یتامٰی کی نگہداشت کا اجر عظیم
سرکاردوعالمؐ نے فرمایا:مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہترگھروہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اوراس کے ساتھ اچھاسلوک کیاجاتاہو۔
ﷲ تعالیٰ کے ارشادِ گرامی کا مفہوم: ''اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طریقے سے، جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے اس وقت اس کا مال اس کے سپرد کردو۔''
رسول اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جو شخص یتیم بچے کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرے اور یہ کام محض اﷲ (کی خوش نُودی) کے لیے کرے تو جتنے بال اس کے ہاتھ کے نیچے آجائیں گے ہر بال کے عوض میں اس کو نیکی ملے گی۔ اور جو شخص کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ جو اس کی تربیّت میں ہو نیک سلوک کرے تو میں اور وہ جنّت میں اس طرح پاس رہیں گے۔ یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کی دونوں انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔'' (مشکوٰۃ)
٭ یتیم کی پرورش کا اجر:
ایک دن رسول کریم ﷺ نے انگشت شہادت کو درمیانی انگلی سے جوڑ دیا اور پوچھا: ''لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس بات کی طرف اشارہ ہے؟ صحابۂ کرامؓ نے عر ض کیا: ''نہیں یارسول اﷲ ﷺ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنّت میں اس طرح اکٹھے ہوجائیں گے۔ ''
٭ سب سے بہتر گھر:
سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا: ''مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو، اور مسلمانوں کا سب سے بدتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔'' (ابن ماجہ )
٭ سخت دلی کا علاج :
ایک شخص نے سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اﷲﷺ! میرا دل سخت ہے، اس کا علاج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھا نا کھلایا کرو۔'' (احمد۔ مشکوٰۃ)
٭ یتیموں کو سینے سے لگانا:
حضرت اسما بنت عمیسؓ فرما تی ہیں، جس دن حضرت جعفرؓ شہید ہوئے، رسول اﷲ ﷺ میرے گھر تشریف لائے، میں اس وقت چالیس کھالوں کی دغابت کر چکی تھی اور آٹا پیس کر بچوں کو نہلا دُھلا کر تیل مل چکی تھی کہ اتنے میں حضور ﷺ تشریف لے آئے۔
آپؐ نے فرمایا: ''اسماء! جعفر کے بچے کہاں ہیں ؟ میں نے بچوں کو حاضر کردیا۔ حضور ﷺ نے بچوں کو سینے سے لگایا اور معاً آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ ﷺ رو پڑے۔ میں عرض کی یارسول اﷲﷺ! شاید آپ کو جعفرؓ کی طرف سے کچھ خبر آئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! وہ آج شہید ہوگئے۔ یہ سن کر میں چلانے لگی تو عورتیں جمع ہوگئیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسماء! لغو نہ بول اور سینہ نہ پیٹ۔ (طبقات ابن سعد)
٭ یتیم کی پاس داری:
حضرت معروف کرخیؒ عید کے دن نخلستان میں گری پڑی کھجوریں چُن رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا، حضور! یہ کھجُوریں کس لیے چُن رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے ایک لڑکے کو روتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا تم کیوں رو رہے ہو؟ لڑکا بولا: میں یتیم ہوں، یہ لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے ہیں اور میر ے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اخروٹ خرید کر ان کے ساتھ کھیل سکوں، اس لیے میں کھجوریں چُن رہا ہوں تاکہ انہیں فروخت کرکے اس یتیم بچے کو اخروٹ لے دوں۔ (احیاء العلوم )
٭ خوش قسمت یتیم:
ایک مرتبہ عید کا دن تھا اور سرکار دوعالم ﷺ تشریف لیے جا رہے تھے، راستے میں بچے کھیل کود رہے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے دیکھا کہ ایک لڑکا سب سے الگ تھلگ مغموم و افسردہ بیٹھا ہے اور کھیل کود میں کوئی دل چسپی نہیں لے رہا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا میں یتیم ہوں۔ میری والدہ نے دوسری شادی کر لی ہے کوئی نہیں جو میری سرپرستی کرے۔ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ محمد ﷺ تمہارے والد ہوں، عائشہؓ تمہاری ماں ہو اور فاطمہؓ تمہاری بہن۔ بچہ خوش ہوگیا اور بولا ہاں یارسول اﷲﷺ۔''
حضور ﷺ نے فرمایا: ''اٹھ اور میرے ساتھ چل اور حضور ﷺ اس کو بڑی شفقت کے ساتھ گھر لے آئے اور پھر وہ باپوں میں میں سب سے بہتر، ماؤں میں سب سے بہتر اور بہنوں میں سب سے افضل ترین بہن کے دامنِ شفقت میں پہنچ گیا۔
رسول اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جو شخص یتیم بچے کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرے اور یہ کام محض اﷲ (کی خوش نُودی) کے لیے کرے تو جتنے بال اس کے ہاتھ کے نیچے آجائیں گے ہر بال کے عوض میں اس کو نیکی ملے گی۔ اور جو شخص کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ جو اس کی تربیّت میں ہو نیک سلوک کرے تو میں اور وہ جنّت میں اس طرح پاس رہیں گے۔ یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کی دونوں انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔'' (مشکوٰۃ)
٭ یتیم کی پرورش کا اجر:
ایک دن رسول کریم ﷺ نے انگشت شہادت کو درمیانی انگلی سے جوڑ دیا اور پوچھا: ''لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس بات کی طرف اشارہ ہے؟ صحابۂ کرامؓ نے عر ض کیا: ''نہیں یارسول اﷲ ﷺ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنّت میں اس طرح اکٹھے ہوجائیں گے۔ ''
٭ سب سے بہتر گھر:
سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا: ''مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو، اور مسلمانوں کا سب سے بدتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔'' (ابن ماجہ )
٭ سخت دلی کا علاج :
ایک شخص نے سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اﷲﷺ! میرا دل سخت ہے، اس کا علاج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھا نا کھلایا کرو۔'' (احمد۔ مشکوٰۃ)
٭ یتیموں کو سینے سے لگانا:
حضرت اسما بنت عمیسؓ فرما تی ہیں، جس دن حضرت جعفرؓ شہید ہوئے، رسول اﷲ ﷺ میرے گھر تشریف لائے، میں اس وقت چالیس کھالوں کی دغابت کر چکی تھی اور آٹا پیس کر بچوں کو نہلا دُھلا کر تیل مل چکی تھی کہ اتنے میں حضور ﷺ تشریف لے آئے۔
آپؐ نے فرمایا: ''اسماء! جعفر کے بچے کہاں ہیں ؟ میں نے بچوں کو حاضر کردیا۔ حضور ﷺ نے بچوں کو سینے سے لگایا اور معاً آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ ﷺ رو پڑے۔ میں عرض کی یارسول اﷲﷺ! شاید آپ کو جعفرؓ کی طرف سے کچھ خبر آئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! وہ آج شہید ہوگئے۔ یہ سن کر میں چلانے لگی تو عورتیں جمع ہوگئیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسماء! لغو نہ بول اور سینہ نہ پیٹ۔ (طبقات ابن سعد)
٭ یتیم کی پاس داری:
حضرت معروف کرخیؒ عید کے دن نخلستان میں گری پڑی کھجوریں چُن رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا، حضور! یہ کھجُوریں کس لیے چُن رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے ایک لڑکے کو روتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا تم کیوں رو رہے ہو؟ لڑکا بولا: میں یتیم ہوں، یہ لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے ہیں اور میر ے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اخروٹ خرید کر ان کے ساتھ کھیل سکوں، اس لیے میں کھجوریں چُن رہا ہوں تاکہ انہیں فروخت کرکے اس یتیم بچے کو اخروٹ لے دوں۔ (احیاء العلوم )
٭ خوش قسمت یتیم:
ایک مرتبہ عید کا دن تھا اور سرکار دوعالم ﷺ تشریف لیے جا رہے تھے، راستے میں بچے کھیل کود رہے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے دیکھا کہ ایک لڑکا سب سے الگ تھلگ مغموم و افسردہ بیٹھا ہے اور کھیل کود میں کوئی دل چسپی نہیں لے رہا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا میں یتیم ہوں۔ میری والدہ نے دوسری شادی کر لی ہے کوئی نہیں جو میری سرپرستی کرے۔ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ محمد ﷺ تمہارے والد ہوں، عائشہؓ تمہاری ماں ہو اور فاطمہؓ تمہاری بہن۔ بچہ خوش ہوگیا اور بولا ہاں یارسول اﷲﷺ۔''
حضور ﷺ نے فرمایا: ''اٹھ اور میرے ساتھ چل اور حضور ﷺ اس کو بڑی شفقت کے ساتھ گھر لے آئے اور پھر وہ باپوں میں میں سب سے بہتر، ماؤں میں سب سے بہتر اور بہنوں میں سب سے افضل ترین بہن کے دامنِ شفقت میں پہنچ گیا۔