اسلحے کی نئی دوڑ

ایسا لگتا ہے کہ مغربی بلاک مشرقی ایشیا بالخصوص بحرالکاہل کے متنازعہ علاقوں میں کسی نئے ایڈونچر کا ارادہ کررہا ہے


ایمان ملک September 25, 2021
آکس معاہدہ بظاہر چین کے خلاف نیا محاذ محسوس ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

آکس (AUKUS) فوجی معاہدے کے دستخط گزشتہ ہفتے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا کے مابین ہوئے ہیں، جس نے مغربی بلاک کے اندر بظاہر اتحادیوں کے مابین بڑی دراڑیں پیدا کردی ہیں، جبکہ چین کی طرف سے اس معاہدے پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے نئی گروہ بندی اس وقت سامنے آئی جب یہ انکشاف ہوا کہ آسٹریلیا، امریکا اور برطانیہ سے جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزیں حاصل کرے گا۔ تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ معاہدہ ایک فرانسیسی آسٹریلوی معاہدے کی قیمت پر طے ہوا ہے جس کے ذریعے پیرس نے روایتی آبدوزیں کینبرا/ آسٹریلیا کو فراہم کرنی تھیں۔

فرانس، جو امریکا اور برطانیہ کا نیٹو پارٹنر ہے، نے اپنے اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ آسٹریلیا کے ساتھ اس کے ملٹی بلین ڈالر کے معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا ان کے تعلقات سنگین بحران سے دوچار ہیں۔ مزید یہ کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جوہری آبدوزیں چین کےلیے ہیں۔ چونکہ آسٹریلیا کےلیے یہ خریدنے کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں ہے، اور نہ اسے پیسیفک مائیکرو اسٹیٹس کی طرف سے فی الحال کسی بڑے دفاعی خطرات کا سامنا ہے۔

ادھر مبینہ طور پر یورپ نے اپنی خاموشی توڑ دی ہے اور غصے سے بپھرے فرانس کی اس ضمن میں کھل کر حمایت کی ہے۔ اسی تناظر میں جرمن یورپ کے وزیر مائیکل روتھ نے کہا ہے کہ فرانس کا امریکا کے ساتھ حالیہ سفارتی بحران غیر ملکی اور سلامتی پالیسی پر پہلے سے منقسم شدہ یورپی یونین کو متحد کرنے کی جانب ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ جرمنی اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے اس یکجہتی کے مظاہرے کا فرانس نے بھی خیر مقدم کیا، اور کہا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ اس طرح اعتماد کے ٹوٹنے سے یورپ کا اپنے طور پر اسٹریٹجک راستہ طے کرنے کا معاملہ کافی مضبوط ہوا ہے۔

دریں اثنا، امریکی حکام کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کشیدگی کو کم کرنے کےلیے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کو فون کال کر رہے ہیں، جبکہ میکرون نے فوراً آسٹریلیا اور امریکا میں فرانس کے سفیروں کو واپس بلانے کا بے باک قدم اٹھا کر ہم جیسے ملکوں کےلیے بھی مثال قائم کی ہے کہ اپنے قومی مفاد پر کسی بھی چیز کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ فرانسیسی صدر میکرون اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کے روز ہند-بحرالکاہل خطے میں ''مشترکہ طور پر کام کرنے'' کا عزم ظاہر کیا۔ کیونکہ آسٹریلیا اور امریکا کے درمیان آبدوز کا مذکورہ بالا معاہدے پر تنازعہ بھی شدت اختیار کرگیا ہے۔

آکس تنازعہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں تجارتی خدشات داؤ پر لگنے کی وجہ سے قریبی اتحادی بھی الگ ہوسکتے ہیں۔ بہرحال، یہ بات بالکل عیاں ہے فرانسیسی دفاعی صنعت ایک منافع بخش سودا حاصل کرتی اگر آسٹریلیا اس کے ساتھ اس معاہدے میں آگے بڑھتا۔ مگر ظاہر ہے برطانیہ اور امریکا کے مختلف خیالات تھے، کیونکہ اس پیش رفت سے ان کا اپنا فوجی صنعتی کمپلیکس آسٹریلیا کےلیے مینوفیکچرنگ کے ذریعے سب سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ لیکن اس تنازعے سے اُبھرنے والی زیادہ پریشان کن حقیقت بحرالکاہل میں جوہری جہازوں کی تعیناتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چین کو کاؤنٹر کرنے کےلیے، مغربی بلاک ہند-بحرالکاہل خطے میں ایک نیا محاذ کھولنے کےلیے تیار کھڑا ہے۔ مزید برآں، فرانسیسی ایوان صدر نے تصدیق کی ہے کہ میکرون اور مودی اس بات پر متفق ہیں کہ وہ ''ایک کھلے اور جامع انڈو پیسیفک علاقے میں مشترکہ طور پر کام کریں گے''۔

اگرچہ، امریکی صدر جو بائیڈن نے ابھی چند ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن کے غیر ملکی تعمیراتی منصوبوں کے دن ختم ہوچکے ہیں، تاہم اس کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک مکمل طور پر امریکیوں کی عالمی عسکری مہم جوئی کےلیے بھوک ختم نہیں ہوئی۔ ادھر چین نے الزام لگایا ہے کہ آکس طاقتوں میں سرد جنگ کی ذہنیت پائی جاتی ہے، جبکہ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ جوہری ذیلی معاہدے سے علاقائی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوسکتی ہے۔ ملائیشیا نے بھی ان کے ہم آواز ہوکر یہی کہا ہے کہ یہ معاہدہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت کی وجہ بن سکتا ہے۔

بدقسمتی سے، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں ناکام فوجی مہم جوئی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مغربی بلاک مشرقی ایشیا بالخصوص بحرالکاہل کے متنازعہ علاقوں میں کسی نئے ایڈونچر کا ارادہ کررہا ہے۔ شاید بارک اوباما کی 'پیوٹ ٹو ایشیا' پالیسی کو آگے بڑھانے کےلیے یا پھر کوئی اور کھچڑی پک رہی ہے، واللہ اعلم!

مگر اس بار اپنی فوجی طاقت کو بروئے کار لانے کے بجائے مغربی بلاک کو چاہیے کہ وہ چین کو مذاکرات کی میز پر شامل کرے۔ کیونکہ ایک بار بھڑکنے کے بعد اس اسلحے کی نئی دوڑ پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں