سیاحت۔۔۔آنکھوں کی ٹھنڈک دل کی راحت

پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے پیش قدمیاں اور درپیش مسائل، عالمی یوم سیاحت کے حوالے سے خصوصی مضمون


 پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے پیش قدمیاں اور درپیش مسائل، عالمی یوم سیاحت کے حوالے سے خصوصی مضمون ۔ فوٹو : فائل

ستمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی جہاں ایک طرف جنگِ ستمبر کی یادیں طبیعت میں جوش و ولولہ بھر دیتی ہیں وہیں 27 ستمبر کو ہونے والا عالمی یوم سیاحت میرے جیسے آوارہ گردوں کو بیدار کر دیتا ہے۔ یہ بے چین روحوں کو در در خاک چھاننے پر اکساتا ہے اور کسی نہ کسی سفر کا قصد کرنا ہی پڑتا ہے۔

سیاحت ان شعبوں میں سے ایک ہے جس میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد کافی بڑھوتری ہوئی ہے۔ وطنِ عزیز کو اللہ پاک نے قدرتی نظاروں کے ساتھ ساتھ بیش بہا تاریخی خزانوں اور سیکڑوں مذہبی و مقدس مقامات سے نوازا ہے جسے دیکھنے بیرونِ ملک سے بھی بہت سے سیاح ہر سال آتے رہتے ہیں۔ لیکن گذشتہ سال کورونا وائرس کی وجہ سے لگائی گئی سفری پابندیوں کی بدولت غیرملکی سیاحوں کی آمد انتہائی کم رہی۔ ایسے موقع پر اندرون ملک سیاحوں نے اس شعبے کو سنبھالا اور اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔

کورونا کے آنے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اس انڈسٹری کو تالے لگ جائیں گے، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے چاردیواری میں قید پاکستانیوں نے سیاحت کی دم توڑتی صنعت میں ایک نئی روح پھونک دی اور اگلے پچھلے سب ریکارڈ برابر کردیے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قوم گھومنے پھرنے کی شیدائی ہے اور اس کی جبلت میں خوب صورت نظاروں کی کشش رکھ دی گئی ہے۔



اگر بات کریں گذشتہ چند سالوں میں سیاحت کے میدان میں ہونے والی کام یابیوں کی تو اس عرصے میں بہت سی خوش خبریاں سننے کو ملی ہیں۔ جہاں عالمی منظرنامے پر پاکستان کے ایک نوجوان سپوت ''شہروز کاشف'' نے دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پہ قدم رکھ کر ایک ریکارڈ بنایا تو وہیں ''سِرباز خان'' بھی ان کے پیچھے ایورسٹ تک جا پہنچے۔ سرباز اس کے علاوہ عبدل جوشی کے ہم راہ ''اناپورنا'' بھی سر کر چکے ہیں اور اب شہروز دوبارہ نیپال میں ''مناسلو'' اور سرباز ''دھولاگیری'' سر کرنے پہنچ چکے ہیں۔

ملک کے اندر بھی بہت سے لوگوں نے اپنے بلند عزم کے آگے کے-ٹو جیسے پہاڑ کو جھکایا جن میں ''محمد علی سدپارہ مرحوم'' خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو کے ٹو تک تو نہ پہنچ سکے، لیکن اس سفید سلطنت میں ہی اپنی جان رب کے سپرد کر دی۔

ان کے بعد ان کے بیٹے ''ساجد سدپارہ'' نے ان کا خواب کے ٹو پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر پورا کیا۔ سرباز خان اور شہروز کاشف نے بھی کے ٹو پر قدم رکھا۔ نائلہ کیانی نامی ایک نوجوان لڑکی نے 8035 میٹر بلند گیشربروم۔ ٹو چوٹی سر کی۔ ان کے علاوہ محمد عثمان ارشد، اسد اﷲ موجیانوالہ، ضیاء الرحمٰن، عبدالرحمان پالوہ اور چند دیگر ایسے نام ہیں جنہوں نے مختلف طریقوں سے لمبے سفر کر کے سیاحت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اب بہت سے لوگ انوکھے طریقے اپنا کر پہاڑی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔



اس ضمن میں حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کریں تو وزیراعظم عمران خان کئی بار مختلف فورمز پر اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ سیاحت اس حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے اور ہم سیاحت کی ترقی و ترویج کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ سیاحتی مقامات پر بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کو یقینی بنانے کے ساتھ سیاحت کے حوالے سے زیرِالتوا معاملات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ ان کی یہ بات سچ ہوتی نظر آ رہی ہے کہ گذشتہ دو تین سالوں میں سیاحت کے میدان میں بہت سے نئے منصوبوں کا آغاز دیکھنے میں آیا ہے۔

جہاں سیاحت کے حوالے سے ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا وہیں حکومت پاکستان نے بہت سے مواقع پر ملک کے مختلف علاقوں میں صفائی مہم بھی منعقد کروائی ہے۔ پنجاب کی حکومت نے پہل کرتے ہوئے رواں برس سیاحت کے لیے دگنے سے بھی زیادہ بجٹ منظور کیا ہے جب کہ اِس سال سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحت کو بھرپور طریقے سے پروموٹ کیا گیا ہے۔

پنجاب میں ٹی ڈی سی پی نے سیاحت کے حوالے سے تین زونز بنائے ہیں جن میں نارتھ زون (اٹک، کوٹلی ستیاں، کوہ نمک) ، سینٹرل زون (لاہور، چھانگا مانگا، قصور) اور ساؤتھ زون (بہاولپور، کوہِ سلیمان، چولستان، ملتان) کے پراجیکٹس شامل ہیں۔



ان تینوں زونز میں تیزی سے مختلف سہولیات کی فراہمی پر کام جاری ہے۔ جہاں کوہِ سلیمان میں مختلف ثقافتی سرگرمیاں منعقد کروائی گئی ہیں وہیں وادیٔ سون میں ''گلیمپنگ پوڈز'' نصب کرنے کے ساتھ ساتھ کھبیکی جھیل ریزورٹ کی تعمیر اور پانی پر تیرتی جگمگاتی کشتیاں بھی چلائی گئی ہیں جس سے اس وادی میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں مری اور پٹریاٹا کے مقام پر بھی یہ پوڈز نصب کیے گئے ہیں جب کہ کوٹلی ستیاں اور چھانگا مانگا میں ابھی نصب کیے جانے ہیں۔

ٹی ڈی سی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر ''جناب تنویر جبار بھٹی'' کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ پوڈز جہاں رہائش کا سستا ذریعہ اور ماحول دوست ہیں وہیں یہ شہروں سے سیاحوں کے رش کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔

اسی طرح خیبر پختونخواہ ٹورزم نے بھی ٹھنڈیانی، شانگلہ، شیخ بدین اورشاران کے مقامات پر یہ گلیمپنگ پوڈز نصب کیے ہیں جنہیں سیاحوں کی طرف سے بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ہزارہ ڈویژن میں عالمی معیار کی موٹروے بننے سے اس خطے کو بے پناہ فائدہ ہوا ہے۔ جہاں دوردراز علاقوں تک کا سفر کم اور آسان ہوا ہے وہیں اس ایک سڑک نے بہت سے دل کش مناظر دنیا تک پہنچائے ہیں۔

ٹوارزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب نے وزیراعظم کے ویژن پر عمل کرتے ہوئے پنجاب میں دو بہترین پروجیکٹس متعارف کروائے ہیں، پہلا ضلع جہلم میں ''البیرونی ہیریٹیج ٹریل'' اور دوسرا پوٹھوہار کی جھیلوں میں واٹر اسپورٹس و دیگر سہولیات کی فراہمی۔



البیرونی ہیریٹیج ٹریل پراجیکٹ کا افتتاح رواں سال وزیراعظم عمران خان نے نندنہ قلعے کے مقام پر کیا تھا جس میں ضلع چکوال و جہلم کے، ایک ہی دائرے میں موجود سات مختلف مقامات کی بحالی شامل ہے۔ یہ مقامات مندر و قلعہ نندنہ، کٹاس راج کا شیو مندر، کھیوڑہ کی کان، ملوٹ کا قلعہ و مندر اور تخت بابری ہیں۔

دوسرے اہم منصوبے میں ضلع چکوال اور گرد و نواح کے علاقے میں واقع چھوٹی جھیلوں اور ڈیموں پر واٹر اسپورٹس کی سہولیات مہیا کر کے عوام کا رخ ان علاقوں کی طرف موڑا جا رہا ہے۔ ان میں کلرکہار جھیل، دھرابی ڈیم، ڈھوک ٹالیاں ڈیم، سرگودھا اور کالاباغ کے مختلف علاقے شامل ہیں۔

ملک کے دیگر مقامات پر بھی حکومت کی جانب سے نئے ریزارٹس کا قیام اور پختہ سڑکوں کی تعمیر جاری ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت بنائی گئی بہت سی سڑکوں نے کئی دشوار گزار علاقوں تک عام آدمی کی رسائی ممکن بنا دی ہے جس سے ان علاقوں میں سیاحت کو بھی ترقی ملی ہے۔ بہت سے اہم مقامات پر سیاحتی و معلوماتی بورڈز لگائے گئے ہیں۔ کلرکہار کا عجائب گھر بھی رواں سال عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ آثارِقدیمہ کے 12 مختلف مقامات پر رات کے وقت خوبصورت روشنیوں کا انتظام بھی حکومت کے اہم کارناموں میں شامل ہے۔

جہاں ایک طرف ضلع چترال کے علاقوں میں قومی سطح پر پیراگلائیڈںگ کے مقابلے اور تھل میں جیپ ریلی منعقد کروائی جا رہی ہے وہیں نگر پارکر اور چولستان جیسے علاقوں میں سیاحتی ریزارٹس کے ذریعے صحرائی علاقوں میں سیاحت کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ لاہور کے بعد اب بہاولپور میں بھی سیاحوں کے لیے ڈبل ڈیکر بس چلا دی گئی ہے۔ گجرات شہر میں ''رام پیاری میوزیم'' کو مکمل کر کے کھول دیا گیا ہے۔



ٹی ڈی سی پی سے تعلق رکھنے والے جناب ''عثمان قریشی'' کا کہنا ہے کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر تونسہ کے مقام پر ''انڈس بلائنڈ ڈولفن ٹوارزم پارک'' کا قیام ، اٹک میں دریائے سندھ پر واٹر اسپورٹس اور ریزارٹ اور سکھوں کے مذہبی مقامات کی بحالی پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔

عمران خان کے دورحکومت میں ایکو ٹوارزم، جنگلات اور ماحولیات پر جتنا کام ہوا ہے میں سمجھتا ہوں اتنا پہلے کسی دور میں نہیں ہوا۔ اور اس کام یابی کا کریڈٹ بلاشبہ ان کی ٹیم اور ان نوجوانوں کو جاتا ہے جنہوں نے گرمی سردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جگہ جگہ پودے لگائے۔ پاکستان، ماحولیات کے حوالے سے خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل ہے لیکن شجرکاری اور دیگر اقدامات سے ہم مسلسل اس خطرے سے نمٹنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

ملک بھر کے اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، پارکوں، چوکوں اور دیگر عوامی مقامات پر پودے لگانا، حکومت کی طرف سے درختوں کی مفت فراہمی، جنگلات کی کٹائی پر پابندی اور ان کی نگرانی، محکمہ جنگلات میں نئے اقدامات اور عملے کی تربیت، بہت سی بنجر زمینوں اور نہروں کے کناروں پر شجرکاری، 13200 ایکڑ رقبے پر محیط سالٹ رینج نیشنل پارک کا قیام، 13500 ایکڑ رقبے پر محیط ٹلہ جوگیاں نیشنل پارک کا قیام اور مختلف طریقوں سے حیاتیاتی تنوع اور ماحول کی حفاظت وہ اہم اقدامات ہیں جو سیاحت کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے اقدامات کے فوائد یقیناً اگلی نسلوں کو منتقل ہوں گے۔

محکمہ آثارِقدیمہ پنجاب کی پرفامنس میں بھی کافی بہتری آئی ہے۔ گذشتہ سالوں سے اب تک اس محکمے نے بہت سے منصوبوں کو کام یابی سے مکمل کیا ہے جن میں ٹیکسلا میوزیم کی تزئین و آرائش، مقبرہ خان بہادر کی مرمت و بحالی، ہرن مینار میں معلوماتی سینٹر کا قیام و باغات کی بحالی، جامپور میں ڈھیری دلو رائے کی کھدائی اور نوادرات کی دریافت، اوچ شریف و ملتان میں مختلف مقبروں کی مرمت و آرائش اور معلوماتی ڈاکومینٹریز کے ذریعے آگاہی پھیلانا۔

محکمہ آثار قدیمہ حکومتِ پنجاب کے ڈائریکٹر ''مقصود احمد صاحب'' کا کہنا ہے کہ ہمارا محکمہ بحالی و مرمت کے اور بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن میں واہ کینٹ کے مغل باغات، مقبرہ خیر النساء جہلم، قلعہ تلاجہ خوشاب، واں بھچراں میں شیر شاہ سوری کی باؤلی، مقبرہ طاہر خان ناہڑ سیت پور، مقبرہ سادن شہید مظفرگڑھ، مقبرہ شیخ علی بن حسن پھالیہ اور نواںکوٹ لاہور میں دروازوں اور برجیوں کی بحالی شامل ہے۔



بات کریں اگر پنجاب کے سب سے بڑے شہر اور سیاحت کے دل لاہور کی تو یہاں پر بھی کچھ اچھے اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں جیسے والڈ سٹی لاہور کی طرف سے گلی سورجن سنگھ کی تزئین و آرائش اور اندرون شہر میں مختلف معلوماتی بورڈز آویزاں کرنا، محکمہ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مقبرہ علی مردان کی بحالی کی تجویز، دائی انگہ کے مقبر کی تزئین وآرائش، نادرہ بیگم کے مقبرے کی مرمت و بحالی، لاہور قلعے کے اندر بہت سے تاریخی مقامات کی تزئین و آرائش اور مختلف باغوں کی آرائش وغیرہ۔ لیکن ، لاہور کو اس سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جو میں اگلی سطور میں بیان کروں گا۔

یہ تو تھے چند حکومتی اقدامات لیکن اگر نجی سطح پر سیاحت کے حوالے سے خدمات کی بات کی جائے تو بہت سی تنظیمیں اور افراد اپنے طور پر اس انڈسٹری کے لیے بہترین کام سر انجام دے رہے ہیں۔ کوئی ہوٹل انڈسٹری پر کام کر رہا ہے تو کوئی اپنی ٹریولنگ ایجنسی اور سرمایہ کاری سے سیاحت کو فروغ دے رہا ہے۔ اس ضمن میں بائیکر کلب بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

''کراس روٹ انٹرنیشنل کلب'' ہمیشہ کی طرح اس سال بھی عالمی یومِ سیاحت بھرپور طریقے سے منانے جا رہا ہے۔ گذشتہ سالوں کے ایونٹ پشاور (خیبر پختونخواہ)، خنجراب (گلگت بلتستان)، زیارت (بلوچستان)، کراچی (سندھ) اور بنجوسہ (آزاد کشمیر) میں منعقد کیے گئے تھے جبکہ اس سال یہ دن پنجاب میں لاہور، ملتان اور کوہ سلیمان کے مختلف مقامات پر بیک وقت منایا جائے گا۔ اس حوالے سے بائیکرز اور سیاحوں کی اس تنظیم نے اپنا لوگو بھی جاری کر دیا ہے جسے چھاتی پر چسپاں کیے بہت سے نوجوان بائیکرز بھی اس سال ایونٹ کا حصہ بنیں گے۔

اس حوالے سے چیئرمین مکرم ترین خان کا کہنا ہے کہ؛

''ہمارا مقصد صرف اور صرف پاکستان میں سیاحت کی ترقی اور حوصلہ افزائی ہے جس کے لیے ہم ہر سال مختلف صوبوں میں یہ دن مناتے ہیں اور تقریبات کا انعقاد کر کے اس شعبے سے جڑے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ''



دوسری جانب سرائیکی وسیب میں سیاحت کے لیے کام کرنے والی تنظیم ''وسیب ایکسپلورر'' کی سرگرمیوں کا گراف بھی بلند سے بلند تر ہوتا رہا۔ اس تنظیم نے کوہِ سلیمان کے متواتر دوروں سے اس پہاڑی سلسلے میں موجود خوبصورت آبشاروں، پہاڑی چوٹیوں اور نخلستانوں کو نمایاں کیا ہے جن میں گربن، نوروز، یکبائی، فورٹ منرو اور مبارکی جیسے علاقے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں وسیب ایکسپلورر کے احباب نے ملتان سے گوادر کا سفر کر کے ہنگول نیشنل پارک اور مکران کوسٹل ہائی وے، سفر پربت کے ذریعے شمال کے علاقوں اور ڈیرہ جات کو لگنے والے بلوچستان کے علاقوں جیسے رکھنی اور بارکھان کے مختلف خوبصورت مقامات اور آثارِقدیمہ کا دورہ کر کے انہیں اپنی تحریروں اور تصویروں کے ذریعے عوام کے سامنے لا رکھا ہے۔

''مسافران شوق'' بھی منچلوں کی ایسی ہی ایک تنظیم ہے جو گوجرانوالہ کی گود سے جنمی ہے۔ اس میں شامل احباب نے دور دراز علاقوں کے سفر کر کے تاریخی ورثے کو کھوجا اور سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر کے ذریعے خوب داد پائی۔

اس کے علاوہ اور بہت سی تنظیمیں اور افراد ہیں جو سیاحت کے آسمان پر چمک رہے ہیں۔ میں اپنے ارد گرد کے ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو خود تو بائیکر یا سیاح ہیں ہی لیکن دوسروں کو بھی سیاحت کی ترغیب دیتے ہیں اور ہر طرح سے انہیں آسانیاں فراہم کرتے ہیں جن میں قدیر گیلانی (آزاد کشمیر)، ذیشان رشید (گوجرانوالہ)، ڈاکٹر مزمل حسین (ملتان)، وحید پاشا (فیصل آباد)، اصل دین (کمراٹ)، جمن جمالی (گورکھ ہلز)، احسان اعوان (سون سکیسر)، ہمایوں ظفر (ڈیرہ غازی خان) اور یوسف مشتاق (لاہور) شامل ہیں۔

یہاں سماہنی کے سلطان اشفاق مغل کا ذکر نہ کرنا بددیانتی ہوگی۔ جناب اشفاق مغل صاحب آزاد کشمیر کی خوب صورت وادی سماہنی سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے گھر کے بھرپور دیسی و خالص ماحول میں سیکڑوں سیاحوں کی مہمان نوازی کر چکے ہیں۔ یقیناً اس وادی میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ ان کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔

یہ وہ احباب ہیں جن کو میں جانتا ہوں، ایسے اور بہت سے انمول ہیرے ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر سیاحت کے لیے بہترین کام کر رہے ہیں ، میں انہیں بھی خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ سیاحت کی صنعت ایک بہت بڑی صنعت ہے جس میں جتنا کیا جائے کم ہے۔ ابھی تاریخ و آثارِقدیمہ کو محفوظ کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جیسے لاہور میں بند پڑے بہت سے مقبرے حکومتی توجہ کے متقاضی ہیں جن میں مقبرہ شہزادہ پرویز، جانی خان کا مقبرہ اور نصرت خان کا مقبرہ شامل ہیں۔ اسی طرح بہت سی عوامی جگہیں بغیر کسی علامتی بورڈ اور نشان کے گم نام پڑی ہیں۔ شہر کی صفائی کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں جن کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیر لاہور شہر کا حسن گہنا رہے ہیں۔



بہت سی پرانی اور تاریخی جگہوں پر نئی تعمیرات سے ان کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ لاہور شہر کے بہت سے قدیم مندر (جیسے بنسی دھر مندر، بھدرکالی مندر، لال مندر) ایسے ہیں جو اب بھی بہتر حالت میں موجود ہیں لیکن وہاں اب بہت سے خاندان رہائش پذیر ہیں۔ حکومت ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ان خاندانوں کو کوئی دوسری اور بہتر جگہ الاٹ کر کے ان مندروں کو اب بھی بحال کر سکتی ہے۔ لاہور کا جین مندر جو کب سے گری ہوئی حالت میں پڑا ہے اس کی بحالی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف مذہبی سیاحت میں اضافہ ہو گا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہو گا۔

وسیب کی بہت سی عمارتیں اور قلعے کھنڈر بنتے جا رہے ہیں لیکن ارباب اختیار چین کی نیند سو رہے ہیں۔ کوٹ مٹھن کے مقام پر کھڑا نواب آف بہاولپور کا بحری جہاز ''انڈس کوئین'' زنگ آلود ہو کر مٹنے کے قریب ہے، چولستان میں پھیلے کئی قلعے تباہ و برباد ہوتے جا رہے ہیں، ملتان جیسے قدیم شہر میں ایک بھی میوزیم نہیں ہے، خانپور میں مائی کا مقبرہ ابتر حالت میں ہے، ضلع بہاولنگر میں ریلوے کی بہت سی تاریخی و قیمتی عمارتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ اور ایسے کئی معاملات ابھی حل طلب ہیں لیکن پنجاب حکومت اس طرف توجہ دینے کو ہی تیار نہیں ہے۔

سندھ اور بلوچستان کا حال تو اور ہی برا ہے۔ ان حکومتوں نے دو چار مقامات کو بحال کر کے یہ سمجھ لیا ہے کہ بس ! اب سیاحت پر اور کام نہیں کرنا۔

بلوچستان حکومت سے تو یہ تک نہ ہو سکا کہ اپنے سیاحتی و تاریخی مقامات کو سوشل میڈیا پر ڈھنگ سے پروموٹ ہی کر دے۔ یہ کام بھی بلوچ نوجوان اور سیاحت کے شوقین افراد ہی کر رہے ہیں۔ مانا کہ مکران کی ساحلی پٹی پر کچھ سیکیوریٹی مسائل ہیں جن کی وجہ سے سیاح وہاں جانے سے کتراتے ہیں، لیکن کوئٹہ ، بولان اور زیارت جیسی جگہوں پر تو سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں۔ مولا چھٹوک اور بولان کے کچھ اور مقامات پر سیاحوں نے متواتر جانا شروع کر دیا ہے حکومت کو چاہیے کہ ان جگہوں پر سیاحوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے۔

سندھ میں سیاحتی حوالے سے یہ دو سال بہت مایوس کن رہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت سندھ نے کورونا کے دوران اپنے تمام سیاحتی مقامات کو کوئی لفٹ نہیں کروائی۔

سیاحت کے حوالے سے سردیوں کو ہی سندھ میں اہم سیزن مانا جاتا ہے اور سردیوں میں بلکل کورونا اپنے عروج پر تھا اس لئے تمام ٹور کمپنیاں بھی بے بس اور بے حال۔ سندھ میں درگاہوں اور مزارات پر لوگوں کی آمد کو بھی ٹورزم مانا جاتا ہے جو رواں سست روی کا شکار رہا۔

سندھ کی تاریخی جگہیں کافی حد تک ویران رہیں۔

اس سال ہونے والی مون سون کی بارشوں نے رنی کوٹ اور کوٹ ڈیجی کے قلعوں کو کافی نقصان پہنچایا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ ٹورزم کارپوریشن کو کینجھر جھیل کے علاوہ پھاڑوں پر بھی ایک ماسٹر پلان بنانا چاہئے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سندھ کے مختلف مقامات پر کیبل کار / چیئرلفٹ ، پیراگلائیڈنگ ، گلیمپنگ پوڈز اور ہاٹ ائیر بیلون کی سہولیات کی فراہمی پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کو کر کہ سندھ حکومت اپنا زرِمبادلہ بڑھا سکتی ہے۔

میری حکومت سندھ اور بلاول بھٹو سے یہ التجا ہے کہ خدا کے لیے اس صوبے میں دم توڑتی سیاحت کو دوبارہ بحال کرنے پر توجہ مرکوز کریں ورنہ حالات بہت خراب جا رہے ہیں۔

آزاد کشمیر میں سماہنی، سہیڑہ اور باغسر سمیت بہت سی جگہوں پر پرانی اور خوبصورت باؤلیاں اب بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہیں جن کو ذرا سی توجہ دے کر اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ سرائے سعد آباد، جن پری کی کوٹھیاں، قلعہ کرجائی، راولاکوٹ میں پہاڑی پر واقع گوردوارہ اور ایسی بہت سی بے شمار تاریخی جگہیں ہیں جنہیں توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت آزاد کشمیر ان کو مرمت کر کے اگر بحال کر دے تو یہ سیاحت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔

ایک نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ریلوے کو سیاحت سے منسلک کر کے کروڑوں ڈالر اوپر کما رہے ہیں وہیں ہمارا محکمہ ریلوے نہایت پستی میں جانے کے باوجود خواب غفلت میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ دور حکومت میں مری، مظفر آباد، زیارت، سوات اور اس جیسے دیگر سیاحتی مقامات کو ریلوے لائن کے ذریعے ملک سے جوڑا جاتا تاکہ عوام کو بسوں اور ویگنوں میں دھکے نہ کھانے پڑتے۔ اس سے ایک طرف ملک کی بڑی شاہراہوں پر ٹریفک کا دباؤ کم رہتا تو وہیں ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آتی۔ لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ بہت سے ٹریک بند کر کے ریلوے اسٹیشن ویران کیے جا رہے ہیں، ٹرینوں کی تعداد کم کی جا رہی ہے اور ریلوے کے بہت سے اثاثے گل سڑ رہے ہیں۔

وزیراعظم صاحب ، ذرا ایک نظر ادھر بھی۔

بہت سے علاقوں میں سستی اور مناسب رہائشی سہولیات اور کھانوں کا نہ ملنا بھی سیاحت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے جس کی ایک اہم وجہ ہوٹل مالکان کی من مانیاں ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے سردی و گرمی کے موسم میں سیاحتی سیزن کے عروج پر ریستورانوں اور ہوٹلوں کے مالکان اپنے من مانے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں پانی کی چھوٹی بوتل تک سو سو روپے میں دست یاب ہوتی ہے جو میں سمجھتا ہوں منافع خوری کی سب سے گھٹیا قسم ہے۔ حکومت ایسے لوگوں پر نظر رکھے اور مناسب پابندیاں لگائے تو ان علاقوں میں جانے والے سیاحوں خصوصاً فیملیز کی مشکلات میں بہت حد تک کمی آسکتی ہے۔

یہ تو محض چند باتیں تھیں جو آپ کے سامنے رکھی ہیں ورنہ کہنے کو تو اور بہت کچھ ہے جو بعد کے لیے رکھ دیتے ہیں۔

میں جناب محمود کھوسہ (بلوچستان) ، جُمن جمالی (سندھ)، مقصود احمد (پنجاب) اور عثمان قریشی کے تعاون کا مشکور ہوں۔ آپ اپنی آراء اور تجاویز اوپر دیئے گئے ای میل پر بھیج سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں