پلیٹ گاڑی گزر گئی، ڈبل سواری پر پابندی کے باوجود ڈبل سواری گزر گئی۔ اماں سچ کہتی ہیں کر تو کر، نہیں تو خدا کے غضب سے ڈر۔ بس جو کمزور ہاتھ لگ جائے، بھائی چائے پانی بھی تو انسانی ضرورت میں شامل ہے۔ ویسے بھی موٹی گردن کو دبانا مشکل ہوتا ہے۔ کمزور گردن آسانی سے قبضے میں آجاتی ہے۔
میں نے ابھی ذکر کیا تھا کہ موضوع سے ہٹ کر اکثر باتیں ذہن میں آنے لگتی ہیں مثلاً یہی کہ مسافروں کے لیے ٹریفک کی سہولت فراہم کرنا، صاف ستھری ہموار سڑکیں، لائٹ و سگنل کا مناسب انتظام، صفائی ستھرائی حادثات کی صورت میں فوری طبی امداد، بہت سے دیگر سہولتیں جو ملنی چاہیے، کس کی ذمے داری ہیں؟ میں نے بھی عجیب احمقانہ سوال کیا ہے۔ ہم تو اپنی ذمے داریوں کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈال دیتے ہیں ۔ اصل ذمے دار کا تعین کون کرسکتا ہے۔ اگر ہو بھی جائے تو بھی کون اپنی ذمے داری کو تسلیم کرے گا۔ سب ایک دوسرے سے الجھتے رہیںگے۔ ایک دوسرے پر ملبہ ڈالتے رہیںگے اور اسی ملبے تلے ہماری سانسیں رکتی رہیں گی۔
کیا ہمیں خوشگوار اور پر سکون ماحول میں زندہ رہنے کا حق نہیں؟ ہائے کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ان ممالک کے لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں اور ٹیکس کی بدولت مکمل فیضیاب ہوتے ہیں۔ ہماری قسمت میں سہولت کہاں۔ ہماری قسمت میں تو کھلے مین ہول، بہتے گٹر، خشک نلکے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، آثار قدیمہ کی بسیں، آنکھ مچولی کھیلتی بجلی اور ٹھنڈے چولہے ہیں۔ اسپتالوں اور دیگر اداروں کا تو ذکر ہی کیا۔ ڈگریوں کی طرح دوائیں بھی نقلی ہوتی جارہی ہیں۔ رہا سوال نقل کا تو صاحب اب یہ رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ دادی مرحومہ کہتی تھیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔ کوے کی چال اب سمجھ میں آئی۔ چال کا کیا ہے، یہاں تو ایسی چالیں چلی جاتی ہیں کہ زمانہ ہل جائے۔ خیر جب اپنی ہی چال درست نہ ہو تو دوسروں کو کیا کہیں۔ اپنا اپنا چلنے کا انداز ہے، کوئی کچھوے کی چال چلتا ہے اور کوئی خرگوش کی۔ مگر ہم تو لگتا ہے کہ ایک ہی جگہ جم گئے ہیں۔ ہمارے ساتھ کے لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم ٹھہرے لکیر کے فقیر۔ آپ کو مجھ سے یقیناً اختلاف ہوگا۔ جی ہاں درست ہے، ہم چلے ضرور ہیں مگر آگے کی جانب نہیں بلکہ پچھلی جانب۔ ہم پیچھے کی طرف چل نہیں رہے ہیں بلکہ دوڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو سانس بھی پھولنے لگتی ہے۔ پھولنے سے یاد آیا کہ ہم خوشی سے پھول جاتے ہیں کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ لیکن ساری ہوا ایک دم ہی غبارے سے نکل جاتی ہے یہ سوچ کر کہ ہم اپنے عمل کی بدولت کس قدر کمزور ہیں۔
