عوامی مسائل کا حل حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں
آخر کب تک آپ اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ کر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے؟
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور ان تین برسوں میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو خاصا مایوس کیا ہے۔ اگر حکومتی اعداد و شمار اور بیانات کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں لیکن عوام اور اداروں کی حالت دیکھو تو ایسا لگتا ہے کہ ملک ابھی ابھی معرضِ وجود میں آیا ہے۔
عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ الف، ب، ج کس کی حکومت ہے، عوام کو تو چاہیے دو وقت کی روٹی، صاف پانی، رہنے کےلیے گھر، صحت کی سہولیات، تعلیم اور روزگار، جو کسی بھی معاشرے میں زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات ہیں۔ لیکن اگر یہ بنیادی ضروریات زندگی ہی عوام کو نہ ملیں تو ان کے نزدیک حکومت کی کارکردگی زیرو ہے۔
موجودہ حکومت سے تو عوام کی توقعات اس لیے بھی زیادہ تھیں کہ اس جماعت کے ارکان بشمول ان کے قائد نے تبدیلی کے ہزار ہا دعوے کیے تھے۔ لیکن ان دعووں اور وعدوں کو پورا کرتے یہ تاحال نظر نہیں آرہے۔ اور اب تک کی جو حکومت کی کارکردگی ہے اگلے دو سال میں بھی عوام ان سے خاطر خواہ نتائج کی امید نہیں رکھ رہے ہیں۔
عوام کو اس وقت مہنگائی کے جس عفریت کا سامنا ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ گو کہ ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں بھی مہنگائی ہوتی رہی لیکن انہوں نے اس کے سدباب کےلیے کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کی تدبیر کی، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت مہنگائی کم کرنے کےلیے خود تو کوئی اقدامات نہیں کررہی، البتہ گزشتہ تین برسوں سے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ اس کی ذمے دار ماضی کی حکومتیں ہیں اور کیا اس سے پہلے کبھی مہنگائی نہیں ہوئی؟ بھلا کب تک آپ اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ کر دوسروں کو اس کا موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے؟
سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس ملک چلانے کےلیے قابل ٹیم ہے تو آپ اُن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر عوام کے دکھوں کا مداوا کیجئے۔ وزیراعظم صاحب کا صرف یہ کہہ دینا کہ مہنگائی کی وجہ ''مافیا'' ہے، تو عوام سوچ رہے ہیں کہ اس مافیا کو پکڑنے کی ذمے داری کس کی ہے؟ اگر حکومت بھی صرف الزام تراشی کرے گی تو ان مسائل کو حل کون کرے گا؟ موجودہ حکومت کے اراکین کے ماضی کے بیانات دیکھیں تو اس وقت واویلا کرتے تھے کہ پولٹری کی صنعت پر مسلم لیگ (ن) کا قبضہ ہے، اس لیے مرغی کا گوشت مہنگا ہے۔ تو جناب عالیٰ اب تو مسلم لیگ کی حکومت نہیں ہے، اب مرغی کا ریٹ کیوں آسمان سے باتیں کر رہا ہے؟ اسی طرح دوسری بنیادی ضروریات کی صورتحال ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے بجلی کے بلوں میں اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں لیکن حکومتی اراکین کا کہنا کہ بجلی کے بل تو ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں بھی بڑھتے رہے ہیں، اپنی نااہلی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔ آپ ماضی کی حکومتوں کو الزام دیتے ہیں کہ انہوں نے بجلی پوری کرنے کےلیے مہنگے معاہدے کیے لیکن عوام حیران ہے کہ کیا آپ سستی بجلی فراہم کررہے ہیں؟ آپ تو بجلی مہنگی ہونے پر عوام کو بجلی کے بل پھاڑنے پر اکساتے تھے تو عوام سوچ رہے ہیں کہ بجلی تو اب بھی مہنگی مل رہی ہے، تو اب وہ کیا کیا جائے؟
تعلیمی اصلاحات کے نام پر آپ نے جو قوم کو کنفیوز کیا ہوا ہے وہ ایک اور اہم مسئلہ ہے، کیونکہ ابھی تک ان تین سال میں یہ طے نہیں ہوسکا کہ ملک کا تعلیمی نظام کیسا ہوگا؟ یکساں نظام تعلیم کو ملک بھر میں لاگو کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن فی الحال سندھ اور بلوچستان نے تو اس کو اپنانے سے تاحال معذرت کی ہے۔ تعلیمی سال کب شروع ہوگا، اس حوالے سے بھی حکومتی اعلانات پر چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں اور بہت سے اسکول پریشان ہیں کہ اس صورتحال کو کیسے ہینڈل کیا جائے۔
جن بچوں خصوصاً لڑکیوں نے 2020 میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) کیا تھا اور اُن کی خواہش تھی کہ وہ میڈیکل خاص کر نرسنگ کے شعبے میں حکومتی نرسنگ کالجوں کے ذریعے اپنا مستقبل بنائیں گی، وہ بچیاں 2021 میں بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ حکومت پنجاب نے مئی 2021 میں پنجاب بھر کے 28 اضلاع میں اُن سے داخلے کےلیے درخواستیں طلب کیں اور ستم ظریفی یہ کہ چار مہینوں کے باوجود وہ انتظار کی سولی پرلٹک رہی ہیں اور منتخب نرسنگ کالجوں کی انتظامیہ بھی بتانے سے قاصر ہے کہ نتائج کب آئیں گے۔ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ منتخب ہونے والی بچیوں کی لسٹیں لاہور سے بناکر بھیجی جائیں گی، لیکن وہ کب بنیں گی اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں۔ خدارا اس مسئلے کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ وہ بچیاں اپنی خواہش اور تعلیم کے مطابق نرسنگ کے شعبے کو اپنا سکیں۔
کورونا کی وجہ سے اسکول بند ہونے پر بھی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور ایک طبقہ سوچ رہا ہے کہ جیسے ہی اپوزیشن ملک میں جلسے جلوس شروع کرتی ہے تو حکومت کورونا کا بہانہ بنا کر اسکول بند کروا دیتی ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ اپوزیشن کورونا کو بڑھانے کی ذمے دار ہے۔ عوامی مسائل کو حل نہ کرنے کی ایک اہم وجہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی ہے، جسے عوام اس وقت سے دیکھ رہی ہے جب کبھی حکومت اپوزیشن میں تھی۔ اس وقت سے آپ نے دوسری جماعتوں کو جو چور چور کہنا شروع کیا وہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ خدارا چور چور والا ڈرامہ چھوڑ کر عوام کے مسائل کی طرف توجہ دیجئے کیونکہ عوام اب اس ڈرامے سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام اب جان چکے ہیں کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان صرف گھاس کا ہی ہوتا ہے۔
عوام کو نوکریاں اور گھر دینے جیسے دعوے بھی محض دعوے ہی نظر آتے ہیں، گو کہ گھر دینے کےلیے حکومت نے کچھ بینکوں کو پابند تو کیا ہے لیکن ان کے قواعد و ضوابط اور شرائط اتنی پیچیدہ ہیں جسے پورا کرنا عام لوگوں کے بس سے تو باہر ہے۔ آپ ایک عمومی سروے کرکے دیکھ لیجئے کہ کتنے فیصد غریبوں نے ان اسکیموں سے فائدہ اٹھایا ہے؟ آپ کو اس کا اندازہ بخوبی ہوجائے گا۔ اس صورت حال کے پیش نظر اب عندیہ دیا جارہا ہے کہ ان شرائط کو نرم کیا جائے تاکہ عام آدمی کو بھی اس سے فائدہ پہنچ سکے۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آتے ہیں یا نہیں۔
اسی طرح کے مسائل نوکریوں کے حصول میں ہیں۔ کسی بھی نوکری کےلیے قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ سیٹیں بکی ہوئی ہیں؟ نوکریاں صرف افسران کے سفارشیوں کو ہی ملیں گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس صورتحال میں ایک عام آدمی جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو محض اس لیے تعلیم دلواتا ہے کہ وہ بچے بڑے ہوکر اس کا سہارا بنیں گے لیکن حکومتوں کے اس رویے کی وجہ سے اسے اپنی امید ٹوٹتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے اقلیتی عوام تو اور بھی زیادہ مشکل کا شکار ہیں کیونکہ ان کےلیے پانچ فیصد اقلیتی کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ نوکری کے اشتہار میں اس کا ذکر بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بغیر سفارش اور رشوت کے نوکری ملنا اقلیتوں کےلیے مسئلہ کشمیر کے حل کے مترادف ہے۔
