قومی مفاہمت وقت کی اہم ضرورت
حکومت افغانستان کی نئی حکومت اوروہاں تبدیلیوں سے زیادہ پاکستان کی اپوزیشن کواپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھ رہی ہے۔
پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورت حال تو افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے قبل بھی خراب تھی جب کہ بھارت سابق افغان حکمرانوں سے مل کر پاکستان کو نقصان پہنچا رہا تھا مگر افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آجانے سے بھارت بوکھلا گیا اور اس کی پاکستان کے خلاف سازشیں افغانستان سے تو کم ہوگئیں اور ہماری وہاں سے سرحدیں محفوظ تو ہوگئی ہیں، مگر بھارت کی حمایت یافتہ دہشت گرد گرو پ اب بھی دہشت گردی کر رہے ہیں۔
افغان طالبان بھی واضح کرچکے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس سلسلے میں طالبان حکومت نے پاکستان کے خدشات کو بھی جائز قرار دیا ہے اور پاکستان پر افغان معاملات میں مداخلت کو پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔
امریکا نے 20 سال افغانستان میں جو بویا تھا وہ پاکستان کاٹتا رہا اور طالبان حکومت کے بعد بھی وہاں پاکستان کے خلاف نعرے بازی ہو رہی ہے اور افغان عوام میں پاکستان کے خلاف جو نفرت پھیلائی گئی وہ اب بھی برقرار ضرور ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں افغانستان میں جو کچھ ہوا، اگرچہ وہ سب جنرل پرویز مشرف کی امریکی حمایت کی پالیسی کے تحت ہوا تھا مگر ان کے جانے کے 13 سال بعد بھی افغانستان کے دونوں سابق صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی بھارت کی حمایت میں پاکستان کو بدنام کرتے رہے اور وہاں سے کبھی کوئی اچھی خبر نہیں آئی تھی مگر اب طالبان حکومت کے بعد توقع ہے کہ اب افغانستان سے پاکستانی سرحدیں کچھ محفوظ ہو جائیں گی۔
بھارت اب بھی پاک و افغان معاملات میں جھوٹ پہ جھوٹ گھڑ رہا ہے اور طالبان مخالف عناصر کو پاکستان کے خلاف ضرور استعمال کرے گا اور اپنے گماشتوں کے ذریعے پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات بہتر نہیں ہونے دے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو طالبان کا ہمدرد قرار دیا جاتا ہے مگر سابق افغان حکومت کے ختم ہونے کو ایک ماہ ہونے والا ہے مگر وزیر اعظم نے اس سلسلے میں عوام تو کیا پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جب کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کر چکی ہے۔
افغانستان میں تبدیلی کے بعد نہ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اپوزیشن سے کوئی رابطہ کیا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت افغانستان کی نئی حکومت اور وہاں تبدیلیوں سے زیادہ پاکستان کی اپوزیشن کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھ رہی ہے اور حکومت کو خوف ہے کہ نالائق اپوزیشن سے مریم یا بلاول دھاندلی سے وزیر اعظم نہ بن جائیں جب کہ ایسا کوئی امکان نہیں کیونکہ عام انتخابات دو سال دور ہیں اور حکومت کے لیے اپوزیشن کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین مسترد کرنا ہی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
ملک میں سب سے اہم مسائل مہنگائی و بے روزگاری پر بھی حکومت کی توجہ نہیں ہے اور وزیر اعظم یوم دفاع پر منعقدہ قومی تقریب میں اس لیے نہیں آئے کہ وہاں اپوزیشن لیڈر مدعو تھے۔ افغان مسئلہ اس وقت ہمارا سب سے اہم مسئلہ ہے جس پر وزیر اعظم کو اپوزیشن اور قوم کو اعتماد میں فوری طور لینا چاہیے تھا۔
وزیر خارجہ دیگر وزرائے خارجہ سے ملاقاتوں اور دیگر وزرا اب بھی اپوزیشن کو رگیدنے میں مصروف اور ان کے جیل جانے کی خبریں سنا رہے ہیں اور حکومت کو صرف اپوزیشن رہنماؤں کی مبینہ کرپشن اور انھیں سزائیں دلانے کی فکر ہے تو وہ ایسے حالات میں اپوزیشن سے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ کیوں دے گی؟