سیاحتی مقامات پر پھیلایا جانے والا کچرا اور تعمیرات ماحول کے لئے خطرہ
سیاحتی اورتفریحی مقامات پر سیاحوں کا پھیلایا ہوا کچرا اور بڑھتی تعمیرات سے سیاحتی مقامات کی خوبصورتی ماند پڑرہی ہے
دنیا بھر میں سیاحتی اورتفریحی مقامات پر سیاحوں کا پھیلایا ہوا کچرااوربڑھتی ہوئی تعمیرات سے ناصرف ان سیاحتی مقامات کی خوبصورتی ماند پڑرہی ہے بلکہ اس سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہاہے۔
ماہرین ماحولیات نےخبردارکیاہے کہ سیاحتی مقامات پربڑھتی ہوئی آلودگی کی روک تھام کے لئے موثراقدامات نہ کئے گئے توآنیوالے چندبرسوں میں ناصرف ان مقامات کی خوبصورتی متاثرہوگی بلکہ اس سے جنگی حیات کے لئے خطرات مزیدبڑھ جائیں گے
پنجاب حکومت ایک طرف صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لئے متعدداقدامات اٹھارہی ہے جبکہ دوسری طرف ان مقامات پرسیاحوں کا رش بڑھنے کی وجہ سے آلودگی بھی بڑھ رہی ہے۔ناصرف سیاحتی مقامات بلکہ پارکوں اورتفریح گاہوں میں یہ مسائل سامنے آرہے ہیں
لاہورچڑیاگھرکی ڈپٹی ڈائریکٹرکرن سلیم نے بتایا کہ ہفتہ ،اتواراورقومی یامذہبی تہواروں کی چھٹیوں میں چڑیاگھرمیں لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ ان کا پھینکاگیا کچراہمارے لیے مشکلات کاسبب بنتاہے۔ کرن سلیم کے مطابق ان ایام میں چڑیاگھرمیں صفائی کے لئے عملے کی تعدادبڑھادی جاتی ہے۔ اکثرسیاح کھانے کی اشیا کے خالی بیگ اورریپر زمین پرپھینک دیتے ہیں۔ ہماراعملہ ان کوجمع کرکے کوڑے دان میں ڈالتاہے۔ اس کے علاوہ سیاحوں کی طرف سےپھینکے گئے پلاسٹک شاپربعض اوقات ہواکے ساتھ اڑکرجانوروں خاص طورپرہرنوں کے انکلوژرمیں چلے جاتے ہیں اورجانورانہیں نگل لیتے ہیں۔ چڑیاگھرمیں کئی جانوروں کی اموات کے بعد جب ان کا پوسٹ مارٹم کیاگیا توان کے معدے سے پلاسٹک کے شاپربھی برآمد ہوئے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمن نے بتایا کلرکہار پر ہزاروں لوگ تفریح کے لئے آتے ہیں، اس وجہ سے وہاں کئی ہوٹل بن چکے ہیں، کلرکہار کی خوبصورتی کی سب سے اہم وجہ یہاں کی جھیل ہے، پنجاب حکومت نے جھیل کے دو کلومیٹر کے اطراف میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے قیام پر پابندی لگا رکھی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان سوسائٹیوں سے سیوریج کا پانی جھیل میں آئے گا جس سے اس کی خوبصورتی متاثر ہوگی، پہاڑی سیاحتی مقامات پرسیاحوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے ان علاقوں میں ہوٹل اورریسٹورنٹ بنائے جاتے ہیں، گاڑیوں کی بہات ہوتی ہے اوریہ اقدامات قدرتی ماحول کونقصان پہنچاتے ہیں۔ لاہور کے شاہی قلعہ کی بات کریں تو یہاں عام سیاحوں کو پیدل داخلے کی اجازت دی جاتی ہیں تاہم روزانہ وی آئی پی مہمانوں ، والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی، آغا خان ٹرسٹ، محکمہ آثار قدیمہ، کینٹین ملازمین کی گاڑیاں قلعہ کے اندربنائی گئی پارکنگ تک آتی جاتی ہیں، کئی ملازمین موٹرسائیکلوں کااستعمال کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ عرصہ سے سیاحوں کے لئے الیکٹرانک گاڑی بھی چلائی جارہی ہیں۔ یہ عوامل بھی ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ ہیری ٹیج کونقصان پہنچنے کاسبب بن رہے ہیں۔
ایکو ٹورازم کے ماہرڈاکٹرذوالفقاراحمد کہتے ہیں ویسے تو دنیا بھر کے سیاحتی مقامات پر کم یا زیادہ آلودگی کا مسئلہ موجود ہے لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی شدت اختیار کر گیا ہے ۔ ہمارے خوبصورت قدرتی نظارے، جنگل، برفانی چوٹیاں، لینڈ اسکیپ اپنی قدرتی خوبصورتی شاپنگ بیگز اور دیگرفالتو اشیاء کی مو جودگی سے گنوا رہے ہیں، جنگلوں، دریاؤں ،نہروں،اورسمندر میں ان اشیاء کی موجودگی جنگلی اور بحری حیات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ سیاحوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو سیاحتی کلبوں اورگروپوں کے ممبر ہوتے ہیں ان کوچونکہ تربیت اورآگاہی دی جاتی ہے اس لئے یہ لوگ سیاحتی اورتاریخی مقامات پرآلودگی پھیلانے کی بجائے مقررہ جگہوں پرہی کوڑاکرکٹ پھینکتے ہیں۔ان میں زیادہ ترغیرملکی سیاح ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے سیاح وہ ہوتے ہیں جن کو ٹور آپریٹر لے کر چلتے ہیں،ان میں ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے۔کچھ ٹور آپریٹر اپنے گاہکوں کو کچرا نہ پھینکنے کی ہدایت کرتے ہیں،سیاح ان کی باتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتےاور کھاتے پیتے تمام ریپر،بوتلیں، ٹن وغیرہ چلتی گاڑی سے باہر پھینکتے نظر آتے ہیں۔ ٹور آپریٹرز کی سرکاری طور پر تربیت اس سلسلے میں بہت معاون ہو سکتی ہے ۔
ڈاکٹر ذوالفقاراحمد کےمطابق زیادہ تر سیاح وہ عام لوگ ہوتے ہیں جو اپنے طور پر سیاحت کے لئے نکلتے ہیں، ان میں سے بیشتر کواس بات کا نہ شعور ہوتا ہے نہ ادراک کہ قدرتی ماحول کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے ماحول کو آلودہ کرنے والی اشیاء کو یہاں نہ پھینکا جائے، یہ ہی لوگ سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں،ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتےہیں۔ سرکاری طور پر اگر ٹورسٹ مقامات پر کچرے دان رکھ دیئےجائیں تو بھی کسی حد تک آلودگی پر قابو پا یا جاسکتا ہے ۔ ری سائیکل انڈسٹری کو کچھ سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو کچرا بھی کم ہو جائے گا اور لوگوں کو روزگار بھی حاصل ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آدھی کھائی ہوئی خوراک کو شاپر میں چھوڑنا جنگلی حیات کے لیے موت ہے۔ جنگلی جانور اسے شاپر سمیت کھا کر بیمار ہو جاتے ہیں اور سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔ ایک آسان لیکن انتہائی نقصان دہ طریقہ کچرے کو آگ لگانے کا ہے۔ جسے حکومت اور عوام دونوں استعمال کرتے ہیں۔ کچرے کے جلنے سے انتہائی نقصان دہ گیسیں دھواں بن کر پورے علاقے کی صحت کی بربادی کی خاموش قاتل کی صورت میں کام کرتی ہیں۔
محکمہ سیاحت پنجاب کے حکام کے مطابق تمام سیاحتی مقامات پرناصرف کچرا پھینکنے کے لئے ڈسٹ بن رکھے جاتے ہیں بلکہ آگاہی بورڈ بھی نصب ہیں لیکن سیاح مخصوص مقامات سے ہٹ کرگھومنے پھرنے نکلتے ہیں تووہاں خالی شاپنگ بیگ، جوس کے استعمال ڈبے، بوتلیں، ٹین پھینک دیتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ جن سیاحتی مقامات کوڈویلپ کیاجارہا ہے وہاں کھانے پینے کے لئے مخصوص ایریاز مختص کئے جائیں اور مقررہ مقامات سے ہٹ کر گندگی پھیلانے والوں کووارننگ اورجرمانے کئے جائیں۔ اسی طرح یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ سیاحوں کے قیام کے لئے ہوٹل سیاحتی پوائنٹس سے کچھ فاصلے پر بنائے جائیں تاکہ ان مقامات کی خوبصورتی کو بچایا جاسکے۔
