شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ

 سندھ کے عظیم صوفی شاعر

آپ کی زندگی تصوف اور شریعت کا حسین امتزاج تھی۔ آپ سچے عاشق رسول تھے۔ فوٹو : فائل

برصغیر کے خطۂ سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کی کرنیں سب سے پہلے اسی عظیم سرزمین پر پڑیں اسی سرزمین پر کتنی عظیم شخصیات نے پیدا ہو کر یا قیام فرما کر قیامت تک اس کا نام سربلند کردیا ان شخصیات میں حضرت سخی لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، مخدوم محمدمعین الدین ٹھٹھوی، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، عبداللہ شاہ غازی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے علماء و اولیاء اللہ شامل ہیں۔ ان کی روح پرور شخصیات نے عوام و خواص کے دل موہ لیے اور ان میں زندگی اور معرفت حیات و کائنات کی امنگیں پیدا کیں۔ ان کے گل ہائے فکرو نظر کی مہک نے ہر انسان کے دل و دماغ کو معطر کیا۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی1101ھ؁ 1689ء؁ میں مٹیاری کے قریب ہالہ حویلی میں پیدا ہوئے ایک اور مقام پر آپ کا سن پیدائش1652ء؁ لکھا ہوا ہے۔ والد کا نام سید حبیب تھا۔ دادا کا نام سید عبدالقدوس جب کہ پڑدادا کا نام سید جمال بن سید کریم شاہ تھا آپ کا سلسلہ نسب ہرات کے خاندان سے تھا۔ گویا آپ کے آباؤ اجداد افغانستان سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوگئے تھے۔

آپ فاطمی سید تھے۔ انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب حضرت علیؓ سے جاملتا ہے۔ آپ نہایت وجیہہ اور شکیل تھے۔ حسین و جمیل ہونے کے ساتھ آپ کا سر بڑا، سینہ کشادہ، داڑھی چوکور اور بھری ہوئی تھی۔ جسم مضبوط اور قوت وہمت سے مالا مال تھا۔

یہ والدین کی تربیت ہی کا اعجاز تھا کہ آپ میں راستگی، نیکی اور جذبۂ ترحم وافر مقدار میں موجود تھا۔ گفتار میں شیرینی اور نرمی اور ذاتی معاملات میں عجزو انکساری آپ کی فطرت میں حلول کر گئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے وقت برصغیر میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی حکومت تھی جب کہ سندھ میں کلہوڑا خاندان حکومت کررہا تھا۔ جب آپ 18سال کے ہوئے تو مغل بادشاہ دنیا سے کوچ کرچکا تھا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے گاؤں ہی میں حاصل کی جنہوں نے آپ کو مکمل درس اخلاق سے بھی نوازا۔ آپ کا مشاہدہ بڑا وسیع تھا جس نے آپ کی زندگی کو عمل کے سانچے میں ڈھالا اور آپ کے افکار میں وسعت پیدا کردی۔

آپ نے بہت سی علمی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آپ نے کئی اساتذہ کرام سے درس حاصل کیا۔ آپ کے پہلے استاد نور محمد آخوند تھے۔ آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ، رجال، کلام اور شعرو ادب کا علم حاصل کرکے وہ نام اور مقام پیدا کیا کہ جو لاکھوں میں کسی ایک کو ہی حاصل ہوتا ہے۔

ان علوم کے ذریعے آپ نے سندھ کے باسیوں کی بڑی خدمت کی اور اسلام پھیلانے کا بھی ایک ذریعہ بنے۔ یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت کے ہندوستان اور آج کے پاک و ہند میں اسلام پھیلانے والے سلطان وشہنشاہ نہیں بلکہ یہی بزرگان دین اور صوفیائے کرام تھے جنہوں نے تلوار کے بجائے اپنی شیریں بیانی اور حسن اخلاق سے لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا اور اسلام کی آبیاری کی۔ آنحضرت صلعم کا عشق ان حضرات کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے کلام معرفت کے دریا بہائے ایسے لوگوں میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔

بچپن میں ماں کی محبت اور شفقت نے آپ کی کردارسازی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا جو انی کا زمانہ والد کے ساتھ کوٹری میں گزارا۔ جوانی کا یہ عالم بڑی بے نیازی سے گزرا۔ آپ کو شروع ہی سے ایسا ماحول ملا جس نے آپ کی فکر اور شخصیت کو جلا بخشی۔ آپ کے والد متمول ہونے کے باوجود منکسر المزاج تھے اور یہی نقش آپ کی زندگی پر بھی نمایاں طور پر پڑا۔


آپ کی زندگی تصوف اور شریعت کا حسین امتزاج تھی۔ آپ سچے عاشق رسول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی عبادت وریاضت میں حضور اکرم ؐ کی زندگی کو اپنی زندگی کے لیے تقلید بنایا۔ اپنی خلوت، عبادت اور سکونت کے لیے جنگل میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو ایک ٹیلے کی شکل میں تھی سندھی زبان میں اس مٹی کے ٹیلے کو بھٹ کہتے ہیں اور بھٹ پر رہنے والا بھٹائی کہلاتا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ بھٹائی لگنے کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے اگر آپ کا نام لیے بغیر شاہ بھٹائی کہہ دیا جائے تو بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔

اس ٹیلے پر آپ نے گھاس پھونس کا جھونپڑا بنا کر اپنی رہائش کا بندوبست کیا۔ یہ ٹیلا پہلے ہی خاردار جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ ٹیلے کے نشیبی علاقے کو کراڑ کہا جاتا ہے جہاں بارش کا پانی جمع ہوکر جھیل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہاں پہلے پہل آپ کے ساتھ کچھ اور درویش اور فقیر لوگ بھی رہنے لگے تھے اور ان سب کی مشترکہ کاوشوں سے اس ٹیلے پر ایک خانقاہ تعمیر کی گئی اور ساتھ ہی ایک مسجد بھی بعد میں شاہ صاحب اکثر اوقات خلوت میں رہتے اور زیادہ تر وقت خدا کی عبادت میں گزارتے۔ اب یہی بھٹ ایک خوب صورت گاؤں بلکہ ایک قصبہ ''بھٹ شاہ'' کے نام سے مشہور و معروف ہوگیا ہے۔

آپ کی شادی کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ 1713ء؁ میں کوٹری کے رئیس مرزا مغل بیگ کے محل پر ڈاکا پڑا ڈاکوؤں نے مال وزر لوٹنے کے ساتھ مرزا مغل کو بھی قتل کردیا۔ سارا گھر تباہ ہوچکا تھا۔ اس کی بیٹی بہت غم زدہ اور مصیبت میں آگئی تھی۔ جب شاہ بھٹائی کو مرزا مغل کے گھرانے کی بربادی اور بدحالی کا علم ہوا تو آپ اس کی بیٹی کے پاس اس کی دل جوئی کی خاطر تشریف لے گئے۔ اس سے اظہار ہم دردی کے بعد اسے شادی کی پیشکش کردی جو اس نے منظور کرلی۔ اس طرح آپ نے ایک ستم رسیدہ لڑکی سے شادی کرکے ایک خوش گوار فرض ادا کیا۔

آپ خلق خدا پر خلیق و شفیق تھے۔ آپ نے زندگی بھر کسی کو کوئی تکلیف یا گزند نہیں پہنچائی متمول ہونے کے باوجود شاہانہ زندگی سے گریز اور سادگی کو اپنایا۔

تبلیغ کے سلسلوں میں آپ روزانہ کئی کئی میل پیدل سفر کرتے اور راستے میں جتنے گاؤں آتے وہاں لوگوں کو دین کی دعوت دیتے۔ آپ نے پورا سندھ پیدل گھوما اور قرآنی تعلیمات کے فروغ و اشاعت کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ شاہ صاحب کو مولانا جلال الدین رومی سے بڑی عقیدت تھی۔ آپ مولانا کا کلام ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔

آپ فرماتے ہیں کہ مولانا کو اظہار اور بیان پر قدرت کا ملہ حاصل تھی یہی وجہ تھی کہ مولانا کے کلام نے آپ کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام میں اور بابا بلھے شاہ، حضرت سلطان باہو اور رحمان بابا کے کلام میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ حضرت سلطان باہو، رحمان بابا اور حضرت شاہ صاحب ہم عصر بزرگ تھے۔ آپ تینوں کے کلام کا منبع ایک ہی ہے اور وہ ہے ذات الٰہی سے بے پناہ عشق۔ آپ کے کلام میں توحید و رسالت کی تعلیم اور رموز پائے جاتے ہیں۔

شاہ بھٹائی سندھی کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے لوگوں کو صوفیانہ تعلیم دی ہے۔ سندھی ادب میں آپ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ آپ نے اکثر لوک کہانیوں کو عارفانہ رنگ میں پیش کیا ہے۔ آپ کی شاعری کو معتقدین نے جمع کرکے ''شاہ جو رسالو'' میں شائع کروادیا ہے۔ اس کے اردو ترجمے بھی ہوچکے ہیں اور دست یاب ہیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا وہ سندھ کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی ہے۔

شاہ صاحب 14صفر 1165ھ؁ یعنی 1752ء؁ میں اسی بھٹ پر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ وہیں تدفین ہوئی۔ کلہوڑا خاندان کے چوتھے فرماںروا غلام شاہ نے1754ء؁ میں آپ کا مزارتعمیر کروایا، جہاں راجا جیسلمیر نے نوبت لگوائی۔ آپ کی وفات پر آپ کے کئی مرید صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پاگئے۔
Load Next Story