نیا افغانستان پاکستان اور کھیل کے میدان

پاکستان کو سیاسی طور پر مستحکم رہتے ہوئے آگے بڑھنا اور نئی مجوزہ افغان حکومت کے ساتھ معاملات دانشمندی سے طے کرنا ہونگے

پاکستان کےلیے معاملات ایسے ہی ہیں کہ ’نہ اگل سکتے ہیں، نہ نگل سکتے ہیں‘۔ (فوٹو: فائل)

خبریں سامنے آئیں کہ امدادی ٹرک نے افغانستان کا بارڈر کراس کیا تو اس پر لگا ہوا پاکستان کا جھنڈا اتار دیا گیا اور اس کی جگہ کوئی اور جھنڈا لگا دیا گیا۔ یہ خبر شہ سرخی تو نہ بن پائی لیکن سوشل میڈیا کے توسط سے کم از کم موضوع بحث ضرور بن چکی ہے اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ قیاس آرائیوں کا کیا ہے، وہ تو ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ان میں کسی نہ کسی حد تک سچائی بہرحال موجود ہوتی ہے۔

امریکی انخلا کے بعد تاثر یہی تھا کہ پرامن انتقالِ اقتدار ممکن ہوسکے گا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ پنج شیر کو حاصل کرنے کی جہدوجہد ہو یا پھر کابل ایئرپورٹ پر دگرگوں حالات، افغانستان کے دیگر صوبوں کے حالات ہوں یا بطور مجموعی خواتین کے حقوق سے متعلق معاملات، حالات بہتری کی طرف رفتہ رفتہ ہی آسکیں گے۔

اشرف غنی کا خاموشی سے افغانستان سے نکل جانا ان کو ایک شورش زدہ ملک کے لیڈر کے بجائے عام سیاستدان بنا گیا۔ امراللہ صالح کے بارے میں کچھ لوگ خیال کررہے تھے کہ وہ شاید خود کو مسیحا ثابت کریں گے، لیکن مفادات کی جنگ مسیحا بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ تاجکستان میں ہونے والی کانفرنس اور دیگر عالمی معاملات میں جس طرح مجوزہ نئی افغان حکومت ردعمل دے رہی ہے وہ نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ بدلے ہوئے افغانستان کا منظرنامہ بھی پیش کررہا ہے۔

پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہے۔ اور یہ جغرافیائی اہمیت ہی پاکستان کے گلے بھی پڑ جاتی ہے۔ جب پڑوسی ملک میں حالات تبدیل ہورہے تھے تو اس وقت پاکستان یقینی طور پر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں تھا اور کردار ادا بھی کیا گیا۔ لیکن یہاں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہم ایک مرتبہ پھر سے نائن الیون والی جگہ پر کھڑے ہیں اور دنیا ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ اور ہمارے پاس ہر گزرتے دن کے ساتھ آپشنز کی کمی ہوتی جارہی ہے۔

دنیا نے دیکھا کہ مکمل طور پر معاملات امریکا کی بدانتظامی، بدحواسی اور معاملہ فہمی سے دوری کی وجہ سے خراب ہوئے لیکن آوازیں ایسی سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ جیسے یہ کیا دھرا پاکستان کا ہے۔ انخلا کےلیے پاکستان کی مدد ناگزیر تھی، اس لیے مدد حاصل کرنے کےلیے پاکستان کی طرف نرم رویہ روا رکھا گیا۔ انخلا میں مدد کی درخواست ہو یا پھر فوجیوں کا اسلام آباد میں آنا، ہر لحاظ سے پاکستان سے نہ صرف امریکی فوج، امریکی اور دیگر غیر ملکی شہری ہوں یا پھر اقوام متحدہ سے وابستہ غیر ملکی افراد، پاکستان نے ہر لحاظ سے نہ صرف مکمل رہنمائی و مدد فراہم کی بلکہ پرامن انخلا بھی یقینی بنایا۔ لیکن دوسری جانب کیوں کہ سوچ میں ہی کھوٹ تھی، اس لیے دنیا کا یہ نرم رویہ عارضی ثابت ہوا اور جیسے جیسے حالات بدلتے گئے اور انخلا مکمل ہوا، پاکستان کے حوالے سے دنیا کا رویہ بھی تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ امریکی انتظامیہ نے سب سے پہلے دبے دبے لفظوں میں گلے شکوے شروع کیے تو پھر رفتہ رفتہ دیگر ممالک کا رویہ بھی تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ جو پاکستان امریکی فوجیوں کےلیے محفوظ تھا وہ کھلاڑیوں کےلیے نہ صرف غیر محفوظ ہوگیا بلکہ اس حوالے سے ہر طرح کی یقین دہانی کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔


نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول اور سیکیورٹی فراہم کی گئی۔ اور بظاہر ان کی کچھ عرصہ قبل سیکیورٹی ٹیم بھی مطمئن دکھائی دی۔ لیکن 'صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں' کے مصداق، عین پہلے میچ سے قبل نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے دورے سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم کی سطح کا رابطہ بھی کام نہ آیا۔ مقام حیرت یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے سیکیورٹی الرٹ کو پاکستان کے ساتھ شیئر نہ کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے جس نے مزید شکوک کو جنم دے دیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ برطانوی کرکٹ ٹیم نے بھی اپنا دورہ منسوخ کردیا۔

کھیلوں کا میدان ہو یا عالمی فورمز پر افغانستان کے حوالے سے مباحثہ، آنے والے دنوں میں پاکستان کےلیے حالات مزید نازک ہوتے جائیں گے۔ اور شنید یہی ہے کہ پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ اس لیے کرلیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکی غلطیوں پر پردہ نہیں ڈالا۔ افغانستان کے بے قابو مسئلے کا ملبہ اپنے سر کیوں نہیں لیا؟ اس پر مزید حالات نے پلٹا ایسا کھایا کہ چین، روس اور ترکی کا کردار امریکی توقعات کے برعکس ہوگیا۔ اور اس کا ملبہ بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان پر ہی گرا رہے ہیں۔

بظاہر امریکی انتظامیہ پاکستان کو تختہ مشق بنا رہی ہے لیکن حقیقت میں غصہ چین اور روس کے کردار پر ہے۔ اور قرائن بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں چوکھٹا جو سامنے آرہا ہے وہ پاکستان، چین، روس اور ترکی پر مشتمل ہوسکتا ہے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے۔ قطر پہلے ہی نئی مجوزہ افغان حکومت کے قریب ہے کہ پہلے ہی دوحہ میں نئی مجوزہ افغان حکومت کا سیاسی دفتر مکمل طور پر نہ صرف فعال ہے بلکہ تمام عالمی معاملات پر مکمل گرفت بھی مضبوط کررہا ہے۔ اور قطر ہی کابل ایئرپورٹ کے آپریشنز کے حوالے سے مثبت طرز عمل اپنائے ہوئے ہے۔ ترکی بھی اس معاملے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا چکا ہے۔ ان حالات میں امریکی بلاک کا ہیجان اور پریشانی کا شکار ہونا یقینی تھا۔

بیس سالہ جنگ کے بعد امریکا اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہے لیکن وہ گھنٹی یقینی طور پر پاکستان کے گلے باندھنے کی کوشش میں ہے۔ نیا محاذ اس وقت شروع کرنا ممکن نہیں ہے لیکن امریکا، برطانیہ اور حواری ایک نئی سرد جنگ کے آغاز کی کوششوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ اور اس سرد جنگ میں بھی پاکستان کا کردار یقینی طور پر ایسے ہی ہے جیسا سوویت یونین اور امریکا کے درمیان ماضی کی سرد جنگ میں تھا۔

پاکستان کےلیے معاملات ایسے ہی ہیں کہ 'نہ اگل سکتے ہیں، نہ نگل سکتے ہیں'۔ لیکن اس کے باوجود دانشمندی، بردباری، حوصلہ، متانت اور معاملہ فہمی وقت کا تقاضا ہے۔ ہمیں یقینی طور پر امریکا کے رویے کےلیے پیش بندی کے ساتھ تیار رہنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہمیں خطے میں چین، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ معاملات زیر بحث لاتے ہوئے اپنا کردار مثبت انداز سے ادا کرنا ہوگا۔ بھارت افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کو ڈوبتا دیکھتے ہوئے یقینی طور پر پہلے ہی پریشان ہے۔ لہٰذا ہمیں نہ صرف سیاسی طور پر اپنے آپ کو مستحکم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا بلکہ نئی مجوزہ افغان حکومت کے ساتھ بھی معاملات ایسے انداز میں طے کرنا ہوں گے کہ پاکستان کےلیے ترقی اور خوشحالی کا ایک محفوظ راستہ سامنے آسکے۔ کیوں کہ اگر ہم پھر ایک اَن دیکھی جنگ کا حصہ بن گئے تو ملک نہ صرف ترقی کی دوڑ میں پیچھے چلا جائے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمارا کردار محدود ہوجائے گا۔

نیوزی لینڈ اور برطانوی کرکٹ ٹیموں کے پاکستان کے دورے سے انکار ایک دھچکا ضرور ہے لیکن ایک بوسٹر بھی ہے کہ ہمیں حالات کےلیے نہ صرف تیار رہنا ہوگا بلکہ حفظِ ماتقدم کے طور پر کچھ اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story