حکومت 76سال کے چیئرمین نیب کو خلاف قانون توسیع دینا چاہتی ہے شاہد خاقان عباسی
قانون کے مطابق چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہوسکتی، سابق وزیر اعظم
ZURICH:
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکومت 76 سال کے چیئرمین نیب کو خلاف قانون توسیع دینا چاہتی ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ سیاست میں نامناسب روش اختیار کی جارہی ہے، تین سال سے احتساب عدالتیں چل رہی ہیں لیکن انصاف نہیں ملا، جس پر الزام لگانا ہےاس کے خلاف مقدمہ درج کرائیں، کسی کی زندگی سے نہ کھیلیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہوسکتی، آئین کے مطابق چیئرمین نیب کو مشاورت سے تعینات کیا جاتا ہے، چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کےلیے قانون تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، قانون کو بدل کر ایک شخص کی مدت ملازمت میں کیسے توسیع دی جا سکتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 4 ڈالر والی ایل این جی 14 ڈالر میں لی جا رہی ہے، جس سے 160 ملین ڈالر کا ماہانہ اور سالانہ دو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، سالانہ 2 ارب ڈالر جتنی رقم آئی ایم ایف سے سالانہ لی جاتی ہے، کیا ان معاملات کی تحقیقات کیلئے چیئرمین نیب کو مزید 4 سال کا وقت چاہیے۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکومت 76 سال کے چیئرمین نیب کو خلاف قانون توسیع دینا چاہتی ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ سیاست میں نامناسب روش اختیار کی جارہی ہے، تین سال سے احتساب عدالتیں چل رہی ہیں لیکن انصاف نہیں ملا، جس پر الزام لگانا ہےاس کے خلاف مقدمہ درج کرائیں، کسی کی زندگی سے نہ کھیلیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہوسکتی، آئین کے مطابق چیئرمین نیب کو مشاورت سے تعینات کیا جاتا ہے، چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کےلیے قانون تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، قانون کو بدل کر ایک شخص کی مدت ملازمت میں کیسے توسیع دی جا سکتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 4 ڈالر والی ایل این جی 14 ڈالر میں لی جا رہی ہے، جس سے 160 ملین ڈالر کا ماہانہ اور سالانہ دو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، سالانہ 2 ارب ڈالر جتنی رقم آئی ایم ایف سے سالانہ لی جاتی ہے، کیا ان معاملات کی تحقیقات کیلئے چیئرمین نیب کو مزید 4 سال کا وقت چاہیے۔