طالبان کا اقوام متحدہ میں حق نمایندگی
ماضی میں جب طالبان کی حکومت تھی تب بھی اقوام متحدہ نے یہی غلطی کی تھی۔
کیا طالبان کو اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمایندگی کا حق ملنا چاہیے، میں سمجھتا ہوں اس میں کوئی دو رائے ہی نہیں ہیں۔ طالبان افغانستان پرحکمران ہیں لہٰذا صرف انھیں ہی اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمایندگی اور بات کرنے کا حق ہے۔
اگر یہ حق اشرف غنی کو دیا جاتا ہے تو یہ افغانستان کے ساتھ مذاق ہوگا بلکہ اقوام متحدہ کے ساتھ بھی ایک مذاق کے مترادف ہوگا۔ طالبان نے سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے اپنا نمایندہ مقرر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں انھیں اقوام متحدہ میں بات کرنے کا بھر پور موقع ملنا چاہیے۔
اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ماضی میں جب طالبان کی حکومت تھی تب بھی اقوام متحدہ نے یہی غلطی کی تھی۔ طالبان کو حق نمایندگی نہیں دیا گیا تھا بلکہ سابق صدر برہان الدین ربانی کی اقوام متحدہ میں نمایندگی جاری رکھی گئی۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور اقوا م متحدہ اور دنیا میں افغانستان کی نمایندگی برہان الدین ربانی کے پاس تھی۔ ان کے نمایندے اور سفیر افغانستان کے سفارتخانوں پر قابض رہے۔ دنیا ان کو افغانستان کا حکمران مانتی رہی۔ لیکن کیا ہوا۔ اس کی وجہ سے دنیا کو ایک عالمی جنگ کا سامنا کرنا پڑ گیا اور آج بیس سال بعد طالبان دوبارہ افغانستان پر حکمران ہیں۔
کیا آج دوبارہ اقوام متحدہ اور اس کے ذمے داران وہی غلطی کریں گے ۔کیا موجودہ صورتحال میں اشرف غنی کو اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمایندگی دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔ یہ درست ہے کہ بھارت اور اس کی لابی کی بھر پور کوشش ہے کہ اشرف غنی یا ان کے نمایندہ کو 27ستمبر کو اقوام متحدہ سے خطاب کا موقع دیا جائے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کو طالبان کی درخواست بروقت موصول ہو چکی ہے۔ تا ہم اس پر اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے بروقت فیصلہ نہ کرنا افسوس ناک ہوگا۔ اس سے عالمی امن مضبوط نہیں کمزور ہوگا۔ماضی میں بھی کمزور ہی ہوا تھا۔ یہ منطق کمزور ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی جو اقوام متحدہ میں حق نمایندگی طے کرتی ہے اسے فوری میٹنگ کر کے طالبان کی درخواست پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ اشرف غنی کے نمایندہ کا اقوام متحدہ سے خطاب خود اقوام متحدہ کے ساتھ مذاق ہوگا۔
اگر ایک لمحہ کے لیے یہ منطق مان لی جائے کہ فی الحال کسی کو بھی نمایندگی کا حق نہ دیا جائے تو یہ بھی کوئی مثبت قدم نہیں ہوگا۔ ایک ملک کو اقوام متحدہ سے باہر رکھنا کوئی اچھی بات نہیں۔ جب اسرائیل کو باہر نہیں رکھا جاتا تو طالبان کو باہر کیوں رکھا جائے۔ افغانستان کو اقوام متحدہ کے ممبر ملک کے طور پر نمایندگی کا حق ہے اور یہ حق اسے ہی ملنا چاہیے جس کی افغانستان میں حکومت ہے۔ جو افغانستان میں نہیں ہے اس کو یہ حق کیسے مل سکتا ہے۔
دوستوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اقوام متحدہ میں طالبان کو افغانستان کی حق نمایندگی دینے کے بعد بھی ہر ملک کے پاس یہ حق رہے گا کہ وہ چاہے تو طالبان کی حکومت قبول کریں چاہیں تو نہ کریں۔ اس کی کئی مثالیں موجودہ ہیں۔ اسرائیل اس کی ایک مثال ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے پاس پھر بھی اقوام متحدہ میں نمایندگی کا حق ہے۔
اسرائیل کی مثال تو اور بھی دلچسپ ہے اس کو تو ایک جائز ملک کے طور پر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ لیکن پھر بھی وہ تمام ممالک جو اسرائیل کو بطور ایک جائز ملک تسلیم نہیں کرتے اس کے ساتھ اقوام متحدہ میں بیٹھتے ہیں۔ اس کی بات سنتے ہیں۔ لیکن اس کے ایک ناجائز ملک ہونے کا موقف بھی قائم رکھتے ہیں۔ اسی طرح جو ممالک طالبان کی حکومت کو ایک جائز حکومت نہیں سمجھتے وہ اقوام متحدہ میں طالبان کو حق نمایندگی دینے کے بعد بھی اپنے اس موقف پر قائم رہ سکتے ہیں کہ طالبان کی حکومت جائز نہیں ہے۔ حالانکہ اسرائیل کے تو بطور ملک جائز ہونے پر سوال ہے جب کہ افغانستان کے بطور ملک جائز ہونے پر کوئی سوال نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے بہت سے اداروں نے طالبان حکومت کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی اداروں نے بھی طالبان حکومت کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے۔ اگر طالبان کو اقوام متحدہ کے بینر تلے امداد دی جا سکتی ہے تو پھر طالبان کو حق نمایندگی بھی دیا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا فی الحال طالبان کے ساتھ سفارتی روابط قائم نہیں بھی رکھنا چاہتی تو نہ رکھے حالانکہ یہ بھی ایک مبہم پالیسی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ممالک طالبان سے بالواسطہ بات بھی کر رہے ہیں۔ د نیا کے بڑے ممالک نے افغانستان کے لیے خصوصی مندوب بھی مقرر کیے ہوئے ہیں۔
حتیٰ کے امریکا نے بھی افغانستان سے نکلنے کے باجود افغانستان کے لیے اپنے نمایندے کو فارغ نہیں کیا ہے۔روس اور چین نے بھی افغانستان کے لیے خصوصی مندوب بنائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے بھی طالبان کی افغانستان حکومت میں بھی افغانستان کے دورے کر رہے ہیں۔ ایسے میں طالبان کو حق نمایندگی نہ دینا نہ صرف زیادتی ہوگی بلکہ ایک امتیازی سلوک اور دوہرا معیار بھی ہوگا۔ اگر دنیا طالبان کی حکومت کو کسی گریٹ گیم پلان کے تحت ابھی قبول نہیں بھی کرنا چاہتی تو نہ کرے لیکن اقوام متحدہ میں ان کا حق نمایندگی تو انھیں دے۔ جیسے انھیں دیگر سہولیات دی جا رہی ہیں۔
اشرف غنی یا اس کے نمایندے کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اپنے موقف کو آگے بڑھانے دینا ایک غلط حکمت عملی ہوگی۔ امریکا خود کہتا ہے کہ وہ افغانستان سے بھاگ گئے ہیں۔ ان کے بھاگنے کا عالمی برداری کو بہت نقصان ہوا ہے۔ اس کے بعد انھیں سزا دینے کے بجائے حق نمایندگی دینا ناقابل فہم ہے۔ طالبان کی دشمنی میں اشرف غنی کو نوازنا غلط ہوگا۔ اقوام متحدہ کو بھارت کے ہاتھوں یر غمال نہیں بننا چاہیے۔ اس سے پہلے بھارت نے سارک میں طالبان کو حق نمایندگی نہیں دیا جب کہ پاکستان سارک میں طالبان کے حق نمایندگی کے لیے اصرار کر رہا تھا۔ پاکستان کو موقف درست تھا۔ لیکن بھارت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔
میں سمجھتا ہوں افغانستان کے نئے وزیر خارجہ کو اب افغانستان سے باہر نکلنا چاہیے۔ انھیں دنیا سے بات شروع کرنی چاہیے۔ اس کام کے لیے مکمل طور پر پاکستان پر انحصار درست نہیں۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کی بے جا وکالت کا طالبان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔
طالبان کو اپنی بات کے لیے پاکستان کو کم سے کم استعمال کرنا چاہیے بلکہ اپنی بات خود شروع کرنی چاہیے۔ جب دنیا کے بڑے ممالک ان سے بالواسطہ بات کر رہے ہیں تو وہ ان سے براہ راست بات چیت کا بھی راستہ نکالیں۔ یہی سفارتکاری ہے۔ طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ پہلے بھی وہ اپنی کمزور سفارتکاری کی وجہ سے ہی افغانستان کی حکومت کھو گئے تھے۔ یہ پالیسی کہ اگر دنیا ہمیں قبول نہیں کرتی تو اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا نہ پہلے کامیاب ثابت ہو ئی ہے اورنہ ہی اب کامیاب ہو گی۔ دنیا سے بات چیت اور اپنی قبولیت کے راستے نکالنا ہونگے۔یہی کامیاب سفارتکاری ہے۔
اگر یہ حق اشرف غنی کو دیا جاتا ہے تو یہ افغانستان کے ساتھ مذاق ہوگا بلکہ اقوام متحدہ کے ساتھ بھی ایک مذاق کے مترادف ہوگا۔ طالبان نے سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے اپنا نمایندہ مقرر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں انھیں اقوام متحدہ میں بات کرنے کا بھر پور موقع ملنا چاہیے۔
اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ماضی میں جب طالبان کی حکومت تھی تب بھی اقوام متحدہ نے یہی غلطی کی تھی۔ طالبان کو حق نمایندگی نہیں دیا گیا تھا بلکہ سابق صدر برہان الدین ربانی کی اقوام متحدہ میں نمایندگی جاری رکھی گئی۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور اقوا م متحدہ اور دنیا میں افغانستان کی نمایندگی برہان الدین ربانی کے پاس تھی۔ ان کے نمایندے اور سفیر افغانستان کے سفارتخانوں پر قابض رہے۔ دنیا ان کو افغانستان کا حکمران مانتی رہی۔ لیکن کیا ہوا۔ اس کی وجہ سے دنیا کو ایک عالمی جنگ کا سامنا کرنا پڑ گیا اور آج بیس سال بعد طالبان دوبارہ افغانستان پر حکمران ہیں۔
کیا آج دوبارہ اقوام متحدہ اور اس کے ذمے داران وہی غلطی کریں گے ۔کیا موجودہ صورتحال میں اشرف غنی کو اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمایندگی دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔ یہ درست ہے کہ بھارت اور اس کی لابی کی بھر پور کوشش ہے کہ اشرف غنی یا ان کے نمایندہ کو 27ستمبر کو اقوام متحدہ سے خطاب کا موقع دیا جائے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کو طالبان کی درخواست بروقت موصول ہو چکی ہے۔ تا ہم اس پر اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے بروقت فیصلہ نہ کرنا افسوس ناک ہوگا۔ اس سے عالمی امن مضبوط نہیں کمزور ہوگا۔ماضی میں بھی کمزور ہی ہوا تھا۔ یہ منطق کمزور ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی جو اقوام متحدہ میں حق نمایندگی طے کرتی ہے اسے فوری میٹنگ کر کے طالبان کی درخواست پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ اشرف غنی کے نمایندہ کا اقوام متحدہ سے خطاب خود اقوام متحدہ کے ساتھ مذاق ہوگا۔
اگر ایک لمحہ کے لیے یہ منطق مان لی جائے کہ فی الحال کسی کو بھی نمایندگی کا حق نہ دیا جائے تو یہ بھی کوئی مثبت قدم نہیں ہوگا۔ ایک ملک کو اقوام متحدہ سے باہر رکھنا کوئی اچھی بات نہیں۔ جب اسرائیل کو باہر نہیں رکھا جاتا تو طالبان کو باہر کیوں رکھا جائے۔ افغانستان کو اقوام متحدہ کے ممبر ملک کے طور پر نمایندگی کا حق ہے اور یہ حق اسے ہی ملنا چاہیے جس کی افغانستان میں حکومت ہے۔ جو افغانستان میں نہیں ہے اس کو یہ حق کیسے مل سکتا ہے۔
دوستوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اقوام متحدہ میں طالبان کو افغانستان کی حق نمایندگی دینے کے بعد بھی ہر ملک کے پاس یہ حق رہے گا کہ وہ چاہے تو طالبان کی حکومت قبول کریں چاہیں تو نہ کریں۔ اس کی کئی مثالیں موجودہ ہیں۔ اسرائیل اس کی ایک مثال ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے پاس پھر بھی اقوام متحدہ میں نمایندگی کا حق ہے۔
اسرائیل کی مثال تو اور بھی دلچسپ ہے اس کو تو ایک جائز ملک کے طور پر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ لیکن پھر بھی وہ تمام ممالک جو اسرائیل کو بطور ایک جائز ملک تسلیم نہیں کرتے اس کے ساتھ اقوام متحدہ میں بیٹھتے ہیں۔ اس کی بات سنتے ہیں۔ لیکن اس کے ایک ناجائز ملک ہونے کا موقف بھی قائم رکھتے ہیں۔ اسی طرح جو ممالک طالبان کی حکومت کو ایک جائز حکومت نہیں سمجھتے وہ اقوام متحدہ میں طالبان کو حق نمایندگی دینے کے بعد بھی اپنے اس موقف پر قائم رہ سکتے ہیں کہ طالبان کی حکومت جائز نہیں ہے۔ حالانکہ اسرائیل کے تو بطور ملک جائز ہونے پر سوال ہے جب کہ افغانستان کے بطور ملک جائز ہونے پر کوئی سوال نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے بہت سے اداروں نے طالبان حکومت کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی اداروں نے بھی طالبان حکومت کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے۔ اگر طالبان کو اقوام متحدہ کے بینر تلے امداد دی جا سکتی ہے تو پھر طالبان کو حق نمایندگی بھی دیا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا فی الحال طالبان کے ساتھ سفارتی روابط قائم نہیں بھی رکھنا چاہتی تو نہ رکھے حالانکہ یہ بھی ایک مبہم پالیسی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ممالک طالبان سے بالواسطہ بات بھی کر رہے ہیں۔ د نیا کے بڑے ممالک نے افغانستان کے لیے خصوصی مندوب بھی مقرر کیے ہوئے ہیں۔
حتیٰ کے امریکا نے بھی افغانستان سے نکلنے کے باجود افغانستان کے لیے اپنے نمایندے کو فارغ نہیں کیا ہے۔روس اور چین نے بھی افغانستان کے لیے خصوصی مندوب بنائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے بھی طالبان کی افغانستان حکومت میں بھی افغانستان کے دورے کر رہے ہیں۔ ایسے میں طالبان کو حق نمایندگی نہ دینا نہ صرف زیادتی ہوگی بلکہ ایک امتیازی سلوک اور دوہرا معیار بھی ہوگا۔ اگر دنیا طالبان کی حکومت کو کسی گریٹ گیم پلان کے تحت ابھی قبول نہیں بھی کرنا چاہتی تو نہ کرے لیکن اقوام متحدہ میں ان کا حق نمایندگی تو انھیں دے۔ جیسے انھیں دیگر سہولیات دی جا رہی ہیں۔
اشرف غنی یا اس کے نمایندے کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اپنے موقف کو آگے بڑھانے دینا ایک غلط حکمت عملی ہوگی۔ امریکا خود کہتا ہے کہ وہ افغانستان سے بھاگ گئے ہیں۔ ان کے بھاگنے کا عالمی برداری کو بہت نقصان ہوا ہے۔ اس کے بعد انھیں سزا دینے کے بجائے حق نمایندگی دینا ناقابل فہم ہے۔ طالبان کی دشمنی میں اشرف غنی کو نوازنا غلط ہوگا۔ اقوام متحدہ کو بھارت کے ہاتھوں یر غمال نہیں بننا چاہیے۔ اس سے پہلے بھارت نے سارک میں طالبان کو حق نمایندگی نہیں دیا جب کہ پاکستان سارک میں طالبان کے حق نمایندگی کے لیے اصرار کر رہا تھا۔ پاکستان کو موقف درست تھا۔ لیکن بھارت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔
میں سمجھتا ہوں افغانستان کے نئے وزیر خارجہ کو اب افغانستان سے باہر نکلنا چاہیے۔ انھیں دنیا سے بات شروع کرنی چاہیے۔ اس کام کے لیے مکمل طور پر پاکستان پر انحصار درست نہیں۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کی بے جا وکالت کا طالبان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔
طالبان کو اپنی بات کے لیے پاکستان کو کم سے کم استعمال کرنا چاہیے بلکہ اپنی بات خود شروع کرنی چاہیے۔ جب دنیا کے بڑے ممالک ان سے بالواسطہ بات کر رہے ہیں تو وہ ان سے براہ راست بات چیت کا بھی راستہ نکالیں۔ یہی سفارتکاری ہے۔ طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ پہلے بھی وہ اپنی کمزور سفارتکاری کی وجہ سے ہی افغانستان کی حکومت کھو گئے تھے۔ یہ پالیسی کہ اگر دنیا ہمیں قبول نہیں کرتی تو اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا نہ پہلے کامیاب ثابت ہو ئی ہے اورنہ ہی اب کامیاب ہو گی۔ دنیا سے بات چیت اور اپنی قبولیت کے راستے نکالنا ہونگے۔یہی کامیاب سفارتکاری ہے۔