آخر کو ہم ’’عام آدمی‘‘ ہیں
’’عام آدمی‘‘ کو آفرین ہے کہ ہم صبح 4 بجے سے باورچی خانوں میں گھس جاتے ہیں مگر پکاتے وہی پراٹھے۔۔۔
یہ کہانی ہے ''عام آدمی'' کی جسے ایک طرف مہنگائی نے مارا ہے تو دوسری طرف ''قطار'' نے چاہے سواری ہو اپنی یا پرائی پر سفر ہو نہیں سکتا بغیر''قطار'' کے۔
''قطار'' کے بغیر نہ وہ آفس جاسکتا ہے نہ کہیں شادی بلکہ اسپتال جانے کے لیے بھی اسے قطار کا محتاج بنادیا ہے۔ ہفتے کے تین دن ہونے والے اس ناغے کے سبب میرے اور آپ کے جیسا عام آدمی سر شام سے ہی قطار میں لگ کر اگلے ہونے والے ناغے کے لیے رات گئے تک CNG اپنی گاڑی میں بھرواتا ہے اور اگر وہ کسی بس یا سوزوکی میں سوار ہے تو بھرنے کے لیے ایک ٹنکی نہیں ہوتی بلکہ دو ٹنکیاں ہوتی ہیں۔ اسی لیے وہ اگلے دن کی گیس بھرواکر فارغ ہوجاتا ہے اس طرح اگلے دن ناغے کا ہوتا ہے گویا بے چاری تھکی ماندہ عوام کے لیے آرام کا دن ہوتا ہے اور ایک دن کے ناغے کے بعد جب اگلے دن جب گیس کھلنی ہوتی ہے تو یہی عوام الصبح کوئی 6,5 بجے پھر قطار میں لگ جاتی ہے اگر لائٹ آرہی ہو تو یہ کوئی لگ بھگ 2 یا 3 گھنٹے میں فارغ ہوجاتے ہیں اور اگر لائٹ نہ ہو تو یہ دورانیہ 4 یا 5 گھنٹے تک بڑھ جاتا ہے۔ اور اس کے بعد دفاتر اور کام کاج کے لیے روانگی ہوتی ہے مگر اب اسکول اور کالج والے کیا کریں کہ آٹھ بجے سے گیس ملنا شروع ہوتی اور 8 بجے ہی اسکول اور کالج شروع ہوتا ہے اور 12 یا 1 بجے چھٹی ہوتی ہے اور اگر یہ بے چارے شام کا رسک لیں تو ممکن ہے کہ گاڑی کسی بھی لمحے کہیں بھی رک جائے اس لیے آج کل یہ محاورہ عام ہے کہ ''ذلت کی گیس سے عزت کا پٹرول اچھا '' لیکن عزت کا پٹرول عام آدمی کی جیب پر اتنا ہی بھاری ہے جتنے ہمارے حکمران۔ اس ساری تکلیف دہ صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ پریشانیاں کچھ ہماری اپنی بڑھائی ہوئی ہیں۔ کچھ عرصے تک اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ بچوں کو اسکول اور کالج گھر کے قریب والے میں داخل کیا جائے تاکہ آنے جانے میں پریشانی نہ ہو۔
اگر شادی کی تقریب ہے تو وہ بھی پہلے لوگ گھر کے آگے ہی ''تمبو'' لگاکر نبٹا لیتے تھے۔ مگر جیسے جیسے اسٹیٹس کا بخار ہماری اس قوم پر چڑھا ہے تب سے ہی ہم روز بروز نت نئی پریشانی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔جس طرح بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کو بجلی کے بغیر دوسری متبادل چیزوں کا راستہ دکھا دیا ہے اسی طرح ہمیں CNG کا متبادل ڈھونڈنا ہوگا اور اس کی قلت کے پیش نظر اپنے آپ کو اس کے بلاضرورت استعمال کو روکنا ہوگا۔ یہ ایک سادہ اور آسان فلسفہ ہے زندگی کو آسان بنانے کا۔ ہم میں سے ہر شخص یہ کہتا ہے کہ کیا یہ تکلیفیں صرف ہمارے لیے ہیں؟ جب ہم پیسے دے رہے ہیں تو ہم کیوں پریشانی اٹھائیں یا ہم کیوں نہ استعمال کریں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سی این جی کی اس قلت سے ہم عوام گھر میں بھی گیس کی قلت کا شکار ہو رہے ہیں حالیہ دنوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بغیر گھروں میں ہونے والی گیس کی لوڈشیڈنگ اور گیس کے پریشر نے ہر عام آدمی کو ادھ موا کردیا ہے۔ گھنٹوں کی خواری کے بعد جاکر کھانا تکمیل تک پہنچتا ہے اس لیے اب میرے جیسے عام آدمی نے اپنے گھر کے صحن میں لکڑی جلانیوالے چولہے کا انتظام کردیا ہے جہاں اب کھانا پکانے کے دوران گھر بھر کے بچوں کو ایک نئی تفریح ہاتھ آگئی ہے کوئی چھت کے کباڑ سے چارپائی کا پایہ ڈھونڈ کر لا رہا ہے اور کوئی پچھلے سال آنیوالی آم کی پیٹی۔ اب تو جب ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے تو خواتین ایک دوسرے سے پہلا سوال یہی کرتی ہیں کہ تمہارے گھر گیس کا پریشر آرہا ہے؟ اور جواب نفی ہونے کی صورت میں وہ دکھ بھری داستانیں شروع ہوتی ہیں کہ ان کے سامنے اسٹار پلس کے ڈرامے بھی ہیچ ہیں۔
لیکن یہاں بھی پھر ہم ''عام آدمی'' کو آفرین ہے کہ ہم صبح 4 بجے سے باورچی خانوں میں گھس جاتے ہیں مگر پکاتے وہی پراٹھے۔ اسی طرح چاہے چاول بنائیں یا دال سبزی کھانے وہی مشقتوں بھرے۔ کڑاہی تو ہم صبح ہی چڑھا دیتے ہیں تبھی تو ذائقہ آتا ہے۔ اور بھئی! ہمارے گھر میں تو بریانی یخنی والی ہی پسند کرتے ہیں مجال ہے جو کسی سے سنیں کہ گیس کی اس کمی کے باعث آج کل ہم آسانی اور جھٹ پٹ والے کھانے بنانے لگے ہیں۔ لہٰذا ہم ان کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور شایدوہ دن بھی دور نہیں کہ میرے چھوٹے شہرکوٹری میں چلنے والے ٹانگے دیگر شہروں میں بھی چلنا شروع ہوجائیں۔ جس میں نہ سی این جی کی ضرورت ہے اور نہ پٹرول کی ، فقط ایک گھوڑا چاہیے۔ زشتہ دو دہائیوں میں کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن ہماری تکالیف جوں کی توں رہی ہیں۔ لہٰذا اب وہ وقت آگیا ہے کہ جس طرح ماضی سے پیوستہ مختلف چیزیں ہماری زندگی کا حصہ بننے لگی ہیں ہم ماضی کی طرح اپنے طرز زندگی کو بھی بدلیں۔ بلاضرورت گیس کا استعمال نہ کریں۔ اگر پیدل بازار تک جایا جاسکتا ہے تو گاڑی کا استعمال نہ کریں۔ کوشش کریں کہ بچوں کو گھر کے قریب کے اسکولوں میں ہی بھیجیں اس سے جہاں معاشی ثمرات ظاہر ہوں گے وہیں آپ کی اور ہماری تفکرات میں بھی کمی ہوگی۔ مگر جو کرنا ہے ہمیں کرنا ہے کیونکہ آخر کو ہم ''عام آدمی'' ہیں۔