قومی مفاد کے منصوبوں پر عوام میں جذبے اور لگن کا فقدان
سی پیک اورایسے ہی منصوبوں کی سیاست سے بالاتر ہوکرحمایت کرناقومی فریضہ ہے، مشاہیرکوعوام کی تربیت میں کردارادا کرناہوگا۔
اِیٹمی پروگرام کے بعد سی پیک پاکستان کیلئے سب سے اہم منصوبہ ہے، ایٹمی پروگرام ملکی دفاع اور بقاء کیلئے ضروری تھا جبکہ سی پیک ملکی معیشت اور اقتصادیات کیلئے انتہائی اہم ہے۔
یہ منصوبہ عوامی خوشحالی اور معاشی بقاء کیلئے بہت ضروری ہے، مگر یہ بات حیران کن ہے کہ اس منصوبے کے متعلق وہ قومی جذبہ اور عزم نظر نہیں آتا، جو نظرآنا چاہیے، شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہماری کوئی حکومت قوم کو اس منصوبے کی اہمیت کا احساس نہیں دلا سکی اور نہ ہی ہماری کوئی حکومت عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو سکی ہے، کہ قومی نوعیت کے اس منصوبے کا تعلق کسی ایک حکومت یا ادارے سے نہیں، بلکہ یہ عین پاکستانی قوم کے مفاد اور خوشحالی کیلئے ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی سے پاکستان ترقی کی نئی دوڑ میں شامل ہو جائے گا۔
سی پیک محض ''ایک روڈ ایک بیلٹ '' کا نام نہیں ہے یہ پانچوں صوبوں میں ترقی اور خوشحالی کا نیا دور لائے گا، سڑکیں تعمیر ہونے کے ساتھ سا تھ ہر صوبے میں اقتصادی زون بھی قائم ہونگے، زونز میں تر جیحاً وہ صنعتیں قائم ہو نگی کہ جہاں ایکسپورٹ کوالٹی مصنوعات تیار کی جائیں گی، سی پیک کے ذریعے ان صنعتوں کا تیار شدہ مال براستہ گوادر دوسرے ممالک میں برآمد کیا جائے گا، عوام کو روزگار حاصل ہو گا اور جن علاقو ں میں صنعتی زونز قا ئم ہو ں گے۔
وہاں سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا ، تاکہ صنعتی زونز تک لوگوں کی رسائی اور مال برداری آ سان ہو ، جس علاقے میں ایک بھی کا رخانہ ہو ، وہاں ذرائع آ مدورفت بہت آسان بنائے جاتے ہیں ، تاکہ مزدوروں اور بار برداری کی گاڑیوں کو آ نے جانے میں آ سانی رہے ۔ مزدوروں کے علاوہ انجینئرز اور دوسرے افسران نے بھی کارخانے میں آنا ہوتا ہے، چنانچہ راستے اور سڑکیں بنانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اگر ایک ہی جگہ بہت سا رے کارخانے، فیکٹریاں اور ملیں ہوں تو یقینی بات ہے کہ بہت سا رے افراد اور گاڑیوں کی آ مدورفت کیلئے اُس پورے علاقے میں سڑکوں کا جال بچھانا بہت ضروری ہوگا، اسکے علاوہ ان علاقوں میںضروریات زندگی کی اشیاء کیلئے مختلف مارکٹیوں اور دکانو ں کی ضرورت ہوگی، غرض کہ اس پورے علاقے میں کاروباری سر گرمیاں شروع ہونے سے ہزاروں افراد کو روز گار میسر آ ئے گا، جب پورے ملک میں صنعتی زونز قا ئم ہو نگے تو ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد افراد کو روز گار میسر ہوگا، لاتعداد نئی بستیاں آ باد ہو نگی ، پاکستان کی در آ مد ات کی بجائے برآمدات میں اضافہ ہو گا ، جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ تجارتی خسارہ بھی کم ہو گا۔
اس کے علاوہ پاکستان کی تجارتی گزر گاہوں کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہو گا، وسط ایشائی ریا ستوں اور روس کو براستہ افغانستان، گوادر کی بندرگاہ کے ذ ریعے گرم پانیوں کے ممالک کے ساتھ تجارت کا مو قع ملے گا۔ جب پا کستان کی تجارتی گزر گاہو ں سے تجارتی قافلے گزریں گے تو ان گزر گاہوں کے نزدیک آ بادیوں کے لوگوں کو بھی وسیع تر روز گار کے مواقع ملیں گے کیونکہ تجارتی قافلوں کو راستے میں کئی چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے ، جس سے مقامی آ بادیوں کو بھی روز گارکے مواقع میسر ہونگے ۔
علاوہ ازیں ملک میں سیاحت کے مواقع میں اضافہ ہو گا، کیونکہ سی پیک پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے گزرتا ہوا چین تک پہنچتا ہے، سی پیک پہاڑی راستوں کے حساب سے آ رام دہ اور محفوظ گزرگاہ ہے، اس سڑک کے ذریعے شمالی علاقہ جات کی جانب سفر ہوتا ہے۔ مستقبل میں سی پیک کے ذریعے سیاحت میں کئی گُنا اضافے کا امکان ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد ان علاقوں کی سیاحت کیلئے پاکستان آ ئے گی۔ اب بھی ان علاقوں کی سیاحت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
دنیا بھر کے تاجر اپنے بزنس کیلئے پاکستان کا رخ کریں گے، اگر گوادر کا ما سٹر پلان دیکھا جائے تو یہ دبئی سے بھی بڑا تجارتی مرکز بنے گا، یہ شہر سینکڑوں مربع میل میں محیط ہو گا، دنیا کے درجنوں ممالک سے بھی بڑا شہر ہے، یہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا شہر بن سکتا ہے، گوادر میں بڑا فٹبال اور کرکٹ سٹیڈیم تعمیر ہو چکا ہے۔ پسنی اور گوادر کا درمیانی فاصلہ تقریباً 170کلومیٹر ہے۔ مستقبل قریب میں یہ تمام علاقہ گوادر کا ہی حصہ ہو گا۔
گوادر میں تجارتی سرگرمیاں شروع ہونے سے لاکھوں مقامی افراد کو روزگار مہیا ہو گا، مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستانیوں کو سی پیک کی اہمیت کا وہ احساس نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک کو مکمل طور پر فعال کرنے کی رفتار خاصی کم ہے۔ ابھی تک گوادر پورٹ کو مکمل طور پر آ پریشنل نہیں کیا جا سکا ہے، سی پیک اور گوادر پورٹ کو مکمل طور پر آ پر یشنل نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ سیکیورٹی کے معاملات ہیں، بھارت روائتی دشمنی اور کمینگی کی وجہ سے اس منصوبے کو ناکام بنانے پر تُلا ہوا ہے۔
امریکہ اور یورپ اپنے مفادات کی خاطر اس منصوبے کو کامیاب نہیں دیکھنا چا ہتے، اسکی وجوہات کے متعلق تواتر سے لکھا جا رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی چند ممالک چین، پاکستان، بھارت ،افغانستان ، ایران ، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس پر مشتمل ہے، روس اور چین کی ٹیکنالوجی میں دسترس اور تجارت میں بڑھتے ہوئے قدم کی وجہ سے اس وقت تمام عالمی قوتیں اور ترقی یافتہ ممالک مستقبل کی تصویر کا اندازہ لگا کر خوفزدہ ہیں، سی پیک اور گوادر پورٹ کے مکمل طور پر آپریشنل ہونے اور افغانستان میں امّن قا ئم ہونے سے طاقت کا توازن اس خطے کی جانب جھک جائے گا۔
آلہ کار بھارت
یہ بات طے شُدہ ہے کہ جیسے ہی یہ خطہ سی پیک، گوادر پورٹ اور افغانستان کے زمینی راستوں کے ذ ریعے مربوط اور باہم ہو گا ، اسکا فائدہ بھارت کو بھی ہوگا، یقینا بھارت ایک بڑ ی آ بادی والا ملک ہے اس وقت اسکی تجارت کا انحصار بھی دور دراز کے ممالک پر ہے ، مگر پا کستان دشمنی کی وجہ سے وہ اسکا فائدہ ہی نہیں اٹھانا چاہتا بلکہ اس خطے کو آ پس میں مربوط اور باہم دیکھنے کی بجائے انتہائی کمزور دیکھنا چاہتا ہے،بھارتی جا سوس کلبّھوشن کے انکشافات سب کے سامنے ہیں وہ مبارک پٹیل بن کو پاکستان کے خلاف کیا ریشہ دو انیاں کرتا رہا ہے، وہ ایجنسیوں کوبتا چکا ہے کہ اسکے نیٹ ورک کے علاوہ بھی''را '' کے بہت سارے نیٹ ورک کام کر رہے ہونگے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں امّن بھی قائم نہیں ہو رہا۔ دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔
ہماری فورسز اور ادارے مکمل طور پر چوکس ہیں وگرنہ صورتحال خاصی مخدوش ہو سکتی تھی۔ امریکہ اور دوسری عالمی قوتوں کا آ لہ کار بھارت نہ صرف اس خطے کے عوام بلکہ اپنے ملک کی عوام کے ساتھ بھی بہت بڑ ی زیادتی کر رہا ہے، سونے پر سہاگہ یہ کہ بعض افغان قوتیں بھی بھارت کا ساتھ دے رہی ہیں۔ سی پیک، گوادر اور افغان تجارتی راستوں کو ناکام بنانے کیلئے بھارت کی سیاسی قیادت اور عوام کا نقطہ نظر ایک ہی ہے مگر پاکستانی عوام اور سیاسی قوتیں ایک پیچ پر نہیں ہیں۔
اتفاق کی بجائے نفرت کی سیاست۔۔۔۔؟
پاکستان دشمن آئے دن دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ ہمارے چینی مہمانوں کو ہے، یہ تو چین کا خلوص اور پاکستان کے ساتھ محبت ہے کہ وہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی ذ مہ داری پاکستان پر نہیں ڈالتے، کوئی اور ملک ہوتا تو وہ اپنا پر اجیکٹ چھوڑ کر اپنے شہریوں کو واپس بُلا لیتا، یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ منصوبہ پا کستان اور پا کستانی عوام کیلئے ہے۔ سی پیک پا کستان کی سرزمین پر ہے۔ ملک کے مالک عوام ہو تے ہیں ، تمام ادارے اور محکمے عوا م کیلئے قائم کئے جاتے ہیں۔
مفاد عا مہ اور ریاستی منصوبوں کا فائدہ ریاست اور عوام کو پہنچتا ہے اس لئے ان منصوبوں کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اداروں پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ پوری عوام اور تمام سیا سی قیادت پر عائد ہوتی ہے، تمام سیاسی قوتیں دھڑے بندیاں کر کے آپس میں متحارب ہیں، الزامات کی سیاست کی جا رہی ہے۔ حکومتی اور سیاسی پارٹیوں کے ترجمان ایک دوسرے پر گندگی اچھال کر اور الزامات لگا کر نفرت کی فضا ء بڑھا رہے ہیں ، دشمنوں کے مقابلے میں قوم کو متحد کرنے کی بجائے انھیں تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے۔کیا قومی اثاثوںکی حفاظت کی ذ مہ داری صرف اداروں پر عائد ہوتی ہے یا پوری قو م پر ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
سیاسی پارٹیوں کے اجلاس میں ملک کو درپیش مسائل اور خطرات کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ اور نہ ہی عوام کی راہنمائی کا فر یضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ ملک میں انتشار کی فضا کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔
کیا متحد ہونے کیلئے ایک اور جنگ کی ضرورت ہے۔۔۔؟
عموماً پاکستانی قوم اس وقت متحد ہوتی ہے کہ جب بھارت پاکستان پر حملہ کر دیتا ہے، اس وقت پوری قوم متحد ہو جاتی ہے، 1965ء کی جنگ کے بعد بھارت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے، اُسے علم ہے کہ انکی افواج پاکستانی قوم کے جذ بے کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، اس لئے 1971ء کی جنگ میں انھوں نے مختلف حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور سازش کے ذریعے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی فضا قائم کی، ایٹمی پروگرام کی کامیابی کے بعد بھارت روائتی جنگ کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، وہ ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو ذریعے پاکستان کو کمزور بناناچاہتا ہے اور اپنے مذموم مقاصد میںکامیاب ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
پاکستانی عوام کو اس بات کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ہم اس وقت بھی حالت جنگ میں ہیں، ہمارا دشمن چُھپا ہوا ہے۔ ان کے آ لہ کار چند پیسوں کے لا لچ میں ایک خفیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پا کستان کا بدخواہ چاہے وہ بھارتی ہو یا پا کستانی، بہرحال پاکستان کا دشمن ہے۔
عوام میں یہ شعور پیدا ہونا چاہیے کہ یہ جنگ روائتی جنگوں سے زیادہ خطر ناک ہے، عوام کو اپنے آ پ کو حالت جنگ میں سمجھنا پڑے گا، اپنے اندر چھپے ہوئے دشمنوںکو ڈھونڈنا پڑے گا۔ پتہ نہیں کہ وہ جذبے کہاں گئے کہ جب''چھاتہ بر داروں'' کو ڈھونڈ نے کیلئے ساری قوم باہر نِکل پڑتی تھی، اب بھی یہ ''چھاتہ بردار'' ملک کے مختلف حصوں میں چھپے ہوئے ہیں، ان مشکوک افراد پر نظر رکھنے اور انھیں گرفتار کرانے کی ضرورت ہے۔
سڑکوں اور اثاثوں کی حفاظت کی ذ مہ داری عوام پر بھی عائد ہوتی ہے
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ ہماری ساری فوج ، پولیس اور دوسرے ادارے مل کر تمام سڑکوں اور پائپ لائنوں اور ریلوے لا ئنوں کی حفاظت نہیں کر سکتے، اس معا ملے میں عوام کوہی باشعور اور محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
ملک میں ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ دشمنوں کو اچھی طرح علم ہو جائے کہ سی پیک اور گوادر پورٹ کے معاملے میں پوری قوم جاگ بھی ر ہی ہے اور اسکی حفاظت بھی کر رہی ہے اور اسے کامیاب بنانے کا عزم بھی رکھتی ہے، ویسے بھی قومی اثاثوں کی حفاظت عوام کی ذ مہ داری ہے۔ سی پیک اور تما م تجارتی گزرگاہوں پر مسافروں کیلئے اعلیٰ سہولیات مہیا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ آ مدورفت آسان اور سہل ہو۔
ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں پاکستان کا مستقبل یقیناً تابناک ہے۔ بلوچستان میں معدنیات کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، جنہیں ابھی نکالنا باقی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تیل، تانبے، سونے اور لوہے کے لاتعداد ذخائر موجود ہیں ۔ جب بلوچستان میں ذرائع آ مدورفت کی سہولیتیں عام ہو جائیں گی تو یہ خزانے نکالنے میں آ سانی ہوگی۔
مشہور روحانی شخصیت '' حضرت برکت علی لدھیانوی ؒ المعروف قرآن محل والے اپنی زندگی میں کہتے تھے کہ '' ایک وقت آ ئے گا کہ دنیا کی قسمت کے فیصلے پا کستان سے ہوا کریں گے''۔
ایک دفعہ علم نجوم کے ایک بہت بڑ ے ماہر نے کہا تھا کہ '' جب عرب کے تیل کے ذخائر کم ہو جائیں گے تو پا کستان میں تیل کے ذخائر اتنی بڑ ی تعداد میں در یافت ہو نگے کہ تیل کا زیادہ تر انحصار پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے تیل پر ہو گا''۔
پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت موجود ہے مگر اس سے استفادہ کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ اسکی وجہ یہ کہ قوم متحد اور پُرعزم نہیں رہی۔ اگر آ ج قوم منظم اور متحد ہو جائے تو پوری دنیا پاکستان سے خائف نظر آ ئے گی۔
سی پیک کے معاملے میں بھارت، امریکہ اور یورپی ممالک متحد ہیں اور پاکستانی قوم ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔سب سے بڑ المیہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو اس وقت صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ تقریباً تمام سیاستدانوں کا ''فوکس'' صرف اپنی جائز و ناجائز دولت بچانے کی طرف ہے، ملکی اور قومی ترقی کی کسی کو پرواہ نہیں ہے، اس معاملے میں ہمارا میڈیا اور دانشور حضرات بھی اپنی ذ مہ داری پوری نہیں کر رہے۔ کم از کم میڈیا ہی اگر عوام کی راہنمائی کی ذ مہ داری سنبھال لے تو عوام کا شعور اور فکر بیدار ہو گی۔
اگر سیا ستدان بھی اس وقت اپنی انّا اور مفادات چھوڑ کر قوم کو بیدار کرنے کی ذ مہ داری لیں تو بھارت سمیت کسی بھی ملک کو اس بات کی جُرات نہیں ہوگی کہ وہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بُن سکیں، سی پیک اور گوادر پورٹ کو کم از کم وقت میں مکمل آ پریشنل ہونا چاہیے، کا میابی کیلئے عوام کا ریاستی اداروں کی پُشت پر ہونا ضروری ہے۔ عوام اگر سا تھ ہو تو اداروں کا مورال بھی بلند ہوتا ہے اور اُن میں مقابلہ کرنے کی سکت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر فرد کو اپنی ذ مہ داری کا احساس بھی کرنا پڑے گا اور دشمنوں کے مقابلے کے لئے اپنے آپ کو تیارکرنا ہو گا۔۔۔۔۔ !!!
یہ منصوبہ عوامی خوشحالی اور معاشی بقاء کیلئے بہت ضروری ہے، مگر یہ بات حیران کن ہے کہ اس منصوبے کے متعلق وہ قومی جذبہ اور عزم نظر نہیں آتا، جو نظرآنا چاہیے، شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہماری کوئی حکومت قوم کو اس منصوبے کی اہمیت کا احساس نہیں دلا سکی اور نہ ہی ہماری کوئی حکومت عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو سکی ہے، کہ قومی نوعیت کے اس منصوبے کا تعلق کسی ایک حکومت یا ادارے سے نہیں، بلکہ یہ عین پاکستانی قوم کے مفاد اور خوشحالی کیلئے ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی سے پاکستان ترقی کی نئی دوڑ میں شامل ہو جائے گا۔
سی پیک محض ''ایک روڈ ایک بیلٹ '' کا نام نہیں ہے یہ پانچوں صوبوں میں ترقی اور خوشحالی کا نیا دور لائے گا، سڑکیں تعمیر ہونے کے ساتھ سا تھ ہر صوبے میں اقتصادی زون بھی قائم ہونگے، زونز میں تر جیحاً وہ صنعتیں قائم ہو نگی کہ جہاں ایکسپورٹ کوالٹی مصنوعات تیار کی جائیں گی، سی پیک کے ذریعے ان صنعتوں کا تیار شدہ مال براستہ گوادر دوسرے ممالک میں برآمد کیا جائے گا، عوام کو روزگار حاصل ہو گا اور جن علاقو ں میں صنعتی زونز قا ئم ہو ں گے۔
وہاں سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا ، تاکہ صنعتی زونز تک لوگوں کی رسائی اور مال برداری آ سان ہو ، جس علاقے میں ایک بھی کا رخانہ ہو ، وہاں ذرائع آ مدورفت بہت آسان بنائے جاتے ہیں ، تاکہ مزدوروں اور بار برداری کی گاڑیوں کو آ نے جانے میں آ سانی رہے ۔ مزدوروں کے علاوہ انجینئرز اور دوسرے افسران نے بھی کارخانے میں آنا ہوتا ہے، چنانچہ راستے اور سڑکیں بنانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اگر ایک ہی جگہ بہت سا رے کارخانے، فیکٹریاں اور ملیں ہوں تو یقینی بات ہے کہ بہت سا رے افراد اور گاڑیوں کی آ مدورفت کیلئے اُس پورے علاقے میں سڑکوں کا جال بچھانا بہت ضروری ہوگا، اسکے علاوہ ان علاقوں میںضروریات زندگی کی اشیاء کیلئے مختلف مارکٹیوں اور دکانو ں کی ضرورت ہوگی، غرض کہ اس پورے علاقے میں کاروباری سر گرمیاں شروع ہونے سے ہزاروں افراد کو روز گار میسر آ ئے گا، جب پورے ملک میں صنعتی زونز قا ئم ہو نگے تو ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد افراد کو روز گار میسر ہوگا، لاتعداد نئی بستیاں آ باد ہو نگی ، پاکستان کی در آ مد ات کی بجائے برآمدات میں اضافہ ہو گا ، جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ تجارتی خسارہ بھی کم ہو گا۔
اس کے علاوہ پاکستان کی تجارتی گزر گاہوں کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہو گا، وسط ایشائی ریا ستوں اور روس کو براستہ افغانستان، گوادر کی بندرگاہ کے ذ ریعے گرم پانیوں کے ممالک کے ساتھ تجارت کا مو قع ملے گا۔ جب پا کستان کی تجارتی گزر گاہو ں سے تجارتی قافلے گزریں گے تو ان گزر گاہوں کے نزدیک آ بادیوں کے لوگوں کو بھی وسیع تر روز گار کے مواقع ملیں گے کیونکہ تجارتی قافلوں کو راستے میں کئی چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے ، جس سے مقامی آ بادیوں کو بھی روز گارکے مواقع میسر ہونگے ۔
علاوہ ازیں ملک میں سیاحت کے مواقع میں اضافہ ہو گا، کیونکہ سی پیک پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے گزرتا ہوا چین تک پہنچتا ہے، سی پیک پہاڑی راستوں کے حساب سے آ رام دہ اور محفوظ گزرگاہ ہے، اس سڑک کے ذریعے شمالی علاقہ جات کی جانب سفر ہوتا ہے۔ مستقبل میں سی پیک کے ذریعے سیاحت میں کئی گُنا اضافے کا امکان ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد ان علاقوں کی سیاحت کیلئے پاکستان آ ئے گی۔ اب بھی ان علاقوں کی سیاحت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
دنیا بھر کے تاجر اپنے بزنس کیلئے پاکستان کا رخ کریں گے، اگر گوادر کا ما سٹر پلان دیکھا جائے تو یہ دبئی سے بھی بڑا تجارتی مرکز بنے گا، یہ شہر سینکڑوں مربع میل میں محیط ہو گا، دنیا کے درجنوں ممالک سے بھی بڑا شہر ہے، یہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا شہر بن سکتا ہے، گوادر میں بڑا فٹبال اور کرکٹ سٹیڈیم تعمیر ہو چکا ہے۔ پسنی اور گوادر کا درمیانی فاصلہ تقریباً 170کلومیٹر ہے۔ مستقبل قریب میں یہ تمام علاقہ گوادر کا ہی حصہ ہو گا۔
گوادر میں تجارتی سرگرمیاں شروع ہونے سے لاکھوں مقامی افراد کو روزگار مہیا ہو گا، مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستانیوں کو سی پیک کی اہمیت کا وہ احساس نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک کو مکمل طور پر فعال کرنے کی رفتار خاصی کم ہے۔ ابھی تک گوادر پورٹ کو مکمل طور پر آ پریشنل نہیں کیا جا سکا ہے، سی پیک اور گوادر پورٹ کو مکمل طور پر آ پر یشنل نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ سیکیورٹی کے معاملات ہیں، بھارت روائتی دشمنی اور کمینگی کی وجہ سے اس منصوبے کو ناکام بنانے پر تُلا ہوا ہے۔
امریکہ اور یورپ اپنے مفادات کی خاطر اس منصوبے کو کامیاب نہیں دیکھنا چا ہتے، اسکی وجوہات کے متعلق تواتر سے لکھا جا رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی چند ممالک چین، پاکستان، بھارت ،افغانستان ، ایران ، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس پر مشتمل ہے، روس اور چین کی ٹیکنالوجی میں دسترس اور تجارت میں بڑھتے ہوئے قدم کی وجہ سے اس وقت تمام عالمی قوتیں اور ترقی یافتہ ممالک مستقبل کی تصویر کا اندازہ لگا کر خوفزدہ ہیں، سی پیک اور گوادر پورٹ کے مکمل طور پر آپریشنل ہونے اور افغانستان میں امّن قا ئم ہونے سے طاقت کا توازن اس خطے کی جانب جھک جائے گا۔
آلہ کار بھارت
یہ بات طے شُدہ ہے کہ جیسے ہی یہ خطہ سی پیک، گوادر پورٹ اور افغانستان کے زمینی راستوں کے ذ ریعے مربوط اور باہم ہو گا ، اسکا فائدہ بھارت کو بھی ہوگا، یقینا بھارت ایک بڑ ی آ بادی والا ملک ہے اس وقت اسکی تجارت کا انحصار بھی دور دراز کے ممالک پر ہے ، مگر پا کستان دشمنی کی وجہ سے وہ اسکا فائدہ ہی نہیں اٹھانا چاہتا بلکہ اس خطے کو آ پس میں مربوط اور باہم دیکھنے کی بجائے انتہائی کمزور دیکھنا چاہتا ہے،بھارتی جا سوس کلبّھوشن کے انکشافات سب کے سامنے ہیں وہ مبارک پٹیل بن کو پاکستان کے خلاف کیا ریشہ دو انیاں کرتا رہا ہے، وہ ایجنسیوں کوبتا چکا ہے کہ اسکے نیٹ ورک کے علاوہ بھی''را '' کے بہت سارے نیٹ ورک کام کر رہے ہونگے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں امّن بھی قائم نہیں ہو رہا۔ دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔
ہماری فورسز اور ادارے مکمل طور پر چوکس ہیں وگرنہ صورتحال خاصی مخدوش ہو سکتی تھی۔ امریکہ اور دوسری عالمی قوتوں کا آ لہ کار بھارت نہ صرف اس خطے کے عوام بلکہ اپنے ملک کی عوام کے ساتھ بھی بہت بڑ ی زیادتی کر رہا ہے، سونے پر سہاگہ یہ کہ بعض افغان قوتیں بھی بھارت کا ساتھ دے رہی ہیں۔ سی پیک، گوادر اور افغان تجارتی راستوں کو ناکام بنانے کیلئے بھارت کی سیاسی قیادت اور عوام کا نقطہ نظر ایک ہی ہے مگر پاکستانی عوام اور سیاسی قوتیں ایک پیچ پر نہیں ہیں۔
اتفاق کی بجائے نفرت کی سیاست۔۔۔۔؟
پاکستان دشمن آئے دن دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ ہمارے چینی مہمانوں کو ہے، یہ تو چین کا خلوص اور پاکستان کے ساتھ محبت ہے کہ وہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی ذ مہ داری پاکستان پر نہیں ڈالتے، کوئی اور ملک ہوتا تو وہ اپنا پر اجیکٹ چھوڑ کر اپنے شہریوں کو واپس بُلا لیتا، یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ منصوبہ پا کستان اور پا کستانی عوام کیلئے ہے۔ سی پیک پا کستان کی سرزمین پر ہے۔ ملک کے مالک عوام ہو تے ہیں ، تمام ادارے اور محکمے عوا م کیلئے قائم کئے جاتے ہیں۔
مفاد عا مہ اور ریاستی منصوبوں کا فائدہ ریاست اور عوام کو پہنچتا ہے اس لئے ان منصوبوں کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اداروں پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ پوری عوام اور تمام سیا سی قیادت پر عائد ہوتی ہے، تمام سیاسی قوتیں دھڑے بندیاں کر کے آپس میں متحارب ہیں، الزامات کی سیاست کی جا رہی ہے۔ حکومتی اور سیاسی پارٹیوں کے ترجمان ایک دوسرے پر گندگی اچھال کر اور الزامات لگا کر نفرت کی فضا ء بڑھا رہے ہیں ، دشمنوں کے مقابلے میں قوم کو متحد کرنے کی بجائے انھیں تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے۔کیا قومی اثاثوںکی حفاظت کی ذ مہ داری صرف اداروں پر عائد ہوتی ہے یا پوری قو م پر ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
سیاسی پارٹیوں کے اجلاس میں ملک کو درپیش مسائل اور خطرات کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ اور نہ ہی عوام کی راہنمائی کا فر یضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ ملک میں انتشار کی فضا کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔
کیا متحد ہونے کیلئے ایک اور جنگ کی ضرورت ہے۔۔۔؟
عموماً پاکستانی قوم اس وقت متحد ہوتی ہے کہ جب بھارت پاکستان پر حملہ کر دیتا ہے، اس وقت پوری قوم متحد ہو جاتی ہے، 1965ء کی جنگ کے بعد بھارت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے، اُسے علم ہے کہ انکی افواج پاکستانی قوم کے جذ بے کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، اس لئے 1971ء کی جنگ میں انھوں نے مختلف حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور سازش کے ذریعے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی فضا قائم کی، ایٹمی پروگرام کی کامیابی کے بعد بھارت روائتی جنگ کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، وہ ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو ذریعے پاکستان کو کمزور بناناچاہتا ہے اور اپنے مذموم مقاصد میںکامیاب ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
پاکستانی عوام کو اس بات کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ہم اس وقت بھی حالت جنگ میں ہیں، ہمارا دشمن چُھپا ہوا ہے۔ ان کے آ لہ کار چند پیسوں کے لا لچ میں ایک خفیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پا کستان کا بدخواہ چاہے وہ بھارتی ہو یا پا کستانی، بہرحال پاکستان کا دشمن ہے۔
عوام میں یہ شعور پیدا ہونا چاہیے کہ یہ جنگ روائتی جنگوں سے زیادہ خطر ناک ہے، عوام کو اپنے آ پ کو حالت جنگ میں سمجھنا پڑے گا، اپنے اندر چھپے ہوئے دشمنوںکو ڈھونڈنا پڑے گا۔ پتہ نہیں کہ وہ جذبے کہاں گئے کہ جب''چھاتہ بر داروں'' کو ڈھونڈ نے کیلئے ساری قوم باہر نِکل پڑتی تھی، اب بھی یہ ''چھاتہ بردار'' ملک کے مختلف حصوں میں چھپے ہوئے ہیں، ان مشکوک افراد پر نظر رکھنے اور انھیں گرفتار کرانے کی ضرورت ہے۔
سڑکوں اور اثاثوں کی حفاظت کی ذ مہ داری عوام پر بھی عائد ہوتی ہے
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ ہماری ساری فوج ، پولیس اور دوسرے ادارے مل کر تمام سڑکوں اور پائپ لائنوں اور ریلوے لا ئنوں کی حفاظت نہیں کر سکتے، اس معا ملے میں عوام کوہی باشعور اور محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
ملک میں ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ دشمنوں کو اچھی طرح علم ہو جائے کہ سی پیک اور گوادر پورٹ کے معاملے میں پوری قوم جاگ بھی ر ہی ہے اور اسکی حفاظت بھی کر رہی ہے اور اسے کامیاب بنانے کا عزم بھی رکھتی ہے، ویسے بھی قومی اثاثوں کی حفاظت عوام کی ذ مہ داری ہے۔ سی پیک اور تما م تجارتی گزرگاہوں پر مسافروں کیلئے اعلیٰ سہولیات مہیا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ آ مدورفت آسان اور سہل ہو۔
ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں پاکستان کا مستقبل یقیناً تابناک ہے۔ بلوچستان میں معدنیات کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، جنہیں ابھی نکالنا باقی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تیل، تانبے، سونے اور لوہے کے لاتعداد ذخائر موجود ہیں ۔ جب بلوچستان میں ذرائع آ مدورفت کی سہولیتیں عام ہو جائیں گی تو یہ خزانے نکالنے میں آ سانی ہوگی۔
مشہور روحانی شخصیت '' حضرت برکت علی لدھیانوی ؒ المعروف قرآن محل والے اپنی زندگی میں کہتے تھے کہ '' ایک وقت آ ئے گا کہ دنیا کی قسمت کے فیصلے پا کستان سے ہوا کریں گے''۔
ایک دفعہ علم نجوم کے ایک بہت بڑ ے ماہر نے کہا تھا کہ '' جب عرب کے تیل کے ذخائر کم ہو جائیں گے تو پا کستان میں تیل کے ذخائر اتنی بڑ ی تعداد میں در یافت ہو نگے کہ تیل کا زیادہ تر انحصار پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے تیل پر ہو گا''۔
پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت موجود ہے مگر اس سے استفادہ کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ اسکی وجہ یہ کہ قوم متحد اور پُرعزم نہیں رہی۔ اگر آ ج قوم منظم اور متحد ہو جائے تو پوری دنیا پاکستان سے خائف نظر آ ئے گی۔
سی پیک کے معاملے میں بھارت، امریکہ اور یورپی ممالک متحد ہیں اور پاکستانی قوم ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔سب سے بڑ المیہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو اس وقت صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ تقریباً تمام سیاستدانوں کا ''فوکس'' صرف اپنی جائز و ناجائز دولت بچانے کی طرف ہے، ملکی اور قومی ترقی کی کسی کو پرواہ نہیں ہے، اس معاملے میں ہمارا میڈیا اور دانشور حضرات بھی اپنی ذ مہ داری پوری نہیں کر رہے۔ کم از کم میڈیا ہی اگر عوام کی راہنمائی کی ذ مہ داری سنبھال لے تو عوام کا شعور اور فکر بیدار ہو گی۔
اگر سیا ستدان بھی اس وقت اپنی انّا اور مفادات چھوڑ کر قوم کو بیدار کرنے کی ذ مہ داری لیں تو بھارت سمیت کسی بھی ملک کو اس بات کی جُرات نہیں ہوگی کہ وہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بُن سکیں، سی پیک اور گوادر پورٹ کو کم از کم وقت میں مکمل آ پریشنل ہونا چاہیے، کا میابی کیلئے عوام کا ریاستی اداروں کی پُشت پر ہونا ضروری ہے۔ عوام اگر سا تھ ہو تو اداروں کا مورال بھی بلند ہوتا ہے اور اُن میں مقابلہ کرنے کی سکت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر فرد کو اپنی ذ مہ داری کا احساس بھی کرنا پڑے گا اور دشمنوں کے مقابلے کے لئے اپنے آپ کو تیارکرنا ہو گا۔۔۔۔۔ !!!