مڈغاسکر سے سبق لیجئے

مڈغاسکر میں خشک سالی کا ذمے دار عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جارہا ہے

ماحولیاتی آلودگی کی سب سے زیادہ قیمت مڈغاسکر کو چکانا پڑ رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

''ہم یہاں پچھلے آٹھ مہینوں سے تھور کے پتوں اور کیڑوں مکوڑوں سے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ جبکہ میرا شوہر چند دن پہلے بھوک کی وجہ سے مرگیا ہے۔ میرے تین بچے ہیں جن کو کھلانے کےلیے کچھ نہیں ہے۔ میری زندگی کا مقصد صرف تھور کے پتے تلاش کرنا ہے جس سے ہماری پیٹ پوجا ہوسکے۔ جو فصلیں کاشت کی تھیں وہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہوگئیں ہیں۔''

یہ روداد ہے مڈغاسکر کی تیماریہ کی، جو وہ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو سنا رہی تھیں۔ مشرقی افریقی ملک مڈغاسکر کو مسلسل چار سال سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بدترین قحط کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گیارہ لاکھ آبادی پر مشتمل اس ملک کو غذا کی شدید قلت کا سامنا ہے اور بروقت اقدامات نہ کرنے سے انسانی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

مڈغاسکر میں خشک سالی کا ذمے دار عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جارہا ہے۔ اگرچہ اس ملک کا عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں حصہ محض ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود ماحولیاتی آلودگی کی سب سے زیادہ قیمت مڈغاسکر کو چکانا پڑ رہی ہے۔ یہ اکیسوی صدی کے باسیوں کےلیے مستقبل کی ایک خوفناک جھلک ہے جو انسانیت کےلیے عالمی وباؤں اور جنگوں سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو خوفناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ٹاپ ممالک میں شامل ہے جو عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے سب سے زیادہ معاشی اور معاشرتی نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگلی دو دہائیوں کے دوران پاکستان کے درجہ حرارت میں دو اعشاریہ پانچ سیلسیئس تک کا اضافہ ہوسکتا ہے، جس کا براہ راست اثر ہماری صحت اور ہمارے ایکو سسٹم پر پڑے گا۔

اگر ان اعدادوشمار سے باہر نکل کر دیکھیں تو آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اس بار مون سون کی بارشیں نہ ہونے کے برابر ہوئیں ہیں۔ مون سون کا سسٹم پاکستان میں پانی کے ذخائر کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بارانی علاقوں میں جون جولائی کی فصلوں کا تمام تر انحصار اس سسٹم پر ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی سطح پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہے۔ میدانی علاقے جہاں پہلے فصلوں کا انحصار بارشوں پر ہوتا تھا اب وہ فصلیں بارشوں کی بے ترتیبی کی وجہ سے زیر زمین پانی پر شفٹ ہوگئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح دور ہوتی جارہی ہے اور کہیں پر پانی کے ذخائر مکمل طور پر ختم ہورہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے گنجان آباد شہروں کو اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس سال لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں توقع سے بڑھ کر بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں اربوں روپے کا مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم ان حالات سے نمٹنے کےلیے کتنے تیار ہیں؟ اگرچہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں ہمارا حصہ بھی مڈغاسکر کی طرح نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کی قیمت شاید ترقی پذیر ممالک کو زیادہ ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اور نہ اکیلے ہمارے بس میں ہے کہ ہم انفرادی اقدامات اٹھا کر اپنے ماحول کو دوبارہ نارمل سطح پر لے آئیں، لیکن بطور ایک زرعی ملک حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ فوڈ سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دے۔


ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ کتنے دن کی خوراک ذخیرہ کرسکتی ہے، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ حکومتی نااہلی اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کے باعث چینی اور گندم میں خودکفیل ملک کو بھی یہ چیزیں امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں۔ یہاں سال میں ایک دو دفعہ ناجائز منافع خوری کےلیے مصنوعی قحط کا سماں پیدا کیا جاتا ہے اور چند دن کی حکومتی کھسر پھسر کے بعد معاملات ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ شوگر مل مالکان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسانوں کا کئی ٹن گنا سالانہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کا استحصال کسان کے ساتھ ہر فصل پر کیا جاتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ہی لوگوں کے کندھوں پر حکومت بھی چل رہی ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس طرح کا حکومتی رویہ کسی بحرانی صورتحال پر قابو پاسکتا ہے۔ اگر آپ مڈغاسکر کے حالات کا تجزیہ کریں تو اس میں صرف قدرت کو ان حالات کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتے اس میں حکومتی نااہلی بھی برابر کی شریک ہوگی۔

دوسری جانب بلڈر مافیا بھی ہر طرح کی زمینیں ہڑپ کرتی جارہی ہے، اور جس سرعت کے ساتھ یہ کام ہورہا ہے آئندہ چند سال میں یہ زرعی ملک کو کنکریٹ کا پہاڑ بنادیں گے۔ باغات، ندی، نالے، دریا کوئی بھی جگہ اس مافیا سے نہیں بچ پا رہی، حتیٰ کہ کراچی میں سمندر میں مٹی ڈال کر پانی کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور اس پر تعمیرات شروع کردی گئی۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ملک کی غذائی ضروریات پوری کررہے ہیں، ان کو چند روپوں کی سبسڈی دیتے وقت حکومت کو خزانے پر بوجھ یاد آجاتا ہے، دوسری جانب یہ مافیا ہے جو فطرت کے ساتھ کھلواڑ کررہا ہے اور حکومت کی جانب سے ان کو کھلی چھٹی ہے۔

زراعت سے وابستہ لوگوں کےلیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسرا ہمارے معاشرتی رویوں کے باعث پینڈو ہونا ایک گالی بن چکا ہے، اس کی وجہ سے لوگ اپنی زمینیں بلڈر مافیا کے حوالے کرکے شہروں کی طرف جارہے ہیں۔ اور یہ اس ملک کےلیے کسی بحران سے کم نہیں ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ ان ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ایک محاذ بنائے جو ممالک ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اور ان ممالک پر دباؤ ڈالنا چاہیے جو کاربن کا زیادہ اخراج کر رہے ہیں۔ اس معاملے پر عالمی سطح پر کئی تنظیمیں اور ممالک کام کر رہے ہیں، ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ میں انڈیا کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ انڈیا دنیا کے سرفہرست تین ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر انڈیا کو دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے اور اس پر عالمی سطح پر حمایت بھی مل سکتی ہے۔ لیکن عالمی فورمز پر ہماری طرف سے وہی پرانی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں جن کو وہ سن سن کر تھک چکے ہیں۔ اس پر موثر سفارت کاری کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ مسئلہ دنیا کےلیے ایک حقیقی خطرے کا روپ دھار چکا ہے اور اس پر دنیا میں پہلے سے ہی بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ارب درخت لگا لینے سے آپ اس خطرے سے بچ نہیں سکتے، اس کے ساتھ ایک مربوط حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ زراعت و خوراک کے محکمے بیوروکریسی اور مفاد پرست ٹولے کے رحم کرم پر نہ چھوڑیے، ورنہ یہاں بھی مڈغاسکر جیسے حالات پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story