ماہرین ماحولیات نےخبردارکیاہے کہ سیاحتی مقامات پربڑھتی ہوئی آلودگی کی روک تھام کے لئے موثراقدامات نہ کئے گئے توآنیوالے چندبرسوں میں ناصرف ان مقامات کی خوبصورتی متاثرہوگی بلکہ اس سے جنگی حیات کے لئے خطرات مزیدبڑھ جائیں گے
پنجاب حکومت ایک طرف صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لئے متعدداقدامات اٹھارہی ہے جبکہ دوسری طرف ان مقامات پرسیاحوں کا رش بڑھنے کی وجہ سے آلودگی بھی بڑھ رہی ہے۔ناصرف سیاحتی مقامات بلکہ پارکوں اورتفریح گاہوں میں یہ مسائل سامنے آرہے ہیں
لاہورچڑیاگھرکی ڈپٹی ڈائریکٹرکرن سلیم نے بتایا کہ ہفتہ ،اتواراورقومی یامذہبی تہواروں کی چھٹیوں میں چڑیاگھرمیں لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ ان کا پھینکاگیا کچراہمارے لیے مشکلات کاسبب بنتاہے۔ کرن سلیم کے مطابق ان ایام میں چڑیاگھرمیں صفائی کے لئے عملے کی تعدادبڑھادی جاتی ہے۔ اکثرسیاح کھانے کی اشیا کے خالی بیگ اورریپر زمین پرپھینک دیتے ہیں۔ ہماراعملہ ان کوجمع کرکے کوڑے دان میں ڈالتاہے۔ اس کے علاوہ سیاحوں کی طرف سےپھینکے گئے پلاسٹک شاپربعض اوقات ہواکے ساتھ اڑکرجانوروں خاص طورپرہرنوں کے انکلوژرمیں چلے جاتے ہیں اورجانورانہیں نگل لیتے ہیں۔ چڑیاگھرمیں کئی جانوروں کی اموات کے بعد جب ان کا پوسٹ مارٹم کیاگیا توان کے معدے سے پلاسٹک کے شاپربھی برآمد ہوئے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمن نے بتایا کلرکہار پر ہزاروں لوگ تفریح کے لئے آتے ہیں، اس وجہ سے وہاں کئی ہوٹل بن چکے ہیں، کلرکہار کی خوبصورتی کی سب سے اہم وجہ یہاں کی جھیل ہے، پنجاب حکومت نے جھیل کے دو کلومیٹر کے اطراف میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے قیام پر پابندی لگا رکھی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان سوسائٹیوں سے سیوریج کا پانی جھیل میں آئے گا جس سے اس کی خوبصورتی متاثر ہوگی، پہاڑی سیاحتی مقامات پرسیاحوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے ان علاقوں میں ہوٹل اورریسٹورنٹ بنائے جاتے ہیں، گاڑیوں کی بہات ہوتی ہے اوریہ اقدامات قدرتی ماحول کونقصان پہنچاتے ہیں۔ لاہور کے شاہی قلعہ کی بات کریں تو یہاں عام سیاحوں کو پیدل داخلے کی اجازت دی جاتی ہیں تاہم روزانہ وی آئی پی مہمانوں ، والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی، آغا خان ٹرسٹ، محکمہ آثار قدیمہ، کینٹین ملازمین کی گاڑیاں قلعہ کے اندربنائی گئی پارکنگ تک آتی جاتی ہیں، کئی ملازمین موٹرسائیکلوں کااستعمال کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ عرصہ سے سیاحوں کے لئے الیکٹرانک گاڑی بھی چلائی جارہی ہیں۔ یہ عوامل بھی ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ ہیری ٹیج کونقصان پہنچنے کاسبب بن رہے ہیں۔
ایکو ٹورازم کے ماہرڈاکٹرذوالفقاراحمد کہتے ہیں ویسے تو دنیا بھر کے سیاحتی مقامات پر کم یا زیادہ آلودگی کا مسئلہ موجود ہے لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی شدت اختیار کر گیا ہے ۔ ہمارے خوبصورت قدرتی نظارے، جنگل، برفانی چوٹیاں، لینڈ اسکیپ اپنی قدرتی خوبصورتی شاپنگ بیگز اور دیگرفالتو اشیاء کی مو جودگی سے گنوا رہے ہیں، جنگلوں، دریاؤں ،نہروں،اورسمندر میں ان اشیاء کی موجودگی جنگلی اور بحری حیات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ سیاحوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو سیاحتی کلبوں اورگروپوں کے ممبر ہوتے ہیں ان کوچونکہ تربیت اورآگاہی دی جاتی ہے اس لئے یہ لوگ سیاحتی اورتاریخی مقامات پرآلودگی پھیلانے کی بجائے مقررہ جگہوں پرہی کوڑاکرکٹ پھینکتے ہیں۔ان میں زیادہ ترغیرملکی سیاح ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے سیاح وہ ہوتے ہیں جن کو ٹور آپریٹر لے کر چلتے ہیں،ان میں ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے۔کچھ ٹور آپریٹر اپنے گاہکوں کو کچرا نہ پھینکنے کی ہدایت کرتے ہیں،سیاح ان کی باتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتےاور کھاتے پیتے تمام ریپر،بوتلیں، ٹن وغیرہ چلتی گاڑی سے باہر پھینکتے نظر آتے ہیں۔ ٹور آپریٹرز کی سرکاری طور پر تربیت اس سلسلے میں بہت معاون ہو سکتی ہے ۔
ڈاکٹر ذوالفقاراحمد کےمطابق زیادہ تر سیاح وہ عام لوگ ہوتے ہیں جو اپنے طور پر سیاحت کے لئے نکلتے ہیں، ان میں سے بیشتر کواس بات کا نہ شعور ہوتا ہے نہ ادراک کہ قدرتی ماحول کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے ماحول کو آلودہ کرنے والی اشیاء کو یہاں نہ پھینکا جائے، یہ ہی لوگ سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں،ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتےہیں۔ سرکاری طور پر اگر ٹورسٹ مقامات پر کچرے دان رکھ دیئےجائیں تو بھی کسی حد تک آلودگی پر قابو پا یا جاسکتا ہے ۔ ری سائیکل انڈسٹری کو کچھ سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو کچرا بھی کم ہو جائے گا اور لوگوں کو روزگار بھی حاصل ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آدھی کھائی ہوئی خوراک کو شاپر میں چھوڑنا جنگلی حیات کے لیے موت ہے۔ جنگلی جانور اسے شاپر سمیت کھا کر بیمار ہو جاتے ہیں اور سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔ ایک آسان لیکن انتہائی نقصان دہ طریقہ کچرے کو آگ لگانے کا ہے۔ جسے حکومت اور عوام دونوں استعمال کرتے ہیں۔ کچرے کے جلنے سے انتہائی نقصان دہ گیسیں دھواں بن کر پورے علاقے کی صحت کی بربادی کی خاموش قاتل کی صورت میں کام کرتی ہیں۔
محکمہ سیاحت پنجاب کے حکام کے مطابق تمام سیاحتی مقامات پرناصرف کچرا پھینکنے کے لئے ڈسٹ بن رکھے جاتے ہیں بلکہ آگاہی بورڈ بھی نصب ہیں لیکن سیاح مخصوص مقامات سے ہٹ کرگھومنے پھرنے نکلتے ہیں تووہاں خالی شاپنگ بیگ، جوس کے استعمال ڈبے، بوتلیں، ٹین پھینک دیتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ جن سیاحتی مقامات کوڈویلپ کیاجارہا ہے وہاں کھانے پینے کے لئے مخصوص ایریاز مختص کئے جائیں اور مقررہ مقامات سے ہٹ کر گندگی پھیلانے والوں کووارننگ اورجرمانے کئے جائیں۔ اسی طرح یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ سیاحوں کے قیام کے لئے ہوٹل سیاحتی پوائنٹس سے کچھ فاصلے پر بنائے جائیں تاکہ ان مقامات کی خوبصورتی کو بچایا جاسکے۔