شعروں کے انتخاب نے

آج اگرکسی منجھے ہوئے یا اُبھرتے ہوئے شاعرسے کہا جائے کہ ذرا اس پرشعر کہہ دو توہوسکتا ہے، اسے سوچنے میں وقت درکار ہو۔

آج اگرکسی منجھے ہوئے یا اُبھرتے ہوئے شاعرسے کہا جائے کہ ذرا اس پرشعر کہہ دو توہوسکتا ہے، اسے سوچنے میں وقت درکار ہو۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر116

؎ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

معلوم نہیں شاعر نے ایسا کیوں کہا۔ ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ اسے یوں ہونا چاہیے:

؎ شعروں کے انتخاب نے چرچا کیا مِرا

یہ تحریف یا ترمیم ہے خاکسار سہیل احمدصدیقی کی۔ تحریف کی اصطلاح اگر writing Parodyکے لیے استعمال کی جائے تو ایسی کسی شعری کاوش کو تحریف گوئی کہا جاسکتا ہے، جبکہ نثری کوشش کو تحریف نگاری۔ یہ بھی اس خاکسار کی اُپچ ہے۔ دیگر شعراء اور اُدَباء کی طرح، میں نے بھی اس جہت میں گاہے گاہے طبع آزمائی کی ہے، مگر فی الحال ہمارا موضوع یہ نہیں۔ آج ہم بات کریں گے ایسے کارنامے کے متعلق جس نے بعد میں آنے والوں کے لیے تحقیق کی راہ ہموار کرتے ہوئے ایک مستحکم بنیاد فراہم کی۔

{یہاں ایک ضمنی، مگر اہم نکتہ: بہت سے اہل قلم یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ تبصرہ محض نئی کتاب ہی پر ہونا چاہیے، مگر مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اگر کتاب کا موضوع دل چسپ اور موقع محل کے لحاظ سے دل کش، جاذب اور معلوماتی ہے، زندہ رہنے والا ہے تو کتاب بھی زندہ رہے گی، تازہ رہے گی۔

اس کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ کسی تازہ واقعے، سانحے یا حادثے پر کہی گئی کوئی نظم یا لکھی گئی کوئی تحریر، آیندہ یہ کہہ کر مسترد اور نظراَنداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ تو اُسی وقت سے متعلق تھی اور اَب اس کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ وجہ ظاہر ہے کہ جب جب اُس موضوع پر بات کی جائے گی، اُس کے واقع ہونے/ وقوع پذیر ہونے کے وقت کہی گئی یا لکھی گئی ایسی کوئی بھی قلمی کاوش اُس سے تاریخی طور پر جُڑی ہوئی ہوگی اور آپ کے لیے اُس کا ذکر ناگزیر ہوگا}۔

میرا خیال ہے کہ کتاب اور صاحب ِ کتاب کا نام فی الحال، ابتداء میں مَخفی رکھتے ہوئے اس کے مندرجات پیش کرکے آپ کی توجہ مبذول کراؤں تو شاید دل چسپی اور تجسس [Suspence]کا عنصر بڑھے گا۔ اس قدیم کتاب یا (یوں کہیے کہ ذخیرہ اشعار) میں مشہور اردو اور فارسی اشعار (نیز غیرمشہور کلام) موضوعات کی بنیاد پر جمع کیے گئے اور مُرَتّب نے جا بجا اپنی بیش بہا معلومات کے نگینے بھی ساتھ ساتھ جَڑدیے ہیں۔ اس مرتب یا مؤلِف کی (کیونکہ بعض جگہ ترتیب سے زیادہ تالیف کا پہلو نمایاں ہے) بعد میں تقلید یا نقل تو ہوئی، مگر وہ بات پیدا نہ ہوسکی۔ ( مُرَتّب: ترتیب دینے والا، مُرَتَّب یعنی تے پر زبر کے ساتھ: ترتیب دی ہوئی چیز، جیسے کتاب)۔

ہماری اس مرغوب (زیرِنظر) کتاب میں موضوعات کا تنوع بھی بہت دل چسپ ہے۔ فہرست ملاحظہ فرمائیں: سخن ہائے گفتنی (یعنی کہنے کی باتیں)، حمد، نعت، حُسن، عشق ومحبت، خصوصیاتِ عشق ومحبت (اوصاف ِ محبت، مشکلِ محبت، کرشمہ محبت و جذبہ محبت، اثرِ محبت، انجام ِ محبت، انتہائے محبت، گوناگوں)، عاشق، معشوق (کم سِنی، شباب، آخرِ شباب) آغازِ عشق، سراپائے عاشق (سر، صورت، چشم، مژگاں، سینہ، دل ، ہاتھ، لہو)، جامہ عاشق (پیراہن، گریبان و دامن)، سراپائے معشوق (قدِیار، صورتِ یار، زلفِ یار، ابروئے یار، مژگان ِ یار، نرگسِ شہلا، بینی یعنی ناک، عارض، لبِ لعلین (یعنی لعل جیسے سرخ ہونٹ۔ س ا ص) دہن، دندان، خطِ سبز (یعنی چہرے کا رُواں۔ س ا ص)، خال، گردن، حباب، دل، دست وبازو، کلائی، مُوئے میان، بدن ، پا و کفِ پا (پاؤں اور پنجہ۔س ا ص)، ادائیں جن کا تعلق سراپا سے ہے (تیرِنظر، تبسمِ یار، بوسہ جاں بخش، سادگی، شوخی و نزاکت، انگڑائی ، خوابِ ناز، خرامِ ناز، نشانِ کفِ پا، نکہتِ زلفِ یار...........چھے صفحات کی فہرست میں ابھی ہم ڈیڑھ صفحہ ہی نقل کرپائے ہیں۔ اس لیے یہ اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ انھیں اس منفرد کتاب کے مندرجات سے اور باقاعدہ مطالعے سے دل چسپی ہے کہ نہیں۔

یونہی کتاب بغیر کسی پیشگی نیت /ارادے کے، ابھی ابھی کھولی تو سامنے موضوع تھا، کلائی۔ آج اگر کسی منجھے ہوئے یا اُبھرتے ہوئے شاعر سے کہا جائے کہ ذرا اس پر شعر کہہ دو تو ہوسکتا ہے، اسے سوچنے میں وقت درکار ہو۔ یہاں پہلا ہی شعر اس قدر منفرد، بدیع (بِدعَت والا یعنی انوکھا، بالکل نیا، نادر)، اور ہمارے عہد کے لحاظ سے دقیق (یعنی مشکل) ہے کہ بس ''لاجواب'' کہے بغیر چارہ نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

نازک کلائیوں میں حِنا بَستہ مُٹھیاں

شاخوں میں جیسے مُنھ بندھی کلیاں گلاب کی

(ناواقفین کے لیے مفہوم لکھتا ہوں: حِنا بَستہ یعنی ہاتھوں کی بند مُٹھیاں جن میں مہندی لگی ہوئی ہو)

ریاضؔ خیرآبادی کا یہ شعر اس لائق ہے کہ کوئی فاضل نقاد اِس پر بھرپور دَرس یا لیکچر دے۔ شاعر نے مہندی کے، سبز سے سُرخ میں تبدیل ہوتے ہوئے رنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُسے تشبیہ دی ہے گلاب کی کلیوں سے جو اَدھ کھِلی ہوتی ہیں اور اُن کی گلابی یا سُرخی، سبزرنگ کی پتیوں میں پوشیدہ یا ڈھکی ہوئی ہوتی ہے۔

اس موضوع سے ذرا اُوپر نگاہ کی تو موصوف نے ''دست وبازو'' کے موضوع پر منفرد اشعار جمع کیے ہیں۔ انورؔ دہلوی کا یہ شعر بہت ہی نرالا اور کلاسیک کا شاہکار معلوم ہوا:

اِدھر لاؤ ذرا دَستِ حِنائی

پکڑدیں چور دِل کا ہم یہیں سے

میں اس کی تشریح کرکے خواندگی اور احساس کا لطف زائل نہیں کرنا چاہتا۔ بس پڑھیے اور بار بار پڑھیے۔ سنائیے کسی کو اور غور کرتے جائیے۔ یہ شاعری آج نہیں ہوتی۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے۔ آج کا مقبول شاعر تو چند محدود موضوعات سے آگے نہیں سوچ رہا۔ زبان کے گہرے علم اور شعور کے بغیر اچھا شعر کہنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کاروبار کا پیشگی تجربہ نہ ہوتے ہوئے کوئی کام شروع کرنا۔ اب یہ قسمت کی بات ہے کہ تُکّہ، تِیر ہوجائے اور دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

حِنا یعنی مہندی کے باب میں ایک اور مشہور شعر نظام ؔ رام پوری کا بھی ہے جو اِس گل دستہ اشعار میں شامل ہے:

یہ بھی نیا سِتم ہے، حنا تو لگائیں غیر

اور اُس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دِکھا کے ہاتھ

مشہور اشعار کے اس گل دستے میں کمر کے موضوع پر منقول اشعار میں آبروؔ کا مشہور ِزمانہ شعر شامل ہے:

میاں کے، لوگ کہتے ہیں، کمر ہے

کہاں ہے، کس طر ح کی ہے، کدھر ہے

تحقیق یہ کہتی ہے کہ مصرعِ اُولیٰ غلط مشہور ہے۔ درست یوں ہے:

تمھارے ، لوگ کہتے ہیں، کمر ہے

یہ انکشاف کیا ہمارے بزرگ ترین معاصر محترم شمس الحق صاحب (پ: یکم مارچ ۱۹۲۰ء) نے اپنی کتاب ''اردو کے ضَرب المَثَل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں'' کے ذریعے۔ اُنھی کے پیش کردہ کوائف کے مطابق شیخ نجم الدین عرف شاہ مبارک، المتخلص بہ آبرو،ؔ ۱۶۸۳ء میں گوالیار (ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور ۲۱ دسمبر ۱۷۳۳ء کو دہلی میں کسی گھوڑے کی دولتّی سے زخمی ہوکر فوت ہوئے۔

اب ذرا اس کے مقابل شوقؔ لکھنوی کا یہ شعر دیکھیں:

مدت سے یہ بحث درمیاں ہے

پَر عِلم نہیں، کمر کہاں ہے

زیرِنظر کتاب میں پیارے صاحب رشیدؔ کا یہ شعر اپنے موضوع اور بُنَت کے لحاظ سے بہت ہی نادر معلوم ہوا:

زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے

مہربانی آپ کی، نا مہربانی آپ کی

نجانے کیوں مجھے اپنا پسندیدہ، فانیؔ بدایونی کا وہ مشہور شعر یکایک یاد آیا:

میں نے فانیؔ ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات

جب مزاجِ یار کچھ برہم نظر آیا مجھے

(ہمارے ایک بزرگ معاصر کا خیال ہے کہ 'مزاجِ دوست' صحیح ہے)

اب یہ نقادانِ فن جانیں کہ ان دو شعروں کے بیچ کوئی تقابل ہوسکتا ہے کہ نہیں!

مرتب موصوف نے اشعار کی پیشکش میں یہ کمال بھی دکھایا کہ اپنی یادداشت سے جابجا کوئی متعلق واقعہ یا حکایت بھی رقم کردی (زنانہ بولی میں کہیں تو 'ٹانک دیا')، کیا ہی غضب کا حافظہ پایا تھا، مرحوم نے۔ داغؔ دہلوی اور امیرؔمینائی میں معاصرانہ چشمک (نوک جھوک) خوب رہا کرتی تھی۔ داغؔ نے جب یہ مشہور شعر کہا:


بُتانِ ماہ وَش اُجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں

یہ جس کی جان لیتے ہیں، اُسی کے دل میں رہتے ہیں

امیرؔ کے شاگردوں کو جوش چڑھا تو اُستاد سے عرض کی کہ حضرت اس زمین میں غزل عطا ہو۔ آج کے دور کا کوئی شوقین ہوتا تو کچھ نہ کچھ لکھ مارتا اور اُس کے اندھے عقیدت مند یہ بات لے اُڑتے....واہ صاحب! دیکھیے کیا جواب دیا ہمارے استاد نے، مگر وہ امیرؔ مینائی تھے ، صاحب ِ علم اور سراپا تہذیب۔ انھوں نے فرمایا: ''داغؔ نے اس زمین کو مٹادیا'' یعنی یہ کہ اب اس زمین میں مزید کوئی اچھا شعر کہنا مجھ ایسے فاضل سخنور کے لیے بھی محال ہے۔

ایک اور واقعہ امیرؔ مینائی کی شعری وشخصی عظمت پر دال (یعنی دلیل ) ہے جو کتاب میں نقل ہوا ہے:

ناسخؔ کا شعر ہے:

یہ ساعدوں کا ہے اُس کے عالَم کہ جس نے دیکھا، ہوا وہ بے دَم

نیامِ تیغ ِ قضائے مُبرَم، لقب ہے قاتل کی آستیں کا

ہوا کچھ یوں کہ امیرؔ کے محبوب شاگرد، ریاض ؔ خیرآبادی اُن سے ملنے رام پور آئے اور اُنھی کے مہمان ہوئے تو کسی محفل میں کسی نے ناسخؔ کا یہ شعر پڑھا، سب کو پسند آیا تو ایسے میں امیرؔ کے معاصر جلال ؔ لکھنوی نے کہہ دیا کہ آستیں کا قافیہ اِس زمین میں اِس سے بہتر کوئی نہیں کہہ سکتا (لفظ 'کہ' اور 'کہہ' میں فرق ظاہر کرنا اَشَدّ ضروری ہے)۔ اب یہ سن کر تو ظاہر ہے کہ تلمیذِ امیرؔ مینائی، جناب ریاض ؔ خیرآبادی تلملاگئے، انھوں نے استاد سے اصرارکیا۔ امیرؔ نے بھی اسی زمین میں غزل کہہ دی، مگر قُدَما کے احترام کے پیش نظر، آستین کا قافیہ شامل نہ کیا۔ شاگرد بھی اپنی طرز کے ایک ہی تھے، پھر اصرار کیا تو اِس پر امیرؔ مینائی نے یہ شعر کہہ کر لکھوایا:

قریب ہے یارو، روزِمحشر، چھُپے گا کُشتوں کا خون کیوں کر

جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پُکارے گا آستیں کا

(بات کی بات ہے، ناسخؔ کا شعر، اُن کی تمام مہارت وعلمیت وشہرت سے قطع نظر، تاریخ ِادب میں کہیں گُم ہوگیا، جبکہ امیرؔ کا یہ شعر زباں زَدِخاص وعام ہے)۔ استاد کی زبان سے یہ شعر جاری ہوا تو ریاضؔ اچھل پڑے اور اُن کے قدموں میں سر رکھ کر خوب روئے۔

ریاضؔ خیرآبادی کے پہلے استاد اَسیرؔ لکھنوی تھے، جن کی وفات کے بعد وہ امیرؔ کی خدمت میں پہنچے۔ ریاضؔ کو اردو شاعری میں 'شاعرِخُمریات' اور 'اردو کا عمر خیام' کہا گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں شراب ِ خانہ خراب، کبھی چکھی بھی نہیں۔ {ایسی مثالیں پیش کرتے ہوئے راقم اپنا پرانا مؤقف دُہراتا ہے کہ شاعری میں حقیقی زندگی کا تجربہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا، ضروری نہیں کہ آپ کوئی کام کرتے ہوں، کرچکے ہوں، تب ہی اس کی بابت کچھ کہہ سکیں۔

بات موضوع سے ہٹ جائے گی، مگر کہے بغیر چارہ نہیں کہ خاکسار نے ایک سے زائد بار، اپنے بزرگ معاصرین کو ''ریختی'' کی مثال پیش کرکے اس بات کا قائل ہونے پر مجبور کیا کہ کوئی مردشاعر، کسی عورت کو ایسا کلام کہہ کر، لکھ کر بخش سکتا ہے، عطا کرسکتا ہے جو کسی بھی طرح ، زنانہ یا نِسائیت سے بھرپور معلوم ہو۔ (نسوانیت اور نسوانی غلط ہے)}۔

اس کتاب میں ایک شعر ایسا بھی ہے جو بہت مشہور ہے، مگر اس کے شاعر سے کم لوگ واقف ہیں۔ شعر ہے:

پگڑی اپنی سنبھالیے گا میرؔ

اور بستی نہیں، یہ دلّی ہے

اس شعر کے شاعر، میرؔ کے ہم عصر شیخ محمدبقاء اللہ بقاء ؔتھے جو دِلّی کے حالات سے بددل ہوکر شہر چھوڑجانے والے شعراء میں شامل تھے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفیؔ، اس شاعرانہ عہد کی مکمل تفہیم دیگر کے علاوہ بقاء جیسے شعراء کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں۔ (اردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر : ۱۷۰۷ء تا ۱۸۵۷ء، ادبی پبلشر، کراچی، اگست ۱۹۷۵ء)۔ بقاء ؔ کا وطن آگرہ اور جائے پیدائش دِلّی تھی۔ اُن کے والد حافظ لطف اللہ خاں اکبر آبادی خوش نَوِیس یعنی کاتب تھے۔

میرؔ اور غالبؔ کے بعد یہ تیسرے شاعر ہیں جنھیں اپنے وطن اکبرآباد یعنی آگرہ سے باہر شہرت ملی۔ انھوں نے نوجوانی ہی میں لکھنؤ میں اقامت اختیار کی۔ فارسی شاعری میں حزیں ؔ تخلص کیا (محترم شمس الحق صاحب نے سہواً غمگین لکھ دیا ہے جو حزیںؔ کا مترادف ہے) اور میرزا فاخرمکینؔ کے شاگرد ہوئے، پھر شاہ حاتمؔ کے مشورے پر اردو میں بقاء ؔ تخلص اختیار کیا اور اس زبان میں پہلے شاہ حاتم ؔ اور پھر خواجہ میردردؔ کے شاگرد ہوگئے۔

انھوں نے اپنے معاصرمیرزا سوداؔ اور میرؔ کی ہَجو کہی (یہ ہَج+وHAJV: واؤ ساکن ہے۔ بعض لوگ اسے ہَجُوHAJU یا ہِجوHIJV مع واؤ ساکن پڑھتے ہیں جو غلط ہے)۔ وہ قصیدہ گوئی میں سوداؔ کے حریف تھے۔ اُنھوں نے ان دونوں اساتذہ سخن کی ہجو میں یہ کلام کہا تھا:

میرؔ و مرزا ؔ کی شعر خوانی نے

بسکہ (بس کہ) عالم میں دھوم ڈالی تھی

کھول دیوان دونوں صاحب کے

اے بقاء ؔ ہم نے جب زیارت کی

کچھ نہ پایا سوائے اِس کے سخن

ایک تُو تُو کہے ہے، اِک ہی ہی

یعنی بقول رام بابو سکسینہ ''ایک کے کلام میں روکھی پھیکی اَخلاق آموزی ہے اور دوسرے کے یہاں محض ظرافت و تمسخر''۔ سکسینہ کے انکشاف کے مطابق اس شاعر کا ذہنی توازن عملیات کے شوق میں خراب ہوگیا تھا۔ (تاریخ ِادب ِ اردو از سکسینہ مترجمہ) بقاء ؔ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مقامات ِ مقدسہ کی زیارت پر روانہ ہوئے تو راستے میں موت نے آلیا، یہ ۹۲۔۱۷۹۱ء کی بات ہے۔ بقاءؔ کے کچھ اور اشعار بھی مشہور ہیں:

یہ رُخِ یار نہیں، زُلف ِپریشاں کے تلے

ہے نہاں صبح ِ وطن، شامِ غریباں کے تلے

٭٭٭

عشق میں بُوہے کبریائی کی

عاشقی جس نے کی، خدائی کی

٭٭٭

(غزل اُس نے چھیڑی۔ اردو غزل گو شعراء کا منتخب کلام، دورِقدیم سے دورِجدید تک ، جلد اَوّل، مؤلفہ محمد شمس الحق، ۲۰۱۶ء)

حُسن کے موضوع پر ایک شعر کسی گمنام شاعر کا نقل کیا گیا ہے۔ دیکھیے کیا خوب ہے:

اللہ اللہ رے اُس بُت کا جمال

دیکھ کر جس کو خدا یاد آیا

یہ صنعت ِ تضاد کا بہت عمدہ نمونہ ہے۔ آج ایسی شاعری کون کرتا ہے اور اس شاعری کی تفہیم وتدریس والے کتنے باقی رہ گئے ؟؟

چلیے آپ کو بتاہی دیں کہ یہ سارا مضمون کس اہم، قدیم اور منفرد کتاب کے تعارف میں لکھا گیا۔ یہ ہے ''گُل ہائے پریشاں''۔ مرتب محترم الیاس احمد (سابق ڈسٹرکٹ جج) نے اپنے نام سے پہلے ترتیب یا تالیف کی بجائے ''آراستہ'' لکھا ہے جس سے اُن کے علمی ذوق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کا نقش ِ اولین یعنی پہلا ایڈیشن ۱۹۳۴ء میں '' بَہار'' کے عنوان سے معارف پریس، اعظم گڑھ سے شایع ہوا، پھر کوئی پچیس برس بعد، اسی کتاب میں متعدد اضافے کرکے 'گل ہائے پریشاں' شایع کی گئی۔

کتاب میں کہیں سن اشاعت درج نہیں، اس لیے موصوف کے پیش لفظ ہی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ غالباً ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۹ء کے درمیان منظرِعام پر آئی ہوگی۔ پشت پر اُن کے فرزند جناب وقار الیاس کا نام پتا درج ہے، مگر یہ بھی شاید اَب تبدیل ہوچکا ہوگا۔
Load Next Story