وزیر اعظم عمران خان کا خطاب

طالبان اگر تاریخ کا ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے ہیں تو انھیں وزیر اعظم کے خطاب کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔


Editorial September 26, 2021
طالبان اگر تاریخ کا ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے ہیں تو انھیں وزیر اعظم کے خطاب کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

وزیر اعظم عمران خان نے امیر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ملکوں کی کرپٹ اشرافیہ کی طرف سے لوٹی گئی دولت واپس کرے ورنہ امیر ملکوں کو معاش کے لیے ہجرت کرنے والوں کو روکنے کے لیے دیواریں تعمیر کرنا پڑ جائیں گی، اسلامو فوبیا کے خلاف مکالمہ، پاک بھارت جنگ روکنے کے لیے مسئلہ کشمیر حل کرائے ، خطے میں پائیدار امن کے لیے طالبان حکومت مستحکم کرے۔ انھوں نے صدر اقوامِ متحدہ کو 74 ویں اجلاس کے لیے منصبِ صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دی۔

وزیر اعظم کا خطاب موجودہ ملکی و عالمی صورتحال پر ایک وسیع البنیاد اور بلیغ تبصرہ ہے، انھوں نے افغانستان کی صورتحال ، طالبان اور درپیش معاملات پر صائب تجزیہ پیش کیا اور زور دیا کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنا خطے کے لیے خطرناک مضمرات کا باعث ہوگا، اسے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کو کووڈ ، معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے تین طرفہ چیلنجز کا سامنا ہے، وائرس اقوام کے درمیان تفریق نہیں کرتا، نہ ہی غیر یقینی موسمیاتی رویوں کی وجہ سے آنے والی تباہیاں تفریق کرتی ہیں، درپیش مشترکہ خطرات نہ صرف بین الاقوامی نظام کی نزاکتوں کو آشکار کر رہے ہیں بلکہ وہ انسانیت کے اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں، پاکستان کووڈ کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔

مضر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے باوجود ہم ان دس ممالک میں سے ایک ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، ہم پاکستان میں جنگلات اگا رہے ہیں، قدرتی آماج گاہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں، قابلِ تجدید توانائی پر منتقل ہو رہے ہیں، شہروں سے آلودگی کا خاتمہ کر رہے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔

کووڈ ، معاشی بدحالی اور موسمیاتی ایمرجنسی کا مقابلہ کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، جس میں پہلے نمبر پر ویکسین کی یکساں دستیابی ہے اور جتنا جلدی ممکن ہو ہر شخص کو لگنی چاہیے، ترقی پذیر ملکوں کو مناسب فنانسنگ کی سہولت لازماً ملنی چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک کی بدعنوان حاکم اشرافیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ملکوں کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے۔

فیکٹ آئی نے حساب لگایا ہے سات ہزار ارب ڈالر کے چوری شدہ اثاثے محفوظ مالیاتی پناہ گاہوں میں چھپائے گئے ہیں، اس منظم چوری اور اثاثوں کی غیر قانونی منتقلی کے ترقی پذیر ملکوں پر دور رس منفی اثرات پڑے ہیں، ان کی حالت مزید پتلی ہوتی جاتی ہے، غربت کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ، ہر سال ہزار ارب ڈالر ترقی پذیر ملکوں سے نکال لیے جاتے ہیں، نتیجتاً تلاش معاش کے لیے امیر ملکوں کی جانب ہجرت کرنے والوں کا بڑا سیلاب آئیگا، جو کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا، وہی کچھ ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ بدعنوان اشرافیہ کر رہی ہے، وہ دولت لوٹ کر امیر ملکوں کے دارالحکومتوں میں منتقل کر رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں سے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی غریب قوموں کے لیے ناممکن ہے۔ امیر ملکوں کے لیے نہ کوئی کشش ہے اور نہ ہی مجبوری کہ وہ یہ غیر قانونی طور پر کمائی دولت واپس لوٹائیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسلامو فوبیا ایسا خوفناک رجحان ہے جس کا مل کر مقابلہ کرنا ہے، نائن الیون کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا ، جس سے دائیں بازو کے خوفناک اور پرتشدد قومیت پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہوا۔

عمران خان نے سیکریٹری جنرل سے اپیل کی کہ وہ اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کے لیے عالمی مکالمہ شروع کرائیں۔ اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک شکل بھارت میں پنجے گاڑھے ہوئے ہے، فاشسٹ آر ایس ایس، بی جے پی حکومت کے ہندوتوا نظریات نے بیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف خوف اور تشدد کی لہر جاری کر رکھی ہے، وقفے وقفے سے قتلِ عام جاری ہے، شہریت کے امتیازی قوانین کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے، کوشش کی جا رہی ہے مقبوضہ کشمیر کو مسلم اکثریتی علاقے سے مسلم اقلیتی علاقے میں بدل دیا جائے۔

بھارتی کارروائیاں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، بڑی طاقتوں کو علاقائی سیاسی معاملات اور کاروباری مفادات مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ دوست ممالک کی خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں۔ بھارتی بربریت کی تازہ مثال عظیم کشمیر رہنما سید علی شاہ گیلانی کی میت کو ان کے خاندان سے زبردستی چھین لینا ہے ان کی خواہش اور اسلامی روایات کے مطابق نماز جنازہ اور تدفین نہیں ہونے دی گئی۔

جنرل اسمبلی سے کہتا ہوں وہ سید علی شاہ گیلانی کی باقیات کی اسلامی روایات کے مطابق شہداء کے قبرستان میں تدفین کا مطالبہ کرے۔ بھارت کی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنائے ، 5 اگست 2019 سے کیے گئے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات منسوخ کرے، کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر اور آبادی کے تناسب میں تبدیلیاں منسوخ کرے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کو روکا جائے۔

بھارت کی فوجی تیاری، جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم استحکام پیدا کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول دونوں ملکوں کے درمیان موجود ڈیٹیرنس کو بے معنی کر سکتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال یعنی وہاں ہونے والی تبدیلی کے حوالے سے امریکا اور یورپ میں بعض سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔

اس پلیٹ فارم سے میں چاہتا ہوں کہ سب جان لیں کہ جس ملک نے افغانستان کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے وہ پاکستان ہے جب ہم 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ 80 ہزار پاکستانی مارے گئے اور ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔جو افغانستان کی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہوگا۔ میں امریکا گیا، میں نے تھنک ٹینکس کے ساتھ بات کی۔

میں نے اس وقت سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری اور سینیٹر جان ریڈ سے ملاقات کی۔ میں نے انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ اس وقت کسی نے یہ بات نہ سمجھی اور بد قسمتی سے فوجی حل تلاش کرنے میں امریکا نے غلطی کی ۔ اگر آج دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیوں طالبان واپس اقتدار میں آ گئے ہیں تو اسے ایک تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت ساری عالمی برادری کو یہ سوچنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے۔

ہمارے پاس دو راستے ہیں اگر اس وقت ہم افغانستان کو پس پشت ڈال دیں گے تو افغانستان کے آدھے عوام جن کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اگلے سال تک افغانستان کے 90 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ ہمیں آگے ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے جس کے سنگین اثرات افغانستان کے ہمسائیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ہوں گے۔ اس لیے آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم کریں۔

طالبان کی حکومت کو ہر ممکن امداد مہیا کرنے کی جو استدعا وزیر اعظم نے کی ہے اس سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن عالمی تجزیہ کار اور ملکی مبصرین کا یہ استدلال وزنی ہے کہ طالبان نے جو دعوے کیے اس پر انھیں سختی سے کاربند رہنے کی ضرورت ہے، امریکا نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے قول و فعل پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اس اعتبار سے دنیا افغانستان کو ایک تبدیل شدہ سیاسی ملک کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے، اور افغانستان کو اپنے سیاسی انداز کار، اسٹرکچرل اور اسٹرٹیجیکل معاملات میں تبدیلیوں کی باریکیوں کو دیکھنا ہوگا، سزاؤں کے بارے میں بیان نے خود طالبان کی قیادت کے لیے سوال پیدا کیا ہے، اگر سزاؤں کا یہی سلسلہ جاری رہا تو صورتحال کسی اور طرف بھی جاسکتی ہے، یورپی مالک اپنے انداز فکر کے تحت اس پالیسی سے پیچھے ہٹیں گے، اور طالبان کے لیے مغرب اور یورپی تعاون و امداد کا معاملہ سرد خانہ کی نذر ہو جائے گا، اس لیے افغان قیادت کو اپنے کمٹمنٹس کی تکمیل میں احتیاط کرنی چاہیے۔

افغان وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے عام معافی کے باوجود طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ٹویٹر پر افغان وزیر دفاع کا آڈیو پیغام شیئر کیا گیا جس میں ملا محمد یعقوب نے کہا کہ ایسے چند واقعات رونما ہوئے جن میں طالبان اہلکاروں نے انتقامی کارروائی کے دوران کچھ افراد کا قتل کیا ہے، طالبان کا کہنا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بدلہ یا انتقام لینے والے جنگجوؤں اور کمانڈروں کا احتساب کیا جائے گا۔

کابل میں سیکڑوں افراد نے احتجاج کرتے ہوئے امریکا سے افغانستان کے منجمد اربوں ڈالر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکا منجمد فنڈز کے ذریعے مغربی ثقافت اپنانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ افغان وزارت تعلیم نے کہا ہے کہ سرکاری یونیورسٹیاں اسلامی ضوابط کے تحت جلد کھولی جائیں گی۔

اگلے چند ماہ افغان حکومت اور طالبان کی سیاسی بصیرت کے لیے انتہائی فیصلہ کن اور اہم ہوںگے، عالمی طاقتیں طالبان سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس بات کا زیادہ خیال رکھا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایس آئی سیکریٹریٹ کے دورہ کے موقع پر کہا تھا کہ طالبان امن کے لیے امریکا سے شراکت کرسکتے ہیں، یہ اوپن آفر ہے اور ظاہر ہے وزیر اعظم نے کچھ سوچ سمجھ کر دی ہوگی۔

طالبان اگر تاریخ کا ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے ہیں تو انھیں وزیر اعظم کے خطاب کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ طالبان امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہو سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں