مذہب رکاوٹ نہیں معاون ہے
مذہب کا کوئی اہم کردار نہیں رہا اور مذہب سے لا تعلق ہونا کوئی معیوب بات نہیں۔
ہمارے معاشرے میں بھی یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ مذہب، مذہبی طبقہ اور مذہبی سوچ معاشرے کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں اور سائنس و فلسفہ کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے۔
عورت کا حجاب اور مرد کی مذہبی سوچ اور مذہبی حلیہ بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کی ایک وجہ ہے۔ مغرب میں اگر مذہب کو ناکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جائے تو اچنبھے کی بات نہیں، وہاں کا معاملہ بالکل جدا ہے، کیونکہ مغرب میں کلیسا اور سائنس کی ایک طویل کشمکش چلی ہے۔
مذہبی علماء اور سائنس دان ایک دوسرے کے جانی دشمن رہے ہیں۔ دونوں نے اختیار ملنے پر دوسرے کو دبانے اور ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی اور بالآخر سائنس نے مذہبی علما کو چت کر کے کلیسا تک محدود کردیا۔ اب وہاں مذہب کا کوئی اہم کردار نہیں رہا اور مذہب سے لا تعلق ہونا کوئی معیوب بات نہیں۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی بعض افراد کی طرف سے مذہب اسلام کو بھی ترقی و سائنس کی راہ میں رکاوٹ بتایا جاتا ہے۔
مذہبی حلیے کے مرد کو انتہا پسند اور حجاب کرنے والی عورت کو ابنارمل تک قرار دے دیا جاتا ہے، حالانکہ کسی کی شکل و صورت اور لباس و حلیے کے بجائے اس کے کردار اور کام سے غرض ہونی چاہیے۔ کسی بھی شخص کا کام اگر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں معاون ہے تو اس کے حلیے کو موضوع بحث بنانے کے بجائے اس کا کردار قابل تحسین ہونا چاہیے۔
مذہبی تعلیمات اور ملکی قوانین پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ملک و ملت، معاشرے اور مختلف شعبہ جات کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے مرد و خواتین کی بھی سیکڑوں ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مذہب اور مذہبی سوچ کو علم و دانش اور سائنس و فلسفہ کا دشمن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینا سراسر غلط ہے۔ یہ سوچ کم فہمی اور مذہب سے تعصب کی عکاس ہے۔
جدید سائنسی ، فنی ، طبی ، معاشی، سماجی، ادبی، بحریات، فلکیات، ارضیات، حیاتیات، حیوانیات اور خلائی تحقیقات سمیت کسی شعبہ علم کا مذہب اسلام سے کوئی تعارض نہیں ہے ، اگر مذہب اسلام سائنس اور ترقی کا مخالف ہوتا تو بہت سی اہم اشیاء کے موجد مسلمان نہ ہوتے۔
دنیا میں مسلمانوں نے ان سائنسی ایجادات کی وجہ سے بہت نام کمایا، جن کی وجہ سے دنیا کا رہن سہن ہی بدل گیا ہے۔ اس بات کا اقرار مغربی دنیا بھی کرتی ہے۔ مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن کی ایجادات پر آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی گئی ہے اور پوری دنیا آج ان سے مستفید ہو رہی ہے۔
کیمرہ ، پیراشوٹ ، صابن ، مشینیں ، لباس ، سرجیکل آلات، ہوائی چکی یا ونڈ مل، فاؤنٹین پین، ہندسہ اور الجبرا، قالین، بارود، زمین گول ہے کا تصور، باغات اور ہربل ادویات، اسپتال، یونیورسٹیاں، سرجری، چیک، ویکسی نیشن اور اس طرح کی بہت سی ایجادات یہ سب اس پْرکشش مسلم تہذیب کی دین ہیں۔ آج اگر ہم اس پائے کی ترقی اور ایجادات نہیں کررہے، جیسی ہونی چاہیے تو اس میں مذہب اور مذہبی طبقے کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
مذہب یا اہل مذہب نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ یونیورسٹیاں ، کالج اور جدید علوم پر مشتمل اعلیٰ تعلیمی ، تحقیقی اور تربیتی ادارے قائم نہ کیے جائیں اور جن جدید عصری علوم، شعبوں اور اداروں پر ریاستی وسائل خرچ ہورہے ہیں، اْن میں سے کسی کی باگ ڈور بھی علماء کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہمارے تمام اداروں کے سرپرست اور ذمے دار بھی اعلیٰ عصری تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں خطیر رقم کی لاگت کے باوجود ہم دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔
اس کے باوجود مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے، اگر ہم دیگر ترقی یافتہ اقوام کے مقابل آنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسباب پر غور و فکر کرکے وجوہات کا سدباب ضرور کرنا چاہیے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کچھ نیا کر دکھانے کے بجائے مغرب کے افکار و نظریات کو ہی سائنس و فلسفہ کی صورت میں ہضم کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ کچھ نیا مغربی افکار سے ہٹ کر بھی ہوسکتا ہے۔ مذہب کی رہنمائی کے بغیر کسی بھی شعبہ میں انسان ترقی اور کامیابی کے مسلمہ اصولوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے۔
قرآن سائنس کی کتاب نہیں، بلکہ اللہ کا کلام اور کتاب ہدایت ہے۔ اس کا اصل اور بنیادی کام انسان کی ہدایت ہے، لیکن اس میں غوروفکر اور تدبر و تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ کائنات اور اس کے مظاہر کے مشاہدے اور مطالعے کی دعوت دیتا ہے۔
مذہب اسلام تعلیم کو انسانیت کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلام نے آتے ہی علم کو جو اہمیت دی، وہ کسی اور حکم خداوندی کو نہیں دی۔ سب سے پہلی وحی کا آغاز ہی '' اقراء '' سے ہوا۔ انسان نے آج تک جتنی بھی ترقی کی ہے، اس کی بنیاد ہی '' اقراء'' ہے۔ انسان کو سب سے پہلے علم الاشیا دیا گیا اور اسی بنا پر اسے فرشتوں پر فضیلت بخشی گئی۔ قرآن نے واضح کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے۔ مذہب اسلام ہی مطالعہ کائنات و تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے اور اسلام نے ہی انسان کو یہ سبق دیا کہ کائنات کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس سبق نے انسان کو کائنات کی تسخیر کی طرف توجہ دلائی۔
انسان نے کائنات میں غور و فکر کیا، کائنات کے عناصر کے خواص معلوم کرنے میں مشغول ہوا۔ مختلف علوم حاصل کیے۔ سائنس نے ترقی کی اور بہت سی اشیاء ایجاد ہوئیں۔ انسان کی زندگی، شعور و آگہی کو معتدل و متوازن رکھنے کے لیے مذہب اور مذہبی تعلیمات کا بنیادی کردار ہے۔ مذہب انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
معاشرہ وجود میں آنے سے پہلے بنیادی شعور و آگاہی کی فراہمی مذہب کی مرہون منت ہے اور معاشرہ وجود میں آنے کے بعد اس کے بڑے بڑے ادارے مذہب ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں۔ ریاست آئین و دستور کے ارتقا و ترقی و نشوونما میں مذہب کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج تک دنیا جن افکار اور معاشرتی حقوق سے فیض یاب ہو رہی ہے، ان میں بنیادی کردار ''خطبہ الوداع '' کا ہے، جو انسانیت کے لیے منشور اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی معاشرت کی ترقی یافتہ شکل ''ریاست '' کی تعمیر و تکمیل میں مذہب نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے اور فلاح معاشرہ کے تمام ادارے انسان کی اس ہمدردانہ سوچ کا نتیجہ ہیں جو مذہب نے پیدا کی ہوئی ہیں۔ مذہب نے نہ صرف معیار انسانیت قائم کیا، بلکہ خدمت انسانی، تعمیر انسانی اور فلاح انسانیت کے زریں فکر و عمل پر اعلیٰ تہذیب کی بنیادیں استوار کیں۔ حیرت کی بات ہے زندگی کے ہر شعبے میں مذہب اور مذہبی تعلیمات کی رہنمائی میں ترقی کرنے کے بعد آج کچھ لوگ مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے رہے ہیں، ان کی سوچ پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
عورت کا حجاب اور مرد کی مذہبی سوچ اور مذہبی حلیہ بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کی ایک وجہ ہے۔ مغرب میں اگر مذہب کو ناکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جائے تو اچنبھے کی بات نہیں، وہاں کا معاملہ بالکل جدا ہے، کیونکہ مغرب میں کلیسا اور سائنس کی ایک طویل کشمکش چلی ہے۔
مذہبی علماء اور سائنس دان ایک دوسرے کے جانی دشمن رہے ہیں۔ دونوں نے اختیار ملنے پر دوسرے کو دبانے اور ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی اور بالآخر سائنس نے مذہبی علما کو چت کر کے کلیسا تک محدود کردیا۔ اب وہاں مذہب کا کوئی اہم کردار نہیں رہا اور مذہب سے لا تعلق ہونا کوئی معیوب بات نہیں۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی بعض افراد کی طرف سے مذہب اسلام کو بھی ترقی و سائنس کی راہ میں رکاوٹ بتایا جاتا ہے۔
مذہبی حلیے کے مرد کو انتہا پسند اور حجاب کرنے والی عورت کو ابنارمل تک قرار دے دیا جاتا ہے، حالانکہ کسی کی شکل و صورت اور لباس و حلیے کے بجائے اس کے کردار اور کام سے غرض ہونی چاہیے۔ کسی بھی شخص کا کام اگر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں معاون ہے تو اس کے حلیے کو موضوع بحث بنانے کے بجائے اس کا کردار قابل تحسین ہونا چاہیے۔
مذہبی تعلیمات اور ملکی قوانین پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ملک و ملت، معاشرے اور مختلف شعبہ جات کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے مرد و خواتین کی بھی سیکڑوں ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مذہب اور مذہبی سوچ کو علم و دانش اور سائنس و فلسفہ کا دشمن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینا سراسر غلط ہے۔ یہ سوچ کم فہمی اور مذہب سے تعصب کی عکاس ہے۔
جدید سائنسی ، فنی ، طبی ، معاشی، سماجی، ادبی، بحریات، فلکیات، ارضیات، حیاتیات، حیوانیات اور خلائی تحقیقات سمیت کسی شعبہ علم کا مذہب اسلام سے کوئی تعارض نہیں ہے ، اگر مذہب اسلام سائنس اور ترقی کا مخالف ہوتا تو بہت سی اہم اشیاء کے موجد مسلمان نہ ہوتے۔
دنیا میں مسلمانوں نے ان سائنسی ایجادات کی وجہ سے بہت نام کمایا، جن کی وجہ سے دنیا کا رہن سہن ہی بدل گیا ہے۔ اس بات کا اقرار مغربی دنیا بھی کرتی ہے۔ مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن کی ایجادات پر آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی گئی ہے اور پوری دنیا آج ان سے مستفید ہو رہی ہے۔
کیمرہ ، پیراشوٹ ، صابن ، مشینیں ، لباس ، سرجیکل آلات، ہوائی چکی یا ونڈ مل، فاؤنٹین پین، ہندسہ اور الجبرا، قالین، بارود، زمین گول ہے کا تصور، باغات اور ہربل ادویات، اسپتال، یونیورسٹیاں، سرجری، چیک، ویکسی نیشن اور اس طرح کی بہت سی ایجادات یہ سب اس پْرکشش مسلم تہذیب کی دین ہیں۔ آج اگر ہم اس پائے کی ترقی اور ایجادات نہیں کررہے، جیسی ہونی چاہیے تو اس میں مذہب اور مذہبی طبقے کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
مذہب یا اہل مذہب نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ یونیورسٹیاں ، کالج اور جدید علوم پر مشتمل اعلیٰ تعلیمی ، تحقیقی اور تربیتی ادارے قائم نہ کیے جائیں اور جن جدید عصری علوم، شعبوں اور اداروں پر ریاستی وسائل خرچ ہورہے ہیں، اْن میں سے کسی کی باگ ڈور بھی علماء کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہمارے تمام اداروں کے سرپرست اور ذمے دار بھی اعلیٰ عصری تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں خطیر رقم کی لاگت کے باوجود ہم دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔
اس کے باوجود مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے، اگر ہم دیگر ترقی یافتہ اقوام کے مقابل آنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسباب پر غور و فکر کرکے وجوہات کا سدباب ضرور کرنا چاہیے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کچھ نیا کر دکھانے کے بجائے مغرب کے افکار و نظریات کو ہی سائنس و فلسفہ کی صورت میں ہضم کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ کچھ نیا مغربی افکار سے ہٹ کر بھی ہوسکتا ہے۔ مذہب کی رہنمائی کے بغیر کسی بھی شعبہ میں انسان ترقی اور کامیابی کے مسلمہ اصولوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے۔
قرآن سائنس کی کتاب نہیں، بلکہ اللہ کا کلام اور کتاب ہدایت ہے۔ اس کا اصل اور بنیادی کام انسان کی ہدایت ہے، لیکن اس میں غوروفکر اور تدبر و تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ کائنات اور اس کے مظاہر کے مشاہدے اور مطالعے کی دعوت دیتا ہے۔
مذہب اسلام تعلیم کو انسانیت کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلام نے آتے ہی علم کو جو اہمیت دی، وہ کسی اور حکم خداوندی کو نہیں دی۔ سب سے پہلی وحی کا آغاز ہی '' اقراء '' سے ہوا۔ انسان نے آج تک جتنی بھی ترقی کی ہے، اس کی بنیاد ہی '' اقراء'' ہے۔ انسان کو سب سے پہلے علم الاشیا دیا گیا اور اسی بنا پر اسے فرشتوں پر فضیلت بخشی گئی۔ قرآن نے واضح کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے۔ مذہب اسلام ہی مطالعہ کائنات و تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے اور اسلام نے ہی انسان کو یہ سبق دیا کہ کائنات کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس سبق نے انسان کو کائنات کی تسخیر کی طرف توجہ دلائی۔
انسان نے کائنات میں غور و فکر کیا، کائنات کے عناصر کے خواص معلوم کرنے میں مشغول ہوا۔ مختلف علوم حاصل کیے۔ سائنس نے ترقی کی اور بہت سی اشیاء ایجاد ہوئیں۔ انسان کی زندگی، شعور و آگہی کو معتدل و متوازن رکھنے کے لیے مذہب اور مذہبی تعلیمات کا بنیادی کردار ہے۔ مذہب انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
معاشرہ وجود میں آنے سے پہلے بنیادی شعور و آگاہی کی فراہمی مذہب کی مرہون منت ہے اور معاشرہ وجود میں آنے کے بعد اس کے بڑے بڑے ادارے مذہب ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں۔ ریاست آئین و دستور کے ارتقا و ترقی و نشوونما میں مذہب کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج تک دنیا جن افکار اور معاشرتی حقوق سے فیض یاب ہو رہی ہے، ان میں بنیادی کردار ''خطبہ الوداع '' کا ہے، جو انسانیت کے لیے منشور اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی معاشرت کی ترقی یافتہ شکل ''ریاست '' کی تعمیر و تکمیل میں مذہب نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے اور فلاح معاشرہ کے تمام ادارے انسان کی اس ہمدردانہ سوچ کا نتیجہ ہیں جو مذہب نے پیدا کی ہوئی ہیں۔ مذہب نے نہ صرف معیار انسانیت قائم کیا، بلکہ خدمت انسانی، تعمیر انسانی اور فلاح انسانیت کے زریں فکر و عمل پر اعلیٰ تہذیب کی بنیادیں استوار کیں۔ حیرت کی بات ہے زندگی کے ہر شعبے میں مذہب اور مذہبی تعلیمات کی رہنمائی میں ترقی کرنے کے بعد آج کچھ لوگ مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے رہے ہیں، ان کی سوچ پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