قابل امیدواروں کی کمی سندھ میں 135 عدالتوں میں کوئی جج نہیں

سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر آج قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے،ذرائع

ججزکی تقرری کیلیے سخت معیار کے باعث عدلیہ بحران کا شکار ہے،وکلا اور طلباکی بڑی تعدادمعیار پر پورا نہیں اترتی. فوٹو: فائل

باصلاحیت اور قابل امیدواروں کی کمی اور ججز کی تقرری کیلیے سخت معیار کے باعث سندھ کی ماتحت عدلیہ بحران کا شکار ہے۔

قانون کے طالب علموں اور نئے وکلا کی بڑی تعداد مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتی ،جس کے باعث انہیں امتحانات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اسی وجہ سے ماتحت عدلیہ میں تقریبا ایک تہائی عدالتیں جوڈیشل افسران سے محروم ہیں ، سندھ کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 446 تھی اور خالی عدالتوںکی تعداد 77 تھی لیکن اس سال 58نئی عدالتوں کی منظوری سے یہ تعداد 505 ہوگئی اور اس طرح اب پورے سندھ میں 135 عدالتوں میں کوئی جج نہیں،اس صورتحال کے بارے میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر آج قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے،ذرائع کے مطابق ہفتہ یکم فرروی کو چیف جسٹس آف پاکستان تصدق جیلانی کی سربراہی میں منعقد ہونے والے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا،اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ نے بھی ایک رپورٹ تیار کی ہے جو مذکورہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق سندھ میںماتحت عدالتوں کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد505ہے جس میں 27 سیشن ججز،115ایڈیشنل سیشن ججز،103 سنیئرسول ججزاور259سول ججز و جوڈیشنل مجسٹریٹ کی اسامیاں شامل ہیں مگر فی الحال ماتحت عدلیہ میں 370ججز ہی موجود ہیں،135عدالتوں میں ججزنہ ہونے کے باعث ماتحت عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بھی بڑھتا جارہا ہے،گو کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کی ہدایات کے مطابق ماتحت عدالتوں میں مقدمات نمٹانے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے مگر ججز کی کمی کے باعث سائلین کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ سکا ہے اور انصاف کا معیار بھی متاثرہوا ہے ،اس وقت بھی سندھ کی ماتحت عدالتوں میں ایک لاکھ20ہزار سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں،خالی اسامیوں میں ایک سیشن جج،32ایڈیشنل سیشن ججز،21سنیئرسول ججزاور81سول ججز و جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالتیں شامل ہیں۔




مذکورہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر ہفتہ کو لاہور میں منعقد ہونے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں گے،عدالتی ذرائع کے مطابق ماتحت عدلیہ میں تقرری کیلیے امیدوار مطلوبہ معیار پرپو را نہیں اترتے جس کی وجہ سے عدلیہ کو مشکلات کا سامنا ہے،اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مشیر عالم اور موجودہ چیف جسٹس مقبول باقر نے متعد دبار اس امر کااظہار کیاہے کہ نااہل ججوں کی تقرری سے خالی عدالتیں ہی بہتر ہیں،اس حوالے سے قابلیت اور معیار پر سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا،چیف جسٹس مقبول باقر نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی اس بات کو دہرایا تھا کہ ایڈیشنل سیشن ججز کی تقرری کیلیے1500امیدواروں میں سے صرف 3ہی کامیاب ہوئے اور ان کی قابلیت پر عدلیہ فخر نہیں کرسکتی۔

ذرائع کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے روبرو یہ سفارش بھی زیر غور ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سسٹم کے تحت ہونے والے امتحان میں کچھ نرمی کی جائے اور اسے قدرے آسان بنایا جائے تاہم اس سفارش کو تاحال پزیرائی نہیں مل سکی ہے، جامعہ کراچی کے ڈین آف لاء قاضی خالد ایڈووکیٹ اور سنیئر قانون دان خواجہ نوید احمد ایڈوکیٹ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کا معیاربھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم مطلوبہ تعداد میں قابل وکیل تیار نہیں کر پارہے، قانونی عدالتی حلقوں میں یہ بھی تاثر عام ہے کہ کراچی میں قانون کی تعلیم دینے والے تینوں کالجز ایس ایم لاء کالج،اسلامیہ کالج اورجامعہ اردومیں لا کی تعلیم کیلیے شام کی کلاسز ہوتی ہیں جسے جزوقتی تعلیم کے طور پرلیا جاتا ہے، جبکہ نجی سیکٹر میں قائم کیے گئے لا کالجز کا بھی نمایاں کردار سامنے نہیں آیا ہے۔
Load Next Story