فرید خان جو شیرشاہ سوری کہلایا
ہمایوں کی جلاوطنی اور تخت کی بازیابی کے درمیانی عرصے میں ہندوستان میں افغان حکومت شیرشاہ سوری نے قائم کی۔
جولائی 1500ء میں افغانستان سے میرے والد اور چچا اپنے اہل و عیال کے ساتھ پشاور آئے۔ فرید خان کے دادا ابراہیم سور اور والد حسن خان سور سہسرام چلے گئے وہاں پہنچنے کے بعد فرید خان جو میرا ہم عمر تھا اس نے اپنے باپ سے مجھے بلانے کو کہا۔ جس طرح ہم افغانستان میں ساتھ رہے وہ لوگ بھی ہمیں ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔
ہم لوگ ان کے پیغامبر ساتھیوں کے ہمراہ پشاور سے روانہ ہوگئے۔ جب ان کے پاس پہنچے فرید خان بہت خوش ہوا، اس نے مجھے گلے لگا لیا، کہنے لگا تم میرے ساتھ رہوگے، تعلیم بھی ساتھ ہی حاصل کریں گے۔
ہمایوں کی جلاوطنی اور تخت کی بازیابی کے درمیانی عرصے میں ہندوستان میں افغان حکومت شیرشاہ سوری نے قائم کی۔ چونکہ قبلہ سور سے تعلق تھا اس لیے ہم لوگ سوری کہلائے۔ افغان اقتدار کا یہ احیا شیر شاہ سوری کی شہرہ آفاق شخصیت کا مرہون منت تھا۔ اس نے فطری صلاحیتوں ، درست فیصلوں ،موقع شناسی، خود اعتمادی سے نہ صرف مغلوں کو ہندوستان سے نکال دیا بلکہ اعلیٰ نظام حکومت قائم کرکے آنے والے حکمرانوں کی رہبری کی۔ ہندوستان کی سیاست ثقافت اور معاشرہ پر نقوش و دوام چھوڑے ۔
شیرشاہ کا اصل نام فرید خان قبیلہ سور تھا جیسے پہلے میں نے بات کی یہ بات بھی خاص ہے کہ سور، غوری، سلاطین کی ایک شاخ تھی۔ ہم لوگ بہلول لودھی کے عہد میں شیر شاہ کے دادا ،کے ہمراہ افغانستان سے ہندوستان آئے آپ کے والد حسن خان سور بھی ساتھ تھے۔
سکندر لودھی کے عہد میں جب جمال خان جونپور کا گورنر مقرر ہوا تو وہاں حسن خان سور کو ساتھ لے گیا اور اسے 500 سواروں کی کفالت کے لیے سہسرام حاجی پور، خواص پور، ٹنڈہ، بطور جاگیرعطا کیا۔ یہاں مجھ کو اور میرے گھر والوں کو بلا بھیجا ہم سب بڑے بڑے کمروں میں رہتے سب ہی لوگ خوش تھے لیکن شیر شاہ (فرید خان) کی سوتیلی ماں جو ہندو کنیز تھی حسن خان سور نے اس سے شادی کی تھی وہ ورغلانے لگی۔
آٹھ بھائیوں میں فرید خان سب سے بڑا تھا، فرید خان کو اپنے والد حسن خان کی اپنی افغان ماں سے بے توجہی کا شدت سے احساس تھا۔ تنگ آکر فرید خان نے مجھ کو ساتھ لیا اور جونپورکا رخ کیا۔ یہ شہر علم و ثقافت کا گہوارا تھا۔ کئی سال وہاں کے مدارس میں عربی و فارسی پڑھتے رہے۔ فرید خان کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ اسے فارسی ادب کے شاہکار سکندر نامہ، گلستان، بوستان وغیرہ ازبر ہوگئے، تاریخ و فلسفہ کا بھی مطالعہ کیا۔
1501 تا 1511 کے دوران جونپور میں فرید خان نے وہاں کے علمی حلقوں میں شہرت حاصل کی۔ جمال خان گورنر جونپور نے باپ بیٹے میں مصالحت کرائی اور حسن خان سور کو بیٹے کی قدر کرنے کی ہدایت کی۔ اس نے سہسرام اور خواص بوٹنڈہ کا انتظام بیٹے کے سپرد کردیا اور بیٹے کو جاگیر سے الگ کردیا۔
فرید خان دہلی پہنچا، جہاں ابراہیم لودھی کے ایک درباری امیر دولت خان نے اس کی پشت پناہی کی۔ جب حسن خان سور کا انتقال ہوا تو اپنی جاگیر کا قبضہ لینے اس کے سوتیلے بھائی نے سلمان سوری قبیلہ کے ایک سردار محمد خان سور کے ہاں پناہ لی۔ انھی دنوں سلطنت دہلی کی بساط الٹ گئی۔ بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی اور آگرہ پر قبضہ کرلیا۔ بہارکے گورنر بہار خان نے سلطان محمد کا لقب اختیار کرکے خودمختاری کا اعلان کردیا۔
فرید خان اور میں نے سلطان محمد کی ملازمت اختیار کی۔ ایک دفعہ شکار میں تلوارکے وار سے شیر کو مارگرایا جس پر فرید خان کو شیر خان کا خطاب عطا ہوا۔ میں اسے اناڑی شکاری کہتا، فرید خان ہنستا کہتا میں شکاری نہیں بلکہ ہمت، طاقت اور اوسان بحال رکھے جس پر میں نے شیر کو مار دیا۔
سلطان محمد کے کم سن بیٹے جلال خان کا اتالیق بھی مقررکیا۔ کچھ عرصے کے لیے شیر خان اپنی جاگیر کے انتظام کے لیے گیا، البتہ میں اکثر اس موقع پر پہنچ جایا کرتا لیکن فرید خان کا سوتیلابھائی محمد خان سور میری موجودگی کو پسند نہ کرتا۔ میں نے فرید خان کو بتایا لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی جس کا اثر یہ نکلا محمد خان سور نے سلطان محمد کے کان بھرنے شروع کر دیے اور بعد ازاں والیٔ بہار کی طرف سے خود ثالث بن کر یہ فیصلہ سنا دیا کہ حسن خان سور کی جاگیر تمام اولادوں (بھائیوں) میں تقسیم ہونی چاہیے۔
اس پر فرید خان (شیرخان) نے کنڑہ کے مغل گورنر جنید برلاس کی حمایت حاصل کرلی اور اس کی مدد سے اپنے سوتیلے بھائی محمد خان سور کو شکست دی۔ بعدازاں ہم دونوں آگرہ پہنچے اور جنید برلاس کی وساطت سے بابر کی ملازمت میں ہم دونوں آگئے۔ مغل بادشاہ کے ساتھ ہم نے چندیری کی مہم میں شرکت کی۔ بابر شیرخان سے بہت متاثر ہوا اور اس کی مردم شناس نظروں نے شیر خان کی جبیں پر عظمت کے نقوش دیکھ لیے۔ بابر نے اپنے وزیر سے کہا شیر خان پر نظر رکھو، وہ ہوشیار آدمی ہے اس کی پیشانی سے بادشاہت کی علامت جھلکتی ہے۔
4 اپریل 1527 تا 30 جون 1528 تک دربار اکبری میں رہے اس عرصے میں شیر خان کی باریک بیں نگاہوں نے مغلوں کی عادات و اطوار اور جنگی تنظیم کا بغور مطالعہ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ حکومت کو اکھاڑ دینا کچھ دشوار اور مشکل نہیں۔
اب شیر خان نے دوبارہ سلطان محمد کی ملازمت اختیار کرلی یہاں بڑی قدر ہوئی اور اس کو دوبارہ نو عمر جلال خان کا اتالیق بنا دیا گیا۔ 1530ء میں اس نے ایک قدم بڑھایا۔ قلعہ چنار کے سابق حاکم تاج خان کی بیوہ لاڈو ملکہ سے شادی کرلی اس طرح بغیر جنگ کے نہ صرف دو قلعے اس کے قبضے میں آئے اور بے شمار زر و جواہرات بھی حاصل ہوئے۔ جن سے اسے اپنی قوت بڑھانے میں مدد ملی۔ افغانوں کی قیادت اس کے ہاتھ میں آگئی۔
شیرخان کو مشرق میں اپنا اقتدار قائم کرنے کا موقع ملا۔ چونسا کی فتح کے فوری بعد 4 دسمبر 1439 میں اس کی تاج پوشی کی تقریب ہوئی اس نے شیرشاہ کا لقب اختیار کیا اور اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری ہوا۔ 22 مئی 1545 آتش بازی کے ٹوکروں میں آگ لگ گئی اس کا جسم جھلس گیا۔ مغرب کے قریب اسے فتح کی خوش خبری ملی قلعہ فتح ہو گیا اس نے الحمد للہ کہتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔
ہم لوگ ان کے پیغامبر ساتھیوں کے ہمراہ پشاور سے روانہ ہوگئے۔ جب ان کے پاس پہنچے فرید خان بہت خوش ہوا، اس نے مجھے گلے لگا لیا، کہنے لگا تم میرے ساتھ رہوگے، تعلیم بھی ساتھ ہی حاصل کریں گے۔
ہمایوں کی جلاوطنی اور تخت کی بازیابی کے درمیانی عرصے میں ہندوستان میں افغان حکومت شیرشاہ سوری نے قائم کی۔ چونکہ قبلہ سور سے تعلق تھا اس لیے ہم لوگ سوری کہلائے۔ افغان اقتدار کا یہ احیا شیر شاہ سوری کی شہرہ آفاق شخصیت کا مرہون منت تھا۔ اس نے فطری صلاحیتوں ، درست فیصلوں ،موقع شناسی، خود اعتمادی سے نہ صرف مغلوں کو ہندوستان سے نکال دیا بلکہ اعلیٰ نظام حکومت قائم کرکے آنے والے حکمرانوں کی رہبری کی۔ ہندوستان کی سیاست ثقافت اور معاشرہ پر نقوش و دوام چھوڑے ۔
شیرشاہ کا اصل نام فرید خان قبیلہ سور تھا جیسے پہلے میں نے بات کی یہ بات بھی خاص ہے کہ سور، غوری، سلاطین کی ایک شاخ تھی۔ ہم لوگ بہلول لودھی کے عہد میں شیر شاہ کے دادا ،کے ہمراہ افغانستان سے ہندوستان آئے آپ کے والد حسن خان سور بھی ساتھ تھے۔
سکندر لودھی کے عہد میں جب جمال خان جونپور کا گورنر مقرر ہوا تو وہاں حسن خان سور کو ساتھ لے گیا اور اسے 500 سواروں کی کفالت کے لیے سہسرام حاجی پور، خواص پور، ٹنڈہ، بطور جاگیرعطا کیا۔ یہاں مجھ کو اور میرے گھر والوں کو بلا بھیجا ہم سب بڑے بڑے کمروں میں رہتے سب ہی لوگ خوش تھے لیکن شیر شاہ (فرید خان) کی سوتیلی ماں جو ہندو کنیز تھی حسن خان سور نے اس سے شادی کی تھی وہ ورغلانے لگی۔
آٹھ بھائیوں میں فرید خان سب سے بڑا تھا، فرید خان کو اپنے والد حسن خان کی اپنی افغان ماں سے بے توجہی کا شدت سے احساس تھا۔ تنگ آکر فرید خان نے مجھ کو ساتھ لیا اور جونپورکا رخ کیا۔ یہ شہر علم و ثقافت کا گہوارا تھا۔ کئی سال وہاں کے مدارس میں عربی و فارسی پڑھتے رہے۔ فرید خان کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ اسے فارسی ادب کے شاہکار سکندر نامہ، گلستان، بوستان وغیرہ ازبر ہوگئے، تاریخ و فلسفہ کا بھی مطالعہ کیا۔
1501 تا 1511 کے دوران جونپور میں فرید خان نے وہاں کے علمی حلقوں میں شہرت حاصل کی۔ جمال خان گورنر جونپور نے باپ بیٹے میں مصالحت کرائی اور حسن خان سور کو بیٹے کی قدر کرنے کی ہدایت کی۔ اس نے سہسرام اور خواص بوٹنڈہ کا انتظام بیٹے کے سپرد کردیا اور بیٹے کو جاگیر سے الگ کردیا۔
فرید خان دہلی پہنچا، جہاں ابراہیم لودھی کے ایک درباری امیر دولت خان نے اس کی پشت پناہی کی۔ جب حسن خان سور کا انتقال ہوا تو اپنی جاگیر کا قبضہ لینے اس کے سوتیلے بھائی نے سلمان سوری قبیلہ کے ایک سردار محمد خان سور کے ہاں پناہ لی۔ انھی دنوں سلطنت دہلی کی بساط الٹ گئی۔ بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی اور آگرہ پر قبضہ کرلیا۔ بہارکے گورنر بہار خان نے سلطان محمد کا لقب اختیار کرکے خودمختاری کا اعلان کردیا۔
فرید خان اور میں نے سلطان محمد کی ملازمت اختیار کی۔ ایک دفعہ شکار میں تلوارکے وار سے شیر کو مارگرایا جس پر فرید خان کو شیر خان کا خطاب عطا ہوا۔ میں اسے اناڑی شکاری کہتا، فرید خان ہنستا کہتا میں شکاری نہیں بلکہ ہمت، طاقت اور اوسان بحال رکھے جس پر میں نے شیر کو مار دیا۔
سلطان محمد کے کم سن بیٹے جلال خان کا اتالیق بھی مقررکیا۔ کچھ عرصے کے لیے شیر خان اپنی جاگیر کے انتظام کے لیے گیا، البتہ میں اکثر اس موقع پر پہنچ جایا کرتا لیکن فرید خان کا سوتیلابھائی محمد خان سور میری موجودگی کو پسند نہ کرتا۔ میں نے فرید خان کو بتایا لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی جس کا اثر یہ نکلا محمد خان سور نے سلطان محمد کے کان بھرنے شروع کر دیے اور بعد ازاں والیٔ بہار کی طرف سے خود ثالث بن کر یہ فیصلہ سنا دیا کہ حسن خان سور کی جاگیر تمام اولادوں (بھائیوں) میں تقسیم ہونی چاہیے۔
اس پر فرید خان (شیرخان) نے کنڑہ کے مغل گورنر جنید برلاس کی حمایت حاصل کرلی اور اس کی مدد سے اپنے سوتیلے بھائی محمد خان سور کو شکست دی۔ بعدازاں ہم دونوں آگرہ پہنچے اور جنید برلاس کی وساطت سے بابر کی ملازمت میں ہم دونوں آگئے۔ مغل بادشاہ کے ساتھ ہم نے چندیری کی مہم میں شرکت کی۔ بابر شیرخان سے بہت متاثر ہوا اور اس کی مردم شناس نظروں نے شیر خان کی جبیں پر عظمت کے نقوش دیکھ لیے۔ بابر نے اپنے وزیر سے کہا شیر خان پر نظر رکھو، وہ ہوشیار آدمی ہے اس کی پیشانی سے بادشاہت کی علامت جھلکتی ہے۔
4 اپریل 1527 تا 30 جون 1528 تک دربار اکبری میں رہے اس عرصے میں شیر خان کی باریک بیں نگاہوں نے مغلوں کی عادات و اطوار اور جنگی تنظیم کا بغور مطالعہ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ حکومت کو اکھاڑ دینا کچھ دشوار اور مشکل نہیں۔
اب شیر خان نے دوبارہ سلطان محمد کی ملازمت اختیار کرلی یہاں بڑی قدر ہوئی اور اس کو دوبارہ نو عمر جلال خان کا اتالیق بنا دیا گیا۔ 1530ء میں اس نے ایک قدم بڑھایا۔ قلعہ چنار کے سابق حاکم تاج خان کی بیوہ لاڈو ملکہ سے شادی کرلی اس طرح بغیر جنگ کے نہ صرف دو قلعے اس کے قبضے میں آئے اور بے شمار زر و جواہرات بھی حاصل ہوئے۔ جن سے اسے اپنی قوت بڑھانے میں مدد ملی۔ افغانوں کی قیادت اس کے ہاتھ میں آگئی۔
شیرخان کو مشرق میں اپنا اقتدار قائم کرنے کا موقع ملا۔ چونسا کی فتح کے فوری بعد 4 دسمبر 1439 میں اس کی تاج پوشی کی تقریب ہوئی اس نے شیرشاہ کا لقب اختیار کیا اور اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری ہوا۔ 22 مئی 1545 آتش بازی کے ٹوکروں میں آگ لگ گئی اس کا جسم جھلس گیا۔ مغرب کے قریب اسے فتح کی خوش خبری ملی قلعہ فتح ہو گیا اس نے الحمد للہ کہتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