حکومت نے ''نیا کٹا'' نجی چینلوں پر بندش کے عندیے سے کھول کر ریاست کے ایک ستون کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ اب ملک میں جہاں ینگ ڈاکٹر سراپا احتجاج ہیں، وہاں صحافی اور عوام بھی اپوزیشن کے ساتھ مل کر جلسوں جلوسوں کی شکل میں اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ عام آدمی حیران ہے کہ اپوزیشن سے آپ کی بنتی نہیں ہے، کبھی آپ الیکشن کمیشن پر اپوزیشن کی حمایت کا الزام لگا کر الیکشن کمیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی آپ نیب پر الزام دھرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن پر ''ہولا ہتھ'' رکھ رہا ہے۔ عام آدمی ورطہ حیرت میں غرق ہے کہ حکومت اپنے ہی اداروں کو کمزور کرنے کےلیے کوشاں ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب لگتا ہے شہباز شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور بالکل اُسی طرز پر جس علاقے میں جاتے ہیں وہاں کے افسران کو یا تو معطل کردینا یا تبدیل کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اُن کی ایک بات ٹھیک کہ وہ عوام کے مسائل براہ راست سنتے ہیں لیکن خدارا مندرجہ بالا مسائل کی طرف بھی توجہ دیں یہ بھی عوام کے مسائل ہیں۔
عام آدمی سوچ رہا ہے کہ اگر اپوزیشن کے ساتھ بنا کے نہیں رکھنی تو کم از کم زبان تو ایسی استعمال نہ کریں کہ جس کی وجہ سے آپ دونوں کے درمیان خلیج نفرت کی شکل اختیار کرجائے۔ موجودہ صورتحال سے تو ایسا لگتا ہے یہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی مستقبل میں کریں گے۔ حال ہی میں مریم نواز شریف کے بیٹے کی شادی پر حکومتی حامیوں کی طرف سے بدمزگی پیدا کرنے کی جو کوشش کی گئی، اس واقعے نے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان خلیج کو اوربھی بڑھا دیا ہے۔
عوام سمجھتے ہیں کہ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کو بھی یقیناً چیلنجز درپیش ہیں، لیکن یہ صرف آپ کے ساتھ نہیں ہوا۔ یہاں جو بھی حکومت آتی ہے اُسے کوئی آئیڈیل سچویشن نہیں ملتی اور اسے بھی چلینجز درپیش ہوتے رہے لیکن انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور قابل ٹیم کے ساتھ مل کر انہیں حل کرنے کے اقدامات کیے، بجائے ہر وقت یہ کہنا کہ ان چیلنجز کی ذمے دار ماضی کی حکومتیں ہیں۔ اگر آپ ان چیلنجز کو حل نہیں کرسکتے تو آپ حکومت چھوڑ دیں اور کسی اور کو آنے دیں تاکہ کم از کم عوام کو تو ریلیف مل سکے۔
آپ کو یقیناً اس کا ادراک ہے کہ محض دو سال رہ گئے ہیں اور اگر ان دو سال میں عوام کو ریلیف نہ دیا تو پھر شاید فرشتے ہی آپ کو ووٹ دینے آئیں گے۔ اپوزیشن کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ پھر آپ کو وہ بھی نہ جتوا سکیں گے جو آپ کو لے کر آئے ہیں۔ مختلف علاقوں کے ضمنی الیکشن اور کنٹونمنٹ کے الیکشن میں یقیناً آپ کو نشستیں ملی ہیں لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جو نتائج آپ حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ آپ کو نہیں مل سکے۔ خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا (جہاں آپ کی حکومت گزشتہ 8 سال سے ہے) آپ کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے؟ اور اب تو بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں، جس میں آپ کا براہ راست تعلق عوام سے ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا عوامی مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے تاکہ عوام اور آپ کے درمیان جو خلیج ہے وہ کم ہوسکے اور وہ آپ پر ایک بار پھر سے اعتماد کرسکیں۔ وگرنہ وہ کہاوت آپ پر صادق آئے گی:
اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ الف، ب، ج کس کی حکومت ہے، عوام کو تو چاہیے دو وقت کی روٹی، صاف پانی، رہنے کےلیے گھر، صحت کی سہولیات، تعلیم اور روزگار، جو کسی بھی معاشرے میں زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات ہیں۔ لیکن اگر یہ بنیادی ضروریات زندگی ہی عوام کو نہ ملیں تو ان کے نزدیک حکومت کی کارکردگی زیرو ہے۔
موجودہ حکومت سے تو عوام کی توقعات اس لیے بھی زیادہ تھیں کہ اس جماعت کے ارکان بشمول ان کے قائد نے تبدیلی کے ہزار ہا دعوے کیے تھے۔ لیکن ان دعووں اور وعدوں کو پورا کرتے یہ تاحال نظر نہیں آرہے۔ اور اب تک کی جو حکومت کی کارکردگی ہے اگلے دو سال میں بھی عوام ان سے خاطر خواہ نتائج کی امید نہیں رکھ رہے ہیں۔
عوام کو اس وقت مہنگائی کے جس عفریت کا سامنا ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ گو کہ ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں بھی مہنگائی ہوتی رہی لیکن انہوں نے اس کے سدباب کےلیے کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کی تدبیر کی، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت مہنگائی کم کرنے کےلیے خود تو کوئی اقدامات نہیں کررہی، البتہ گزشتہ تین برسوں سے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ اس کی ذمے دار ماضی کی حکومتیں ہیں اور کیا اس سے پہلے کبھی مہنگائی نہیں ہوئی؟ بھلا کب تک آپ اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ کر دوسروں کو اس کا موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے؟
سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس ملک چلانے کےلیے قابل ٹیم ہے تو آپ اُن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر عوام کے دکھوں کا مداوا کیجئے۔ وزیراعظم صاحب کا صرف یہ کہہ دینا کہ مہنگائی کی وجہ ''مافیا'' ہے، تو عوام سوچ رہے ہیں کہ اس مافیا کو پکڑنے کی ذمے داری کس کی ہے؟ اگر حکومت بھی صرف الزام تراشی کرے گی تو ان مسائل کو حل کون کرے گا؟ موجودہ حکومت کے اراکین کے ماضی کے بیانات دیکھیں تو اس وقت واویلا کرتے تھے کہ پولٹری کی صنعت پر مسلم لیگ (ن) کا قبضہ ہے، اس لیے مرغی کا گوشت مہنگا ہے۔ تو جناب عالیٰ اب تو مسلم لیگ کی حکومت نہیں ہے، اب مرغی کا ریٹ کیوں آسمان سے باتیں کر رہا ہے؟ اسی طرح دوسری بنیادی ضروریات کی صورتحال ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے بجلی کے بلوں میں اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں لیکن حکومتی اراکین کا کہنا کہ بجلی کے بل تو ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں بھی بڑھتے رہے ہیں، اپنی نااہلی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔ آپ ماضی کی حکومتوں کو الزام دیتے ہیں کہ انہوں نے بجلی پوری کرنے کےلیے مہنگے معاہدے کیے لیکن عوام حیران ہے کہ کیا آپ سستی بجلی فراہم کررہے ہیں؟ آپ تو بجلی مہنگی ہونے پر عوام کو بجلی کے بل پھاڑنے پر اکساتے تھے تو عوام سوچ رہے ہیں کہ بجلی تو اب بھی مہنگی مل رہی ہے، تو اب وہ کیا کیا جائے؟
تعلیمی اصلاحات کے نام پر آپ نے جو قوم کو کنفیوز کیا ہوا ہے وہ ایک اور اہم مسئلہ ہے، کیونکہ ابھی تک ان تین سال میں یہ طے نہیں ہوسکا کہ ملک کا تعلیمی نظام کیسا ہوگا؟ یکساں نظام تعلیم کو ملک بھر میں لاگو کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن فی الحال سندھ اور بلوچستان نے تو اس کو اپنانے سے تاحال معذرت کی ہے۔ تعلیمی سال کب شروع ہوگا، اس حوالے سے بھی حکومتی اعلانات پر چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں اور بہت سے اسکول پریشان ہیں کہ اس صورتحال کو کیسے ہینڈل کیا جائے۔
جن بچوں خصوصاً لڑکیوں نے 2020 میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) کیا تھا اور اُن کی خواہش تھی کہ وہ میڈیکل خاص کر نرسنگ کے شعبے میں حکومتی نرسنگ کالجوں کے ذریعے اپنا مستقبل بنائیں گی، وہ بچیاں 2021 میں بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ حکومت پنجاب نے مئی 2021 میں پنجاب بھر کے 28 اضلاع میں اُن سے داخلے کےلیے درخواستیں طلب کیں اور ستم ظریفی یہ کہ چار مہینوں کے باوجود وہ انتظار کی سولی پرلٹک رہی ہیں اور منتخب نرسنگ کالجوں کی انتظامیہ بھی بتانے سے قاصر ہے کہ نتائج کب آئیں گے۔ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ منتخب ہونے والی بچیوں کی لسٹیں لاہور سے بناکر بھیجی جائیں گی، لیکن وہ کب بنیں گی اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں۔ خدارا اس مسئلے کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ وہ بچیاں اپنی خواہش اور تعلیم کے مطابق نرسنگ کے شعبے کو اپنا سکیں۔
کورونا کی وجہ سے اسکول بند ہونے پر بھی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور ایک طبقہ سوچ رہا ہے کہ جیسے ہی اپوزیشن ملک میں جلسے جلوس شروع کرتی ہے تو حکومت کورونا کا بہانہ بنا کر اسکول بند کروا دیتی ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ اپوزیشن کورونا کو بڑھانے کی ذمے دار ہے۔ عوامی مسائل کو حل نہ کرنے کی ایک اہم وجہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی ہے، جسے عوام اس وقت سے دیکھ رہی ہے جب کبھی حکومت اپوزیشن میں تھی۔ اس وقت سے آپ نے دوسری جماعتوں کو جو چور چور کہنا شروع کیا وہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ خدارا چور چور والا ڈرامہ چھوڑ کر عوام کے مسائل کی طرف توجہ دیجئے کیونکہ عوام اب اس ڈرامے سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام اب جان چکے ہیں کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان صرف گھاس کا ہی ہوتا ہے۔
عوام کو نوکریاں اور گھر دینے جیسے دعوے بھی محض دعوے ہی نظر آتے ہیں، گو کہ گھر دینے کےلیے حکومت نے کچھ بینکوں کو پابند تو کیا ہے لیکن ان کے قواعد و ضوابط اور شرائط اتنی پیچیدہ ہیں جسے پورا کرنا عام لوگوں کے بس سے تو باہر ہے۔ آپ ایک عمومی سروے کرکے دیکھ لیجئے کہ کتنے فیصد غریبوں نے ان اسکیموں سے فائدہ اٹھایا ہے؟ آپ کو اس کا اندازہ بخوبی ہوجائے گا۔ اس صورت حال کے پیش نظر اب عندیہ دیا جارہا ہے کہ ان شرائط کو نرم کیا جائے تاکہ عام آدمی کو بھی اس سے فائدہ پہنچ سکے۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آتے ہیں یا نہیں۔
اسی طرح کے مسائل نوکریوں کے حصول میں ہیں۔ کسی بھی نوکری کےلیے قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ سیٹیں بکی ہوئی ہیں؟ نوکریاں صرف افسران کے سفارشیوں کو ہی ملیں گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس صورتحال میں ایک عام آدمی جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو محض اس لیے تعلیم دلواتا ہے کہ وہ بچے بڑے ہوکر اس کا سہارا بنیں گے لیکن حکومتوں کے اس رویے کی وجہ سے اسے اپنی امید ٹوٹتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے اقلیتی عوام تو اور بھی زیادہ مشکل کا شکار ہیں کیونکہ ان کےلیے پانچ فیصد اقلیتی کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ نوکری کے اشتہار میں اس کا ذکر بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بغیر سفارش اور رشوت کے نوکری ملنا اقلیتوں کےلیے مسئلہ کشمیر کے حل کے مترادف ہے۔
حکومت نے ''نیا کٹا'' نجی چینلوں پر بندش کے عندیے سے کھول کر ریاست کے ایک ستون کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ اب ملک میں جہاں ینگ ڈاکٹر سراپا احتجاج ہیں، وہاں صحافی اور عوام بھی اپوزیشن کے ساتھ مل کر جلسوں جلوسوں کی شکل میں اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ عام آدمی حیران ہے کہ اپوزیشن سے آپ کی بنتی نہیں ہے، کبھی آپ الیکشن کمیشن پر اپوزیشن کی حمایت کا الزام لگا کر الیکشن کمیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی آپ نیب پر الزام دھرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن پر ''ہولا ہتھ'' رکھ رہا ہے۔ عام آدمی ورطہ حیرت میں غرق ہے کہ حکومت اپنے ہی اداروں کو کمزور کرنے کےلیے کوشاں ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب لگتا ہے شہباز شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور بالکل اُسی طرز پر جس علاقے میں جاتے ہیں وہاں کے افسران کو یا تو معطل کردینا یا تبدیل کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اُن کی ایک بات ٹھیک کہ وہ عوام کے مسائل براہ راست سنتے ہیں لیکن خدارا مندرجہ بالا مسائل کی طرف بھی توجہ دیں یہ بھی عوام کے مسائل ہیں۔
عام آدمی سوچ رہا ہے کہ اگر اپوزیشن کے ساتھ بنا کے نہیں رکھنی تو کم از کم زبان تو ایسی استعمال نہ کریں کہ جس کی وجہ سے آپ دونوں کے درمیان خلیج نفرت کی شکل اختیار کرجائے۔ موجودہ صورتحال سے تو ایسا لگتا ہے یہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی مستقبل میں کریں گے۔ حال ہی میں مریم نواز شریف کے بیٹے کی شادی پر حکومتی حامیوں کی طرف سے بدمزگی پیدا کرنے کی جو کوشش کی گئی، اس واقعے نے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان خلیج کو اوربھی بڑھا دیا ہے۔
عوام سمجھتے ہیں کہ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کو بھی یقیناً چیلنجز درپیش ہیں، لیکن یہ صرف آپ کے ساتھ نہیں ہوا۔ یہاں جو بھی حکومت آتی ہے اُسے کوئی آئیڈیل سچویشن نہیں ملتی اور اسے بھی چلینجز درپیش ہوتے رہے لیکن انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور قابل ٹیم کے ساتھ مل کر انہیں حل کرنے کے اقدامات کیے، بجائے ہر وقت یہ کہنا کہ ان چیلنجز کی ذمے دار ماضی کی حکومتیں ہیں۔ اگر آپ ان چیلنجز کو حل نہیں کرسکتے تو آپ حکومت چھوڑ دیں اور کسی اور کو آنے دیں تاکہ کم از کم عوام کو تو ریلیف مل سکے۔
آپ کو یقیناً اس کا ادراک ہے کہ محض دو سال رہ گئے ہیں اور اگر ان دو سال میں عوام کو ریلیف نہ دیا تو پھر شاید فرشتے ہی آپ کو ووٹ دینے آئیں گے۔ اپوزیشن کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ پھر آپ کو وہ بھی نہ جتوا سکیں گے جو آپ کو لے کر آئے ہیں۔ مختلف علاقوں کے ضمنی الیکشن اور کنٹونمنٹ کے الیکشن میں یقیناً آپ کو نشستیں ملی ہیں لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جو نتائج آپ حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ آپ کو نہیں مل سکے۔ خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا (جہاں آپ کی حکومت گزشتہ 8 سال سے ہے) آپ کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے؟ اور اب تو بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں، جس میں آپ کا براہ راست تعلق عوام سے ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا عوامی مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے تاکہ عوام اور آپ کے درمیان جو خلیج ہے وہ کم ہوسکے اور وہ آپ پر ایک بار پھر سے اعتماد کرسکیں۔ وگرنہ وہ کہاوت آپ پر صادق آئے گی:
اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