شرمندگی اب تو ہر مقام پر ہمارا تعاقب کرنے لگی ہے۔ چلو بھر پانی ڈھونڈ رہے ہیں مگر پانی نہیں ملتا، اگر ملتا بھی ہے تو شفاف نہیں۔ مضر صحت۔ مگر ہماری صحت کا کسی کو کیا خیال، ڈاکٹر کی دکان کیسے چمکے گی۔ آخر ان کے روزگار کا بھی تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اچھی بات ہے ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ بھائی چارے سے ہی امن قائم ہوتا ہے مگر اب تو امن کے لیے بھی جنگ ضروری ہوگئی ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ امن محبت سے قائم ہوتا ہے۔ ہائے ''محبت''... ڈھونڈو اسے اب چراغ رخ زیبا لے کر۔ محبت کی جگہ مصلحت نے لے لی ہے۔ اگر ضرورت اور محبت میں رشتہ اٹوٹ ہوجائے تو پھر محبت بے چاری تو فوراً ہی دم توڑ دیتی ہے۔
دم توڑنے پر یاد آیا کہ پڑوسی کے ایک صاحب نے اپنے سے اوپر والے فلیٹ کے مالک کی غصہ میں ہڈی پسلی توڑدی۔ صرف اتنی سی بات پر کہ وہ روزانہ اپنے گھر کے کچرے کی تھیلی ان کے دروازے پر رکھ دیتے تھے۔ ایک دن رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ بس نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، برس پڑے صاحب فلیٹ بن برسات۔ پھر منڈھے ہوئے سر پر ایسے اولے پڑے کہ بھاگتے ہی بنی۔ پٹیاں باندھے بستر پر دراز ہیں۔ ایک طرف درگزر کرنے کا عمل و قوت برداشت ختم، دوسری طرف اخلاقی تقاضے غلط کام چھوٹے ہوں یا بڑے، غلط تو غلط ہے اور غلط کو صحیح قرار دینا بھی غلط ہے۔
لیکن صاحب سنتا کون ہے۔ سب تو اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ صحیح غلط کے فیصلوں کا وقت کس کو ہے۔ زندگی بہت مصروف ہوگئی ہے، خود ساختہ مصروفیات اور عیش و عشرت کی ہوس، سب کچھ بدل گیا۔ ماحول اقدار، وحشت و بے سکونی نے ڈیرے ڈال دیے۔ پہلے تو سنا ہے کہ ڈیرے عارضی ڈالے جاتے تھے مگر اب تو مکمل منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ آئی ہوئی بلائیں ٹلنے کا نام نہیں لیتی ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ انھیں ہماری مٹی راس آگئی ہے۔
مٹی، زمین، ماں، خوشبو، سب میں کتنی کشش ہے۔ کاش ہم اس کشش اور حسن کی قدر کرسکتے مگر ہم تو صرف مٹی پاؤ اور مٹی ڈالو کے مصداق محو سفر ہیں۔ اسی مٹی میں کتنے خزانے دفن ہیں، اس مٹی سے ہم نے جنم لیا ہے، اس مٹی میں ہی آخری لمحہ ہمیں جانا ہے۔ پھر بھی مٹی کی کوئی قدر نہیں۔ قدر تو ہمیں زندگی کی بھی نہیں، جلتے ہوئے چراغ آندھیوں اور طوفانوں کی زد میں ہیں۔ خدا جانے کب بجھ جائیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بقول شاعر ''گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔'' ایک ایک کرکے گھر کے چراغ بجھ رہے ہیں اور ہم سوائے اظہار افسوس اور آہنی ہاتھوں کے بیان کے کچھ نہیں کرپاتے۔ پہلے لوگ تحقیقات کرتے تھے۔ تحقیق مکمل ہونے کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری لیتے تھے اب تحقیقات کی نوعیت مختلف ہے۔ تحقیقات ہوتی ہیں ، کرائی بھی جاتی ہیں لیکن رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ ہاں منظر عام پر کچھ ایسے مناظر ضرور آتے ہیں کہ گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔ ہم نے تو خوف سے آنکھیں بند کرلی ہیں، سب لوگوں کی طرح آنکھیں کھولتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ کیا آپ کو بھی ڈر لگتا ہے؟ چلیں آپ بھی شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن خطرے کا کیا ہوگا کیا ٹل جائے گا۔ یا پھر یوں ہی ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