چین پاکستان اقتصادی راہداری دشمنوں کی نظروں میں کیوں کھٹکتی ہے
سی پیک کے منصوبوں اور ان سے حاصل ہونیوالے فوائد کی تفصیلات جو خطے میں معاشی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سڑکوں ریلوے اور پائپ لائنوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو تقریبا 3000 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
یہ شمال مغربی چین سنکیانگ کے علاقے کاشغر شہر سے پاکستان میں داخل ہو کر گوادر کے ذریعے بحیرہ عرب سے مل جاتا ہے جہاں سے چینی مصنوعات کو مشرق وسطیٰ افریقہ اور آگے یورپی ممالک تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس میں 1300 کلومیٹر قراقرم ہائی وے کو اپ گریڈ کرنا بھی شامل ہے۔
چینی سرحد سے بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی راہداری کے منصوبوں کی ابتداء 1950 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ 1959 میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا۔ بعد میں مزید منصوبے اس سڑک سے جڑتے چلے گئے۔ 2002 ء میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر شروع ہوئی 2006میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کی وجہ سے گوادر بندرگاہ کی توسیع کا کام عارضی طور پر بند ہوگیا۔
2013 میں پاکستان اور چین نے باہمی رابطے کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے طویل مدتی منصوبے کے لیے مفاہمت نامے پر دستخط کیے گئے۔ اپریل 2015 میں چینی صدر شی جن پنگ نے پاکستان کے دورے کے دوران ایک اداریہ میں لکھا: ''یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے ہی بھائی کے گھر جا رہا ہوں''۔ 20 اپریل 2015 ء کو پاکستان اور چین کے درمیان 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہوئے جو پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی کا تقریبا 20 فیصد تھا۔
12 اگست 2015 ء کو دونوں ملکوں کے درمیان سی پیک کے دائرہ کار کو مزید بڑھانے کے لیے 1.6 ارب ڈالر مالیت کے مزید 20 معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں بنیادی طور پر توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ ایک معاہدے کے تحت پاکستان اور چین نے خلائی تحقیق کے شعبے میں بھی تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔
ستمبر اور اکتوبر 2015 میں برطانیہ کی حکومت نے حکومت پاکستان کو روڈزکی تعمیر کے لیے دو الگ الگ گرانٹ دینے کا اعلان کیا جو سی پیک کے لیے اہم ہیں۔ نومبر 2015ء میں چین نے سی پیک کو اپنے 13 ویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے میں شامل کیا جبکہ دسمبر 2015ء میں چین اور پاکستان نے اس منصوبے کے تحت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی پارک کے قیام کے لیے مزید 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق کیا۔ 8 اپریل 2016چین اور پاکستان نے 2 ارب ڈالر کے اضافی معاہدوں پر دستخط کیے جن میں بنیادی ڈھانچے، شمسی توانائی اور لاجسٹکس کے پروگرامز شامل تھے۔
چین سے پہلا قافلہ 13 نومبر 2016 کو گوادر پہنچا جس کے ذریعے سی پیک کے آپریشن کو باضابطہ بنایا گیا۔ 2 دسمبر 2016ء کو چین اور پاکستان کے درمیان براہ راست ریل روٹ اور سمندری مال برداری سروس کا آغاز کرنے والی پہلی کارگو ٹرین یونان سے روانہ ہوئی۔ 500 ٹن اجناس سے بھری ایک کارگو ٹرین کنمنگ سے گوانگ ژو روانہ ہوئی جہاں سے بذریعہ کارگو جہاز مال کراچی پہنچایا گیا جس سے نیا روٹ کھل گیا۔اس نئی ریل، سمندری مال برداری سے ٹرانسپورٹ سمیت لاجسٹک کی لاگت میں 50 فیصد کمی ہوئی۔
نومبر 2016 ء میں چین نے پاکستان میں اضافی 8.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جس میں پاکستان کی مرکزی ریلوے لائن کو کراچی سے پشاور تک اپ گریڈ کرنے کے لیے 4.5 ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے جن میں ٹریک، رفتار اور سگنلنگ شامل ہیں اور توانائی کی قلت کو کم کرنے میں مدد کے لیے ایل این جی ٹرمینل اور ٹرانسمیشن لائنوں کے لیے 4 ارب ڈالر مختص کیے گئے۔
مارچ 2017 میں درج ذیل منصوبوں کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے:
.1 1.5 بلین ڈالر کی آئل ریفائنری
.2 2 ارب ڈالر کے آبپاشی کے منصوبے
.3 2 ارب ڈالر کی چترال اور ڈی آئی خان کے درمیان موٹر وے
گوادر پورٹ کمپلیکس
سی پیک معاہدے کے تحت گوادر پورٹ کو ابتدائی طور پر اپ گریڈ کیا گیا تاکہ بڑے جہازوں کو آنے کی اجازت دی جا سکے۔بہتری کے منصوبوں میں بندرگاہ کے ارد گرد 130 ملین ڈالر کے بریک واٹر مائع قدرتی گیس کی سہولت کی تعمیر بھی شامل ہے جس میں روزانہ 500 ملین مکعب فٹ مائع قدرتی گیس کی گنجائش ہو گی اور اسے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے گوادر نوابشاہ سیگمنٹ سے منسلک کیا جائیگا۔
توسیع شدہ بندرگاہ گوادر میں 2282 ایکڑ پر مشتمل آزاد تجارتی علاقے کے قریب واقع ہے جسے چین کے خصوصی اقتصادی زونزکی طرز پرڈیزائن کیا گیا ہے۔ نومبر 2015 میں 43 سالہ لیز پر مختص جگہ چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے حوالے کی گئی۔ اس سائٹ میں مینوفیکچرنگ زون، لاجسٹک ہب، گودام اور ڈسپلے سینٹر شامل ہیں۔ زون میں واقع کاروبار کسٹم سمیت بہت سے صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوں گے۔خصوصی اقتصادی زون میں قائم کاروبار 23 سال تک وفاقی ایکسائز ٹیکسوں سے مستثنیٰ رہے گا۔
چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی سے وابستہ ٹھیکیداروں اور سب کنٹریکٹرز کو 20 سال کے لیے ایسے ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا جبکہ آلات، مواد، پلانٹ/مشینری، آلات اور لوازمات کی درآمد کے لیے 40 سالہ ٹیکس چھوٹ دی جائے گی جو گوادر پورٹ اور خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر کے لیے مخصوص ہیں۔ خصوصی اقتصادی زون تین مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔ گوادر میں نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کے لئے 230 ملین ڈالر مختص کیے گیے ہیں۔
گوادر شہر کو مزید ترقی 300 میگاواٹ کے کوئلے سے بجلی گھر، ڈیسالینائزیشن پلانٹ اور 300 بستروں پر مشتمل ایک نئے اسپتال کی تعمیر سے ملے گی جو تکمیل کے مراحل میں ہیں۔گوادر شہر کے منصوبوں میں ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر بھی شامل ہے جو گوادر پورٹ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے جوڑے گی۔ ان اضافی منصوبوں پر 800 ملین ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ایگزم بینک آف چائنا پاکستان کوبلاسود قرضوں کے ذریعے مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ گوادر میں پاک چائنا ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک تربیتی ادارہ بی قائم کر دیا گیا ہے۔ گوادر کی ترقی میںچینی حکومت کی گرانٹ کے تحت اسپتال کی تعمیر بھی شامل ہے۔ مجوزہ پروجیکٹ میں میڈیکل بلاکس،طبی آلات اور مشینری کی فراہمی سمیت نرسنگ اور پیرا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، میڈیکل کالج، سینٹرل لیبارٹری اور دیگر متعلقہ سہولیات شامل ہیں۔
پاکستان میں نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے منصوبوں کو بنیادی اہمیت حاصل۔ کارگو ٹرانسپورٹ کے لیے تین راہداریوں کی نشاندہی کی گئی ہے:
1۔سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر مشتمل مشرقی نیٹ ورک جہاں زیادہ تر صنعتیں واقع ہیں
2۔ مغربی نیٹ ورک،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کم ترقی یافتہ اور کم آبادی والے علاقوں کو اس سے منسلک کرے گا۔
3۔ مرکزی نیٹ ورک جو خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان سے گزرے گا
مشرقی نیٹ ورک
یہ بات دلچسپ ہے کہ چین اور پاکستان پہلے ہی شاہراہ قراقرم کے راستے تجارت کرتے ہیں۔ برہان میں موجودہ ایم ون موٹر وے، شاہ مقصود انٹرچینج پر این 35 کو سے مل جائے گی۔ وہاں سے اسلام آباد اور لاہور تک رسائی موجودہ ایم ون اور ایم ٹو موٹر ویز کے حصے کے طور پر پہلے ہی جاری ہے۔
شاہراہ قراقرم کے برہان اور رائے کوٹ کے درمیان 487 کلومیٹر طویل حصے کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ این 35 کے جنوبی سرے پر برہان اور حویلیاں کے درمیان 59 کلومیٹر لمبی، 4 لین ہائی وے کی تعمیر مکمل ہونے پر باضابطہ طور پر ای 35 ایکسپریس وے کہا جائے گا۔
حویلیاں کے شمال میں آگے 66 کلو میٹر سڑک کو ویلیان اور شنکیاری کے درمیان 4 لین کے دوہرے کیرج وے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ شنکیاری کے شمال میں سڑک کا پورا 354 کلومیٹر اور چلاس کے قریب رائے کوٹ میں ختم ہونے والا سڑک 2 لین کی شاہراہ کے طور پر تعمیر کی جائے گی۔ تھاکوٹ اور رائے کوٹ کے درمیان کے علاقے میں دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کی تعمیر بہت اہمیت رکھتی ہے۔
سی پیک کے مشرقی روڈ نیٹ ورک سے مراد سندھ اور صوبہ پنجاب میں واقع سڑک کے منصوبے ہیں۔ مشرقی جانب 1152 کلومیٹر طویل موٹر وے پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور کو جوڑ رہی ہے۔ اس پورے منصوبے پر تقریبا 6.6 ارب ڈالرکی لاگت آئی ہے۔ مشرقی موٹروے منصوبے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1۔ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان 136 کلومیٹر طویل سیکشن جسے M9 موٹروے بھی کہا جاتا ہے
2۔ حیدرآباد اور سکھر کے درمیان 345 کلومیٹر طویل سیکشن، سکھر کے درمیان 392 کلومیٹر طویل سیکشن
3۔ ملتان اور لاہور کے درمیان ایک 333 کلومیٹر کا سیکشن (عبدالحکیم قصبے کے راستے)
شاہرات کا مغربی نیٹ ورک
بلوچستان، خیبر پختونخوا اور مغربی پنجاب میں سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانے کے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ مستقبل میں سڑک کے کچھ حصوں کو 6 لین موٹروے میں اپ گریڈ کیا جائیگا۔ صوبہ بلوچستان میں 870 کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر نو کا منصوبہ ہیجس میں سے 620 کلومیٹر پہلے ہی دوبارہ تعمیر کی جا چکی ہیں۔ مغربی نیٹ ورک شمالی پنجاب کے برہان اور حسن ابدال کے قصبوں کے قریب M1 موٹروے پر برہما بہتر انٹر چینج سے شروع ہوگا۔ یہ 11 انٹرچینجز، 74 کلورٹس اور 3 بڑے پلوں پر مشتمل ہے۔
N50 نیشنل ہائی وے کو خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان ژوب کے درمیان بھی اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ کوئٹہ سے جنوب کی طرف N25 وسطی بلوچستان کے قصبے سوراب تک جائے گی۔ سوراب سے 470 کلومیٹر طویل راستہ 'جو N85 کے نام سے جانا جاتا ہے' وسطی بلوچستان کو تربت شہر کے قریب جنوب مغربی بلوچستان کے قصبے ہوشاب سے جوڑے گا۔ ہوشاب اور گوادر کے قصبے ایم 8 موٹر وے کے ایک نئے تعمیر شدہ 193 کلومیٹر طویل حصے سے منسلک ہیں۔
شاہرات کا مرکزی نیٹ ورک
فیصل آباد اور ملتان کے درمیان 184 کلو میٹر لمبی M-4 موٹر وے سی پیک منصوبوں کے دائرہ کار میں نہیں آتی لیکن اس کے باوجود سی پیک ٹرانسپورٹ پراجیکٹ کے لیے اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔ مانسہرہ شہر کے جنوب میں قراقرم ہائی وے کو اپ گریڈ کیا جائے گا جو سرکاری طور پر E-35 ایکسپریس وے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ E35 کو سی پیک فنڈز سے مالی اعانت نہیں دی جا رہی۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے برطانیہ سے 121.6 ملین ڈالر کی گرانٹ فراہم کی جائے گی۔
ریلوے کے منصوبے
کراچی اور پشاور کے درمیان مین لائن 1 کی دوبارہ تعمیر سب سے اہم منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ مین لائن 2 اور مین لائن 3 کی اپ گریڈیشن اور توسیع شامل ہے۔ سی پیک کے تحت 4693 میٹر بلند خنجراب پاس تک ریلوے لائن پہنچائی جائے گی۔ ابتدائی 250 نئے مسافر کوچز کی خریداری اور 21 ٹرین اسٹیشنوں کی تعمیر نو بھی منصوبے کے پہلے مرحلے کے ایک حصے کے طور پر کی گئی ہے۔ 180 کوچز اسلام آباد کے قریب پاکستان ریلوے کیریج فیکٹری میں بنائی جائیں گی جبکہ حکومت پاکستان بعد میں مزید 800 کوچز خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے، ان میں سے 595 کوچز پاکستان میں بنانے کا ارادہ ہے۔
ریلوے لائن کا معیار بہتر ہونے سے ترینوں کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی۔ توقع ہے کہ پاکستان ریلوے کی سالانہ آمدنی میں تقریبا 4 480 ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ مال برداری میں ریل کا حصہ 4 فیصد سے بڑہ کر 20 فیصد ہو جائے گا۔ حویلیاں شہر کے قریب ڈرائی پورٹ بھی تعمیر کی جائے گی۔ مزید یہ کہ ٹریک کی پوری لمبائی میں کمپیوٹرائزڈ سگنل سسٹم ہو گا، شہری علاقوں میں ٹریک کے ساتھ باڑ لگائی جائے گی تاکہ پیدل چلنے والوں اور گاڑیوں کو پٹریوں کی غیر ضروری کراسنگ سے روکا جا سکے۔
سی پیک پروجیکٹ صوبہ سندھ میں کوٹری اور شمالی پنجاب ؎میں اٹک کے درمیان 1254 کلومیٹر طویل مین لائن 2 (ML-2) پر بھی اسی طرح کی بڑی اپ گریڈیشن کی جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت گوادر کو جیکب آباد سے منسلک کر دیا جائے گا جو ML-2 اور ML-3 کے سنگم پر واقع ہے۔ مین لائن 3 (ML-3) کے تحت کوئٹہ کے قریب ۔ بوستان 560 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی تعمیر بھی سی پیک میں شامل ہوگی جس سے جنوبی افغانستان تک رسائی ممکن ہو جائے گی۔ اس کی تعمیر 2025 تک متوقع ہے۔
خنجراب ریلوے
طویل المدتی منصوبوں میں حویلیاں شہر سے 682 کلو میٹر طویل خنجراب ریلوے لائن کی تعمیر، چین کی سرحد پر خنجراب پاس اورسنکیانگ کے کاشغر میں چین کی لینکسین ریلوے کی توسیع بھی شامل ہیں۔ یہ ریلوے لائن تقریبا شاہراہ قراقرم کے متوازی ہو گی اور 2030 میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔لاہور میٹرو کی 1.6 بلین ڈالر کی اورنج لائن فعال ہو چکی ہے اور اسے سی پیک کے تحت تجارتی منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔
توانائی کے شعبے کے منصوبے
پاکستان کی موجودہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت 24830 میگاواٹ ہے۔توانائی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں میں تقریبا 33 ارب ڈالر کی سرمایہ کاریکی گئی ہے۔ مارچ 2018 میں پاکستان نے اعلان کیا کہ زیر تعمیر پاور پلانٹس کی تکمیل کے بعد پن بجلی کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔پاکستان 2030 تک قابل تجدید توانائی کے وسائل سے اپنی بجلی کی ضروریات کا 25 فیصد پیدا کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔
چین کی زونرجی کمپنی دنیا کے سب سے بڑے سولر پاور پلانٹ کی تعمیر مکمل کرے گی-بہاولپور شہر کے قریب 6500 ایکڑ پر مشتمل قائداعظم سولر پارک جس کی تخمینہ 1000 میگاواٹ ہے دسمبر 2016 میں مکمل ہو چکاہے۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ سنکیانگ سن اویسس نے مکمل کیا ہے، اور اس کی پیداواری صلاحیت 100 میگاواٹ ہے۔ بقیہ 900 میگاواٹ صلاحیت سی پیک کے تحت زونرجی کمپنی کے ذمہ ہے۔
جھمپیر ونڈ پاور پلانٹ، جسے ترک کمپنی زورلو انرجی نے بنایا تھا، نے پہلے ہی 56.4 میگاواٹ بجلی فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔ ایک اور ونڈ فارم داؤد ونڈ پاور پروجیکٹ 115 ملین ڈالر کی لاگت سے تقریبا مکمل ہے جس کی 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔
اس لے علاوہ ایس کے ہائیڈرو کنسورشیم 1.8 بلین ڈالر کی لاگت سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی کاغان میں 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کر رہا ہے۔ 720 میگاواٹ کا کروٹ ڈیم زیر تعمیر ہے۔ 1100 میگاواٹ کا کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ چین کی تھری گورجز کارپوریشن کی طرف سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔
کول پروجیکٹ
قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبوں کے باوجود سی پیک کے تحت نئی توانائی پیدا کرنے کی زیادہ تر صلاحیت کوئلے پر مبنی پلانٹس پر ہے۔ 5.8 بلین ڈالر مالیت کے کول پاور پراجیکٹس اسکے جلد تکمیل پانے والے منصوبوں میں شامل ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں حب کے قریب کول پاور پلانٹ کا منصوبہ تعمیر ہو گا جو 660 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ گوادر شہر میں 300 میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔
پنجاب میں ساہیوال کول پاور پروجیکٹ 3 جولائی 2017 سے مکمل طور پر کام کر رہا ہے جس کی گنجائش 1320 میگاواٹ ہے۔
پنڈ دادن خان میں کوئلے کی کان موجود ہے جہاں 300 میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
سندھ میںچین کی شنگھائی الیکٹرک کمپنی تھر کول فیلڈ میں ''تھر I'' پروجیکٹ کے حصے کے طور پر 660 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹس تعمیر کرے گی۔
چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن پاکستان کی اینگرو کارپوریشن کے ساتھ مل کر ''تھر ایل ایل پروجیکٹ'' کے حصے کے طور پر دو 330 میگاواٹ کے پاور پلانٹس تعمیر کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک کوئلے کی کان تیار کرے گی جو منصوبے کے پہلے مرحلے کے حصے کے طور پر سالانہ 3.8 ملین ٹن کوئلہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی ھامل ہو گی۔پورٹ قاسم کے قریب 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم پاور پروجیکٹ قطر اور چین کا مشترکہ منصوبہ ہوگا۔
مائع قدرتی گیس
مائع قدرتی گیس (ایل این جی) منصوبے بھی سی پیک میں شامل ہیں۔ چینی حکومت نے گوادر سے نواب شاہ تک 2.5 ارب ڈالر سے 711 کلو میٹر گیس پائپ لائن کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔پائپ لائن 2775 کلومیٹر طویل ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا حصہ بننے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ایران نے اپنی سرحد کے کنارے پائپ لائن کا 900 کلومیٹر طویل حصہ پہلے ہی مکمل کر لیا ہے۔
پائپ لائن کا قطر 42 انچ (1.1 میٹر) ہوگا، اور اس میں روزانہ 1 × 109 کیوبک فٹ (m32.8 × 107) مائع قدرتی گیس کی نقل و حمل کی گنجائش ہوگی۔
دیگر ایل این جی منصوبے اس وقت چینی امداد اور فنانسنگ کے ساتھ زیر تعمیر ہیں جو کہ سی پیک کے دائرہ کار کو بڑھا دیں گے۔ لیکن نہ تو اس کی مالی اعانت کی جائیگی اور نہ ہی سرکاری طور پر اسے سی پیک کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ 1223 میگاواٹ کا بلوکی پاور پلانٹ اس وقت قصور کے قریب زیر تعمیر ہے اور اسے چین کی ہاربن الیکٹرک کمپنی چین کے ایگزیم بینک کی مالی اعانت سے تعمیر کر رہی ہے۔ اکتوبر 2015 میں نے شیخوپورہ کے قریب 1180 میگاواٹ کے بھیخی پاور پلانٹ کی تعمیر کا بھی افتتاح کیاگیا جو کہ مشترکہ طور پر چین کی ہاربن الیکٹرک کمپنی اور امریکہ سے جنرل الیکٹرک کی طرف سے تعمیر کیا جانا ہے۔ توقع ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے موثر پاور پلانٹ ہوگا اور اندازا 60 لاکھ گھروں کے لیے بجلی فراہم کرے گا۔
سی پیک میں آبی وسائل، لائیو سٹاک اور زراعت کے دیگر شعبوں ؎ میں تعاون کی دفعات بھی شامل ہیں۔ منصوبے کے تحت زرعی معلومات کا پراجیکٹ، ذخیرہ اور زرعی آلات کی تقسیم،تعمیراتی منصوبے، زرعی میکانائزیشن، مشینری لیزنگ پراجیکٹ اور کھاد کی پیداوار کا منصوبہ 800000 ٹن کھاد اور 100000 ٹن بائیو آرگینک کھاد تیار کرنے کے لیے فریم ورک میں ریموٹ سینسنگ (جی ایس) اور جغرافیائی انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس)، فوڈ پروسیسنگ، کٹائی سے پہلے اور بعد میں ہینڈلنگ اور زرعی پیداوار کا ذخیرہ، جانوروں کی نئی نسلوں اور پودوں کی نئی اقسام کا انتخاب اور افزائش میں تعاون شامل ہیں۔ ماہی گیری اور آبی زراعت کے منصوبے اس کے علاوہ ہیں۔
فائبر آپٹک پروجیکٹ
مئی 2016 میں 44 ملین ڈالر 820 کلومیٹر طویل پاکستان چین فائبر آپٹک پروجیکٹ، کراس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل پر تعمیر شروع ہوئی جو گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے علاقے میں ٹیلی کمیونیکیشن اور آئی سی ٹی انڈسٹری کو بڑھا دے گی جبکہ پاکستان کو پانچواں راستہ فراہم کرے گی جس کے ذریعے ٹیلی کمیونیکیشن ٹریفک کو منتقل کیا جائے گااورجسے جلدگوادر تک بڑھایا جاسکے گا۔ مئی 2019 میں چین نے پاکستان میں ہواوے ٹیکنیکل سپورٹ سینٹر شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیرسٹریئل ملٹی میڈیا براڈ کاسٹ
سی پیک کے تحت ڈیجیٹل ٹیرسٹریئل ملٹی میڈیا براڈ کاسٹ کو استعمال میں لاتے ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے لیے مری میں ری بروڈ کاسٹ سٹیشن (RBS) تعمیر ہو گا۔ زیڈ ٹی ای کارپوریشن پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کو ڈیجیٹل زمینی ٹیلی ویژن ٹیکنالوجیز، عملے کی تربیت اور مواد کی تخلیق میں تعاون فراہم کرے گی۔
بلا سود قرضے
اگست 2015 میں چین کی حکومت نے اعلان کیا کہ گوادر میں 757 ملین ڈالر کے کئی منصوبوں کے لیے رعایتی قرضوں کو 0 فیصد سودی قرضوں میں تبدیل کیا جائے گا اور پاکستان کو ان قرضوں پر صرف اصل رقم ہی واپس کرنی ہے۔جن منصوبوں کو بلاسود قرضوں کے ذریعے مالی اعانت دی جا رہی ہے ان میں چند یہ ہیں:
٭ 140 ملین ڈالر کے ایسٹ بے ایکسپریس وے منصوبے کی تعمیر
٭ گوادر میں بریک واٹر کی تنصیب جس پر 130 ملین ڈالر لاگت آئے گی
٭ گوادر میں 360 ملین ڈالر کا کول پاور پلانٹ
٭ گوادر بندرگاہ میں برتھ کھودنے کے لیے 27 ملین ڈالر کا منصوبہ
٭ گوادر میں 100 ملین ڈالر کا 300 بستروں پر مشتمل ہسپتال
ستمبر 2015 میں چین کی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ 230 ملین ڈالر کا گوادر
انٹرنیشنل ایئر پورٹ منصوبہ اب قرضوں کے بجائے گرانٹ سے تعمیر کیا جائے گا جسے حکومت پاکستان کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
سی پیک پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم منصوبہ ہے۔ عالمی میڈیا سی پیک کی سرمایہ کاری کو خطے کے لیے ایک گیم چینجر اور جوہری تبدیلی لانے وال منصوبہ قرار دیے رہا ہے۔ چین اور پاکستان چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کو ایک علاقائی اقتصادی مرکز میں تبدیل کر دے۔ یہ تجارتی راہداری جنوبی اور مشرقی ایشیا کے درمیان موثر رابطے کا کام کرے گی اور اس کی بدولت گریٹر جنوبی ایشیا کا تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا جس میں چین، ایران، افغانستان اور میانمار تک کا پورا خطہ شامل ہے۔
مکمل فعال ہونے کے بعد راہداری سے چینی مال پر عائد ہونے والی ٹرانزٹ فیس سے کئی ارب ڈالر سالانہ آمدنی حاصل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق، ''چین پاکستان میں نہ صرف انتہائی ضروری انفراسٹرکچر بنانے کی پیشکش کر رہا ہے بلکہ پاکستان کو اپنے عظیم معاشی اور اسٹریٹجک عزائم میں کلیدی شراکت دار بھی بنا رہا ہے۔''
موڈیز انویسٹرز سروس نے اس منصوبے کو پاکستان کے لیے '' مثبت کریڈٹ '' قرار دیا ہے۔ 2015 میں ایجنسی نے تسلیم کیا کہ اس منصوبے کے زیادہ تر اہم فوائد صرف2017 تک نہیں آئیں گے لیکن کہا کہ اسے یقین ہے کہ اقتصادی راہداری کے کچھ فوائد اس سے پہلے ہی نمودارہونے لگیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا کہ ''سی پیک اقتصادی ایجنٹوں کو ایک متعین جغرافیہ کے ساتھ جوڑ دے گا''۔ اس کے علاوہ متعلقہ ٹرانسپورٹ سے پاکستان کو سالانہ 400-500 ملین ڈالر حاصل ہوں گے اور مالی سال 2025 تک پاکستانی برآمدات میں سالانہ 4.5 فیصد اضافہ ہوگا۔
آبنائے ملاکا چین کو یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک مختصر ترین سمندری رسائی فراہم کرتا ہے۔اس کی مشرق وسطیٰ کی توانائی کی درآمد کا تقریبا 80 فیصد آبنائے ملاکا سے بھی گزرتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے تیل درآمد کنندہ کے طور پرتوانائی کا مسئلہ چین کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے تیل کی درآمد کے لیے استعمال ہونے والے موجودہ سمندری راستوں پر امریکہ کی بحریہ گشت کرتی ہے۔
چین کو یہاں ریاستی یا غیر ریاستی ایجنٹوں کی جانب سے منفی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور کسی جنگ جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے نتیجے میں آبنائے ملاکا کے ذریعے توانائی کی درآمد روکی جا سکتی ہے۔
ایسی صورت میں چینی معیشت مفلوج ہو سکتی ہے۔ آبنائے ملاکا کے علاقے میں درپیش خطرات کے علاوہ چین کا انحصاران سمندری راستوں پر بھی ہے جو جنوبی چین کے سمندر سے گزرتے ہیں جیسے متنازعہ سپراٹلی جزائر اور پیراسل جزائر جو اس وقت چین، تائیوان، ویت نام کے درمیان کشیدگی کا باعث ہیں۔
سی پیک پروجیکٹ چینی توانائی کی درآمد کو ان متنازعہ علاقوں سے بچانے اور مغرب میں ایک متبادل مہیا کرے گا اور اس طرح امریکہ اور چین کے درمیان تصادم کے امکان کو کم کیا جا سکے گا۔ تاہم اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ گوادر سے چین تک پائپ لائن بہت مہنگی ہو گی اور دہشت گردی سمیت متعدد لاجسٹک مشکلات بھی در پیش آسکتی ہیں۔
بھارتی بحریہ نے حال ہی میں گریٹ نیکوبار جزیرے پر اپنے اڈے سے آبنائے ملاکا کے سمندری نگرانی میں اضافہ کیا ہے۔ بحیرہ انڈمان میں ہندوستانی سمندری نگرانی ممکنہ طور پر پاکستان کی گوادر بندرگاہ میں چینی دلچسپی کو بڑھا سکتی ہے - کیوکپیو بندرگاہ جو کہ اس وقت میانمار میں چینی حکومت آبنائے ملاکا کے ارد گرد ایک اور متبادل راستے کے طور پر تیار کر رہی ہے ممکنہ طور پر اسی طرح کے حالات کے لیے بنائی جا رہی ہے۔
سی پیک کی بدولت چین کوبحر ہند میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا بھر پور موقع ملے گا، جو بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان تیل کی نقل و حمل کا ایک اہم راستہ ہے۔ چین کو ایک اور فائدہ یہ ہے کہ وہ آبنائے ملاکا کو بائی پاس کر سکے گا۔ اب تک چین کا 60 فیصد درآمد شدہ تیل مشرق وسطیٰ سے آتا ہے اوراس میں سے 80 فیصد اس آبنائے کے ذریعے چین پہنچایا جاتا ہے۔
مغربی چین تک رسائی
سی پیک کی نیٹ ورکنگ سنکیانگ کے ساتھ رابطے کو بہتر بنائے گی اس طرح خطے میں عوامی اور نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔سی پیک چین پاکستان تعلقات میں مرکزی سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے اس کی مرکزی اہمیت اس کی چین کے 13 ویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے میں شمولیت سے ظاہر ہوتی ہے۔ سی پیک منصوبے چین کے مغربی ترقیاتی منصوبے کی تکمیل کریں گے جس میں نہ صرف سنکیانگ بلکہ تبت اور چنگھائی کے ملحقہ علاقے بھی شامل ہیں۔
بحیرہ ملاکا اور جنوبی چین کے بحری راستوں پر چینی انحصار کو کم کرنے کی اہمیت کے علاوہ سی پیک چین کو مشرق وسطیٰ سے توانائی کی درآمد کے لیے ایک متبادل اور مختصر راستہ فراہم کرے گا اس طرح جہاز رانی کے اخراجات اور ٹرانزٹ کے اوقات کو کم کیا جا سکے گا۔
