سندھ میں درسی کتب نایاب
محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔
سندھ حکومت ہر سال یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ صوبے کے 50 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں میں مفت درسی کتابیں تقسیم کی جارہی ہیں، اس میں کراچی کے سرکاری اسکولوں میں ساڑھے سات لاکھ مفت نصابی کتابوں کی تقسیم بھی شامل ہے۔
آئیے! اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ سندھ میں تعلیمی صورتحال پر زمینی حقائق کیا کہتے ہیں۔ 2021 اور 22 کے تعلیمی سال کے ابتدائی دنوں میں ہی سندھ کے سرکاری اسکولوں کے پرائمری تا میٹرک کے ہزاروں طلبا و طالبات نئی نصابی کتب سے محروم ہیں، یعنی ان سرکاری مفت کتابوں کو غریب طالبعلموں کی پہنچ سے دورکر دیا گیا ہے ، جو ایک سوالیہ نشان ہے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا میں یہ خبر زیرگردش ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے پرائمری سے میٹرک تک کی تمام کتابیں اپنی ویب سائٹ ebooks.stbb.edu.pk پر اپ لوڈ کردی ہیں ، جن طلباء کے پاس کتابیں نہیں ، جو خرید نہیں سکتے ، وہ ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔ پہلی بار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے کتابیں ویب سائٹ پر رکھی گئی ہیں۔ اس حوالے سے بہت سارے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔
مثلا ہر سال کی طرح اس سال بھی درکار مطلوبہ تعداد میں درسی کتابیں کیوں نہیں چھاپی گئی ہیں؟ وہ کیا عوامل تھے جس بناء پر اس بار بھی سرکاری اسکولوں کے لیے مفت کتابیں کم تعداد میں چھپوائی گئی ہیں؟ یہ مفت سرکاری نصابی کتابیں کس طرح ہر سال کی طرح اس سال بھی مارکیٹوں میں پہنچائی گئیں ؟ اس میں کون سا مافیا ملوث ہے؟ اور اس بد عنوانی کے عمل سے کس کو فائدہ پہنچایا جاتا رہا ہے ؟ کیا اس انتظامی کوتاہی سے تعلیم کا فروغ ہو پا رہا ہے یا کہ تعلیم کو نقصان پہنچ رہا ہے ؟
سرکاری اسکولوں کے طالبعلم غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے والدین نہ کتابیں خرید سکتے ہیں اور نہ ان کے پاس وہ وسائل ہیں جن سے وہ اپنے بچوں کو ویب سائٹ پر پڑھوا سکیں۔ ویب سائٹ پر پڑھائی کا تجربہ کورونا وائرس کے سبب اسکولوں کی دوسالہ بندش میں ناکام ثابت ہوچکا ہے۔ سندھ میں زیر تعلیم ہزاروں بچے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر مفت درسی کتب سے محروم ہیں اور اساتذہ بچوں کے والدین سے کہہ رہے ہیں کہ یہ کتابیں مارکیٹ سے خرید کر لائو۔ اب غریب والدین کس سے بھیک مانگ کر یہ کتابیں خریدیں ؟ کون جواب دہ ہے؟
کراچی میں سب سے بڑے کتابوں کے مرکز اردو بازار میں والدین کا ہجوم لگا ہوا ہے جو مطلوبہ درسی کتب تلاش کر رہے ہیں۔ والدین پریشان ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں کے طالبعلموں کے غریب والدین ارباب اختیار سے داد و فریاد کررہے ہیں کہ حکومت سندھ نصابی کتب کی نایابی کا نوٹس لیتے ہوئے اس مسئلے کا مستقل طور پر حل تلاش کیا جائے۔
حکومت سندھ ہر سال ٹیکسٹ بک بورڈ کو درسی کتب چھپوانے کی مد میں 70کروڑ سے زائد رقم مختص کرتی ہے یہ کتابیں سندھ بھر کے 50ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کے طالبعلموں میں تقسیم ہونی ہوتی ہے ، اسی طرح ہر سال کراچی سمیت صوبہ بھر میں بچے اور ان کے والدین کتابوں کی فراہمی میں تاخیر اور کمیابی کے سبب پریشان ہیں۔
یاد رہے کہ 2018ء میں سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی نصابی کتب کی بڑے پیمانے پر برآمدگی کی گئی تھی یہ نصابی کتب مفت تقسیم کی جانا تھیں لیکن انھیں غائب کرکے کباڑیے کو فروخت کردیا گیا تھا جو کہ تعلیم دشمن عمل تھا۔ طالبعلموں کے والدین کا کہنا ہے کہ طلبہ و طالبات کو دی جانیوالی مفت کتب کو بیچنے اور غائب ہونے کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور طالبعلموں کو نصابی کتب سے محروم کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔
سندھ میں پہلے ہی سے بے شمار اسکول بند ہیں اور گزشتہ دو برس سے کورونا وائرس کے باعث اسکول بند ہونے کی وجہ سے 5لاکھ سے زائد بچے اسکول سے نکل چکے ہیں ۔ سندھ میں تعلیم کی تنزلی کی وجہ ناتجربہ کار افسران اور کھلی سیاسی مداخلت ہے محکمہ تعلیم سندھ کا بیشتر فنڈ تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے ، اساتذہ کی تعداد 15لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے ، سندھ بھر میں 23 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بجلی سے محروم ہیں ، 98 فیصد سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی عملی تربیت کے لیے لیبارٹری موجود نہیں۔
گزشتہ 9 سالوں کے دوران 5ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند ہوگئے ہیں ، 75 فیصد سرکاری اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں ، 41ہزار اسکولوں میں لائبریری نہیں ہے ، سندھ میں ہزاروں سرکاری اسکول بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ 15ہزار سے زائد اسکولوں میں بیت الخلاء بھی موجود نہیں ہے، 18ہزار سے زائد اسکولوں میں زیر تعلیم طالبعلم صاف پینے کے پانی سے محروم ہیں جب کہ 23 ہزار سے زائد اسکولوں میں کھیل کا میدان موجود نہیں ہے۔98 فیصد اسکول بائیولوجیکل لیبارٹری ، کمسٹری لیبارٹری ، فزکس لیبارٹری ، ہوم اکنامکس لیبارٹری، کمپیوٹر لیبارٹری سے محروم ہیں۔ سندھ بھر کے 41 ہزار سے زائد اسکولوں میں لائبریری کی سہولت موجود نہیں ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اسکولوں کی عمارت خستہ حال ہے ، ساڑھے 6ہزار سے زائد اسکولوں کی عمارتوں کو خطر ناک قرار دیا گیا ہے ۔ 15ہزار کے قریب اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت یا چھت موجود نہیں ہے ۔ کیا یہ سب کچھ سندھ میں تعلیمی صورت حال اور تعلیمی ایمرجنسی کا پول کھولنے کے مترادف نہیں ہے؟
محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ ان اسکولوں کی خراب صورت حال کو بہانا بناکر ایک ایک کرکے ان اسکولوں کو بھاری کمیشن کی مد میں این جی اوز کی گود میں دیا جاسکے۔
اس طرح آنیوالے وقتوں میں سندھ سے سرکاری اسکولوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور سندھ کے غریب بچے مفت بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہوجائیں گے ، پھر ان اسکولوں میں مغربی فنڈز پر پلنے والی این جی اوز دین اسلام اور نظریہ پاکستان سے ہٹ کر سندھ کے بچوں کو من پسند نصاب پڑھائیں گی جو کہ لمحہ فکریہ ہے اس پر سندھ کے اہل دانش کو غور و فکرکرنا ہوگا، ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی ، داستانوں میں۔