وژن اورگاڑی
اکثرلوگ صرف یکطرفہ وژن والے ہوتے ہیں چنانچہ وہ گاڑی جاتی ہے کہہ دیتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ گاڑی آئیگی توجائے گی۔
کیا کریں مجبوری ہے خودکو دانا ،دانشور ،کالم نگار پوزکرنے کے لیے کرنا پڑتا ہے ورنہ یہ بعض اصطلاحات یا الفاظ یا سرکاری استعمال کے نام ہم بالکل بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں، مثال کے طور پر ''تحفظات'' کا لفظ لے لیجیے جسے اکثرسیاستدان مستعمل کرتے رہتے ہیں۔
ہم بھی روز ہی لکھ دیتے ہیں لیکن قسم لے لیجیے اگر ہمیں یہ پتہ ہو کہ ''تحفظات'' کوئی چڑیا ہے یا بطخ ہے یا مرغی جسے انڈوں پر بٹھایا گیا ہو، ایسا ہی آج کا ایک بیسٹ سیلر لفظ ''وژن'' بھی ہے اس پر ہم پہلے بھی اپنا سر بہت دکھا چکے ہیں جب تک لفظ ''ٹیلی'' اس کے ساتھ تھا تو ہمارا بھی ان کے ساتھ تھا لیکن جب سے دونوں میں جدائی یا علیحدگی واقع ہو چکی ہے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ خالی خولی ''وژن'' کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
اس دن تو بڑی شرمندگی ہوئی ایک جگہ کچھ لوگ جمع تھے اورآپس میں کچھ جمع تفریق کر رہے تھے، سارے وژن وژن کر رہے تھے لیکن ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا، دراصل کسی لفظ سے معنی نکالنا بھی ایک فن ہے جو ہمیں نہیں آتا۔
ہمارے پشاور میں کافی عرصہ پہلے ایک شاعر ہوتا تھا اس نے اپنا ایک مجموعہ کلام چھاپا لیکن کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا پھر کچھ مدت بعد اس شاعر کا بیٹا ایک بہت بڑا ضلعی افسر بن کر آیا تو یار لوگوں کو وہ شاعر بھی یاد آیا اور اس کا مجموعہ کلام بھی، چنانچہ ایک بہت بڑی تقریب مقامی ادب شناسوں اور افسرشناسوں نے برپا کی، مہمان خصوصی شاعر کا افسر بیٹا تھا چنانچہ اس شاعر کے کلام پر انتہائی ٹاپ کلاس کے مقالے پڑھے جانے لگے۔
وہ شاعر تو کوئی اور تھا لیکن ہم مثال کے طور پر ایک دوسرا شعر لکھ دیتے ہیں جو اس شاعر نے کہا تھا اور اس پر مقالہ پڑھا جا رہا تھا شعر یہ ہے کہ...
گاڑی آتی ہے گاڑی جاتی ہے
گاڑی جاتی ہے گاڑی آتی ہے
مقالہ نگار نے دوچار غیرملکی کتابوں اور لکھنے والوں کے نام لے کر کہا، اس شعر میں جو فلسفہ ہے وہ حرف بہ حرف ہمارے اس محترم شاعر کا وژن ہے، گاڑی آتی ہے گاڑی جاتی ہے میں یہ فلسفہ ہے گاڑی آتی بھی ہے اور جاتی بھی ہے، اکثر لوگ صرف یک طرفہ وژن والے ہوتے ہیں چنانچہ وہ گاڑی جاتی ہے کہہ دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ گاڑی آئے گی تو جائے گی اگر آئے گی نہیں تو جائے گی کیسے یا اگر صرف جائے گی تو آئے گی کیا، جیسا ہم بجلی کے بارے میں کہتے ہیں کہ بجلی جاتی ہے لیکن آنے کا ذکر نہیں کرتے اگر بجلی دن میں بیس بار جائے گی تو اس سے پہلے بیس بار آئے گی بھی، یہی حال گاڑیوں کا ہے۔
بلکہ شاعر نے اس میں ایک اور اچھوتے خیال کی نشاندہی کی ہے گاڑی آتی اور جاتی ''سڑک'' پر ہے اور سڑک کا کمال یہ ہے کہ یہ جاتی بھی ہے آتی بھی ہے اور اپنی جگہ سے ہلتی بھی نہیں۔ ہم اتنے دانا دانشوروں کے درمیان وژن کی کیا وضاحت کر سکتے ہیں یہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو وژن کے قرب وجوار میں ہوں۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے تو وژن صرف ایک لفظ ہے ، یعنی بقول جگر مراد آبادی...
ایک لفظ محبت کا اتنا ہی فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
اور پھیلانے کا یہ کام کو ئی معاون خصوصی برائے وژن ہی کر سکتا ہے ہم جیسے نالائق پھسڈی نہیں اور اس کے لیے بھی جگر مراد آبادی نے ایک شرط اسی غزل میں رکھی ہے۔
یہ''عشق'' نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
مطلب کہ ایسی باتوں کے سمجھنے کے لیے یا معاون خصوصی بننے کے لیے بھی لیاقت بلکہ وژن چاہیے۔
ہم بھی روز ہی لکھ دیتے ہیں لیکن قسم لے لیجیے اگر ہمیں یہ پتہ ہو کہ ''تحفظات'' کوئی چڑیا ہے یا بطخ ہے یا مرغی جسے انڈوں پر بٹھایا گیا ہو، ایسا ہی آج کا ایک بیسٹ سیلر لفظ ''وژن'' بھی ہے اس پر ہم پہلے بھی اپنا سر بہت دکھا چکے ہیں جب تک لفظ ''ٹیلی'' اس کے ساتھ تھا تو ہمارا بھی ان کے ساتھ تھا لیکن جب سے دونوں میں جدائی یا علیحدگی واقع ہو چکی ہے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ خالی خولی ''وژن'' کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
اس دن تو بڑی شرمندگی ہوئی ایک جگہ کچھ لوگ جمع تھے اورآپس میں کچھ جمع تفریق کر رہے تھے، سارے وژن وژن کر رہے تھے لیکن ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا، دراصل کسی لفظ سے معنی نکالنا بھی ایک فن ہے جو ہمیں نہیں آتا۔
ہمارے پشاور میں کافی عرصہ پہلے ایک شاعر ہوتا تھا اس نے اپنا ایک مجموعہ کلام چھاپا لیکن کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا پھر کچھ مدت بعد اس شاعر کا بیٹا ایک بہت بڑا ضلعی افسر بن کر آیا تو یار لوگوں کو وہ شاعر بھی یاد آیا اور اس کا مجموعہ کلام بھی، چنانچہ ایک بہت بڑی تقریب مقامی ادب شناسوں اور افسرشناسوں نے برپا کی، مہمان خصوصی شاعر کا افسر بیٹا تھا چنانچہ اس شاعر کے کلام پر انتہائی ٹاپ کلاس کے مقالے پڑھے جانے لگے۔
وہ شاعر تو کوئی اور تھا لیکن ہم مثال کے طور پر ایک دوسرا شعر لکھ دیتے ہیں جو اس شاعر نے کہا تھا اور اس پر مقالہ پڑھا جا رہا تھا شعر یہ ہے کہ...
گاڑی آتی ہے گاڑی جاتی ہے
گاڑی جاتی ہے گاڑی آتی ہے
مقالہ نگار نے دوچار غیرملکی کتابوں اور لکھنے والوں کے نام لے کر کہا، اس شعر میں جو فلسفہ ہے وہ حرف بہ حرف ہمارے اس محترم شاعر کا وژن ہے، گاڑی آتی ہے گاڑی جاتی ہے میں یہ فلسفہ ہے گاڑی آتی بھی ہے اور جاتی بھی ہے، اکثر لوگ صرف یک طرفہ وژن والے ہوتے ہیں چنانچہ وہ گاڑی جاتی ہے کہہ دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ گاڑی آئے گی تو جائے گی اگر آئے گی نہیں تو جائے گی کیسے یا اگر صرف جائے گی تو آئے گی کیا، جیسا ہم بجلی کے بارے میں کہتے ہیں کہ بجلی جاتی ہے لیکن آنے کا ذکر نہیں کرتے اگر بجلی دن میں بیس بار جائے گی تو اس سے پہلے بیس بار آئے گی بھی، یہی حال گاڑیوں کا ہے۔
بلکہ شاعر نے اس میں ایک اور اچھوتے خیال کی نشاندہی کی ہے گاڑی آتی اور جاتی ''سڑک'' پر ہے اور سڑک کا کمال یہ ہے کہ یہ جاتی بھی ہے آتی بھی ہے اور اپنی جگہ سے ہلتی بھی نہیں۔ ہم اتنے دانا دانشوروں کے درمیان وژن کی کیا وضاحت کر سکتے ہیں یہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو وژن کے قرب وجوار میں ہوں۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے تو وژن صرف ایک لفظ ہے ، یعنی بقول جگر مراد آبادی...
ایک لفظ محبت کا اتنا ہی فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
اور پھیلانے کا یہ کام کو ئی معاون خصوصی برائے وژن ہی کر سکتا ہے ہم جیسے نالائق پھسڈی نہیں اور اس کے لیے بھی جگر مراد آبادی نے ایک شرط اسی غزل میں رکھی ہے۔
یہ''عشق'' نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
مطلب کہ ایسی باتوں کے سمجھنے کے لیے یا معاون خصوصی بننے کے لیے بھی لیاقت بلکہ وژن چاہیے۔