چین کے لیے فی الحال دستیاب سمندری راستہ تقریبا 12000 کلومیٹر لمبا ہے جبکہ گوادر بندرگاہ سے صوبہ سنکیانگ کا فاصلہ تقریبا 3000 کلومیٹر ہے اور سنکیانگ سے چین کے مشرقی ساحل تک مزید 3500 کلومیٹر ہے۔ سی پیک کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ میں چینی درآمدات اور برآمدات کے لیے ترسیل کے اوقات اور فاصلے دونوں کم ہوں گے۔
افغانستان کے اندر تک پہنچ اور ٹرانزٹ معاہدے میں چار طرفہ ٹریفک
سی پیک کے اعلان سے قبل وسط ایشیائی جمہوریاوں کو چین کے راستے متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے مذاکرات ہوئے تھے۔ 2010 کے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے نے پاکستان کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی فراہم کی۔ تاہم معاہدہ مکمل طور پر نافذ نہیں ہوا۔ اپریل 2015 میں اُس وقت کے افغان صدر اشرف غنی نے بھارت کے دورے کے دوران کہا کہ ''ہم پاکستانی ٹرکوں کے لیے وسطی ایشیا تک مساوی ٹرانزٹ رسائی فراہم نہیں کریں گے جب تک کہ پاکستانی حکومت بھارت کو 2010 افغانستان -پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے حصے کے طور پر شامل نہ کرے۔
وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان نے اپنے انفراسٹرکچر نیٹ ورکس کو چین کے ذریعے سی پیک منصوبے سے جوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اگست 2015 میں قازقستان کے وزیر اعظم کریم ماسیموف نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے روڈ نیٹ ورک کو سی پیک منصوبے سے جوڑ نا چاہتا ہے۔
تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے نومبر 2015 کے دورہ پاکستان کے دوران اپنی حکومت کی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ٹریفک کے چوکور معاہدے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاکہ سی پیک کے تحت تاجکستان کو درآمدات اور برآمدات کے راستے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
چینی حکومت پہلے ہی کرغزستان کے شہر ارشکشتم کے راستے کاشغر کو اوش سے جوڑنے والی سڑک کو اپ گریڈ کرچکی ہے جبکہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت ارومچی، چین اور الماتی قازقستان کے درمیان ایک ریلوے لائن بھی مکمل ہوچکی ہے۔ مزید برآں، چینی حکومت نے تاشقند، ازبکستان سے کرغزستان کی طرف ریلوے ٹریک بچھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جس کے بعد چین اور پاکستان سے رابطے ہوں گے۔ مزید یہ کہ پامیر ہائی وے پہلے ہی تاجکستان کو کاشغر تک کلمہ پاس کے ذریعے رسائی فراہم کرتی ہے۔
سی پیک اور سیکورٹی کے مسائل
پاک بحریہ اور چینی بحریہ کے جہاز مشترکہ طور پر تجارتی راہداری کی حفاظت اور سلامتی کی حفاظت کریں گیجس کے لئے پاک بحریہ کی استعداد کار کو بڑھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ دسمبر 2016 سے پاک بحریہ نے ایک خصوصی ٹاسک فورس ''TF-88'' قائم کی ہے جو سمندری تجارتی راستوں کو محفوظ بنائے گی۔
سی پیک کے لیے سندھ حکومت 2000 جبکہ پنجاب حکومت 5000 پولیس افسران تعینات کرے گی جبکہ پاک فوج راستے کی حفاظت کے لیے 12 ہزار فوجی تعینات کرے گی۔ چین 4 جہازوں کو میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کو منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ علاقائی سلامتی کے لیے پاکستان نے خصوصی سیکورٹی ڈویژن تشکیل دیا ہے۔ راہداری پر چینی کارکنوں کی حفاظت کے لیے پاکستان 12000 سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگست 2015 تک 8000 پاکستانی سیکورٹی اہلکار پاکستان میں موجود 8100 سے زائد چینی ورکرز کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔
بھارت سی پیک مخالف ایجنڈے کی حمایت کر رہا ہے اوراس کے بہت سے شواہد ملے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد پاکستان میں تشدد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2013 میں دہشت گرد حملوں سے شہری ہلاکتیں 3001 تھیں جبکہ یہ تعداد 2016 میں کم ہو کر 612 رہ گئی جو 2005 کے بعد سب سے کم تعداد ہے۔
بھارتی اعتراضات
ہندوستان حکومت سی پیک منصوبے پر شدید اعتراض کرتی ہے جیسا کہ شاہراہ قراقرم کو اپ گریڈ کرنے کا کام گلگت بلتستان میں ہو رہا ہے اس علاقہ پر بھارت اپنا ناجائزدعویٰ کرتا ہے۔ 2015 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے چین کے دورے کے دوران، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے مبینہ طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ژی جن پنگ سے کہا کہ گلگت بلتستان سے گزرنے والے منصوبے ''ناقابل قبول'' ہیں۔
سوراج نے اگست 2016 میں بھی چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ایک ملاقات کے دوران اس موقف کو دہرایا، اور کہا کہ بھارت کشمیر میں راہداری کی پرزور مخالفت کرے گا۔
باوجود ان بے بنیاد اعتراضات و تحفظات کے اس بات میں یقینا کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے محفوظ و تابندہ مستقبل کی ضامن ہے۔ لیکن اس بات کو بھی نظر انداز کرنا بھی مشکل ہے کہ سی پیک کو بہت سارے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔
پاکستان دشمن اندرونی و بیرونی قوتیں یہ کبھی نہیں چاہتیں کہ ترقی و استحقام کا یہ منصوبہ پروان چڑھے اور پاکستان میں پائیدار امن وخوشحالی آئے۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ قدرت نے پاکستان کوایسی جغرافیائی پوزیشن سے نوازاہے جو اسے اقوام عالم میں منفرد بناتی ہے اور دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اس کے تعاون کی مرہون منت ہیں۔
خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال خصوصاً امریکہ کی افغانستان سے ہتک آمیز پسپائی اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد اس بات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی،مذہبی لسانی اور علاقائی جماعتیں متحد ہوں۔ آپس کے اختلافات و رنجشوں کو بھلا کر ملکی سالمیت و بقا پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کی کامیاب تکمیل کے لیے میدان عمل میں اُتریں جس میں خطے کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔
سی پیک پر تنقید
سی پیک کو مغربی میڈیا میں بہت سے نقاد ایک نو سامراجی مشق کے طور پر دیکھتے ہیں حالانکہ برطانیہ اور دوسری اہم مغربی طاقتیں ماضی میں نو آبادیاتی نظام کی بانی تصور کی جاتی ہیں۔ ملک کے اندر بھی ایسے عناسر موجود ہیں جو بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس منصوبے کے خلاف دلائل دیتے پائے جاتے ہیں۔
سی پیک کے راستے سے منسلک منصوبہ بندی کے کچھ پہلوؤں اور تکنیکی تفصیلات کو سیاسی فورمزاور میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا کی سابقہ صوبائی اسمبلی نے مجوزہ منصوبے کے ملٹی بلین روٹ کو صوبہ خیبر پختونخوا سے ہٹانے پر سابقہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی۔
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے مطابق، راستے کا تنازعہ بے بنیاد ہے۔ سی پیک پر اعتراضات کے نتیجے میں چینی حکومت نے 2015 میں ایک بیان جاری کیا تھا جس میں پاکستانی سیاسی جماعتوں پر زور دیا گیا کہ وہ اس منصوبے پر اپنے اختلافات کو دور کریں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے چینی برآمدات مقامی پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہوچکی ہیں اور پاکستان میں نسبتا زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے سستی ہیں جس سے تجارتی عدم توازن پیدا ہو گا۔
کچھ بلوچ قوم پرست رہنما سی پیک کے تحت بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت کرتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ صوبے کے قدرتی وسائل پر مقامی لوگوں کا کنٹرول جاتا رہے گا۔ کچھ نے الزام لگایا ہے کہ سی پیک ایک ''سازش'' ہے جس کا مقصد پاکستان کے دیگر علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو آباد کرنا ہے تاکہ صوبے میں بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ صوبے کے عوام کی غالب اکثریت سی پیک کو ملک اور صوبے کی ترقی کا ذریعہ قرار دیتی ہے۔ مقامی لوگ ابھی سے اس سے آنے والی مثبت تبدیلیوں کو محسوس کر رہے ہیں۔
کچھ مقامی لوگ منفی پراپیگنڈہ کے زیر اثر یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں گھروں سے بے دخل کردیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ مقامی لوگ فوائد سے محروم نہیں ہوں گے، اور انہیں ہی ہر سہولت کا پہلا حق حاصل ہوگا۔
مزید یہ کہ گوادر کے باشندوں کو شہر کے ماسٹر پلان میں اہم سٹیک ہولڈرز کے طور پر شمار کیا جائے گا، اور یہ کہ ماہی گیروں کو بھی خاص طور پر اس منصوبے میں شامل کیا جائے گا۔ گوادر پورٹ کے ڈویلپر، COPHC نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ گوادر کے ماہی گیروں کو مقامی سمندری غذا کے معیار کو بہتر بنانے کے پروگرام تیار کرکے خطے کی سمندری خوراک کی صنعت کو فروغ دینے میں مدد کرے گا۔
