ایک اچھی پیش رفت
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا وہ دوسرے سیاسی دوستوں کے لیے بھی مشعل راہ ہونی چاہیے
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ: ''آصف علی زرداری کے ساتھ تھرکول پاور منصوبے کا مشترکہ طور پر سنگ بنیاد رکھنے سے یہ پیغام گیا ہے کہ جب بھی ملک کی ترقی کا معاملہ ہو سیاسی قیادت کو متحد ہونا چاہیے، اب سیاسی رہنماؤں کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پہلے ملک کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔'' جناب وزیر اعظم نے یہ بات اسلام کوٹ سندھ میں سابق صدر جناب آصف علی زرداری کے ہمراہ تھر کول منصوبے کا مشترکہ طور پر افتتاح کرتے ہوئے کی۔
وطن عزیز میں سیاسی قیادت کی طرف سے اس قدر رواداری اور حزب اختلاف کے ساتھ باہمی احترام و اخوت کا مظاہرہ ملک سے محبت کے طور پر ماضی کی سیاست میں شاذ ہی دکھائی دیتا ہے۔ لہذا وزیر اعظم کی اس بات کو یہ ایک نہایت مثبت پیشرفت سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ: ''پاکستان میں ترقی و خوشحالی، غربت و بے روزگاری کے خاتمے، عوام کی خدمت کے لیے ہم سب کو ایک راستے پر ہونا چاہیے، آج کا منظر دیکھ کر پاکستان اور عوام مخالف قوتوں کو شاید اچھا نہ لگے لیکن پاکستان کی ترقی پر یقین رکھنے والے آج کے منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔'' اسلام کوٹ کے قریب تھرکول پاور منصوبے کے افتتاح کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ منصوبے پر ایک ارب 60 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی اور اس منصوبے کے سال 2017ء میں فیز ون کے مکمل ہونے پر ابتدائی طور پر 660 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ سیاست ایک الگ چیز ہے، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہیے، ہم نے 2008ء کا پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ تسلیم کیا اور پیپلز پارٹی نے 2013ء کے ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کیا، اس طریقے کا سیاسی کلچر سب کو اپنانا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا وہ دوسرے سیاسی دوستوں کے لیے بھی مشعل راہ ہونی چاہیے۔ جب معاملات ملک کی سلامتی، ترقی و خوشحالی، غربت کے خاتمے اور عوامی فلاح و بہبود کے ہوں تو تمام سیاسی لیڈر شپ کو ایک ساتھ ہونا چاہیے، ممکن ہے یہ مخالفین کو اچھا نہ لگے لیکن جو بھی پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں وہ سب ایک ہیں اور یہی پیغام دنیا کو جانا چاہیے، سیاسی لیڈروں کو ایک ساتھ دیکھ کر عوام بھی بہت خوش ہوں گے اور یہی پیغام ان سیاسی لیڈروں کے پاس بھی جانا چاہیے جو فرسودہ طرز سیاست اپنائے ہوئے ہیں۔'' انھوں نے آصف علی زرداری کی جانب سے تھر میں انڈسٹریل پارک لگانے کی تجویز کی بھی تائید کی جس سے مقامی لوگوں کو روزگار دستیاب ہو گا۔ انھوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے انڈسٹریل پارک کے سلسلے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی اور نوجوانوں کے لیے قرضہ اسکیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر کوٹے کو یقینی بنایا جائے گا اور کسی کے ساتھ بھی کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔
قبل ازیں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ میچور (بالغ) ہو گئی ہے، ہم نے مل کر اس منصوبے کو مکمل کرنا ہے، ماضی کی سیاسی ناپختگی کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا لیکن اب اس تقریب کے ذریعے ملک کی آئندہ نسلوں کو یہ پیغام ملے گا کہ سیاستدانوں کو ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا اور اس کا فائدہ غیرجمہوری قوتوں نے اٹھایا۔ ماضی میں اگر سیاسی قیادت ایسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتی تو آج ملک میں جمہوری عمل بہت زیادہ مضبوط ہو چکی ہوتی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر سیاسی میچورٹی کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔
مستقبل میں بھی وہ اس پالیسی پر کاربند رہیں گے۔ جمہوری نظام میں جہاں حزب اقتدار کو حکومت کا آئینی اختیار ہوتا ہے، وہاں حزب اختلاف کو بھی حق ہوتا ہے کہ وہ آئین و قانون کی سربلندی کے لیے حزب اقتدار کی غلطیوں کی نشاندہی کرے اور جہاں حزب اقتدار آئینی و جمہوری تقاضوں سے روگردانی کی مرتکب ہو، وہاں وہ اپنا آئینی کردار ادا کرے۔ حزب اقتدار پر لازم ہوتا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی تجاویز پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ موجودہ جمہوری سفر میں پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسے ملک و قوم کی ترقی کے تناظر میں بڑی اچھی اور مثبت پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے اور اس طرزعمل سے ملک میں جمہوری روایات مضبوط ہوں گی۔
وطن عزیز میں سیاسی قیادت کی طرف سے اس قدر رواداری اور حزب اختلاف کے ساتھ باہمی احترام و اخوت کا مظاہرہ ملک سے محبت کے طور پر ماضی کی سیاست میں شاذ ہی دکھائی دیتا ہے۔ لہذا وزیر اعظم کی اس بات کو یہ ایک نہایت مثبت پیشرفت سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ: ''پاکستان میں ترقی و خوشحالی، غربت و بے روزگاری کے خاتمے، عوام کی خدمت کے لیے ہم سب کو ایک راستے پر ہونا چاہیے، آج کا منظر دیکھ کر پاکستان اور عوام مخالف قوتوں کو شاید اچھا نہ لگے لیکن پاکستان کی ترقی پر یقین رکھنے والے آج کے منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔'' اسلام کوٹ کے قریب تھرکول پاور منصوبے کے افتتاح کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ منصوبے پر ایک ارب 60 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی اور اس منصوبے کے سال 2017ء میں فیز ون کے مکمل ہونے پر ابتدائی طور پر 660 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ سیاست ایک الگ چیز ہے، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہیے، ہم نے 2008ء کا پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ تسلیم کیا اور پیپلز پارٹی نے 2013ء کے ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کیا، اس طریقے کا سیاسی کلچر سب کو اپنانا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا وہ دوسرے سیاسی دوستوں کے لیے بھی مشعل راہ ہونی چاہیے۔ جب معاملات ملک کی سلامتی، ترقی و خوشحالی، غربت کے خاتمے اور عوامی فلاح و بہبود کے ہوں تو تمام سیاسی لیڈر شپ کو ایک ساتھ ہونا چاہیے، ممکن ہے یہ مخالفین کو اچھا نہ لگے لیکن جو بھی پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں وہ سب ایک ہیں اور یہی پیغام دنیا کو جانا چاہیے، سیاسی لیڈروں کو ایک ساتھ دیکھ کر عوام بھی بہت خوش ہوں گے اور یہی پیغام ان سیاسی لیڈروں کے پاس بھی جانا چاہیے جو فرسودہ طرز سیاست اپنائے ہوئے ہیں۔'' انھوں نے آصف علی زرداری کی جانب سے تھر میں انڈسٹریل پارک لگانے کی تجویز کی بھی تائید کی جس سے مقامی لوگوں کو روزگار دستیاب ہو گا۔ انھوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے انڈسٹریل پارک کے سلسلے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی اور نوجوانوں کے لیے قرضہ اسکیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر کوٹے کو یقینی بنایا جائے گا اور کسی کے ساتھ بھی کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔
قبل ازیں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ میچور (بالغ) ہو گئی ہے، ہم نے مل کر اس منصوبے کو مکمل کرنا ہے، ماضی کی سیاسی ناپختگی کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا لیکن اب اس تقریب کے ذریعے ملک کی آئندہ نسلوں کو یہ پیغام ملے گا کہ سیاستدانوں کو ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا اور اس کا فائدہ غیرجمہوری قوتوں نے اٹھایا۔ ماضی میں اگر سیاسی قیادت ایسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتی تو آج ملک میں جمہوری عمل بہت زیادہ مضبوط ہو چکی ہوتی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر سیاسی میچورٹی کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔
مستقبل میں بھی وہ اس پالیسی پر کاربند رہیں گے۔ جمہوری نظام میں جہاں حزب اقتدار کو حکومت کا آئینی اختیار ہوتا ہے، وہاں حزب اختلاف کو بھی حق ہوتا ہے کہ وہ آئین و قانون کی سربلندی کے لیے حزب اقتدار کی غلطیوں کی نشاندہی کرے اور جہاں حزب اقتدار آئینی و جمہوری تقاضوں سے روگردانی کی مرتکب ہو، وہاں وہ اپنا آئینی کردار ادا کرے۔ حزب اقتدار پر لازم ہوتا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی تجاویز پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ موجودہ جمہوری سفر میں پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسے ملک و قوم کی ترقی کے تناظر میں بڑی اچھی اور مثبت پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے اور اس طرزعمل سے ملک میں جمہوری روایات مضبوط ہوں گی۔