موئن جو دڑو میں فیسٹیول

کہتے ہیں کہ قومیں اپنی تاریخ سے پہچانی جاتی ہیں ، اگر واقعی ایسا ہے تو اس حوالے سے ہم بہت امیر ہیں

کہتے ہیں کہ قومیں اپنی تاریخ سے پہچانی جاتی ہیں ، اگر واقعی ایسا ہے تو اس حوالے سے ہم بہت امیر ہیں کیونکہ دنیا میں پانچ ہزار سال قبل از مسیح میں تہذیب کی بنیادیں اگر کہیں سے ملتی ہیں تو وہ یہاں کی سرزمین ہے۔ 1922 میں کراچی سے چار سو کلومیٹر دور سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں قبل از مسیح کا جدید شہر موئن جو دڑو دریافت ہوا۔ اس شہر کی پلاننگ اور ساخت نے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا۔ ایک ایسا شہر جہاں کی صفائی ستھرائی کا نظام، سڑکوں کا نظام، گھروں کی خاص بناوٹ، یونیورسٹی، برتن سازی کی صنعت، تجارت کا نظام، نکاسی آب کا نظام ... سب اپنی مثال آپ تھا۔ پچیس سو ایکڑ پر پھیلے موئنجو دڑو کے آثار سے ملنے والی دھاتی اشیاء کی وجہ سے ماہرین نے اسے برونز ایج کا بھی نام دیا۔ اس شہر کی تعمیر میں سب سے خاص بات جو اسے دوسری ہم عصر تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا ڈرینج سسٹم، یعنی نکاسی آب کا نظام اور سڑکیں ہیں۔ گھروں سے نکلنے والا پانی چھوٹی نالیوں سے ہوتا ہوا گلی کی بڑی لائن میں آتا ہے اور پھر گلیوں سے نکلنے والی بڑی نالیاں مین اسٹریٹ پر بنائی گئی قدرے بڑی ڈرین سے ہوتا ہوا ویسٹیج ایریا میں جا گرتا ہے۔ اس دور میں صفائی ستھرائی اور صحت کے بارے میں شعور کی واضح نشانی ان نالیوں کا کورڈ یعنی ڈھکا ہونا ہے۔ اسی طرح گھروں کی بے پردگی نہ ہو، ہر گھر کا دروازہ نوے ڈگری کے اینگل پر ایک مختصر گلی میں کھلتا ہے اور پھر گلیاں جن کے راستے ایک کشادہ سڑک پر کھلتے ہیں۔

پہلی بار دنیا میں گریٹ باتھ کا تصور بھی یہاں سے ہی دریافت ہوا۔ پکی ہوئی اینٹوں سے بنے اس گریٹ باتھ کے لیے ماہرین کا قیاس ہے کہ یہاں کے عوام نہانے دھونے اور صفائی ستھرائی کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ یہ عنصر اس دور کی کسی تہذیب میں نہیں ملتا۔ دو حصوں میں بٹے اس شہر میں کوئی بھی تعمیر ایسی نہیں ملی جو یہاں کسی بادشاہ، ملکہ یا کسی اور حکمران کا پتہ دیتی ہو۔ یہاں سے ملنے والے نوادرات سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں اس شہر کی بہت اہم تجارتی ساکھ تھی اور ذرایع آمدورفت کے لیے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ خشک راستے بھی استعمال میں تھے۔ ان کا مذہب کیا تھا؟ اس سلسلے میں بھی آج تک قیاس آرائیاں ہیں، کو ئی واضح ثبوت نہیں ملا۔ ایک چھوٹا سا مجسمہ ملا ہے جسے کچھ نے کنگ پریسٹ کا نام دیا، مگر اس مجسمے کی اس تہذیب میں کیا اہمیت تھی؟ اس سلسلے میں کوئی حتمی بات آج تک سامنے نہیں آسکی۔ تھرڈ ملینیم بی، سی میں دریائے سندھ کے سنگم پر واقع یہ عالیشان تہذیب کیسے زوال پذیر ہوئی اس سلسلے میں آج تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی۔


ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ مزید کھدائی سے نئے انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ لیکن مزید کھدائی کی باتیں بہت بعد کی ہیں مسئلہ تو دریافت شدہ قیمتی سرمائے کو محفوظ رکھنے کا ہے۔ مختلف ادوار میں یونیسکو اور دیگر اداروں کی فنڈنگ سے ہونے والی کھدائیوں کے بعد قیمتی نوادرات باہر کے ملکوں میں بھجوائے جاتے رہے، کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ قومی خزانے کو لوٹنے کا عمل مقامی سطح پر آج بھی جاری ہے، میوزیم سے نوادرات غائب ہورہے ہیں، تو مقامی افراد یہاں کے اسٹرکچر سے پکی اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر اپنے گھروں میں لگا رہے ہیں۔ انھیں بھی کوئی روکنے والا نہیں۔ اور اب ... جی ہاں سرزمین سندھ کے ہونہار فرزند کو کسی مخلص نے یہ مشورہ دے دیا ہے کہ سندھ فیسٹیول کا مزہ دوبالا ہوجائے اگر اسے موئنجو دڑو کے آثار پر منایا جائے۔ اور ظاہر ہے... وطن سے دور پرورش پانے والے سندھ دھرتی کے ہونہار سپوت کے نزدیک یہ قیمتی مشورہ ہے۔ کیونکہ اس سے ایک انتہائی قیمتی جگہ کا مستقبل جڑا ہے۔

لیکن ایک بنیادی سوال کا سب کو جواب دینا ہوگا کہ اس وقت موئنجو دڑو کے قیمتی آثار پر جس قسم کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ایک عظیم الشان فیسٹیول کے لیے کیا اس ضمن مین اس تاریخی آثار کے مکمل تحفظ کا یقینی بنانے کا اہتمام بھی کسی کے پیش نظر ہے؟ فیسٹیول ہو مگر اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس گمشدہ تہذیب کا کوئی حصہ متاثر نہ ہو ، ورنہ پاکستان ہی نہیں برصغیر پاک و ہند کی عظیم الشان تاریخ کے ان آثار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ شاید چند برسوں میں یہ آثار ہی مٹ جائیں ۔ تادم تحریر موئن جودڑو کے آثار پر فیسٹیول کے مقصد سے اسٹیج بنانے کے لیے لوہے کا جال بچھایا جاچکا تھا۔ تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ایک عام سے میدان میں شادی بیاہ یا کسی اور تقریب کے لیے لگائے جانے والے اسٹیج اس میدان کا کیا حشر کرتے ہیں، ایسے میں پاکستان کے اس عظیم ثقافتی ورثے کا مذکورہ اسٹیج اترنے کے بعد جو حال ہوگا اس کا اندازہ ہر ذی ہوش لگا سکتا ہے۔ اس لیے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

بلاول بھٹو زرداری پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہیں۔ یقیناً انھیں مشورہ دینے والوں کو بھی اس ممکنہ نقصان کا ادراک کر لینا چاہیے۔ہلا گلا ہماری قوم کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جگہ کی تاریخی اہمیت کا ہم فیسٹیول کے خاتمہ پر کوئی خیال ہی نہ کریں۔ اس لیے قدم قدم پر دھرتی کے احترام اور آثار قدیمہ کے تحفظ کے احساس جمال اور تہذیبی رویہ کوہماری رہنمائی کرنی چاہیے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو برائے مہربانی اس قوم کا کچھ سوچیں، جن کے پاس کچھ نہیں آیندہ نسلوں کو دینے کے لیے ... لیکن قدرت نے شاندار ماضی سے نوازا ہے۔ موئنجو دڑو ہمارا فخر ہے اس خطے کا اور ملک کو ایک شاندار سیاحتی صنعت دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کی حفاظت قومی فریضہ ہے۔یہ بات فیسٹیول کے منتظمین کو عالمی سطح پر اٹھانی چاہیے کہ موئن جو دڑو کے تحفظ کے لیے فیسٹیول کے بعد عالمی امداد کی ضرورت ہے۔
Load Next Story