یہ شمال مغربی چین سنکیانگ کے علاقے کاشغر شہر سے پاکستان میں داخل ہو کر گوادر کے ذریعے بحیرہ عرب سے مل جاتا ہے جہاں سے چینی مصنوعات کو مشرق وسطیٰ افریقہ اور آگے یورپی ممالک تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس میں 1300 کلومیٹر قراقرم ہائی وے کو اپ گریڈ کرنا بھی شامل ہے۔
چینی سرحد سے بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی راہداری کے منصوبوں کی ابتداء 1950 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ 1959 میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا۔ بعد میں مزید منصوبے اس سڑک سے جڑتے چلے گئے۔ 2002 ء میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر شروع ہوئی 2006میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کی وجہ سے گوادر بندرگاہ کی توسیع کا کام عارضی طور پر بند ہوگیا۔
2013 میں پاکستان اور چین نے باہمی رابطے کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے طویل مدتی منصوبے کے لیے مفاہمت نامے پر دستخط کیے گئے۔ اپریل 2015 میں چینی صدر شی جن پنگ نے پاکستان کے دورے کے دوران ایک اداریہ میں لکھا: ''یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے ہی بھائی کے گھر جا رہا ہوں''۔ 20 اپریل 2015 ء کو پاکستان اور چین کے درمیان 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہوئے جو پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی کا تقریبا 20 فیصد تھا۔
12 اگست 2015 ء کو دونوں ملکوں کے درمیان سی پیک کے دائرہ کار کو مزید بڑھانے کے لیے 1.6 ارب ڈالر مالیت کے مزید 20 معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں بنیادی طور پر توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ ایک معاہدے کے تحت پاکستان اور چین نے خلائی تحقیق کے شعبے میں بھی تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔
ستمبر اور اکتوبر 2015 میں برطانیہ کی حکومت نے حکومت پاکستان کو روڈزکی تعمیر کے لیے دو الگ الگ گرانٹ دینے کا اعلان کیا جو سی پیک کے لیے اہم ہیں۔ نومبر 2015ء میں چین نے سی پیک کو اپنے 13 ویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے میں شامل کیا جبکہ دسمبر 2015ء میں چین اور پاکستان نے اس منصوبے کے تحت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی پارک کے قیام کے لیے مزید 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق کیا۔ 8 اپریل 2016چین اور پاکستان نے 2 ارب ڈالر کے اضافی معاہدوں پر دستخط کیے جن میں بنیادی ڈھانچے، شمسی توانائی اور لاجسٹکس کے پروگرامز شامل تھے۔
چین سے پہلا قافلہ 13 نومبر 2016 کو گوادر پہنچا جس کے ذریعے سی پیک کے آپریشن کو باضابطہ بنایا گیا۔ 2 دسمبر 2016ء کو چین اور پاکستان کے درمیان براہ راست ریل روٹ اور سمندری مال برداری سروس کا آغاز کرنے والی پہلی کارگو ٹرین یونان سے روانہ ہوئی۔ 500 ٹن اجناس سے بھری ایک کارگو ٹرین کنمنگ سے گوانگ ژو روانہ ہوئی جہاں سے بذریعہ کارگو جہاز مال کراچی پہنچایا گیا جس سے نیا روٹ کھل گیا۔اس نئی ریل، سمندری مال برداری سے ٹرانسپورٹ سمیت لاجسٹک کی لاگت میں 50 فیصد کمی ہوئی۔
نومبر 2016 ء میں چین نے پاکستان میں اضافی 8.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جس میں پاکستان کی مرکزی ریلوے لائن کو کراچی سے پشاور تک اپ گریڈ کرنے کے لیے 4.5 ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے جن میں ٹریک، رفتار اور سگنلنگ شامل ہیں اور توانائی کی قلت کو کم کرنے میں مدد کے لیے ایل این جی ٹرمینل اور ٹرانسمیشن لائنوں کے لیے 4 ارب ڈالر مختص کیے گئے۔
مارچ 2017 میں درج ذیل منصوبوں کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے:
.1 1.5 بلین ڈالر کی آئل ریفائنری
.2 2 ارب ڈالر کے آبپاشی کے منصوبے
.3 2 ارب ڈالر کی چترال اور ڈی آئی خان کے درمیان موٹر وے
- 7 بلین ڈالر کے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس
گوادر پورٹ کمپلیکس
سی پیک معاہدے کے تحت گوادر پورٹ کو ابتدائی طور پر اپ گریڈ کیا گیا تاکہ بڑے جہازوں کو آنے کی اجازت دی جا سکے۔بہتری کے منصوبوں میں بندرگاہ کے ارد گرد 130 ملین ڈالر کے بریک واٹر مائع قدرتی گیس کی سہولت کی تعمیر بھی شامل ہے جس میں روزانہ 500 ملین مکعب فٹ مائع قدرتی گیس کی گنجائش ہو گی اور اسے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے گوادر نوابشاہ سیگمنٹ سے منسلک کیا جائیگا۔
توسیع شدہ بندرگاہ گوادر میں 2282 ایکڑ پر مشتمل آزاد تجارتی علاقے کے قریب واقع ہے جسے چین کے خصوصی اقتصادی زونزکی طرز پرڈیزائن کیا گیا ہے۔ نومبر 2015 میں 43 سالہ لیز پر مختص جگہ چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے حوالے کی گئی۔ اس سائٹ میں مینوفیکچرنگ زون، لاجسٹک ہب، گودام اور ڈسپلے سینٹر شامل ہیں۔ زون میں واقع کاروبار کسٹم سمیت بہت سے صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوں گے۔خصوصی اقتصادی زون میں قائم کاروبار 23 سال تک وفاقی ایکسائز ٹیکسوں سے مستثنیٰ رہے گا۔
چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی سے وابستہ ٹھیکیداروں اور سب کنٹریکٹرز کو 20 سال کے لیے ایسے ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا جبکہ آلات، مواد، پلانٹ/مشینری، آلات اور لوازمات کی درآمد کے لیے 40 سالہ ٹیکس چھوٹ دی جائے گی جو گوادر پورٹ اور خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر کے لیے مخصوص ہیں۔ خصوصی اقتصادی زون تین مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔ گوادر میں نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کے لئے 230 ملین ڈالر مختص کیے گیے ہیں۔
گوادر شہر کو مزید ترقی 300 میگاواٹ کے کوئلے سے بجلی گھر، ڈیسالینائزیشن پلانٹ اور 300 بستروں پر مشتمل ایک نئے اسپتال کی تعمیر سے ملے گی جو تکمیل کے مراحل میں ہیں۔گوادر شہر کے منصوبوں میں ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر بھی شامل ہے جو گوادر پورٹ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے جوڑے گی۔ ان اضافی منصوبوں پر 800 ملین ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ایگزم بینک آف چائنا پاکستان کوبلاسود قرضوں کے ذریعے مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ گوادر میں پاک چائنا ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک تربیتی ادارہ بی قائم کر دیا گیا ہے۔ گوادر کی ترقی میںچینی حکومت کی گرانٹ کے تحت اسپتال کی تعمیر بھی شامل ہے۔ مجوزہ پروجیکٹ میں میڈیکل بلاکس،طبی آلات اور مشینری کی فراہمی سمیت نرسنگ اور پیرا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، میڈیکل کالج، سینٹرل لیبارٹری اور دیگر متعلقہ سہولیات شامل ہیں۔
پاکستان میں نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے منصوبوں کو بنیادی اہمیت حاصل۔ کارگو ٹرانسپورٹ کے لیے تین راہداریوں کی نشاندہی کی گئی ہے:
1۔سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر مشتمل مشرقی نیٹ ورک جہاں زیادہ تر صنعتیں واقع ہیں
2۔ مغربی نیٹ ورک،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کم ترقی یافتہ اور کم آبادی والے علاقوں کو اس سے منسلک کرے گا۔
3۔ مرکزی نیٹ ورک جو خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان سے گزرے گا
مشرقی نیٹ ورک
یہ بات دلچسپ ہے کہ چین اور پاکستان پہلے ہی شاہراہ قراقرم کے راستے تجارت کرتے ہیں۔ برہان میں موجودہ ایم ون موٹر وے، شاہ مقصود انٹرچینج پر این 35 کو سے مل جائے گی۔ وہاں سے اسلام آباد اور لاہور تک رسائی موجودہ ایم ون اور ایم ٹو موٹر ویز کے حصے کے طور پر پہلے ہی جاری ہے۔
شاہراہ قراقرم کے برہان اور رائے کوٹ کے درمیان 487 کلومیٹر طویل حصے کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ این 35 کے جنوبی سرے پر برہان اور حویلیاں کے درمیان 59 کلومیٹر لمبی، 4 لین ہائی وے کی تعمیر مکمل ہونے پر باضابطہ طور پر ای 35 ایکسپریس وے کہا جائے گا۔
حویلیاں کے شمال میں آگے 66 کلو میٹر سڑک کو ویلیان اور شنکیاری کے درمیان 4 لین کے دوہرے کیرج وے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ شنکیاری کے شمال میں سڑک کا پورا 354 کلومیٹر اور چلاس کے قریب رائے کوٹ میں ختم ہونے والا سڑک 2 لین کی شاہراہ کے طور پر تعمیر کی جائے گی۔ تھاکوٹ اور رائے کوٹ کے درمیان کے علاقے میں دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کی تعمیر بہت اہمیت رکھتی ہے۔
سی پیک کے مشرقی روڈ نیٹ ورک سے مراد سندھ اور صوبہ پنجاب میں واقع سڑک کے منصوبے ہیں۔ مشرقی جانب 1152 کلومیٹر طویل موٹر وے پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور کو جوڑ رہی ہے۔ اس پورے منصوبے پر تقریبا 6.6 ارب ڈالرکی لاگت آئی ہے۔ مشرقی موٹروے منصوبے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1۔ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان 136 کلومیٹر طویل سیکشن جسے M9 موٹروے بھی کہا جاتا ہے
2۔ حیدرآباد اور سکھر کے درمیان 345 کلومیٹر طویل سیکشن، سکھر کے درمیان 392 کلومیٹر طویل سیکشن
3۔ ملتان اور لاہور کے درمیان ایک 333 کلومیٹر کا سیکشن (عبدالحکیم قصبے کے راستے)
شاہرات کا مغربی نیٹ ورک
بلوچستان، خیبر پختونخوا اور مغربی پنجاب میں سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانے کے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ مستقبل میں سڑک کے کچھ حصوں کو 6 لین موٹروے میں اپ گریڈ کیا جائیگا۔ صوبہ بلوچستان میں 870 کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر نو کا منصوبہ ہیجس میں سے 620 کلومیٹر پہلے ہی دوبارہ تعمیر کی جا چکی ہیں۔ مغربی نیٹ ورک شمالی پنجاب کے برہان اور حسن ابدال کے قصبوں کے قریب M1 موٹروے پر برہما بہتر انٹر چینج سے شروع ہوگا۔ یہ 11 انٹرچینجز، 74 کلورٹس اور 3 بڑے پلوں پر مشتمل ہے۔
N50 نیشنل ہائی وے کو خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان ژوب کے درمیان بھی اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ کوئٹہ سے جنوب کی طرف N25 وسطی بلوچستان کے قصبے سوراب تک جائے گی۔ سوراب سے 470 کلومیٹر طویل راستہ 'جو N85 کے نام سے جانا جاتا ہے' وسطی بلوچستان کو تربت شہر کے قریب جنوب مغربی بلوچستان کے قصبے ہوشاب سے جوڑے گا۔ ہوشاب اور گوادر کے قصبے ایم 8 موٹر وے کے ایک نئے تعمیر شدہ 193 کلومیٹر طویل حصے سے منسلک ہیں۔
شاہرات کا مرکزی نیٹ ورک
فیصل آباد اور ملتان کے درمیان 184 کلو میٹر لمبی M-4 موٹر وے سی پیک منصوبوں کے دائرہ کار میں نہیں آتی لیکن اس کے باوجود سی پیک ٹرانسپورٹ پراجیکٹ کے لیے اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔ مانسہرہ شہر کے جنوب میں قراقرم ہائی وے کو اپ گریڈ کیا جائے گا جو سرکاری طور پر E-35 ایکسپریس وے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ E35 کو سی پیک فنڈز سے مالی اعانت نہیں دی جا رہی۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے برطانیہ سے 121.6 ملین ڈالر کی گرانٹ فراہم کی جائے گی۔
ریلوے کے منصوبے
کراچی اور پشاور کے درمیان مین لائن 1 کی دوبارہ تعمیر سب سے اہم منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ مین لائن 2 اور مین لائن 3 کی اپ گریڈیشن اور توسیع شامل ہے۔ سی پیک کے تحت 4693 میٹر بلند خنجراب پاس تک ریلوے لائن پہنچائی جائے گی۔ ابتدائی 250 نئے مسافر کوچز کی خریداری اور 21 ٹرین اسٹیشنوں کی تعمیر نو بھی منصوبے کے پہلے مرحلے کے ایک حصے کے طور پر کی گئی ہے۔ 180 کوچز اسلام آباد کے قریب پاکستان ریلوے کیریج فیکٹری میں بنائی جائیں گی جبکہ حکومت پاکستان بعد میں مزید 800 کوچز خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے، ان میں سے 595 کوچز پاکستان میں بنانے کا ارادہ ہے۔
ریلوے لائن کا معیار بہتر ہونے سے ترینوں کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی۔ توقع ہے کہ پاکستان ریلوے کی سالانہ آمدنی میں تقریبا 4 480 ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ مال برداری میں ریل کا حصہ 4 فیصد سے بڑہ کر 20 فیصد ہو جائے گا۔ حویلیاں شہر کے قریب ڈرائی پورٹ بھی تعمیر کی جائے گی۔ مزید یہ کہ ٹریک کی پوری لمبائی میں کمپیوٹرائزڈ سگنل سسٹم ہو گا، شہری علاقوں میں ٹریک کے ساتھ باڑ لگائی جائے گی تاکہ پیدل چلنے والوں اور گاڑیوں کو پٹریوں کی غیر ضروری کراسنگ سے روکا جا سکے۔
سی پیک پروجیکٹ صوبہ سندھ میں کوٹری اور شمالی پنجاب ؎میں اٹک کے درمیان 1254 کلومیٹر طویل مین لائن 2 (ML-2) پر بھی اسی طرح کی بڑی اپ گریڈیشن کی جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت گوادر کو جیکب آباد سے منسلک کر دیا جائے گا جو ML-2 اور ML-3 کے سنگم پر واقع ہے۔ مین لائن 3 (ML-3) کے تحت کوئٹہ کے قریب ۔ بوستان 560 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی تعمیر بھی سی پیک میں شامل ہوگی جس سے جنوبی افغانستان تک رسائی ممکن ہو جائے گی۔ اس کی تعمیر 2025 تک متوقع ہے۔
خنجراب ریلوے
طویل المدتی منصوبوں میں حویلیاں شہر سے 682 کلو میٹر طویل خنجراب ریلوے لائن کی تعمیر، چین کی سرحد پر خنجراب پاس اورسنکیانگ کے کاشغر میں چین کی لینکسین ریلوے کی توسیع بھی شامل ہیں۔ یہ ریلوے لائن تقریبا شاہراہ قراقرم کے متوازی ہو گی اور 2030 میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔لاہور میٹرو کی 1.6 بلین ڈالر کی اورنج لائن فعال ہو چکی ہے اور اسے سی پیک کے تحت تجارتی منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔
توانائی کے شعبے کے منصوبے
پاکستان کی موجودہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت 24830 میگاواٹ ہے۔توانائی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں میں تقریبا 33 ارب ڈالر کی سرمایہ کاریکی گئی ہے۔ مارچ 2018 میں پاکستان نے اعلان کیا کہ زیر تعمیر پاور پلانٹس کی تکمیل کے بعد پن بجلی کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔پاکستان 2030 تک قابل تجدید توانائی کے وسائل سے اپنی بجلی کی ضروریات کا 25 فیصد پیدا کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔
چین کی زونرجی کمپنی دنیا کے سب سے بڑے سولر پاور پلانٹ کی تعمیر مکمل کرے گی-بہاولپور شہر کے قریب 6500 ایکڑ پر مشتمل قائداعظم سولر پارک جس کی تخمینہ 1000 میگاواٹ ہے دسمبر 2016 میں مکمل ہو چکاہے۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ سنکیانگ سن اویسس نے مکمل کیا ہے، اور اس کی پیداواری صلاحیت 100 میگاواٹ ہے۔ بقیہ 900 میگاواٹ صلاحیت سی پیک کے تحت زونرجی کمپنی کے ذمہ ہے۔
جھمپیر ونڈ پاور پلانٹ، جسے ترک کمپنی زورلو انرجی نے بنایا تھا، نے پہلے ہی 56.4 میگاواٹ بجلی فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔ ایک اور ونڈ فارم داؤد ونڈ پاور پروجیکٹ 115 ملین ڈالر کی لاگت سے تقریبا مکمل ہے جس کی 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔
اس لے علاوہ ایس کے ہائیڈرو کنسورشیم 1.8 بلین ڈالر کی لاگت سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی کاغان میں 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کر رہا ہے۔ 720 میگاواٹ کا کروٹ ڈیم زیر تعمیر ہے۔ 1100 میگاواٹ کا کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ چین کی تھری گورجز کارپوریشن کی طرف سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔
کول پروجیکٹ
قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبوں کے باوجود سی پیک کے تحت نئی توانائی پیدا کرنے کی زیادہ تر صلاحیت کوئلے پر مبنی پلانٹس پر ہے۔ 5.8 بلین ڈالر مالیت کے کول پاور پراجیکٹس اسکے جلد تکمیل پانے والے منصوبوں میں شامل ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں حب کے قریب کول پاور پلانٹ کا منصوبہ تعمیر ہو گا جو 660 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ گوادر شہر میں 300 میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔
پنجاب میں ساہیوال کول پاور پروجیکٹ 3 جولائی 2017 سے مکمل طور پر کام کر رہا ہے جس کی گنجائش 1320 میگاواٹ ہے۔
پنڈ دادن خان میں کوئلے کی کان موجود ہے جہاں 300 میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
سندھ میںچین کی شنگھائی الیکٹرک کمپنی تھر کول فیلڈ میں ''تھر I'' پروجیکٹ کے حصے کے طور پر 660 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹس تعمیر کرے گی۔
چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن پاکستان کی اینگرو کارپوریشن کے ساتھ مل کر ''تھر ایل ایل پروجیکٹ'' کے حصے کے طور پر دو 330 میگاواٹ کے پاور پلانٹس تعمیر کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک کوئلے کی کان تیار کرے گی جو منصوبے کے پہلے مرحلے کے حصے کے طور پر سالانہ 3.8 ملین ٹن کوئلہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی ھامل ہو گی۔پورٹ قاسم کے قریب 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم پاور پروجیکٹ قطر اور چین کا مشترکہ منصوبہ ہوگا۔
مائع قدرتی گیس
مائع قدرتی گیس (ایل این جی) منصوبے بھی سی پیک میں شامل ہیں۔ چینی حکومت نے گوادر سے نواب شاہ تک 2.5 ارب ڈالر سے 711 کلو میٹر گیس پائپ لائن کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔پائپ لائن 2775 کلومیٹر طویل ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا حصہ بننے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ایران نے اپنی سرحد کے کنارے پائپ لائن کا 900 کلومیٹر طویل حصہ پہلے ہی مکمل کر لیا ہے۔
پائپ لائن کا قطر 42 انچ (1.1 میٹر) ہوگا، اور اس میں روزانہ 1 × 109 کیوبک فٹ (m32.8 × 107) مائع قدرتی گیس کی نقل و حمل کی گنجائش ہوگی۔
دیگر ایل این جی منصوبے اس وقت چینی امداد اور فنانسنگ کے ساتھ زیر تعمیر ہیں جو کہ سی پیک کے دائرہ کار کو بڑھا دیں گے۔ لیکن نہ تو اس کی مالی اعانت کی جائیگی اور نہ ہی سرکاری طور پر اسے سی پیک کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ 1223 میگاواٹ کا بلوکی پاور پلانٹ اس وقت قصور کے قریب زیر تعمیر ہے اور اسے چین کی ہاربن الیکٹرک کمپنی چین کے ایگزیم بینک کی مالی اعانت سے تعمیر کر رہی ہے۔ اکتوبر 2015 میں نے شیخوپورہ کے قریب 1180 میگاواٹ کے بھیخی پاور پلانٹ کی تعمیر کا بھی افتتاح کیاگیا جو کہ مشترکہ طور پر چین کی ہاربن الیکٹرک کمپنی اور امریکہ سے جنرل الیکٹرک کی طرف سے تعمیر کیا جانا ہے۔ توقع ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے موثر پاور پلانٹ ہوگا اور اندازا 60 لاکھ گھروں کے لیے بجلی فراہم کرے گا۔
سی پیک میں آبی وسائل، لائیو سٹاک اور زراعت کے دیگر شعبوں ؎ میں تعاون کی دفعات بھی شامل ہیں۔ منصوبے کے تحت زرعی معلومات کا پراجیکٹ، ذخیرہ اور زرعی آلات کی تقسیم،تعمیراتی منصوبے، زرعی میکانائزیشن، مشینری لیزنگ پراجیکٹ اور کھاد کی پیداوار کا منصوبہ 800000 ٹن کھاد اور 100000 ٹن بائیو آرگینک کھاد تیار کرنے کے لیے فریم ورک میں ریموٹ سینسنگ (جی ایس) اور جغرافیائی انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس)، فوڈ پروسیسنگ، کٹائی سے پہلے اور بعد میں ہینڈلنگ اور زرعی پیداوار کا ذخیرہ، جانوروں کی نئی نسلوں اور پودوں کی نئی اقسام کا انتخاب اور افزائش میں تعاون شامل ہیں۔ ماہی گیری اور آبی زراعت کے منصوبے اس کے علاوہ ہیں۔
فائبر آپٹک پروجیکٹ
مئی 2016 میں 44 ملین ڈالر 820 کلومیٹر طویل پاکستان چین فائبر آپٹک پروجیکٹ، کراس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل پر تعمیر شروع ہوئی جو گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے علاقے میں ٹیلی کمیونیکیشن اور آئی سی ٹی انڈسٹری کو بڑھا دے گی جبکہ پاکستان کو پانچواں راستہ فراہم کرے گی جس کے ذریعے ٹیلی کمیونیکیشن ٹریفک کو منتقل کیا جائے گااورجسے جلدگوادر تک بڑھایا جاسکے گا۔ مئی 2019 میں چین نے پاکستان میں ہواوے ٹیکنیکل سپورٹ سینٹر شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیرسٹریئل ملٹی میڈیا براڈ کاسٹ
سی پیک کے تحت ڈیجیٹل ٹیرسٹریئل ملٹی میڈیا براڈ کاسٹ کو استعمال میں لاتے ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے لیے مری میں ری بروڈ کاسٹ سٹیشن (RBS) تعمیر ہو گا۔ زیڈ ٹی ای کارپوریشن پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کو ڈیجیٹل زمینی ٹیلی ویژن ٹیکنالوجیز، عملے کی تربیت اور مواد کی تخلیق میں تعاون فراہم کرے گی۔
بلا سود قرضے
اگست 2015 میں چین کی حکومت نے اعلان کیا کہ گوادر میں 757 ملین ڈالر کے کئی منصوبوں کے لیے رعایتی قرضوں کو 0 فیصد سودی قرضوں میں تبدیل کیا جائے گا اور پاکستان کو ان قرضوں پر صرف اصل رقم ہی واپس کرنی ہے۔جن منصوبوں کو بلاسود قرضوں کے ذریعے مالی اعانت دی جا رہی ہے ان میں چند یہ ہیں:
٭ 140 ملین ڈالر کے ایسٹ بے ایکسپریس وے منصوبے کی تعمیر
٭ گوادر میں بریک واٹر کی تنصیب جس پر 130 ملین ڈالر لاگت آئے گی
٭ گوادر میں 360 ملین ڈالر کا کول پاور پلانٹ
٭ گوادر بندرگاہ میں برتھ کھودنے کے لیے 27 ملین ڈالر کا منصوبہ
٭ گوادر میں 100 ملین ڈالر کا 300 بستروں پر مشتمل ہسپتال
ستمبر 2015 میں چین کی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ 230 ملین ڈالر کا گوادر
انٹرنیشنل ایئر پورٹ منصوبہ اب قرضوں کے بجائے گرانٹ سے تعمیر کیا جائے گا جسے حکومت پاکستان کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
سی پیک پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم منصوبہ ہے۔ عالمی میڈیا سی پیک کی سرمایہ کاری کو خطے کے لیے ایک گیم چینجر اور جوہری تبدیلی لانے وال منصوبہ قرار دیے رہا ہے۔ چین اور پاکستان چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کو ایک علاقائی اقتصادی مرکز میں تبدیل کر دے۔ یہ تجارتی راہداری جنوبی اور مشرقی ایشیا کے درمیان موثر رابطے کا کام کرے گی اور اس کی بدولت گریٹر جنوبی ایشیا کا تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا جس میں چین، ایران، افغانستان اور میانمار تک کا پورا خطہ شامل ہے۔
مکمل فعال ہونے کے بعد راہداری سے چینی مال پر عائد ہونے والی ٹرانزٹ فیس سے کئی ارب ڈالر سالانہ آمدنی حاصل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق، ''چین پاکستان میں نہ صرف انتہائی ضروری انفراسٹرکچر بنانے کی پیشکش کر رہا ہے بلکہ پاکستان کو اپنے عظیم معاشی اور اسٹریٹجک عزائم میں کلیدی شراکت دار بھی بنا رہا ہے۔''
موڈیز انویسٹرز سروس نے اس منصوبے کو پاکستان کے لیے '' مثبت کریڈٹ '' قرار دیا ہے۔ 2015 میں ایجنسی نے تسلیم کیا کہ اس منصوبے کے زیادہ تر اہم فوائد صرف2017 تک نہیں آئیں گے لیکن کہا کہ اسے یقین ہے کہ اقتصادی راہداری کے کچھ فوائد اس سے پہلے ہی نمودارہونے لگیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا کہ ''سی پیک اقتصادی ایجنٹوں کو ایک متعین جغرافیہ کے ساتھ جوڑ دے گا''۔ اس کے علاوہ متعلقہ ٹرانسپورٹ سے پاکستان کو سالانہ 400-500 ملین ڈالر حاصل ہوں گے اور مالی سال 2025 تک پاکستانی برآمدات میں سالانہ 4.5 فیصد اضافہ ہوگا۔
آبنائے ملاکا چین کو یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک مختصر ترین سمندری رسائی فراہم کرتا ہے۔اس کی مشرق وسطیٰ کی توانائی کی درآمد کا تقریبا 80 فیصد آبنائے ملاکا سے بھی گزرتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے تیل درآمد کنندہ کے طور پرتوانائی کا مسئلہ چین کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے تیل کی درآمد کے لیے استعمال ہونے والے موجودہ سمندری راستوں پر امریکہ کی بحریہ گشت کرتی ہے۔
چین کو یہاں ریاستی یا غیر ریاستی ایجنٹوں کی جانب سے منفی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور کسی جنگ جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے نتیجے میں آبنائے ملاکا کے ذریعے توانائی کی درآمد روکی جا سکتی ہے۔
ایسی صورت میں چینی معیشت مفلوج ہو سکتی ہے۔ آبنائے ملاکا کے علاقے میں درپیش خطرات کے علاوہ چین کا انحصاران سمندری راستوں پر بھی ہے جو جنوبی چین کے سمندر سے گزرتے ہیں جیسے متنازعہ سپراٹلی جزائر اور پیراسل جزائر جو اس وقت چین، تائیوان، ویت نام کے درمیان کشیدگی کا باعث ہیں۔
سی پیک پروجیکٹ چینی توانائی کی درآمد کو ان متنازعہ علاقوں سے بچانے اور مغرب میں ایک متبادل مہیا کرے گا اور اس طرح امریکہ اور چین کے درمیان تصادم کے امکان کو کم کیا جا سکے گا۔ تاہم اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ گوادر سے چین تک پائپ لائن بہت مہنگی ہو گی اور دہشت گردی سمیت متعدد لاجسٹک مشکلات بھی در پیش آسکتی ہیں۔
بھارتی بحریہ نے حال ہی میں گریٹ نیکوبار جزیرے پر اپنے اڈے سے آبنائے ملاکا کے سمندری نگرانی میں اضافہ کیا ہے۔ بحیرہ انڈمان میں ہندوستانی سمندری نگرانی ممکنہ طور پر پاکستان کی گوادر بندرگاہ میں چینی دلچسپی کو بڑھا سکتی ہے - کیوکپیو بندرگاہ جو کہ اس وقت میانمار میں چینی حکومت آبنائے ملاکا کے ارد گرد ایک اور متبادل راستے کے طور پر تیار کر رہی ہے ممکنہ طور پر اسی طرح کے حالات کے لیے بنائی جا رہی ہے۔
سی پیک کی بدولت چین کوبحر ہند میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا بھر پور موقع ملے گا، جو بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان تیل کی نقل و حمل کا ایک اہم راستہ ہے۔ چین کو ایک اور فائدہ یہ ہے کہ وہ آبنائے ملاکا کو بائی پاس کر سکے گا۔ اب تک چین کا 60 فیصد درآمد شدہ تیل مشرق وسطیٰ سے آتا ہے اوراس میں سے 80 فیصد اس آبنائے کے ذریعے چین پہنچایا جاتا ہے۔
مغربی چین تک رسائی
سی پیک کی نیٹ ورکنگ سنکیانگ کے ساتھ رابطے کو بہتر بنائے گی اس طرح خطے میں عوامی اور نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔سی پیک چین پاکستان تعلقات میں مرکزی سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے اس کی مرکزی اہمیت اس کی چین کے 13 ویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے میں شمولیت سے ظاہر ہوتی ہے۔ سی پیک منصوبے چین کے مغربی ترقیاتی منصوبے کی تکمیل کریں گے جس میں نہ صرف سنکیانگ بلکہ تبت اور چنگھائی کے ملحقہ علاقے بھی شامل ہیں۔
بحیرہ ملاکا اور جنوبی چین کے بحری راستوں پر چینی انحصار کو کم کرنے کی اہمیت کے علاوہ سی پیک چین کو مشرق وسطیٰ سے توانائی کی درآمد کے لیے ایک متبادل اور مختصر راستہ فراہم کرے گا اس طرح جہاز رانی کے اخراجات اور ٹرانزٹ کے اوقات کو کم کیا جا سکے گا۔
چین کے لیے فی الحال دستیاب سمندری راستہ تقریبا 12000 کلومیٹر لمبا ہے جبکہ گوادر بندرگاہ سے صوبہ سنکیانگ کا فاصلہ تقریبا 3000 کلومیٹر ہے اور سنکیانگ سے چین کے مشرقی ساحل تک مزید 3500 کلومیٹر ہے۔ سی پیک کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ میں چینی درآمدات اور برآمدات کے لیے ترسیل کے اوقات اور فاصلے دونوں کم ہوں گے۔
افغانستان کے اندر تک پہنچ اور ٹرانزٹ معاہدے میں چار طرفہ ٹریفک
سی پیک کے اعلان سے قبل وسط ایشیائی جمہوریاوں کو چین کے راستے متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے مذاکرات ہوئے تھے۔ 2010 کے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے نے پاکستان کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی فراہم کی۔ تاہم معاہدہ مکمل طور پر نافذ نہیں ہوا۔ اپریل 2015 میں اُس وقت کے افغان صدر اشرف غنی نے بھارت کے دورے کے دوران کہا کہ ''ہم پاکستانی ٹرکوں کے لیے وسطی ایشیا تک مساوی ٹرانزٹ رسائی فراہم نہیں کریں گے جب تک کہ پاکستانی حکومت بھارت کو 2010 افغانستان -پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے حصے کے طور پر شامل نہ کرے۔
وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان نے اپنے انفراسٹرکچر نیٹ ورکس کو چین کے ذریعے سی پیک منصوبے سے جوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اگست 2015 میں قازقستان کے وزیر اعظم کریم ماسیموف نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے روڈ نیٹ ورک کو سی پیک منصوبے سے جوڑ نا چاہتا ہے۔
تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے نومبر 2015 کے دورہ پاکستان کے دوران اپنی حکومت کی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ٹریفک کے چوکور معاہدے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاکہ سی پیک کے تحت تاجکستان کو درآمدات اور برآمدات کے راستے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
چینی حکومت پہلے ہی کرغزستان کے شہر ارشکشتم کے راستے کاشغر کو اوش سے جوڑنے والی سڑک کو اپ گریڈ کرچکی ہے جبکہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت ارومچی، چین اور الماتی قازقستان کے درمیان ایک ریلوے لائن بھی مکمل ہوچکی ہے۔ مزید برآں، چینی حکومت نے تاشقند، ازبکستان سے کرغزستان کی طرف ریلوے ٹریک بچھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جس کے بعد چین اور پاکستان سے رابطے ہوں گے۔ مزید یہ کہ پامیر ہائی وے پہلے ہی تاجکستان کو کاشغر تک کلمہ پاس کے ذریعے رسائی فراہم کرتی ہے۔
سی پیک اور سیکورٹی کے مسائل
پاک بحریہ اور چینی بحریہ کے جہاز مشترکہ طور پر تجارتی راہداری کی حفاظت اور سلامتی کی حفاظت کریں گیجس کے لئے پاک بحریہ کی استعداد کار کو بڑھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ دسمبر 2016 سے پاک بحریہ نے ایک خصوصی ٹاسک فورس ''TF-88'' قائم کی ہے جو سمندری تجارتی راستوں کو محفوظ بنائے گی۔
سی پیک کے لیے سندھ حکومت 2000 جبکہ پنجاب حکومت 5000 پولیس افسران تعینات کرے گی جبکہ پاک فوج راستے کی حفاظت کے لیے 12 ہزار فوجی تعینات کرے گی۔ چین 4 جہازوں کو میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کو منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ علاقائی سلامتی کے لیے پاکستان نے خصوصی سیکورٹی ڈویژن تشکیل دیا ہے۔ راہداری پر چینی کارکنوں کی حفاظت کے لیے پاکستان 12000 سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگست 2015 تک 8000 پاکستانی سیکورٹی اہلکار پاکستان میں موجود 8100 سے زائد چینی ورکرز کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔
بھارت سی پیک مخالف ایجنڈے کی حمایت کر رہا ہے اوراس کے بہت سے شواہد ملے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد پاکستان میں تشدد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2013 میں دہشت گرد حملوں سے شہری ہلاکتیں 3001 تھیں جبکہ یہ تعداد 2016 میں کم ہو کر 612 رہ گئی جو 2005 کے بعد سب سے کم تعداد ہے۔
بھارتی اعتراضات
ہندوستان حکومت سی پیک منصوبے پر شدید اعتراض کرتی ہے جیسا کہ شاہراہ قراقرم کو اپ گریڈ کرنے کا کام گلگت بلتستان میں ہو رہا ہے اس علاقہ پر بھارت اپنا ناجائزدعویٰ کرتا ہے۔ 2015 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے چین کے دورے کے دوران، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے مبینہ طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ژی جن پنگ سے کہا کہ گلگت بلتستان سے گزرنے والے منصوبے ''ناقابل قبول'' ہیں۔
سوراج نے اگست 2016 میں بھی چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ایک ملاقات کے دوران اس موقف کو دہرایا، اور کہا کہ بھارت کشمیر میں راہداری کی پرزور مخالفت کرے گا۔
باوجود ان بے بنیاد اعتراضات و تحفظات کے اس بات میں یقینا کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے محفوظ و تابندہ مستقبل کی ضامن ہے۔ لیکن اس بات کو بھی نظر انداز کرنا بھی مشکل ہے کہ سی پیک کو بہت سارے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔
پاکستان دشمن اندرونی و بیرونی قوتیں یہ کبھی نہیں چاہتیں کہ ترقی و استحقام کا یہ منصوبہ پروان چڑھے اور پاکستان میں پائیدار امن وخوشحالی آئے۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ قدرت نے پاکستان کوایسی جغرافیائی پوزیشن سے نوازاہے جو اسے اقوام عالم میں منفرد بناتی ہے اور دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اس کے تعاون کی مرہون منت ہیں۔
خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال خصوصاً امریکہ کی افغانستان سے ہتک آمیز پسپائی اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد اس بات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی،مذہبی لسانی اور علاقائی جماعتیں متحد ہوں۔ آپس کے اختلافات و رنجشوں کو بھلا کر ملکی سالمیت و بقا پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کی کامیاب تکمیل کے لیے میدان عمل میں اُتریں جس میں خطے کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔
سی پیک پر تنقید
سی پیک کو مغربی میڈیا میں بہت سے نقاد ایک نو سامراجی مشق کے طور پر دیکھتے ہیں حالانکہ برطانیہ اور دوسری اہم مغربی طاقتیں ماضی میں نو آبادیاتی نظام کی بانی تصور کی جاتی ہیں۔ ملک کے اندر بھی ایسے عناسر موجود ہیں جو بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس منصوبے کے خلاف دلائل دیتے پائے جاتے ہیں۔
سی پیک کے راستے سے منسلک منصوبہ بندی کے کچھ پہلوؤں اور تکنیکی تفصیلات کو سیاسی فورمزاور میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا کی سابقہ صوبائی اسمبلی نے مجوزہ منصوبے کے ملٹی بلین روٹ کو صوبہ خیبر پختونخوا سے ہٹانے پر سابقہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی۔
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے مطابق، راستے کا تنازعہ بے بنیاد ہے۔ سی پیک پر اعتراضات کے نتیجے میں چینی حکومت نے 2015 میں ایک بیان جاری کیا تھا جس میں پاکستانی سیاسی جماعتوں پر زور دیا گیا کہ وہ اس منصوبے پر اپنے اختلافات کو دور کریں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے چینی برآمدات مقامی پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہوچکی ہیں اور پاکستان میں نسبتا زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے سستی ہیں جس سے تجارتی عدم توازن پیدا ہو گا۔
کچھ بلوچ قوم پرست رہنما سی پیک کے تحت بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت کرتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ صوبے کے قدرتی وسائل پر مقامی لوگوں کا کنٹرول جاتا رہے گا۔ کچھ نے الزام لگایا ہے کہ سی پیک ایک ''سازش'' ہے جس کا مقصد پاکستان کے دیگر علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو آباد کرنا ہے تاکہ صوبے میں بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ صوبے کے عوام کی غالب اکثریت سی پیک کو ملک اور صوبے کی ترقی کا ذریعہ قرار دیتی ہے۔ مقامی لوگ ابھی سے اس سے آنے والی مثبت تبدیلیوں کو محسوس کر رہے ہیں۔
کچھ مقامی لوگ منفی پراپیگنڈہ کے زیر اثر یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں گھروں سے بے دخل کردیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ مقامی لوگ فوائد سے محروم نہیں ہوں گے، اور انہیں ہی ہر سہولت کا پہلا حق حاصل ہوگا۔
مزید یہ کہ گوادر کے باشندوں کو شہر کے ماسٹر پلان میں اہم سٹیک ہولڈرز کے طور پر شمار کیا جائے گا، اور یہ کہ ماہی گیروں کو بھی خاص طور پر اس منصوبے میں شامل کیا جائے گا۔ گوادر پورٹ کے ڈویلپر، COPHC نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ گوادر کے ماہی گیروں کو مقامی سمندری غذا کے معیار کو بہتر بنانے کے پروگرام تیار کرکے خطے کی سمندری خوراک کی صنعت کو فروغ دینے میں مدد کرے گا۔