قبولِ اسلام بھی مشکل ہو جائے گا

کسر کسی نے نہیں چھوڑی ہر ایک حکومت نے اپنے آقاؤں کا نمک حلال کیا، مگر موجودہ حکومت نے تمام حدیں پار کردیں۔


[email protected]

کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے لیے لاکھوں مسلمانان ہند نے جان و مال، عزت و آبرو کی قربانیاں اس لیے دی تھی کہ ریاست مدینہ کے بعد کلمہ طیبہ کے نام پر پاکستان دوسرا ملک ہوگا جو دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوگا۔ اس بے مثل اور بے لوث جدوجہد کے نتیجے میں اللہ رب العزت نے ہمیں 14 اگست1947 کو پاکستان کی نعمت کبریٰ سے نوازا۔

مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم رب العالمین سے کیے گئے '' اللہ کی دھرتی پر اللہ کا نظام ''کے وعدے کو پورا کرنے کی بجائے، انحراف کے رستے پر چل پڑے۔ ساڑھے سات دہائیاں گزر چکی، ہم نے اللہ سے کیا وعدہ پورا کرنا تو دور کی بات اس عرصے میں اس جانب ایک بھی قدم نہ بڑھایا۔ ہم نے اس ملک کو باطل نظاموں کی تجربہ گاہ تو بنایا لیکن ان تجربات کی ناکامی کے باوجود شریعت محمدی کا سوچا بھی نہیں۔ نتیجہ ہم راستہ بھول گئے اور منزل سے اتنا دور آچکے جہاں مادر پدر آزاد معاشرے کی تباہ کاریوں نے ہماری دہلیز پردستک دے ڈالی۔

کسر کسی نے نہیں چھوڑی ہر ایک حکومت نے اپنے آقاؤں کا نمک حلال کیا، مگر موجودہ حکومت نے تمام حدیں پار کردیں۔ گزشتہ تین برسوں سے ایسے قوانین اور اقدامات کے لیے بار بار پَر تول رہی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کے صریحاً خلاف ہے۔ اس قسم کے قوانین اور اقدامات سے خیبر سے کراچی تک دین کا معمولی فہم رکھنے والا ہر مسلمان اور دینی قیادت سخت اضطراب کا شکار ہیں۔

پہلے وقف املاک بل اسلام آباد نافذ کیا گیا تاکہ کوئی بھی مسلمان اپنی آخرت سنوارنے کے لیے مسجد و مدرسے کو زمین کے عطیے کا سوچے بھی نہیں۔اس کے بعد ہماری معاشرتی اقدار سے متصادم وائیلنس اگینسٹ چلڈرن کے نام پر ایک ایسا بل پاس ہوا جو سدھار سے زیادہ بگاڑ کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتا۔ ہماری معاشرتی اقدار سے متصادم ایک اور بل ڈومیسٹک وائیلنس کی روک تھام کے نام پر اسمبلی سے پاس ہوکر سینیٹ میں منظوری کے لیے گیا، سینیٹ نے اس میں کچھ ترامیم کی تجاویزدی۔ گزشتہ تین سال سے تسلسل کے ساتھ ایسے متنازعہ قوانین کا ایک لامتناہی سلسلہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور حکومت ایک ایک قدم آگے بڑھائے جا رہی ہے۔

اب حکومت ایسا قانون لا رہی ہے جس کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر غیر مسلم افراد کا مذہب تبدیل کرنا قانون کی رو سے جرم قرار پائے گا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس بل کے بہت سے نکات قوم کے سامنے رکھے، پھر اوریا مقبول جان، انصار عباسی اور دیگر تجزیہ کاروں نے بھی اس پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ شنید ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر تیار کیا گیا یہ بل جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے پاس زیر غور ہے اگر وہ قانون بن گیا تو پاکستان میں اقلیتی افراد کے لیے اسلام قبول کرنا مشکل بن جائے گا۔

اس کا ارتکاب کرانے والا پابند سلاسل ہوگا، اس مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی غیر مسلم اٹھارہ سال سے کم عمر مرد یا عورت اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا، کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18سال سے زیادہ عمر والا شخص) اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقے کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلی مذہب کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا۔

ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت تو نہیں، اور نہ ہی کسی دھوکا دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کی مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام بھی کرے گا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج اس بات کو یقینی بنانے کے بعدہی مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ اسی قسم کا ایک بل 2016/17 میں سندھ اسمبلی سے بھی پاس ہوچکا ہے۔ لیکن سابق گورنر سعید الزمان صدیقی نے اس بل پر دستخط کرنے کے بجائے اسے واپس اسمبلی بھیج دیا تھا۔

اب نام نہاد ریاست مدینہ کے دعویدار اس ادھورے کام کو پورا کرکے نجانے کس نادیدہ آقا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پوری قوم اور خاص کر تمام سیاسی اور خصوصاً مذہبی جماعتوں کو سارے مسائل چھوڑ کر اس معاملے پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہونا چاہیے تو اللہ کی نصرت ایسے آئے گی جیسے افغانستان میں آئی۔

ہمارے ریاستی اداروں کو بھی جاگنا چاہیے کہ آخر موجودہ حکومت کو اس قسم کی '' فیڈنگ'' کون کررہا ہے اور اس کیلیے '' فنڈنگ'' اور ''لابنگ'' کہاں سے کی جارہی ہے؟ اس سوال کا جواب ملنے کے بعد اس مہم جوئی کا مقابلہ کرنے کا سوچا جاسکے گا۔ اب تک اس قسم کی قانون سازی کے سامنے علمائے حق اور اہل حق سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں کسی کو نقب لگانے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ علماء اور عوام کو آگے بھی ایسے ہی بیدار اور متحد رہنا ہوگا۔ اگر اٹھارہ سال کی شرط لگانے کامقصد یہ ہے کہ اس سے کم عمر کا شخص نابالغ رہتا ہے۔

اول تو نابالغ کا اسلام قبو ل کرنا بھی درست ہے۔ دوسرے یہ کہ شریعت کی رو سے بلوغت کی زیادہ سے زیادہ عمر پندرہ سال ہے۔ پندرہ سال کی عمر بھی اس وقت ہے جب اس سے پہلے لڑکے یا لڑکی میں بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو، ورنہ لڑکا بارہ سال میں اور لڑکی نو سال میں بلوغت حاصل کرسکتی ہے۔

اگر قانون سازوں کا یہی اصرار ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا اسلام قبول نہیں ہے تو پھر ان کے پاس ان بے شمار صحابہ کرامؓ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جنھوں نے بلوغت سے قبل اسلام قبول کیا تھا۔ کم عمری میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرامؓ میں شیر خدا حضرت علیؓ نے 10 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص نے 16 سال کی عمر میں، معاذبن عمر بن جموح 12 یا 13 برس کی عمر میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو جہنم رسید کیا۔

معوذبن عفرا انھیں معوذ بن حارث بھی کہا جاتا ہے ابوجہل کو قتل کرنے میں یہ بھی شامل تھے 12 یا 13 سال کی عمر میں میں اسلام قبول کیا، حضرت زید بن ثابت نے 11 سال کی عمر میں، عمیر بن سعد نے 10 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت ابو سعید خدری 13 برس کی عمر میں غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ حضرت انس بن مالک 8 برس کی عمر میں آپﷺ کے خادم خاص بنے۔

کس قدر حیرت بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارادستور تو اسلامی احکام کے مطابق قانون سازی کی ضمانت دیتا ہے، مگر قانون ساز اس ملی میثاق کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کے تحفظ اورپاس داری کا انھوں نے خود بھی حلف اٹھایا ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام آخری دین ہے اور نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ، اللہ کے آخری نبی اور پیغمبر ہیں، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔

لہٰذا امت محمدیﷺ میں شامل ہر مسلمان اسلام کا داعی ہے اوراسلام کی تبلیغ اس پر فرض ہے۔ ہر مسلمان کی یہ کو شش کم ازکم خواہش ہونی چاہیے کہ اس دارفانی میں موجود ہر بندہ مشرف بہ اسلام ہو مگر پتہ نہیں تبدیلی سرکارایسا کیوں نہیں سوچ رہی۔

اگر یہ قانون بن گیا تو پھر اگلے مرحلے میں مساجد و مدارس اور خصوصاً تبلیغی جماعت پر پابندی کے ساتھ رائے ونڈ مرکز سمیت تمام تبلیغی مراکز کو بند کیا جائے گا کیونکہ اسلام کی تبلیغ یہاں سے ہوتی ہے اور ان کے طفیل غیر مسلم دین فطرت میں داخل ہوتے ہیں۔ مگر حکومت یہ جنگ نہیں جیت سکتی ہے۔ انشاء اللہ کم سن، نوجوان، جوان اور بوڑھے مرد و زن مسلمان ہوتے رہیں گے اور اسلام پوری دنیا پر غالب آکر رہے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں