مفاہمت سے معذرت

پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت کے دوران ایک بات جو میڈیا سمیت ہر فورم پر دہرائی جاتی رہی ہے


راؤ سیف الزماں February 02, 2014

لاہور: پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت کے دوران ایک بات جو میڈیا سمیت ہر فورم پر دہرائی جاتی رہی ہے۔ وہ یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان یہ فارمولا طے ہوا تھا کہ ''اس بار آپ اپنے صوبے میں حکومتی مدت پوری کریں اور ہمیں مرکز میں کرنے دیں۔اگلی مرتبہ ہم اپنے صوبے میں حکومت بنائیں گے اور مرکز میں آپ کو تنگ نہیں کیا جائے گا''۔ میں نے پچھلے 5 سالوں میں متعدد بار اس بات کو سنا اور اس الزام کے طور پر بھی سنا کہ مسلم لیگ ن کے رہنما قومی اسمبلی میں اس قدر فرینڈلی اپوزیشن فرما رہے تھے کہ سابقہ حکومت کو تمام کھل کھلانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ہر طرح کی اور ہر نسل کی کرپشن قابل برداشت رہی۔

لیکن مجھے یقین نہیں آیا اور میں یہ سمجھتا رہا کہ مسلم لیگ ن کے رہنما دراصل جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دے رہے، وہ ایک فوجی مارشل لا کا راستہ روک رہے ہیں اور جب میں نے دیکھا کہ مئی 2013 کے الیکشن کو گزرے 9 ماہ ہوچکے لیکن وزیر اعظم نے صوبہ سندھ کا کوئی ایک دورہ بھی نہیں فرمایا تو مجھے عجیب لگا۔مگر دو روز قبل میں نے وزیراعظم کو آصف زرداری کے ہمراہ تھرپارکر میں دیکھا تو جی قدرے خوش ہوا۔میں یہ سن رہا تھا کہ سندھ میں تھرکول منصوبے کا افتتاح بھی نواز شریف اور آصف علی زرداری مل کر کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ سندھ کے سیاسی حقائق کچھ ایسے ہیں کہ سندھ میں ن لیگ بہت تیزی کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کی تنظیم نو میں ان کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہ گئی۔ جب مجھے پتا چلا کہ ممتاز بھٹو مسلم لیگ (ن) چھوڑ گئے اور انھیں منانے یا راضی کرنے کی کوئی ایک سنجیدہ کوشش بھی PML-N کی جانب سے نہیں کی گئی۔ لیاقت جتوئی جو صوبے کے ایک معروف سیاسی رہنما ہیں وہ بھی ان دنوں مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

تو میں سوچتا ہوں۔ اور مجھے اس فارمولے یا الزام کی صحت پر کچھ کچھ یقین آنے لگتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی ذہن کے رگ و ریشے میں کہیں پیوست ہے کہ کاش اس خبر میں کوئی صداقت نہ ہو۔ کوئی حقیقت نہ ہو۔ کاش ایسا غلط فارمولا کبھی طے ہی نہ ہوا ہو۔ کیونکہ جب کسی سماج کی اکائیاں تک ٹوٹنے لگیں۔ وہاں تمام انسانی قدریں مسخ ہونے لگیں تو ہر ذی شعور ایسے حالات میں خوفزدہ ہوجاتا ہے سہم جاتا ہے کہ اب بقا۔۔۔ ۔یعنی باقی رہنے کے بنیادی سوال کا جواب کون دے گا؟ اگرچہ اچھائی کے ساتھ برائی، خیر کے ساتھ شر ہمیشہ سے موجود ہیں اور کرہ ارض پر جہاں جہاں انسان پائے جاتے ہیں کم و بیش جرم ہوتا ہے۔لیکن کسی گناہ کی باقاعدہ منصوبہ بندی! اور اس سطح پر جہاں آپ کے ذمے قوم کی رہنمائی ہو۔ ملک اور قوم کا مستقبل آپ کو طے کرنا ہو۔ اور آپ وہاں باریاں طے کر رہے ہوں۔ تو میرے خیال میں یہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا بیرونی حملے سے زیادہ خطرناک ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1997 کے الیکشن میں PML-N نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے صوبائی حکومت تشکیل دی تھی اور یہی لیاقت جتوئی جو اب مسلم لیگ سے مایوس ہوکر PPP میں جانے کا فیصلہ کر رہے ہیں اس وقت PML-Nکے صوبائی وزیر اعلیٰ تھے۔

چند مزید پہلو جو پہلے سے ہوگئی اس مفاہمت کی جانب اشارہ کرتے ہیں وہ بھی قابل ذکر ہیں۔ جیساکہ جب نیب (NAB) کے نئے چیئرمین کا تقرر ہو رہا تھا تو میں نے اس معاملے پر اپنے ایک کالم میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی ملی بھگت کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ کیونکہ مجھے تقرر پر نہیں طریقہ کار پر اعتراض تھا۔ اور اب جب کہ NAB کی جانب سے پیپلز پارٹی حکومت کے دو سابقہ وزرائے اعظم کو اوگرا (Ogra) کیس میں کرپشن کی تحقیقات کے لیے بحیثیت ملزم نامزد کیا گیا ہے اور وہ دونوں سابق وزرائے اعظم کیس دائر ہو جانے کے باوجود نہ صرف یہ کہ پریشان نہیں ہیں بلکہ مسکرا بھی رہے ہیں تو اس شک و شبہے کو زیادہ تقویت ملتی ہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین کا مشاورانہ تقرر دراصل مفاہمانہ تقرر ہے اور معاملات درون خانہ طے ہوچکے ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران آصف علی زرداری پر سوئس کیس کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن PML-N کا بڑا دباؤ تھا ان دنوں تمام اخبارات، میڈیا چینلز (ن) لیگ کے رہنماؤں کے بیانات سے لبالب ملا کرتے تھے۔ وہ سوئس کیس اب کہاں ہے؟ اس وقت کی اپوزیشن اور آج کی حکومت، مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کہ ''سوئس بینکوں میں جمع آصف زرداری کے اربوں ڈالرز قوم کے خون پسینے کی کمائی ہیں یہ کرپشن کا پیسہ ہے، اگر قوم نے ان کی جماعت پر اور ان پر اعتماد کیا اور وہ حکومت میں آئے تو سوئس بینکوں میں جمع زرداری کا ایک ایک ڈالر واپس لاکر ملکی خزانے میں جمع کروائیں گے۔ وہ بیانات ان دنوں نہ سنائی دے رہے ہیں نہ سجھائی دے رہے ہیں ۔

چلیے! تمام معاملات جو انتظامی ہیں یا عدالتی ہیں یا ملکی بھی سہی۔ لیکن صوبہ سندھ میںمسلم لیگ ن کی جماعت۔۔۔۔وہ کہاں ہے؟ مسلم لیگ (ن) نے مئی 2013 کے الیکشن میں سندھ سے بھی قابل ذکر ووٹ حاصل کیا ہے۔ کئی ایک نشستیں بھی جیتی ہیں۔ صوبہ سندھ کے ہر ضلع میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم موجود ہے اور بڑی فعال حیثیت میں موجود ہے۔مگر تمام عہدیداران، کارکنان بہت تیزی سے مایوس ہو رہے ہیں۔ بلکہ یقین کیجیے کہ وہ منہ میں انگلی دبائے بڑی حیرت و استعجاب کے ساتھ آپ کی اور PPP کی اس عظیم مفاہمت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے آپ نے انھیں تنہا اور لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت چن چن کر انھیں جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ جہاں پر انھیں طرح طرح کی تکالیف اور صعوبتوں سے گزار کر جبراً پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کروایا جا رہا ہے۔ کیا ان دنوں آپ نے اخبارات کے مطالعے سے بالکل ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔ اور اب آپ کو کارکنان کی ضرورت نہیں رہی اور یہ ''فارمولا'' کیا ہے؟ ادھر ہم ادھر تم۔۔۔۔ادھر تم ادھر ہم۔

کیسے عجیب لوگ تھے جن کے یہ مشغلے رہے
میرے بھی ساتھ ساتھ تھے غیروں سے بھی ملے رہے

مسئلہ یہ ہے کہ دور بدل گیا ہے۔ یہ جدتوں کا دور ہے۔ یہ میڈیا کا دور ہے۔ وقت کے ماہ و سال اب لمحوں کے دوش پر سفر کر رہے ہیں۔ دلیپ کمار اور راج کپور کی فلمیں اترے زمانے گزر گئے۔ قوم نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں پر بھروسہ اس لیے نہیں کیا ہے کہ وہ محض جامہ بدل کر انھیں تبدیلی کا مژدہ سنائیں ۔ قوم نے ایک حقیقی اور بنیادی تبدیلی کی امید پر مسلم لیگ ن کو ووٹ دیے ہیں اور اگر کہیں کسی صوبے میں اس کی حکومت نہیں بن سکی تو کیا وہ صوبہ ان کی صوابدید پر نہیں ہے ؟یا مسلم لیگ ن کے رہنما پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی منتظر ہیں کہ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں لوگ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے اس قدر متنفر ہوجائیں کہ اگلی بار وہاں پر بھی لوگ ایک مسیحا کی طرح ان کے انتظار میں ہوں ۔ تب تک انھیں سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے یا

تب تک مرکز سے ایسے صوبوں کی کوئی مدد نہ کی جائے۔ آج کا سیاسی افق ایسی تنہا پرواز کے لیے نہایت ناسازگار ہے۔ یہ میڈیا کا دور ہے اب لفظ تحریر ہی نہیں ہوتے بولے بھی جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی گونج اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ حکومت تک کی طبیعت بھی ناساز ہوجاتی ہے۔

بہت صاف دکھائی دے رہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت نے کمال ہوشیاری کے ساتھ مولانا فضل الرحمن پر ہاتھ رکھتے ہوئے وفاقی کابینہ میں بھی ان کی جماعت کو حصہ دے دیا۔ مزید برآں وہاں پر مولانا فضل الرحمن سمیت ANP کے راہنماؤں کو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر گرجنے، برسنے کے لیے آزاد بھی چھوڑ دیا۔اس وعدے کے ساتھ کہ درپردہ آپ ان کی مدد پر آمادہ ہیں۔

مانا کہ سیاسی بھیڑ چال میں ایسا ہوتا ہے، مانا کہ اقتدار کی غلام گردشیں محلاتی سازشوں سے جڑی ہوتی ہیں۔ لیکن یاد رکھیے گا کہ وقت بدل جاتا ہے سمے کی دھارا سب کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ سیل زمانہ میں بہنے سے کون بچ سکا؟ لہٰذا انصاف کیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں