قرضوں میں ڈوبا پاکستان

حکومت کے پاس اب کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ ٹیکسز بڑھائے۔


جاوید قاضی September 26, 2021
[email protected]

بالآخر ہمارے مجموعی قرضوں نے ہماری معیشت کے اندر سرطان کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جتنے ہمارے ٹیکسز جمع ہوتے ہیں لگ بھگ اس کے برابر ہم قرضوں کی قسطیں و سود ہر سال ادا کر رہے ہیں۔

حکومت کے پاس اب کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ ٹیکسز بڑھائے۔ اگر ٹیکسز بڑھائیں تو کون سے بڑھائیں؟ حکومت کے پاس ٹیکسز حاصل کرنے کے لیے فعال ادارہ نہیں ہے۔ اور جو براہ راست ٹیکسز نہیں دینا چاہتے ان کی اکثریت ہمارے شرفا ہیں۔ ہماری ریاست آئین میں تو فلاحی ریاست ہے مگر ستر سال کی اس تاریخ میں آئینی حکمرانی رہی کتنی ہے؟ آئین معرض وجود میں آیا کب ؟ اس تسلسل اور سیاسی عدم توازن نے اداروں کو مضبوط ہونے نہ دیا۔ ایسے شرفا کے بادل چھائے جو اسی طرح سے پھلے پھولے جس طرح انگریزوں نے راجوں اور مہاراجائوں پر مشتمل'' شرفا'' کی فوج بنائی تھی۔

ہمارے پاس پیروں، سرداروں ، وڈیروں اور گماشتہ سرمایہ داروں پر مبنی شرفا بنی جو ابھی تک آزاد ہے اور ووٹ کے تصور کو پروان چڑھنے نہیں دیتی۔ یہاں قومی سرمایہ دار کا تصور ابھر نہ سکا ، ٹیکسز جو ان ڈائریکٹ لگتے ہیں، ہمیشہ یہ حکمران لگاتے رہتے ہیں۔ پٹرول کی اس بار جو قیمت بڑھی اس کی قیمت کم پٹرول لیوی زیادہ تھی۔ المیہ ہے کہ شرفا میرٹ سے شرفا نہیں بنے۔ یہ شرفا وہی بانسری بجاتے ہیں جو وقت کی ضرورت ہو۔ ان شرفا کی ماہیت جدا مضمون مانگتی ہے۔ جو پھر کبھی سہی۔

بائیس بیس کروڑ کے اس ملک میں اب کی بار جو سب سے بڑا خرچہ ہونے جارہا ہے جس نے 2018 سے اپنی صورت بنائی ہے ، جس کا ذکر میں اپنے پچھلے مضامین میں کرتا رہا ہوں کہ چینی، گندم کپاس وغیرہ اب امپورٹ ہورہی ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ خوراک میں خود کفیل نہ ہونے کی وجہ سے منگوانا پڑتا ہے ، بہت تیزی سے ان اشیاء کی امپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے ۔ جس سے ہمارے زر مبادلا پر پریشر بڑھتا جا رہا ہے، یہ پریشر ہمیں ڈالر میں قرضے لینے پہ مجبور کرتا ہے۔ ان تین سالوں میں ایسے قرضے لینے میں ہم نے سب کا ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔

افراط زر کے بڑھتے ہوئے پریشر کا اس مرتبہ دو سال کے بعد بالآخر اسٹیٹ بینک نے ادراک کیا ، اپنی مانیٹری پالیسی میں تبدیلی لا کے نوٹس لیتے ہوئے سود کی شرح میں اضافہ کیا ہے ۔ جس سے افراط زر پرتدریجی حوالے سے قابو پایا جاسکتا ہے مگر ساتھ ہی اس سے شرح نمو پر بھی منفی اثر پڑتے ہیں۔

یہ سارا خمیازا عدم توازن کاے بااعث ہے ،چاہے وہ بیلینس آف پیمنٹ میں ہو، ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ کی وجہ سے ہوا، اخراجات زیادہ اور ٹیکسز کی مد میں کم آمدنی کی وجہ سے ہو یا غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافی کی وجہ اس کے اسباب ہوں، بلا آخر مہنگائی اور ڈالر کی نسبت روپے کے سستے ہونے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں