ممکن ہی نہیں ایسا
عقل انسانی کی حد محدود ہے… اس کی سوچ کی پرواز وہیں تک ہے جہاں تک فطرت اسے آزاد چھوڑتی ہے
FAISALABAD/MULTAN:
عقل انسانی کی حد محدود ہے... اس کی سوچ کی پرواز وہیں تک ہے جہاں تک فطرت اسے آزاد چھوڑتی ہے، جب انسان ادراک کی ایک حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اس کی سوچ کام نہیں کرتی، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ کا مدار بڑھتا جاتا ہے۔ ہر آنیوالا وقت اس پر نئے نئے انکشافات کرتا ہے اور قدرت کی کئی نئی کاریگریاں اس پر آشکار ہوتی ہیں۔ سائنس... آج جو کچھ دریافت کر رہی ہے وہ آج سے چودہ سو سال پہلے سے قرآن میں وضاحت سے دیا جا چکا ہے اور جو کچھ ابھی سائنس کو اور بھی دریافت کرنا ہے وہ سب بھی لکھا جا چکا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ہر نئی دریافت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب حکمت کے مندرجات کا مطلب کیا ہے۔چند برس پہلے تک کہا جاتا تھا کہ اپنڈکس نامی عضو کا جسم میں کوئی کام نہیں اسی لیے پیٹ کے درد کے ہر مریض کا اپنڈکس کا آپریشن کر کے گویا اسے ایک خطرے سے بچا لیا جاتا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ تحقیق نے ثابت کیا کہ ہر بچے کی پیدائش سے پہلے اپنڈکس نامی اس عضو کا بہت اہم کام ہے اور اس کے بعد نوجوانوں میں بھی خون کے سفید خلیوں کی افزائش اور گردش کے سلسلے میں کام کرتا ہے۔
اسی طرح spleen نامی ایک عضو جسے تلی کہا جاتا ہے، ایک دہائی قبل تک اس کے کام کے بارے میں بھی سائنس کی معلومات ناقص تھیں مگر اب تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ تلی میں خون ذخیرہ کرنے کی حیران کن صلاحیت ہے۔ عمومی حالات میں اس سے خون کی ضرورت نہیں پڑتی اسی لیے عموما تلی فعال نہیں رہتی مگر جونہی حادثاتی طور پر انسان کے جسم سے زیادہ خون بہہ جاتا ہے تو جسم کا مدافعتی نظام خود بخود تلی سے اس ذخیرہ شدہ خون کو جسم میں گردش کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اس عمومی function کے علاوہ بھی ان اعضاء کے کئی اضافی افعال ہیں جن کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں... اتنی وضاحت کرنے کا بھی فقط ایک مقصد تھا۔جب کوئی یہ بات کہے کہ فلاں چیز اللہ نے پیدا کی ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں تو اس بات کو ماننا ممکن نہیں لگتا، اپنی کم علمی کی وجہ سے بسا اوقات تو بحث میں پڑنے سے گریز کرتی ہوں مگر جہاں ذرا سی تفصیل کا بھی علم ہو وہاں ضرور اپنی علمیت بگھارتی ہوں۔ کبھی کوئی پوچھ بیٹھے کہ جب سؤر کو اس قدر ناپسندیدہ اور حرام جانور کہا گیا تو اس کی پیدائش کا کیا مقصد... سانپ کا کیا فائدہ؟؟ ایسے سوالات ہم سب کے اذہان میں آتے ہیں مگر جہاں عقل اس کا جواب نہ پا سکے یا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے مگر پھر بھی دماغ قائل نہیں ہوتا کہ اللہ کی پیدا کردہ کوئی چیز بغیر کسی مقصد کے ہے۔
ہر روز گھرسے ڈرائیو کر کے جاتی اور گھر لوٹتی ہوں تو کئی دفعہ یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا اللہ نے انسانوں میں سے کچھ انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ تالی بجائیں، ٹھمکا لگائیں، جسم کو لچکا کر، ہاتھوں کو لہرا کر... بال بچے کے جینے کی، جوڑی سلامت رہنے کی، حج پر جانے کی یا امتحان میں پاس ہونے کی دعا کریں اور ہمارے سامنے ہاتھ پھیلائیں؟ ان کے سب اعضاء سلامت ہیں، ان کی شکلیں بھی اچھی خاصی ہیں اور ان میں یقینا دماغ اور صلاحیتیں بھی عام انسانوں کی طرح ہوں گی... جس طرح کوئی انسان کسی کمی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کوئی کسی جسمانی معذوری کے ساتھ، اسی طرح مخنث ہونا بھی ایک طرح کی جسمانی کجی سمجھا جا سکتا ہے، معذوری یا کمی ہرگز نہیں۔ان میں اور عام آدمی میں یہ فرق تو ہو سکتا ہے کہ ایسے افراد ایک عام عائلی زندگی گزارنے کے اہل نہیں ہو سکتے مگر ایسا ہرگز نہیں کہ یہ تعلیم حاصل نہ کر سکیں، معاشرے کے فعال افراد نہ بن سکیں۔ میں نے کچھ تحقیق کی تو یہ جان پائی کہ وراثت کے ان کے حقوق اور حصے بھی ہیں، اللہ نے انھیں پیدا کیا تو انھیں عام انسانوں جیسے حقوق دیے... یقینا ان کے فرائض بھی عام انسانوں جیسے ہونے چاہئیں۔ تب میں نے انٹرنیٹ سے مدد حاصل کی، یہ جاننے کے لیے کہ کیا دنیا بھر میں ایسے افراد صرف ''ودھائیاں'' دے کر ہی زندہ رہنے کا سامان کرتے ہیں؟ مگر میں حیران رہ گئی یہ جان کر کہ پاکستان کے سوا دوسرے ممالک میں ایسے افراد اعلی ملازمتوں اور عہدوں پر ہیں، کاروبار کرتے ہیں... ڈاکٹر، سرجن، آرٹسٹ، موسیقار، شیف، اداکار، استاد، آرکیٹیکٹ ... غرض ہر ہر شعبۂ زندگی میںکامیابی سے کام کر رہے ہیں۔
صبح سویرے خبروں میں سن رہی تھی کہ سپریم کورٹ کے حکم کیمطابق تین ہیجڑوں کو سماجی بہبود کے شعبہ میں ملازمتیں دی گئی ہیں... اس کے بعد ایک سیاسی شخصیت ٹیلی وژن پر بتا رہی تھیں کہ چونکہ یہ تینوں اتنے اعلی تعلیم یافتہ تھے اس لیے انھیں یہ ملازمتیں دینا پڑیں کیونکہ وہ مستحق اور ان ملازمتوں کے حصول کے اہل تھے، گویا وہ عدالتی فیصلے کی وضاحت کر رہی ہوں ... اس کے بعد ان ہیجڑوں کے انٹرویو سنائے گئے جن میں سے پہلے کا کہنا تھا کہ اسے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ خوشی سے ناچے اور گائے... مجھے جہاں اس عدالتی فیصلے کا سن کر خوش ہوئی وہاں اس سیاسی شخصیت کی وضاحت سن کر تاسف ہوا کہ انھیں صفائی کیوں دینا پڑ رہی ہے اور پھر اگلا بیان سن کر اور بھی دل دکھا کہ خوشی کے مارے اسے اپنا ''اصل'' کام یاد آ گیا تھا مگر اس کی تازہ ملازمت کا تقاضہ تھا کہ وہ اپنے دل کی خواہشات پر قابو رکھے۔
ہمارے ہاں چونکہ رواج ہی یہی ہے کہ ایسے بچوں کو اپنی پیدائش کا خود ہی قصور وار سمجھا جاتا ہے، جیسے انھیں اللہ نے نہیں بلکہ کسی آدمی نے ذاتی دشمنی کی بنا پر (نعوذ باللہ) بنایا ہو۔ ماں باپ کے لیے بھی ایسے بچوں کی پیدائش کلنک کا ٹیکہ سمجھی جاتی ہے اور والدین ایسے بچوں کو پیشہ ور ہیجڑوں کو'' تحفتاً '' دینے میں عار نہیں سمجھتے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو یہ معاشرہ انھیں کہاں جینے دے گا۔ چند برس قبل بینکوں کے ایک شعبے نے جن کا کام لوگوں سے قرضوں کی وصولی کرنا تھا، ہیجڑوں کو بھرتی کرنا شروع کیا لیکن ان سے کام اسی عامیانہ طریقے سے لیا جاتا کہ وہ گروہ کے گروہ defaultersکے گھروں کے سامنے جا کر ڈھولک کی تھاپ پر ناچ گانا شروع کر دیتے اور اس وقت ٹلتے تھے جب قرض دہندہ قرض لوٹاتا تھا۔
محترمہ فاطمہ ثریا بجیا سے ایک دفعہ اس موضوع پر بات ہورہی تھی ... انھوں نے کہا کہ انھیں تو اس لفظ ''ہیجڑے'' پر ہی اعتراض ہے... کیا ہماری لغت میں ان کے لیے کوئی بہتر لفظ متعارف کروایا جا سکتا ہے... جس سے ان لوگوں کو بھی ہتک محسوس نہ ہو؟ کیا ہمارا میڈیا لوگوں کو اس بات کا شعور دے سکتا ہے کہ انھیں انسان سمجھا جائے اور ان سے عام انسانوں جیسا برتاؤ کیا جائے؟ کیا ماں باپ ایسے بچوں کی خود پرورش نہیں کر سکتے، کیا انھیں اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے... اگر پڑھے لکھے نہیں تو کیا انھیں کوئی ہنر سکھایا جا سکتا ہے؟ انھیں بہترشہری کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے؟ انھیں اپنے گھروں اور دفتروں میں ملازمتیں دینے میں ہمیں کیا عار ہے؟ کون سا فریضہ ہے جو یہ اس لیے ادا نہیں کر سکتے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے مکمل زنانہ یا مکمل مردانہ صفات سے محروم ہیں؟
ان کے لیے ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکٹ، آرٹسٹ، استاد، اداکار، صداکار، بینکر، عوام کا نمائندہ، چوکیدار، ڈرائیور، کسی ادارے کا سی ای او، نرس، فوٹو گرافر، فلم میکر، پروڈیوسر، کھلاڑی، شیف، ویٹر،منیجر... یا کوئی بھی شعبہ لے لیں، ان میں سے کون سا کام ہے جو حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کے ذریعے یہ نہیں کر سکتے... انھیں عام اداروں میں مخصوص کوٹہ دے دیں اور بجائے ''ودھائیاں'' دینے کی تربیت کے اگر یہ تربیت مثبت طور کی جائے تو یقینا یہ لوگ اپنے قدرتی جھکاؤ کے مطابق خود کو زنانہ یا مردانہ انداز سے carryکرنا بھی سیکھ لیں گے... ملک میں جہاں جہاں اس وقت اداروں میں ملازمتوں کے دوران خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات درپیش آتے ہیں، ان میں بھی کمی کی جا سکتی ہے۔
ایک male dominating معاشرے میں ایسے اقدامات سے اگر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے چند واقعات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہو تو ایسا برا نہیں۔ہم سب اپنے اپنے کوکون میں بند ہو کر اپنی اپنی زندگیاں گذارنے والے لوگ ہیں، حالات دیکھ کر کڑھتے ہیں، قلم کی طاقت سے لکھ کر سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی کو اثر ہو جائے گا... دعا اور امید کا دامن پکڑے رکھتے ہیں، شروع کرنے کے لیے ملک کے ''پڑھے لکھے'' طبقے سے درخواست ہے کہ کم از کم ایک بہتر لفظ ہی اپنی لغت میں ان کے لیے شامل کر لیں... (تجاویز درکار ہیں)، اس کے بعد ہر صاحب حیثیت کسی ایک ایسے شخص کا ذمہ لے جو اپنی موجودہ زندگی میں خوش نہ ہو، ناچنا، گانا یا بھیک مانگنا نہ چاہتا ہو' معاشرے کا سدھار اسی طرح شروع ہوتا ہے جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے... ہے کوئی جو میری رائے سے اتفاق کرتا ہو یا پھر کالم پڑھ کر مسکرا کر اخبار ایک طرف رکھ دینا ہی اس بات کا اظہار ہے کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عقل انسانی کی حد محدود ہے... اس کی سوچ کی پرواز وہیں تک ہے جہاں تک فطرت اسے آزاد چھوڑتی ہے، جب انسان ادراک کی ایک حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اس کی سوچ کام نہیں کرتی، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ کا مدار بڑھتا جاتا ہے۔ ہر آنیوالا وقت اس پر نئے نئے انکشافات کرتا ہے اور قدرت کی کئی نئی کاریگریاں اس پر آشکار ہوتی ہیں۔ سائنس... آج جو کچھ دریافت کر رہی ہے وہ آج سے چودہ سو سال پہلے سے قرآن میں وضاحت سے دیا جا چکا ہے اور جو کچھ ابھی سائنس کو اور بھی دریافت کرنا ہے وہ سب بھی لکھا جا چکا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ہر نئی دریافت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب حکمت کے مندرجات کا مطلب کیا ہے۔چند برس پہلے تک کہا جاتا تھا کہ اپنڈکس نامی عضو کا جسم میں کوئی کام نہیں اسی لیے پیٹ کے درد کے ہر مریض کا اپنڈکس کا آپریشن کر کے گویا اسے ایک خطرے سے بچا لیا جاتا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ تحقیق نے ثابت کیا کہ ہر بچے کی پیدائش سے پہلے اپنڈکس نامی اس عضو کا بہت اہم کام ہے اور اس کے بعد نوجوانوں میں بھی خون کے سفید خلیوں کی افزائش اور گردش کے سلسلے میں کام کرتا ہے۔
اسی طرح spleen نامی ایک عضو جسے تلی کہا جاتا ہے، ایک دہائی قبل تک اس کے کام کے بارے میں بھی سائنس کی معلومات ناقص تھیں مگر اب تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ تلی میں خون ذخیرہ کرنے کی حیران کن صلاحیت ہے۔ عمومی حالات میں اس سے خون کی ضرورت نہیں پڑتی اسی لیے عموما تلی فعال نہیں رہتی مگر جونہی حادثاتی طور پر انسان کے جسم سے زیادہ خون بہہ جاتا ہے تو جسم کا مدافعتی نظام خود بخود تلی سے اس ذخیرہ شدہ خون کو جسم میں گردش کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اس عمومی function کے علاوہ بھی ان اعضاء کے کئی اضافی افعال ہیں جن کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں... اتنی وضاحت کرنے کا بھی فقط ایک مقصد تھا۔جب کوئی یہ بات کہے کہ فلاں چیز اللہ نے پیدا کی ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں تو اس بات کو ماننا ممکن نہیں لگتا، اپنی کم علمی کی وجہ سے بسا اوقات تو بحث میں پڑنے سے گریز کرتی ہوں مگر جہاں ذرا سی تفصیل کا بھی علم ہو وہاں ضرور اپنی علمیت بگھارتی ہوں۔ کبھی کوئی پوچھ بیٹھے کہ جب سؤر کو اس قدر ناپسندیدہ اور حرام جانور کہا گیا تو اس کی پیدائش کا کیا مقصد... سانپ کا کیا فائدہ؟؟ ایسے سوالات ہم سب کے اذہان میں آتے ہیں مگر جہاں عقل اس کا جواب نہ پا سکے یا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے مگر پھر بھی دماغ قائل نہیں ہوتا کہ اللہ کی پیدا کردہ کوئی چیز بغیر کسی مقصد کے ہے۔
ہر روز گھرسے ڈرائیو کر کے جاتی اور گھر لوٹتی ہوں تو کئی دفعہ یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا اللہ نے انسانوں میں سے کچھ انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ تالی بجائیں، ٹھمکا لگائیں، جسم کو لچکا کر، ہاتھوں کو لہرا کر... بال بچے کے جینے کی، جوڑی سلامت رہنے کی، حج پر جانے کی یا امتحان میں پاس ہونے کی دعا کریں اور ہمارے سامنے ہاتھ پھیلائیں؟ ان کے سب اعضاء سلامت ہیں، ان کی شکلیں بھی اچھی خاصی ہیں اور ان میں یقینا دماغ اور صلاحیتیں بھی عام انسانوں کی طرح ہوں گی... جس طرح کوئی انسان کسی کمی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کوئی کسی جسمانی معذوری کے ساتھ، اسی طرح مخنث ہونا بھی ایک طرح کی جسمانی کجی سمجھا جا سکتا ہے، معذوری یا کمی ہرگز نہیں۔ان میں اور عام آدمی میں یہ فرق تو ہو سکتا ہے کہ ایسے افراد ایک عام عائلی زندگی گزارنے کے اہل نہیں ہو سکتے مگر ایسا ہرگز نہیں کہ یہ تعلیم حاصل نہ کر سکیں، معاشرے کے فعال افراد نہ بن سکیں۔ میں نے کچھ تحقیق کی تو یہ جان پائی کہ وراثت کے ان کے حقوق اور حصے بھی ہیں، اللہ نے انھیں پیدا کیا تو انھیں عام انسانوں جیسے حقوق دیے... یقینا ان کے فرائض بھی عام انسانوں جیسے ہونے چاہئیں۔ تب میں نے انٹرنیٹ سے مدد حاصل کی، یہ جاننے کے لیے کہ کیا دنیا بھر میں ایسے افراد صرف ''ودھائیاں'' دے کر ہی زندہ رہنے کا سامان کرتے ہیں؟ مگر میں حیران رہ گئی یہ جان کر کہ پاکستان کے سوا دوسرے ممالک میں ایسے افراد اعلی ملازمتوں اور عہدوں پر ہیں، کاروبار کرتے ہیں... ڈاکٹر، سرجن، آرٹسٹ، موسیقار، شیف، اداکار، استاد، آرکیٹیکٹ ... غرض ہر ہر شعبۂ زندگی میںکامیابی سے کام کر رہے ہیں۔
صبح سویرے خبروں میں سن رہی تھی کہ سپریم کورٹ کے حکم کیمطابق تین ہیجڑوں کو سماجی بہبود کے شعبہ میں ملازمتیں دی گئی ہیں... اس کے بعد ایک سیاسی شخصیت ٹیلی وژن پر بتا رہی تھیں کہ چونکہ یہ تینوں اتنے اعلی تعلیم یافتہ تھے اس لیے انھیں یہ ملازمتیں دینا پڑیں کیونکہ وہ مستحق اور ان ملازمتوں کے حصول کے اہل تھے، گویا وہ عدالتی فیصلے کی وضاحت کر رہی ہوں ... اس کے بعد ان ہیجڑوں کے انٹرویو سنائے گئے جن میں سے پہلے کا کہنا تھا کہ اسے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ خوشی سے ناچے اور گائے... مجھے جہاں اس عدالتی فیصلے کا سن کر خوش ہوئی وہاں اس سیاسی شخصیت کی وضاحت سن کر تاسف ہوا کہ انھیں صفائی کیوں دینا پڑ رہی ہے اور پھر اگلا بیان سن کر اور بھی دل دکھا کہ خوشی کے مارے اسے اپنا ''اصل'' کام یاد آ گیا تھا مگر اس کی تازہ ملازمت کا تقاضہ تھا کہ وہ اپنے دل کی خواہشات پر قابو رکھے۔
ہمارے ہاں چونکہ رواج ہی یہی ہے کہ ایسے بچوں کو اپنی پیدائش کا خود ہی قصور وار سمجھا جاتا ہے، جیسے انھیں اللہ نے نہیں بلکہ کسی آدمی نے ذاتی دشمنی کی بنا پر (نعوذ باللہ) بنایا ہو۔ ماں باپ کے لیے بھی ایسے بچوں کی پیدائش کلنک کا ٹیکہ سمجھی جاتی ہے اور والدین ایسے بچوں کو پیشہ ور ہیجڑوں کو'' تحفتاً '' دینے میں عار نہیں سمجھتے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو یہ معاشرہ انھیں کہاں جینے دے گا۔ چند برس قبل بینکوں کے ایک شعبے نے جن کا کام لوگوں سے قرضوں کی وصولی کرنا تھا، ہیجڑوں کو بھرتی کرنا شروع کیا لیکن ان سے کام اسی عامیانہ طریقے سے لیا جاتا کہ وہ گروہ کے گروہ defaultersکے گھروں کے سامنے جا کر ڈھولک کی تھاپ پر ناچ گانا شروع کر دیتے اور اس وقت ٹلتے تھے جب قرض دہندہ قرض لوٹاتا تھا۔
محترمہ فاطمہ ثریا بجیا سے ایک دفعہ اس موضوع پر بات ہورہی تھی ... انھوں نے کہا کہ انھیں تو اس لفظ ''ہیجڑے'' پر ہی اعتراض ہے... کیا ہماری لغت میں ان کے لیے کوئی بہتر لفظ متعارف کروایا جا سکتا ہے... جس سے ان لوگوں کو بھی ہتک محسوس نہ ہو؟ کیا ہمارا میڈیا لوگوں کو اس بات کا شعور دے سکتا ہے کہ انھیں انسان سمجھا جائے اور ان سے عام انسانوں جیسا برتاؤ کیا جائے؟ کیا ماں باپ ایسے بچوں کی خود پرورش نہیں کر سکتے، کیا انھیں اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے... اگر پڑھے لکھے نہیں تو کیا انھیں کوئی ہنر سکھایا جا سکتا ہے؟ انھیں بہترشہری کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے؟ انھیں اپنے گھروں اور دفتروں میں ملازمتیں دینے میں ہمیں کیا عار ہے؟ کون سا فریضہ ہے جو یہ اس لیے ادا نہیں کر سکتے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے مکمل زنانہ یا مکمل مردانہ صفات سے محروم ہیں؟
ان کے لیے ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکٹ، آرٹسٹ، استاد، اداکار، صداکار، بینکر، عوام کا نمائندہ، چوکیدار، ڈرائیور، کسی ادارے کا سی ای او، نرس، فوٹو گرافر، فلم میکر، پروڈیوسر، کھلاڑی، شیف، ویٹر،منیجر... یا کوئی بھی شعبہ لے لیں، ان میں سے کون سا کام ہے جو حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کے ذریعے یہ نہیں کر سکتے... انھیں عام اداروں میں مخصوص کوٹہ دے دیں اور بجائے ''ودھائیاں'' دینے کی تربیت کے اگر یہ تربیت مثبت طور کی جائے تو یقینا یہ لوگ اپنے قدرتی جھکاؤ کے مطابق خود کو زنانہ یا مردانہ انداز سے carryکرنا بھی سیکھ لیں گے... ملک میں جہاں جہاں اس وقت اداروں میں ملازمتوں کے دوران خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات درپیش آتے ہیں، ان میں بھی کمی کی جا سکتی ہے۔
ایک male dominating معاشرے میں ایسے اقدامات سے اگر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے چند واقعات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہو تو ایسا برا نہیں۔ہم سب اپنے اپنے کوکون میں بند ہو کر اپنی اپنی زندگیاں گذارنے والے لوگ ہیں، حالات دیکھ کر کڑھتے ہیں، قلم کی طاقت سے لکھ کر سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی کو اثر ہو جائے گا... دعا اور امید کا دامن پکڑے رکھتے ہیں، شروع کرنے کے لیے ملک کے ''پڑھے لکھے'' طبقے سے درخواست ہے کہ کم از کم ایک بہتر لفظ ہی اپنی لغت میں ان کے لیے شامل کر لیں... (تجاویز درکار ہیں)، اس کے بعد ہر صاحب حیثیت کسی ایک ایسے شخص کا ذمہ لے جو اپنی موجودہ زندگی میں خوش نہ ہو، ناچنا، گانا یا بھیک مانگنا نہ چاہتا ہو' معاشرے کا سدھار اسی طرح شروع ہوتا ہے جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے... ہے کوئی جو میری رائے سے اتفاق کرتا ہو یا پھر کالم پڑھ کر مسکرا کر اخبار ایک طرف رکھ دینا ہی اس بات کا اظہار ہے کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