قدیم تاریخی ورثہ

بھوانی قبرستان میں چار گنا سے زیادہ قبور تعمیر کی گئی ہیں جس کی وجہ سے قدیمی قبریں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

بلوچستان کا ضلع جھل مگسی 1739 کلہوڑا راج کا حصہ تھا، 1740 میں ایران کے نادر شاہ نے خان آف قلات میر عبداللہ خان کے خون کے عوض قلات سلطنت کے حوالے کیا۔

یہاں آج بھی کلہوڑا دور کی عمارات موجود ہیں اس کے علاوہ مگسی قوم کے کئی سرداروں کے مقبرے موجود ہیں ، لیکن جس مقبرے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ محبت کی لازوال داستان '' موتی گوارام کا مقبرہ '' ہے جوکہ آگرہ ہندوستان میں مغلیہ بادشاہ شاہجہان کے بنائے گئے محبت کی لازوال مثال '' تاج محل '' کے طرز پر بنایا گیا۔ اسی وجہ سے اسے بلوچستان کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔

مقامی روایات کے مطابق سردار گوارام اور موتی، میاں بیوی تھے۔ مائی موتی ایک سرمایہ دار تھی اس کے پاس زیادہ مال و دولت تھی ، میاں بیوی کی آپس میں بہت زیادہ محبت تھی۔ سردار گوارام بھوٹانی کی دوسری شادی اپنے خاندان میں ہوئی تھی لیکن مائی موتی سے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس نے سردار گوارام بھوٹانی کو کہا کیوں نہ ہم اپنی زندگی میں اپنا مقبرہ بنوا لیں ، اگر میں آپ سے پہلے فوت ہوگیا تو آپ اس میں دفنانا اور اگر آپ پہلے فوت ہوگئے تو یہاں دفناؤں گی۔

بعدازاں جھل مگسی کے علاقے ''خان پور'' کے خالی میدان جنگل میں کام شروع ہوا۔ اس مقبرے کی تعمیر کے لیے دور دراز سے ماہر کاریگر اور مزدور بلائے گئے۔ یہاں اینٹوں کا ایک بھٹہ بھی لگایا گیا تاکہ مقبرے میں لگنے والی اینٹیں یہاں بنائی جائیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ مائی موتی کے مال و زر کے لیے مقبرے کے اندر تہہ خانہ بنایا گیا جس میں مائی موتی اور گوارام نے اپنی زندگی کا سارا مال و متاع دفنایا۔ موتی اور گوارام بھوٹانی کی وفات کے بعد دونوں کو اس مقبرے میں دفنا دیا گیا۔

مقبرے کی تعمیر نہایت خوبصورت دیدہ زیب ہے جس کی مثال پورے صوبہ بلوچستان میں نہیں ملتی۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مقبرہ موجود ہے۔ خراب موسم اور زلزلوں نے موتی اور گوارام کے مقبرے کو کافی نقصان پہنچایا۔ دیکھ بھال اور حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے منہدم ہونے کا اندیشہ ہے۔ کوئٹہ سے 250 کلو میٹر اور گندھاوا سے 12 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔ اس مقبرے تک کوئٹہ سے پانچ گھنٹے میں پہنچا جاسکتا ہے۔250 کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد بائیں جانب ایک کچی سڑک کا راستہ مقبرے کی طرف لے جاتا ہے۔ دس منٹ کی مسافت کے بعد مقبرہ کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔

مقبرہ ایک مٹی کے ٹیلے پر بنایا گیا ہے اوپر جانے کی سیڑھیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یہ مقبرہ ''خان پور'' میں واقع ہے۔ مقبرے کے داخلی دروازے، اوپرکا راستہ ٹوٹ گیا ہے۔ کچھ وقت کے ساتھ کچھ خود اورکچھ لوگوں نے بھی داخلی راستے کو توڑا۔ مقبرے میں نیلے رنگ کے خوبصورت ٹائلز لگائے گئے ہیں۔ وہاں کے مقامی افراد نے بتایا کہ مقبرے کے اندر جانے کی سیڑھیاں ہمارے بچپن میں موجود تھیں جوکہ اب منہدم ہوچکی ہیں۔

مقبرے کے اندر موتی اور گوارام کی قبور ہیں۔ اس کے اندر کسی نے کھدائی کی ہے جو خزانے کی تلاش میں ہوں گے۔ اس کے گنبد کے اندر چھت بہت خوبصورت ہے۔ اس کی محراب میں شگاف آئے ہوئے ہیں کسی وقت بھی منہدم ہو سکتے ہیں۔ اس کی لمبائی یعنی اونچائی تقریباً 100 فٹ کے قریب ہے۔ مقبرے کے اندر نہایت خوبصورت دیدہ زیب ڈیزائن کیا گیا ہے۔ چبوترے نہایت خوبصورتی سے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔

مقبرے کے گنبد میں روشن دان بنے ہوئے ہیں جن کے ذریعے سورج کی کرنیں مقبرے کے اندر روشنی کرتی ہیں۔ ابھی تک مقبرہ اور مرقد موجود ہیں اگر خیال نہ رکھا گیا تو یہ ختم ہو سکتا ہے۔ دیوار کو لوگوں نے کھودا ہوا ہے باہر چبوتروں کے نیچے تین کمرے ہیں جن کو کھودا گیا ہے۔ بارش کا پانی اندر جانے کی وجہ سے کمرہ منہدم ہوگیا۔ یہ تینوں کمرے منہدم ہوگئے، کونے پر بنی ہوئی محراب بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مقبرے کی دائیں جانب ایک مسجد ہے دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی چھت گر چکی ہے۔


مقبرے میں ہوا کے لیے کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں۔ بالکل سامنے کی طرف درمیان میں خوبصورت محراب ہے اس کی بھی حالت خستہ بلکہ نصف ٹوٹ چکی ہے۔ محراب کے اوپر والا گنبد منہدم ہو چکا ہے۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کریں۔عظیم قوم جو اپنی تاریخ کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ اپنے تاریخی اور قدیمی ورثے مقامات کو محفوظ رکھتی ہیں تاکہ ان کی آنے والی نسلیں اپنے آبا و اجداد کی عظیم تاریخ کے بارے میں معلوم کرسکیں۔ بلوچستان کا ضلع لسبیلہ اپنی تاریخ، منفرد محل وقوع اور خوبصورت ساحل کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

بھوانی کا قدیم قبرستان سترہویں صدی کے بلوچ قبائل کی پختہ ریت کے پتھر کی کندہ قبریں موجود ہیں۔ کراچی سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر۔ حب چوکی سے دو کلو میٹر سفر طے کرنے کے بعد دائیں طرف قبرستان کا بورڈ نظر آتا ہے جس پر سترہویں صدی کے قبرستان و مقبرے کے بارے میں درج ہے۔ اس کو پاکستان کے قدیم قبرستانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قدیمی پتھروں کی کندہ قبور موجود ہیں۔ اسے کلمتیوں کا قبرستان کہا جاتا ہے ، یہاں 118 قدیمی مرقد موجود ہیں۔ جنھیں ریت کے پتھروں سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اس قسم کے قبرستان نہ صرف بھوانی میں ہیں بلکہ دھاروجی کی طرف جائیں تو وہاں بھی اسی طرح کے قبرستان ہیں۔ بالکل اسی جیسے ڈیزائن اسی طرح کے پتھر استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے کوسٹل ایریا پسنی کی طرف جائیں تو وہاں بھی اسی طرح کی مرقد، قبرستان نظر آئیں گے۔کلمتی قبیلے کا شمار بلوچوں کے بڑے قبائل میں ہوتا ہے، اصل میں وہ ہوت ہیں، کلمت میں اپنے آزاد راج کی وجہ سے مکران میں انھیں کلمتی کہا جاتا ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے 1451 میں قبائل کی ایک بڑی تعداد مکران سے ہجرت کرکے لسبیلہ اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں آباد ہوئی۔ اس وجہ سے ان قبروں کو کلمتی قبیلے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تمام مرقد کے آثار اور ان پر بنائے گئے نقوش سے قبرستان کے قدیم ہونے کی ضمانت دیتے ہیں ، وہ کاریگر جو ریت کے پتھروں پر تزئین و آرائش کندہ کاری کرتے تھے اب وہ کاریگر ہیں نہ ان ریتیلے پتھروں کا استعمال۔

قبروں کی خوبصورتی اور ان پر بنائے گئے نقوش یہ بتاتے ہں کہ اس زمانے میں دستکاری اور ہنر کو فروغ حاصل تھا۔ ان کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی، خاص پذیرائی حاصل تھی۔ بھوانی قبرستان میں مختلف قسم کی قبریں ڈیزائن کی گئی ہیں۔ قبروں کے مختلف ڈیزائن ہونے کی وجہ سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ خواتین، مرد اور بچوں کی قبروں کے لیے مختلف نقوش، کندہ کاری استعمال کی گئی ہے۔ کچھ قبریں دیکھیں جن پر نام بھی کندہ ہیں۔

بھوانی قبرستان میں جو قبریں ہیں پانچ اور چھ پرتوں میں بنائی گئی ہیں۔ دو پرت مرقد کی بنیاد ہیں۔ اس کے اوپر محراب دروازے کھڑکی نما ایک پرت ، اس کے اوپر بڑے پتھر لگائے گئے ہیں مختلف ڈیزائن ہیں سب سے اوپر ایک پرت ہے جس پر مزید ڈیزائن بنائے گئے ہیں یہ ریت کے پتھر ڈیزائن کرنے میں آسان ہیں ان پتھروں پر کندہ کاری نہایت خوبصورت انداز میں کی جاسکتی ہے جو نمایاں ہے۔ شاید اسی لیے ان پتھروں کو استعمال کیا گیا آخری پرت ایسی لگتی ہے دستار نما جیسے تاج بنا ہو، ہر قبر پر ڈیزائن ایک جیسا ہے۔

اس قدر فائن آرٹ ورک ہے کہ نظریں جم جاتی ہیں دل چاہتا ہے اسے دیکھتے رہیں۔ بھوانی قبرستان کے اطراف مختلف بستیاں آباد ہیں جن کی وجہ سے یہ قبرستان بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ قبرستان میں قدیم قبروں کی تعداد 118 ہے جب کہ دو اجتماعی قبور بھی ہیں۔ قبرستان کی کوئی چہار دیواری نہیں نہ ہی کوئی محافظ ہے جب کہ بڑھتی ہوئی اور مردوں کو دفنانے کے لیے کم پڑتی ہوئی زمین مقامی انتظامیہ کی لاتعلقی یہ قبرستان کئی قبروں سے بھرتا جا رہا ہے۔

مقامی افراد کے مطابق مذکورہ قبرستان میں مردوں کو دفنانے کا سلسلہ 2008 سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ قدیم قبروں سے زیادہ بھوانی قبرستان میں چار گنا سے زیادہ قبور تعمیر کی گئی ہیں جس کی وجہ سے قدیمی قبریں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ بھوانی قبرستان کو اس حال میں پہنچانے کا تعلق قدرت سے کم انسانوں کا عمل دخل زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ تاریخی ورثہ ہم سب کے لیے اثاثہ ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمے داری ہے اگر ہم نے خیال نہ رکھا تو جلد تاریخی ورثے ختم ہو جائیں گے۔
Load Next Story