خفیہ ہاتھ

پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کو معاملے کی اصل تک کھوج لگانا اور خفیہ ہاتھ تلاش کرنا ہوگا۔


MJ Gohar September 24, 2021

فٹ بال کا کھیل اپنی دلکشی، سنسنی خیزی اور برق رفتاری کے باعث کرۂ ارض کے اربوں شایقین کو اپنی سحر انگیزی اور طلسم کا شکار کر چکا ہے۔

دنیائے کھیل میں فٹ بال وہ واحد کھیل ہے جو دنیا کے تقریباً تمام خطوں اور براعظموں میں کھیلا جاتا ہے۔ فیفا، جو فٹبال کی معروف عالمی تنظیم ہے کے ایک سروے کے مطابق دنیا کے مختلف ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں تیس کروڑ سے زائد نوجوان بچے، مرد و خواتین حتیٰ کہ معمر افراد بھی باقاعدگی کے ساتھ صبح شام فٹ بال کھیلتے ہیں۔

فٹ بال کی دلچسپ تاریخ کے مطابق شمالی کینیڈا یا الاسکا میں اکساکٹکہ کے نام سے صدیوں پہلے برفانی میدانوں میں ایک ایسا کھیل کھیلا جاتا تھا جس میں برف کے میدان میں دو ٹیموں کے کھلاڑی ایک گیند کو کک لگا کر ایک دوسرے کے خلاف گول کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ قدیم چین میں پانچ ہزار سال قبل از مسیح اور جاپان میں کیماری نام کے کھیل فٹ بال سے مشابہ تھے۔

رومی ہرپامٹم نامی ایک کھیل کھیلتے تھے جو فٹ بال سے ملتا جلتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہی کھیل غالباً فٹ بال کے کھیل کی بنیاد بنا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں 17 ویں صدی کے آغاز میں فٹ بال کھیلی جاتی تھی۔ 1857 میں لندن کے ہیرو کلول کے سابقہ طالب علموں نے دنیا کی قدیم ترین فٹ بال کلب شیلڈ کی بنیاد رکھی یہی کلب بعد میں انٹرنیشنل فٹ بال ایسوسی ایشن کے وجود کا باعث بنا۔

فٹ بال کا کھیل مختلف مراحل طے کرتا ہوا اور زمانے کے نشیب و فراز سے گزرتا اور قواعد و ضوابط کی پیچیدگیوں کو عبور کرتا آگے ہی آگے بڑھتا اور مقبولیت کی منزلیں طے کرتا رہا۔ تاہم فٹ بال تنظیم فیفا کے قیام کے لیے سب سے اہم اور فعال کردار فیفا کے پہلے صدر جیولیس ریلیٹیا نے ادا کیا۔ فیفا کی ورلڈ کپ اصلی ٹرافی پر بھی ان ہی کا نام کنندہ کیا گیا ہے۔

فیفا کی بنیاد 31 مئی 1904 کو فرانس میں رکھی۔ فیفا نے 1928 میں فیصلہ کیا کہ فٹ بال کے عالمی مقابلوں کا اہتمام کیا جائے۔ چنانچہ 1930 میں ورلڈ کپ کے نام سے پہلی مرتبہ عالمی مقابلے منعقد ہوئے۔ ہر چار سال بعد عالمی فٹ بال کپ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اگلے سال نومبر میں قطر کی میزبانی میں کھیلا جائے گا۔

دنیا کے مقبول و معروف کھیل فٹ بال کے مقابلے میں کرکٹ کو وہ عالمگیر شہرت اور قبولیت کی سند اور عوامی پذیرائی نہ مل سکی جو فٹ بال کا خاصا ہے۔ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ کرکٹ کا کھیل ایشیا میں فٹ بال کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے۔

کرکٹ کی ابتدا انگلستان میں ہوئی۔ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا باقاعدہ ٹیسٹ میچ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان 15 مارچ 1877 کو ملبورن میں شروع ہوا۔ میزبان ٹیم آسٹریلیا نے انگلینڈ کو 45 رنز سے شکست دے کر میچ جیت لیا۔ کرکٹ کا پہلا عالمی کپ 1975 میں برطانیہ میں کھیلا گیا جسے ویسٹ انڈیز نے جیت لیا۔ اب تک کرکٹ کے تقریباً 12 عالمی مقابلے ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے اب تک سب سے زیادہ یعنی پانچ مرتبہ ورلڈ کپ جیتا۔ ویسٹ انڈیز اور بھارت نے دو دو مرتبہ جب کہ پاکستان، سری لنکا اور انگلستان نے ایک ایک مرتبہ عالمی کپ جیتا۔

بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔ فٹ بال کے مقابلے میں کرکٹ کو جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان میں بے انتہا پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہے، کرکٹ میچ کے دوران مذکورہ ممالک کے عوام میں غیر معمولی جوش و جذبہ عود کر آتا ہے۔ پاک بھارت کرکٹ مقابلے تو دونوں ممالک کی عوام کے درمیان جنون کی انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام غیر ملکی کرکٹ ٹیموں کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔

رواں ماہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا دورہ طے شدہ تھا۔ پروگرام کے مطابق نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کم و بیش 18 سال بعد ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان پہنچی۔ قبل ازیں نیوزی لینڈ کے سیکیورٹی حکام نے پاکستان کا دورہ کیا اور اپنی ٹیم کی آمد سے قبل سیکیورٹی کے تمام انتظامات کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی تسلی کرلی تھی۔

پاکستان نے حالات کے تناظر میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کو صدر مملکت کے درجے کی سیکیورٹی فراہم کی تھی۔ ٹیم پاکستان آئی، نیٹ پریکٹس بھی کی اور میچ کھیلنے کا دن بھی آن پہنچا۔ میچ کے آغاز سے کچھ دیر پہلے اچانک سیکیورٹی خدشات کو جواز بنا کر اپنا دورہ فوری منسوخ کرکے واپس جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کے بقول نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو تماشائیوں کے بغیر خالی اسٹیڈیم میں میچ کھیلنے کی پیشکش بھی کی گئی لیکن وہ نہ مانے۔ وزیر داخلہ کے بقول کیوی ٹیم کا اچانک دورہ منسوخ کرنا کسی سازش کا حصہ ہے۔

اس کے پیچھے دستانے پہنے خفیہ ہاتھ کارفرما ہیں جو پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈن سے ازخود ٹیلی فونک رابطہ کرکے انھیں یقین دہانی کرائی کہ ہماری سیکیورٹی انٹیلی جنس دنیا کی ایک بہترین ایجنسی ہے بعینہ مہمان ٹیم کو کوئی تھریٹ نہیں ہے لیکن کیوی وزیر اعظم کا موقف تھا کہ کھلاڑیوں کی سلامتی ان کے نزدیک سب سے اہم ہے اس لیے دورے کی منسوخی کی حمایت کرتی ہوں۔ یوں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم بغیر کوئی میچ کھیلے اپنے وطن واپس لوٹ گئی۔

کیوی ٹیم کی واپسی سے شایقین کرکٹ کے دل ٹوٹ گئے تو دوسری طرف ہمارے کرکٹ بورڈ کو بھی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں نے کیوی ٹیم کے دورے کی منسوخی کو سخت افسوس ناک اور کرکٹ کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ قومی و عالمی کرکٹ کے معروف کھلاڑیوں نے بھی دورے کی منسوخی کو کرکٹ کا المیہ قرار دیا۔ ابھی کیوی ٹیم کے دورے کی منسوخی کا دکھ ختم نہ ہوا تھا کہ انگلینڈ نے بھی اپنی مینز اور ویمنز کرکٹ ٹیموں کا مجوزہ دورہ پاکستان ختم کرنے کا اعلان کرکے شایقین کرکٹ کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔

پی سی بی کے نو منتخب چیئرمین رمیز راجہ نے انگلش ٹیم کے دورے کی منسوخی کے فیصلے کو افسوس ناک، مایوس کن اور کرکٹ کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا۔ انگلش بورڈ نے بھی خطے کے سیکیورٹی خطرات ہی کو دورے کی منسوخی کا جواز بنایا۔

سوال یہ ہے کہ 9/11 کے بعد بدلی ہوئی دنیا کے کسی ملک میں امن و امان کی صورت حال سو فیصد فول پروف سیکیورٹی پر مبنی ہے؟ کیا کیوی وزیر اعظم کو نہیں معلوم کہ دو سال قبل ان کے ملک میں ایک دہشت گرد نے مسجد میں داخل ہو کر درجنوں نمازیوں کو قتل و زخمی کردیا تھا؟ کیا برطانیہ میں قتل کی ٹارگٹڈ وارداتیں نہیں ہوئیں؟ کیا ان حالات میں بیرونی ٹیمیں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کا دورہ نہیں کر رہی ہیں؟

پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کو معاملے کی اصل تک کھوج لگانا اور خفیہ ہاتھ تلاش کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت افغانستان میں اپنی ناکامی کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے ، ہمیں اپنے اطراف سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں