پاکستانی میدانوں کو اب ویران نہیں ہونے دینا
لگتا ہے آئندہ برس آسٹریلوی ٹیم بھی یہاں نہیں آئے گی۔
پاکستانی میدان برسوں تک ویران رہے اور اب ایک بار پھر ایسی ہی سازش رچائی گئی جسے ہمیں ناکام بنانا ہے، سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد ہماری ایک نسل ملک میں کرکٹ دیکھنے سے محروم رہی لیکن اس کے باوجود نیا ٹیلنٹ سامنے آتا رہا۔
ہمیں بابر اعظم جیسا بہترین بیٹسمین بھی ملا جسے دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے، سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور پی سی بی کی کوششوں سے ملک میں دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ شروع ہوئی،شہریار خان کے دور میں جب میں بھی گورننگ بورڈ کا رکن تھا تب ہم نے کرکٹ کی واپسی کیلئے بھرپور پلاننگ کی، پی ایس ایل کرانے کا بھی منصوبہ بنایا، بڑی محنت سے یہ سب کچھ ہوا مگر افسوس برسوں کی اس محنت پر نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پانی پھیر دیا، اب تو ملک میں بڑی ٹیمیں بھی آنے لگی تھیں۔
رواں برس جنوبی افریقہ نے دورہ کیا،اس کے بعد ہماری تمام تر امیدیں کیویز، انگلینڈ اور آسٹریلیا سے وابستہ تھیں، نیوزی لینڈ نے سیکیورٹی ماہرین کی مثبت رپورٹس کے بعد آنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر پہلے ہی میچ سے قبل دبئی چلے گئے، یہ رویہ قابل مذمت ہے، اسٹیڈیم کے باہر موجود شائقین کے ساتھ گھروں پر ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے لاکھوں افراد کے دل بھی ٹوٹ گئے، آئی پی ایل کی وجہ سے پہلے ہی نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن سمیت کئی اسٹار کرکٹرز پاکستان نہیں آئے تھے۔
سیریز کا مزہ کرکرا ہو چکا تھا لیکن پھر بھی کیویز کے یہاں کھیلنے کی اہمیت بہت زیادہ تھی مگر افسوس انھوں نے ہمارے جذبات کی قدر نہ کی، سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ تاحال اپنے سیکیورٹی خدشات بھی پاکستان کے ساتھ شیئر نہیں کیے، حکومت کی جانب سے اس سازش کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، نیوزی لینڈ نے کوئی ردعمل نہیں دیا اس سے لگتا ہے کہ یہ بات درست ہے، ہماری ٹیم کورونا کے دور میں وہاں گئی اور کھلاڑیوں نے بدترین حالات کا سامنا کیا جواب میں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا، اس پر تو وہی مثال صادق آتی ہے کہ ''نیکی کر دریا میں ڈال''۔
کیویز کی طرح انگلینڈ کا رویہ بھی افسوسناک ہے اس نے بھی اپنے سیکیورٹی ماہرین کی مثبت رپورٹس پر دورے کی تصدیق کی تھی مگر پھر انکار کر دیا، یہ معاملہ یوں پراسرار بن چکا کہ انگلش بورڈ نے حکومت اور پلیئرز کو فیصلے کے پیچھے قرار دیا لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی وزیر اعظم، دیگر وزرا نے دورہ نہ کرنے پر اظہار ناراضی کیا ہے، کھلاڑیوں کی تنظیم نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ان سے پوچھا ہی نہیں گیا تو انکار کا تو کوئی سوال ہی نہیں بنتا،نجانے کس نے یہ سازش رچائی لیکن اس سے پاکستان اور انگلینڈ کے باہمی تعلقات میں بھی دراڑ آ گئی۔
لگتا ہے آئندہ برس آسٹریلوی ٹیم بھی یہاں نہیں آئے گی، البتہ ہمارے دوست ممالک سری لنکا اور ویسٹ انڈیز دورہ کرنے کو تیار ہیں،جو ٹیمیں آتی ہیں خوش آمدید جو نہ آئیں ان کے پیچھے نہ بھاگیں، ہماری کرکٹ جاری رہے گی، ہمیں پی ایس ایل کو اور بڑا برانڈ بنانا ہوگا،ملک میں کامیابی سے مقابلوں کا انعقاد نہ آنے والی ٹیموں کو زوردار جواب ہوگا، اس دوران اپنی ٹیموں کا کھیل بھی بہتر بنانا چاہیے، عالمی ایونٹس میں اچھی کارکردگی بھی پاکستان کا امیج بہتر بنائے گی۔
مجھے نئے چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، وہ ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں،بطور کرکٹر بھی ان کا کیریئر بے داغ رہا، کمنٹری کی وجہ سے دنیا بھر کے کرکٹرز سے ان کا گہرا رابطہ رہا ہے، سب ان کی بڑی عزت کرتے ہیں،کھیل پر گہری نظر کی وجہ سے پاکستان کھلاڑیوں کی خوبیوں خامیوں سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں، شہریار خان کے دور میں وہ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو رہ چکے، انھیں پی سی بی میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔
رمیز راجہ کی ملکی ٹیلنٹ پر گہری نظر ہے، سلیکشن کے وقت بھی ان کا تجربہ کام آئے گا، سلیکٹرز بھی پلیئرز کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں گے، انھیں پتا ہوگا کہ چیئرمین کوئی بھی سوال پوچھ سکتے ہیں اس لیے وہ کسی کی حق تلفی نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کرکٹ بورڈ میں کام کرنا آسان نہیں، خصوصاً جب آپ کسی بڑے عہدے پر ہوں تو چیلنجز زیادہ ہوتے ہیں،پرانی رنجشوں کو بھی بھلانا پڑتا ہے۔
رمیز راجہ میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے،میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس نئی ذمہ داری کو احسن انداز میں نبھائیں گے۔ وہ چند روز قبل ہی بورڈ میں آئے اور آتے ہی اتنے بڑے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ گیا، یہ رمیز کے لیے تو اچھا نہیں رہا البتہ شاید پاکستان کرکٹ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان جیسا لیڈر اس مشکل وقت میں کمان سنبھالنے کیلئے موجود ہے، وہ اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملکی کرکٹ کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں، اس کیلئے بھرپور پلاننگ کی ضرورت ہے۔
میڈیا پر تو چیئرمین نے پاکستان کا مقدمہ اچھے انداز میں پیش کر دیا اب انھیں عملی اقدامات بھی کرنا ہیں تاکہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دوروں سے دستبرداری کا زیادہ نقصان نہ ہو۔