ذکر لالو کے کھیت کا
لالوکھیت کا سرکاری نام مدتوں پہلے تبدیل کرکے، اولین وزیراعظم محترم لیاقت علی خان سے معنون کیا گیا۔
زباں فہمی نمبر117
؎جعفری صاحب کی لالوکھیت میں جُبلی (جُوبلی) ہوئی
جس میں وہ تولے گئے، وہ دال تھی اُبلی ہوئی
اردوزبان وادب (معیاری و عوامی) میں کراچی کے جس مقام کا سب سے زیادہ ذکر ہوا، وہ ہے لالوکھیت۔ اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو عرض کروں کہ شاید پاکستان کے کسی شہر کی کسی بستی کے متعلق بھی اتنا کچھ کہا اور لکھا نہ گیا ہو جتنا اس منفرد نگری کی بابت اہل زباں اور اہل قلم نے سعی فرمائی ہوگی۔
(یہ اور بات کہ ابھی تک اس علاقے کی کوئی مبسوط، جامع اور مکمل منثور /منظوم تاریخ نہیں لکھی گئی)۔ لالوکھیت سے متعلق، نامور طنزومزاح گو شاعر سید محمد جعفری کے اس شعر سے زیادہ مشہور اور چست شعر بھی شاید کوئی اور نہیں۔ سبطِ حسن نے 'شوخی تحریر' کے فلیپ پر لکھا تھا کہ ''اردو شاعری نے اکبرؔ الہ آبادی کے بعد اتنا صاحب ِنظر مزاح نگار پیدانہیں کیا۔'' ہمارے بزرگ معاصراور انتہائی مشفق کرم فرما ڈاکٹر انورسدید (مرحوم) نے موصوف کے متعلق لکھا کہ''اُن کا مزاح، سیاست کی بے اعتدالیوں اور معاشرتی ناہمواریوں کی مجموعی صورت سے جنم لیتا ہے'' (اردو اَدب کی مختصر تاریخ، اشاعت اوّل، فروری ۱۹۹۱ء ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ص ۵۹۵)۔ لالوکھیت کی ڈرامائی ادب میں شمولیت کی بات کریں تو اسٹیج یا تھئیٹر کاناقابل فراموش شاہکار 'لال قَلعے سے لالوکھیت 'اوّلیت کا حامل ہے، جسے خواجہ معین الدین جیسے مَشّاق ادیب نے لکھا اور یوں لکھا کہ گویا اَمَر کردیا۔کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب نے یہ ڈراما بابائے اردو کی فرمائش پر ۱۹۵۲ء میں تحریر کیا تھا۔
زیرِتحریر کالم کے لیے مواد کی تلاش وجستجو میں فیس بک پر موجود یہ دل چسپ تحریر بھی ہاتھ لگی جو شاید ماقبل واٹس ایپ پر نظر سے گزری تھی۔ ''لالو کھیت سے لیاقت آباد تک '' کے عنوان سے محترم مظفر الحق نے یوں اظہارِخیال فرمایا ہے:''جب بھی پاکستان کے کامیاب ترین اسٹیج ڈراموں کی تاریخ لکھی جائے گی تو بے سروسامانی کے دورِ تخلیق اور پیشکش کے باوجود بے مثال مقبولیت اور بے پناہ کامیابی حاصل کرنے والے کھیلوں میں خواجہ معین الدین کے ڈرامے'تعلیم بالغان'، 'مرزا غالب بندر روڈ پر' اور' لال قلعے سے لالوکھیت' سرفہرست لکھے جائیں گے۔ لالوکھیت (جو اب لیاقت آباد سے موسوم ہے، اب بھی ذہنوں میں لالوکھیت ہی کے نام سے رچابسا ہے) ایسی بستی ہے جو سماجی، سیاسی اور ادبی لحاظ سے کراچی میں منفرد اور اہم رہی ہے۔
ابراہیم جلیس نے اس پہ اپنا مشہور کالم ''ہم بھی لالوکھیت میں اور تم بھی لالوکھیت میں'' لکھا تو کہا کہ کراچی میں فی مربع گز شاعر و ادیب سب سے زیادہ لالوکھیت میں رہتے ہیں۔ مزاحیہ اداکار عمرشریف نے'' لال قلعے کی رانی اور لالوکھیت کا راجہ'' نامی ڈرامہ تخلیق کیا، اور ویسے بھی ان کے اکثر ڈراموں اور مکالموں میں کہیں نہ کہیں کودتا پھاندتا، پتھراؤ کرتا لالوکھیت گھس ہی آتا ہے، کیوں کہ اُن کی پرداخت بھی اسی علاقے میں ہوئی ہے''۔ خواجہ معین الدین کے مشہورڈرامے کے ایک مدت کے بعد عمرشریف نے یہ ڈراما 'لال قلعے کی رانی، لالوکھیت کا راجا' لکھ کر گویا اپنے علاقے کی نسبت کو مزید نمایاں کرنے کی کوشش کی تھی، بہرحال اسے عوامی مزاج کا کھیل کہا جاسکتا ہے، ادبی نہیں۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اَب اردو میں تحقیق کے (یعنی PhDکی سطح پر) موضوعات کا فقدان ہے یا کوئی نیا موضوع نہیں سوجھتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایسا کہنے اور سمجھنے والے کی اپنی علمیت اور زباں دانی مشکوک ہے۔ دور کیوں جائیں 'لالوکھیت اور اردو ادب' کے موضوع پر کسی نے پی ایچ ڈی کُجا ، ایم اے کا مقالہ بھی لکھا ہے؟ ......ہمارے ایک معاصر محقق حافظ صفوان نے اپنی ایک تحریر بعنوان ''کارپس (Corpus) کا ایک ادبی پہلو''، فیس بک کے قارئین کی نذر کی۔
اس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں، شاید کسی کے تحقیقی مزاج کو یہ جہت بھی سُوجھے:''جنابِ مشفق خواجہ نے ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری کے بارے میں لکھا ہے کہ انھیں اگر لالوکھیت کے ادبی رجحانات پہ مضمون لکھنا ہو تب بھی وہ ہبوطِ آدم سے تمہید اٹھائیں گے''۔ یہ دونوں بزرگ تو اَب ہم میں نہیں، مگر ایسا نہیں کہ تحقیق کا میدان خالی ہی ہوگیا ہے۔
ہماری عوامی/چالو بولی ٹھولی [Slang]میں 'لالوکھیت' کی ترکیب کئی طرح سے مستعمل ہے، ایک محاورہ تو ہمارے یہاں بہت عام بولا جاتا ہے جو غالباً کسی معیاری لغت میں اَب تک شامل نہیں: ''پیٹ ہے یا لالوکھیت''۔ اس کا محل یہ ہے کہ جب کوئی شخص سرِمحفل کھائے چلا جارہا ہو اور کسی طرح کا لحاظ یا احتیاط گوارا نہ کرے تب ایسا کہہ کر اُسے شرم دلائی جاتی ہے، لالوکھیت کی وسعت سے پیٹ کو تشبیہ دیتے ہوئے۔ علاوہ اَزاِیں، ایک مخصوص طرح کی بولی ٹھولی اور اس قسم کے لوگوں کو ''لالوکھیتی'' کہنا عام ہے۔
حیرت ہے کہ اولین اردو Slangلغت کے مرتب ڈاکٹر رَؤ ف پاریکھ صاحب کو (بے شمار دیگر الفاظ، تراکیب ، استعارات و اصطلاحات کے علاوہ) یہ بات معلوم نہ ہوسکی۔ (خاکسار اس اصطلاح کی وضاحت قصداً نہیں کررہا کیونکہ بقول میرانیسؔ ....ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو)۔ البتہ لالوکھیت میں مقیم، مختلف پیشوں سے منسلک افراد کی مخصوص اور خفیہ بولی ( جسے انگریزی اصطلاح میں Slang کی بجائے Jargonکہنا درست ہے )، نجی طور پر جانی جاسکتی ہے۔ یہ بھی مذکورہ لغت میں موجود نہیں۔ خاکسار کچھ مثالیں پیش کرتا ہے:
۱۔بے مَت (سوناروں کی بولی): کاروبار نہ کرنے کا دن، جب نِیارا اٹھانے والے ادھر کا رُخ کرتے ہیں۔
۲۔نِیارا(سوناروں کی بولی): سونے کی کٹائی، چھِلائی کے عمل میں اُچھل کراِدھر اُدھر جاپڑنے والی باقیات ۔
۳۔ پاؤنی: محلے کے لڑکے بالوں کا کسی لڑکی کی آمد کا دور سے پتا دیتے ہوئے، اشارتاً ذکر کرنا ، جیسے پاؤنی آرہی ہے۔
۴۔کَسُو کائی (دکان داروں خصوصاً پرچون فروش حضرات کی بولی): ایسا گاہک جو دام پوچھنے میں وقت ضایع کرے اور خریداری میں سنجیدہ نہ ہو۔
۵۔موتی چُور داؤں (اکھاڑے کی بولی)
۶۔کلنجن (اکھاڑے کی بولی)
}بشکریہ ڈاکٹر آفتاب مضطرؔ ، بحوالہ نجی گفتگو از راقم بَر موبائل فون ، مؤرخہ ۲۵جون ۲۰۲۰ء بوقت شب آٹھ بج کر سولہ منٹ تا آٹھ بج کر ترپن منٹ۔ اس کے علاوہ بزاز یعنی کپڑے کے تاجر بھی گاہک کی موجودگی میں اُسے بے وقوف بنانے یا حسبِ منشاء سودا کرنے کے لیے ایسی خفیہ بولی بولتے ہیں کہ مقابل شکل دیکھتا رہ جائے اور اُس کا ''کام ''ہوجائے (یعنی نقصان ہوجائے)۔ یہ اصطلاحات بھی موصوف نے مختلف مواقع پر بتائی تھیں، مگر افسوس محفوظ نہ کرسکا۔ اس فہرست میں اس قدر اضافہ ممکن ہے کہ پوری لغت تیار ہوجائے، مگر شرط یہ ہے کہ پہل کوئی ایسا شخص ہی کرے جو لالوکھیت میں عمربسر کرچکا ہو ، پھر اِس میں اضافے کے لیے دیگر علاقوں کی بولی ٹھولی بھی شامل کی جاسکتی ہے۔
خاکسار نے اس ضمن میں اپنے اسی بزرگ معاصر سے گزارش کی تھی کہ آپ لالوکھیت کے شب وروز اور وہاں کی زندگی کا احوال جلد قلم بند کریں، کیونکہ شاید اَب اس علاقے کے باسی، آپ جیسے فاضل اہل قلم خال خال ہی رہ گئے ہوں گے۔ بات کی بات ہے کہ وہ ایک مدت پہلے پیر الہٰی بخش کالونی میں واقع اپنے نئے مکان میں منتقل ہوچکے تھے۔ محترم مظفر الحق صاحب کا قول اُن پر بھی صادق آتا ہے: ''کہتے ہیں جب مولانا کوثر نیازی نے جماعت اسلامی چھوڑی تو کسی نے کہا تھا، کوئی جماعت سے نکل بھی جائے، پھر بھی جماعت اس کے اندر سے نہیں نکلتی۔ اسی طرح کوئی لالوکھیت سے نکل کر کہیں بھی گیا لالوکھیت اس کے اندر سے نہیں نکلا'' (''لالو کھیت سے لیاقت آباد تک'')۔
موضوع کی افادیت کے پیش نظر، ڈاکٹر آفتاب مضطرؔصاحب کی کتاب 'سورج کے اُس پار' (مجموعہ ہائیکو، مطبوعہ ۱۹۹۷ء)سے نقل کررہا ہوں :''ہمارے علاقے لیاقت آباد میں بھی کئی ایک ہستیاں آباد تھیں اور ہیں کہ جنھوں نے ادبی فضاء کو قائم رکھا یعنی بَہارکوٹی، امیدؔ فاضلی، بے چین بھَرَت پوری، قصری ؔ کان پوری، جاذبؔ قریشی ، اخترؔسکندروی اور عبیداللہ علیمؔ جیسی دیگر شخصیات نے لیاقت آباد اور شہر کی شعری اور ادبی فضاء کو قائم وتوانا رکھا۔ علاوہ بہارؔ کوٹی، خاکسار کو اِن لوگوں کی محفلوں میں بیٹھنے اور مُبتَدی کی حیثیت سے شعر سننے اور آداب ِ محفل سیکھنے کا عملی سبق ملا۔ ان تمام مشاہیر میں ایک ہستی انتہائی قابل ِذکر اور باعث صداحترام رہی اور وہ ہیں استاذی محترم حضرت فِداؔ خالدی دہلوی کہ جو بیخودؔ دہلوی کے جانشین اور داغؔ اسکول و دبستان ِ دہلی کے سلسلے کے آخری نشان ہیں۔ فِداؔ صاحب کی قربت اور اُن کی تربیت نے عروض سے دل چسپی اور فن سے وابستگی میں اہم کردار ادا کیا''۔
ہم متعدد مآخذ سے محض چند دیگر مشاہیر ِلیاقت آباد المعروف لالوکھیت کی فہرست مرتب کریں تو ایسے ایسے گوہر نظر آتے ہیں: مہدی حسن (گلوکار)، معین اختر (اداکار)، شہنازصدیقی (اسٹیج ڈراما پروموٹر)، اولمپئین انواراحمد خان، اصلاح الدین، عارف بھوپالی، سید شاہدعلی (ہاکی کے مشہورکھلاڑی)، صابری برادران و اَمجدصابری، یاورعلی و وَاجدعلی مٹکے والے، چھوٹے صالح محمد (نامور قوال)، علامہ عبدالحامد بدایونی، مفتی سید شجاعت علی قادری و علامہ سعادت علی قادری (نامور علماء)، حافظ بشیر احمدغازی آبادی (کالم نگار و سیاسی شخصیت)، سید علی کوثر، غازی نبی پردیسی، حافظ محمدتقی (سماجی وسیاسی شخصیات)، سید ارشادعلی (سیاسی کارکن)،
صبیحہ شاہدعلی (سیاسی کارکن)، پروفیسر نثار، ماسٹرتاج الدین، مکین مکان نمبر ایک (سنگ بنیاد بدست قائد ملت)، قاری زاہر قاسمی (عالم)، عامل لیاقت منجم، محمد علی سچے (نوحہ خواں)، حکیم مرسلین، حکیم اویس عباسی (اطباء)، ڈاکٹر اَمیراحمد (معالج، سماجی وسیاسی شخصیت)، علی مختاررضوی، اسلام حسین، قیصر خان، سید ضامن علی، عظیم احمد طارق، عامر خان، محفوظ یار خان (سیاسی رہنما)، اعجاز الحق قدوسی، حکیم محموداحمد عباسی (محقق،مؤرخ)، سید آصف علی (نعت خواں و گلوکار)، استاد قمر جلالوی، محمد نیاز، کرّار نوری، انوار عزم، نازش حیدری، عارف سنبھلی، نقاش کاظمی، عشرت انجم، اشرف شاد (شعرائے کرام)، سرور سنبھلی (ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر، اَدب دوست)، خورشید حسن خان(مسٹر پاکستان) اورپیر جی اَچھن ودیگر بے شمار۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ ضروری نہیں، ہر مشہور یا ہرمقبول شاعر، تمام اصولوں کی بنیاد پر، عظیم یا بڑا کہلائے، خاکسار یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ غالباً اپنے عہد کا انتہائی مقبول شاعر، استاد قمر جلالوی تھا۔ اُن کے تلامذہ میں شکیل بدایونی، اعجاز رحمانی، فناؔ بلندشہری، پُرنَم الہ آبادی، ڈاکٹر یاورعباس یاورؔ، ایاز بجنوری، سرورؔ کان پوری، حافظ بریلوی، توقیر جے پوری، عطاء اللہ نجارؔ اور ہندوستانی شعراء میں شبیر جیلانی، سری کرشن پرشاد بہارؔ، سری راج بہادر اَوجؔ، سری راج نرائن ، کرن سنگھ کرنؔ ، محمد غوث غوثی، اثرؔ علی گڑھی اور حدفؔ جلالی شامل تھے۔ (اردو کے اُمّی شعراء، تحقیق وتحریر شاہ عزیز الکلام، طبع دوم، ۲۰۰۱ء، کراچی)۔
لالوکھیت C-Iایریا میں مقیم اردو کے سِرّی (جاسوسی) ادب کا عظیم خالق ابن صفی کسی تعارف کا محتاج نہیں، گو اُنھوں نے بعد میں ناظم آباد میں قیام کیا اور وہیں اس فانی دنیا کو خیرباد کہا۔ بقول شاہد منصور صاحب (ابن صفی کے دیرینہ دوست، 1953 ء تا1980 )، یہ وہ دور تھا جب (موجودہ) فیڈرل کیپٹل ایریا سے نیوکراچی تک جنگل تھا اور لوگ وہاں شکار کو جایا کرتے تھے۔ ابن صفی سے اولین ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ابن صفی صاحب اپنے دوستوں تیغ ؔالہ آبادی (بعد میں مصطفی زیدی) اور احمد علی سید کے ہمراہ ادریس ہوٹل پر بیٹھا کرتے تھے۔
ان دنوں لیاقت آباد میں کتوں کی بھرمار تھی جن سے بچنا بھی گویا ایک فن کہلاتا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے، میں نے اپنے ایک دوست سے ایک سیاہ ڈنڈا مستعار لیا اور بغل میں دبائے بے نیاز گھومنے لگا۔ ایک روز حسب معمول ادریس ہوٹل میں ابن صفی، تیغ الہ آبادی اور احمد علی سید، ''میرا جی'' پر گفتگو کر رہے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور اپنے اسی ہیبتناک ڈنڈے کے ہمراہ ان تینوں کی میز پر جا دھمکا اور میرا جی سے متعلق تازہ معلومات سمیت ان پر برس پڑا۔ تینوں خاموشی سے سنتے رہے اور پھر بنا کچھ کہے اپنی میز سے اٹھ کر چلے گئے۔
اگلے روز تینوں میں سے کوئی بھی ہوٹل میں موجود نہ تھا۔ تیسرے روز ابن صفی اکیلے اپنی میز پر بیٹھے دکھائی دیے اور یوں اس دن کی ملاقات میں یہ دلچسپ حقیقت معلوم ہوئی کہ وہ تینوں مجھے CID والا سمجھ بیٹھے تھے کہ ان دنوں، ان کے پاس بھی اسی قماش کا ڈنڈا ہوا کرتا تھا۔ پھر جب غلط فہمی دور ہوئی تو ۲۷ سالہ دوستی کا آغاز ہوگیا۔ {''ابن صفی مرحوم کے خاص دوست جناب شاہدمنصور سے راشداشرف کی ملاقات''، نئے افق ڈائجسٹ میں شاہد منصور کے قلم سے 'باتیں اور یادیں'، مرسلہ انجینئر راشد اشرف و محترم احمد صفی فرزند ِ ابن صفی، بصدشکریہ)۔
لالو کھیت کی تاریخ کا انوکھا اور دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ بھارتی سرکاری ریڈیو ، آکاش وانی نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں لالوکھیت کے (فرضی) ہوائی اڈے پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
لالوکھیت کا سرکاری نام مدتوں پہلے تبدیل کرکے، اولین وزیراعظم محترم لیاقت علی خان سے معنون کیا گیا۔ ایک دیرینہ سماجی کارکن محترم نسیم سحر اکبرآبادی نے نجی گفتگو اور اخباری مراسلوں میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ نام انھی نے تجویز کیا تھا۔ ہمیں ابھی تک اس بیان کی تصدیق میں کہیں اور سے کوئی بیان دیکھنے سننے کو نہیں ملا، لہٰذا اسے تسلیم کرنے میں بظاہر کوئی حرج یا ہرج نہیں۔ لیاقت آباد بننے سے پہلے یہ علاقہ کس کے نام سے موسوم تھا۔
اس بابت ہمارے فیس بک دوست، معروف محقق جناب گل حسن کلمتی نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہ سردارلال محمد باران عرف لالو سے منسوب، انھی کا کھیت تھا۔ لالوکھیت سے محبت کرنے والوں کے لیے، لاہور میں مقیم، محب کراچی، ہمارے فیس بک، واٹس ایپ دوست محترم محمد سعید جاوید کی یادنگاری کا مرقع ''ایسا تھا میرا کراچی'' اور معروف صحافی شاہ ولی اللہ جنیدی کی بالتحقیق لکھی گئی کتاب 'یہ شارع عام نہیں۔ کراچی کی یادگار سڑکیں' (نظرثانی، ترمیم واضافہ: سہیل احمدصدیقی) کا مطالعہ بھی مفید ہے۔
؎جعفری صاحب کی لالوکھیت میں جُبلی (جُوبلی) ہوئی
جس میں وہ تولے گئے، وہ دال تھی اُبلی ہوئی
اردوزبان وادب (معیاری و عوامی) میں کراچی کے جس مقام کا سب سے زیادہ ذکر ہوا، وہ ہے لالوکھیت۔ اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو عرض کروں کہ شاید پاکستان کے کسی شہر کی کسی بستی کے متعلق بھی اتنا کچھ کہا اور لکھا نہ گیا ہو جتنا اس منفرد نگری کی بابت اہل زباں اور اہل قلم نے سعی فرمائی ہوگی۔
(یہ اور بات کہ ابھی تک اس علاقے کی کوئی مبسوط، جامع اور مکمل منثور /منظوم تاریخ نہیں لکھی گئی)۔ لالوکھیت سے متعلق، نامور طنزومزاح گو شاعر سید محمد جعفری کے اس شعر سے زیادہ مشہور اور چست شعر بھی شاید کوئی اور نہیں۔ سبطِ حسن نے 'شوخی تحریر' کے فلیپ پر لکھا تھا کہ ''اردو شاعری نے اکبرؔ الہ آبادی کے بعد اتنا صاحب ِنظر مزاح نگار پیدانہیں کیا۔'' ہمارے بزرگ معاصراور انتہائی مشفق کرم فرما ڈاکٹر انورسدید (مرحوم) نے موصوف کے متعلق لکھا کہ''اُن کا مزاح، سیاست کی بے اعتدالیوں اور معاشرتی ناہمواریوں کی مجموعی صورت سے جنم لیتا ہے'' (اردو اَدب کی مختصر تاریخ، اشاعت اوّل، فروری ۱۹۹۱ء ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ص ۵۹۵)۔ لالوکھیت کی ڈرامائی ادب میں شمولیت کی بات کریں تو اسٹیج یا تھئیٹر کاناقابل فراموش شاہکار 'لال قَلعے سے لالوکھیت 'اوّلیت کا حامل ہے، جسے خواجہ معین الدین جیسے مَشّاق ادیب نے لکھا اور یوں لکھا کہ گویا اَمَر کردیا۔کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب نے یہ ڈراما بابائے اردو کی فرمائش پر ۱۹۵۲ء میں تحریر کیا تھا۔
زیرِتحریر کالم کے لیے مواد کی تلاش وجستجو میں فیس بک پر موجود یہ دل چسپ تحریر بھی ہاتھ لگی جو شاید ماقبل واٹس ایپ پر نظر سے گزری تھی۔ ''لالو کھیت سے لیاقت آباد تک '' کے عنوان سے محترم مظفر الحق نے یوں اظہارِخیال فرمایا ہے:''جب بھی پاکستان کے کامیاب ترین اسٹیج ڈراموں کی تاریخ لکھی جائے گی تو بے سروسامانی کے دورِ تخلیق اور پیشکش کے باوجود بے مثال مقبولیت اور بے پناہ کامیابی حاصل کرنے والے کھیلوں میں خواجہ معین الدین کے ڈرامے'تعلیم بالغان'، 'مرزا غالب بندر روڈ پر' اور' لال قلعے سے لالوکھیت' سرفہرست لکھے جائیں گے۔ لالوکھیت (جو اب لیاقت آباد سے موسوم ہے، اب بھی ذہنوں میں لالوکھیت ہی کے نام سے رچابسا ہے) ایسی بستی ہے جو سماجی، سیاسی اور ادبی لحاظ سے کراچی میں منفرد اور اہم رہی ہے۔
ابراہیم جلیس نے اس پہ اپنا مشہور کالم ''ہم بھی لالوکھیت میں اور تم بھی لالوکھیت میں'' لکھا تو کہا کہ کراچی میں فی مربع گز شاعر و ادیب سب سے زیادہ لالوکھیت میں رہتے ہیں۔ مزاحیہ اداکار عمرشریف نے'' لال قلعے کی رانی اور لالوکھیت کا راجہ'' نامی ڈرامہ تخلیق کیا، اور ویسے بھی ان کے اکثر ڈراموں اور مکالموں میں کہیں نہ کہیں کودتا پھاندتا، پتھراؤ کرتا لالوکھیت گھس ہی آتا ہے، کیوں کہ اُن کی پرداخت بھی اسی علاقے میں ہوئی ہے''۔ خواجہ معین الدین کے مشہورڈرامے کے ایک مدت کے بعد عمرشریف نے یہ ڈراما 'لال قلعے کی رانی، لالوکھیت کا راجا' لکھ کر گویا اپنے علاقے کی نسبت کو مزید نمایاں کرنے کی کوشش کی تھی، بہرحال اسے عوامی مزاج کا کھیل کہا جاسکتا ہے، ادبی نہیں۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اَب اردو میں تحقیق کے (یعنی PhDکی سطح پر) موضوعات کا فقدان ہے یا کوئی نیا موضوع نہیں سوجھتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایسا کہنے اور سمجھنے والے کی اپنی علمیت اور زباں دانی مشکوک ہے۔ دور کیوں جائیں 'لالوکھیت اور اردو ادب' کے موضوع پر کسی نے پی ایچ ڈی کُجا ، ایم اے کا مقالہ بھی لکھا ہے؟ ......ہمارے ایک معاصر محقق حافظ صفوان نے اپنی ایک تحریر بعنوان ''کارپس (Corpus) کا ایک ادبی پہلو''، فیس بک کے قارئین کی نذر کی۔
اس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں، شاید کسی کے تحقیقی مزاج کو یہ جہت بھی سُوجھے:''جنابِ مشفق خواجہ نے ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری کے بارے میں لکھا ہے کہ انھیں اگر لالوکھیت کے ادبی رجحانات پہ مضمون لکھنا ہو تب بھی وہ ہبوطِ آدم سے تمہید اٹھائیں گے''۔ یہ دونوں بزرگ تو اَب ہم میں نہیں، مگر ایسا نہیں کہ تحقیق کا میدان خالی ہی ہوگیا ہے۔
ہماری عوامی/چالو بولی ٹھولی [Slang]میں 'لالوکھیت' کی ترکیب کئی طرح سے مستعمل ہے، ایک محاورہ تو ہمارے یہاں بہت عام بولا جاتا ہے جو غالباً کسی معیاری لغت میں اَب تک شامل نہیں: ''پیٹ ہے یا لالوکھیت''۔ اس کا محل یہ ہے کہ جب کوئی شخص سرِمحفل کھائے چلا جارہا ہو اور کسی طرح کا لحاظ یا احتیاط گوارا نہ کرے تب ایسا کہہ کر اُسے شرم دلائی جاتی ہے، لالوکھیت کی وسعت سے پیٹ کو تشبیہ دیتے ہوئے۔ علاوہ اَزاِیں، ایک مخصوص طرح کی بولی ٹھولی اور اس قسم کے لوگوں کو ''لالوکھیتی'' کہنا عام ہے۔
حیرت ہے کہ اولین اردو Slangلغت کے مرتب ڈاکٹر رَؤ ف پاریکھ صاحب کو (بے شمار دیگر الفاظ، تراکیب ، استعارات و اصطلاحات کے علاوہ) یہ بات معلوم نہ ہوسکی۔ (خاکسار اس اصطلاح کی وضاحت قصداً نہیں کررہا کیونکہ بقول میرانیسؔ ....ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو)۔ البتہ لالوکھیت میں مقیم، مختلف پیشوں سے منسلک افراد کی مخصوص اور خفیہ بولی ( جسے انگریزی اصطلاح میں Slang کی بجائے Jargonکہنا درست ہے )، نجی طور پر جانی جاسکتی ہے۔ یہ بھی مذکورہ لغت میں موجود نہیں۔ خاکسار کچھ مثالیں پیش کرتا ہے:
۱۔بے مَت (سوناروں کی بولی): کاروبار نہ کرنے کا دن، جب نِیارا اٹھانے والے ادھر کا رُخ کرتے ہیں۔
۲۔نِیارا(سوناروں کی بولی): سونے کی کٹائی، چھِلائی کے عمل میں اُچھل کراِدھر اُدھر جاپڑنے والی باقیات ۔
۳۔ پاؤنی: محلے کے لڑکے بالوں کا کسی لڑکی کی آمد کا دور سے پتا دیتے ہوئے، اشارتاً ذکر کرنا ، جیسے پاؤنی آرہی ہے۔
۴۔کَسُو کائی (دکان داروں خصوصاً پرچون فروش حضرات کی بولی): ایسا گاہک جو دام پوچھنے میں وقت ضایع کرے اور خریداری میں سنجیدہ نہ ہو۔
۵۔موتی چُور داؤں (اکھاڑے کی بولی)
۶۔کلنجن (اکھاڑے کی بولی)
}بشکریہ ڈاکٹر آفتاب مضطرؔ ، بحوالہ نجی گفتگو از راقم بَر موبائل فون ، مؤرخہ ۲۵جون ۲۰۲۰ء بوقت شب آٹھ بج کر سولہ منٹ تا آٹھ بج کر ترپن منٹ۔ اس کے علاوہ بزاز یعنی کپڑے کے تاجر بھی گاہک کی موجودگی میں اُسے بے وقوف بنانے یا حسبِ منشاء سودا کرنے کے لیے ایسی خفیہ بولی بولتے ہیں کہ مقابل شکل دیکھتا رہ جائے اور اُس کا ''کام ''ہوجائے (یعنی نقصان ہوجائے)۔ یہ اصطلاحات بھی موصوف نے مختلف مواقع پر بتائی تھیں، مگر افسوس محفوظ نہ کرسکا۔ اس فہرست میں اس قدر اضافہ ممکن ہے کہ پوری لغت تیار ہوجائے، مگر شرط یہ ہے کہ پہل کوئی ایسا شخص ہی کرے جو لالوکھیت میں عمربسر کرچکا ہو ، پھر اِس میں اضافے کے لیے دیگر علاقوں کی بولی ٹھولی بھی شامل کی جاسکتی ہے۔
خاکسار نے اس ضمن میں اپنے اسی بزرگ معاصر سے گزارش کی تھی کہ آپ لالوکھیت کے شب وروز اور وہاں کی زندگی کا احوال جلد قلم بند کریں، کیونکہ شاید اَب اس علاقے کے باسی، آپ جیسے فاضل اہل قلم خال خال ہی رہ گئے ہوں گے۔ بات کی بات ہے کہ وہ ایک مدت پہلے پیر الہٰی بخش کالونی میں واقع اپنے نئے مکان میں منتقل ہوچکے تھے۔ محترم مظفر الحق صاحب کا قول اُن پر بھی صادق آتا ہے: ''کہتے ہیں جب مولانا کوثر نیازی نے جماعت اسلامی چھوڑی تو کسی نے کہا تھا، کوئی جماعت سے نکل بھی جائے، پھر بھی جماعت اس کے اندر سے نہیں نکلتی۔ اسی طرح کوئی لالوکھیت سے نکل کر کہیں بھی گیا لالوکھیت اس کے اندر سے نہیں نکلا'' (''لالو کھیت سے لیاقت آباد تک'')۔
موضوع کی افادیت کے پیش نظر، ڈاکٹر آفتاب مضطرؔصاحب کی کتاب 'سورج کے اُس پار' (مجموعہ ہائیکو، مطبوعہ ۱۹۹۷ء)سے نقل کررہا ہوں :''ہمارے علاقے لیاقت آباد میں بھی کئی ایک ہستیاں آباد تھیں اور ہیں کہ جنھوں نے ادبی فضاء کو قائم رکھا یعنی بَہارکوٹی، امیدؔ فاضلی، بے چین بھَرَت پوری، قصری ؔ کان پوری، جاذبؔ قریشی ، اخترؔسکندروی اور عبیداللہ علیمؔ جیسی دیگر شخصیات نے لیاقت آباد اور شہر کی شعری اور ادبی فضاء کو قائم وتوانا رکھا۔ علاوہ بہارؔ کوٹی، خاکسار کو اِن لوگوں کی محفلوں میں بیٹھنے اور مُبتَدی کی حیثیت سے شعر سننے اور آداب ِ محفل سیکھنے کا عملی سبق ملا۔ ان تمام مشاہیر میں ایک ہستی انتہائی قابل ِذکر اور باعث صداحترام رہی اور وہ ہیں استاذی محترم حضرت فِداؔ خالدی دہلوی کہ جو بیخودؔ دہلوی کے جانشین اور داغؔ اسکول و دبستان ِ دہلی کے سلسلے کے آخری نشان ہیں۔ فِداؔ صاحب کی قربت اور اُن کی تربیت نے عروض سے دل چسپی اور فن سے وابستگی میں اہم کردار ادا کیا''۔
ہم متعدد مآخذ سے محض چند دیگر مشاہیر ِلیاقت آباد المعروف لالوکھیت کی فہرست مرتب کریں تو ایسے ایسے گوہر نظر آتے ہیں: مہدی حسن (گلوکار)، معین اختر (اداکار)، شہنازصدیقی (اسٹیج ڈراما پروموٹر)، اولمپئین انواراحمد خان، اصلاح الدین، عارف بھوپالی، سید شاہدعلی (ہاکی کے مشہورکھلاڑی)، صابری برادران و اَمجدصابری، یاورعلی و وَاجدعلی مٹکے والے، چھوٹے صالح محمد (نامور قوال)، علامہ عبدالحامد بدایونی، مفتی سید شجاعت علی قادری و علامہ سعادت علی قادری (نامور علماء)، حافظ بشیر احمدغازی آبادی (کالم نگار و سیاسی شخصیت)، سید علی کوثر، غازی نبی پردیسی، حافظ محمدتقی (سماجی وسیاسی شخصیات)، سید ارشادعلی (سیاسی کارکن)،
صبیحہ شاہدعلی (سیاسی کارکن)، پروفیسر نثار، ماسٹرتاج الدین، مکین مکان نمبر ایک (سنگ بنیاد بدست قائد ملت)، قاری زاہر قاسمی (عالم)، عامل لیاقت منجم، محمد علی سچے (نوحہ خواں)، حکیم مرسلین، حکیم اویس عباسی (اطباء)، ڈاکٹر اَمیراحمد (معالج، سماجی وسیاسی شخصیت)، علی مختاررضوی، اسلام حسین، قیصر خان، سید ضامن علی، عظیم احمد طارق، عامر خان، محفوظ یار خان (سیاسی رہنما)، اعجاز الحق قدوسی، حکیم محموداحمد عباسی (محقق،مؤرخ)، سید آصف علی (نعت خواں و گلوکار)، استاد قمر جلالوی، محمد نیاز، کرّار نوری، انوار عزم، نازش حیدری، عارف سنبھلی، نقاش کاظمی، عشرت انجم، اشرف شاد (شعرائے کرام)، سرور سنبھلی (ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر، اَدب دوست)، خورشید حسن خان(مسٹر پاکستان) اورپیر جی اَچھن ودیگر بے شمار۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ ضروری نہیں، ہر مشہور یا ہرمقبول شاعر، تمام اصولوں کی بنیاد پر، عظیم یا بڑا کہلائے، خاکسار یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ غالباً اپنے عہد کا انتہائی مقبول شاعر، استاد قمر جلالوی تھا۔ اُن کے تلامذہ میں شکیل بدایونی، اعجاز رحمانی، فناؔ بلندشہری، پُرنَم الہ آبادی، ڈاکٹر یاورعباس یاورؔ، ایاز بجنوری، سرورؔ کان پوری، حافظ بریلوی، توقیر جے پوری، عطاء اللہ نجارؔ اور ہندوستانی شعراء میں شبیر جیلانی، سری کرشن پرشاد بہارؔ، سری راج بہادر اَوجؔ، سری راج نرائن ، کرن سنگھ کرنؔ ، محمد غوث غوثی، اثرؔ علی گڑھی اور حدفؔ جلالی شامل تھے۔ (اردو کے اُمّی شعراء، تحقیق وتحریر شاہ عزیز الکلام، طبع دوم، ۲۰۰۱ء، کراچی)۔
لالوکھیت C-Iایریا میں مقیم اردو کے سِرّی (جاسوسی) ادب کا عظیم خالق ابن صفی کسی تعارف کا محتاج نہیں، گو اُنھوں نے بعد میں ناظم آباد میں قیام کیا اور وہیں اس فانی دنیا کو خیرباد کہا۔ بقول شاہد منصور صاحب (ابن صفی کے دیرینہ دوست، 1953 ء تا1980 )، یہ وہ دور تھا جب (موجودہ) فیڈرل کیپٹل ایریا سے نیوکراچی تک جنگل تھا اور لوگ وہاں شکار کو جایا کرتے تھے۔ ابن صفی سے اولین ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ابن صفی صاحب اپنے دوستوں تیغ ؔالہ آبادی (بعد میں مصطفی زیدی) اور احمد علی سید کے ہمراہ ادریس ہوٹل پر بیٹھا کرتے تھے۔
ان دنوں لیاقت آباد میں کتوں کی بھرمار تھی جن سے بچنا بھی گویا ایک فن کہلاتا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے، میں نے اپنے ایک دوست سے ایک سیاہ ڈنڈا مستعار لیا اور بغل میں دبائے بے نیاز گھومنے لگا۔ ایک روز حسب معمول ادریس ہوٹل میں ابن صفی، تیغ الہ آبادی اور احمد علی سید، ''میرا جی'' پر گفتگو کر رہے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور اپنے اسی ہیبتناک ڈنڈے کے ہمراہ ان تینوں کی میز پر جا دھمکا اور میرا جی سے متعلق تازہ معلومات سمیت ان پر برس پڑا۔ تینوں خاموشی سے سنتے رہے اور پھر بنا کچھ کہے اپنی میز سے اٹھ کر چلے گئے۔
اگلے روز تینوں میں سے کوئی بھی ہوٹل میں موجود نہ تھا۔ تیسرے روز ابن صفی اکیلے اپنی میز پر بیٹھے دکھائی دیے اور یوں اس دن کی ملاقات میں یہ دلچسپ حقیقت معلوم ہوئی کہ وہ تینوں مجھے CID والا سمجھ بیٹھے تھے کہ ان دنوں، ان کے پاس بھی اسی قماش کا ڈنڈا ہوا کرتا تھا۔ پھر جب غلط فہمی دور ہوئی تو ۲۷ سالہ دوستی کا آغاز ہوگیا۔ {''ابن صفی مرحوم کے خاص دوست جناب شاہدمنصور سے راشداشرف کی ملاقات''، نئے افق ڈائجسٹ میں شاہد منصور کے قلم سے 'باتیں اور یادیں'، مرسلہ انجینئر راشد اشرف و محترم احمد صفی فرزند ِ ابن صفی، بصدشکریہ)۔
لالو کھیت کی تاریخ کا انوکھا اور دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ بھارتی سرکاری ریڈیو ، آکاش وانی نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں لالوکھیت کے (فرضی) ہوائی اڈے پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
لالوکھیت کا سرکاری نام مدتوں پہلے تبدیل کرکے، اولین وزیراعظم محترم لیاقت علی خان سے معنون کیا گیا۔ ایک دیرینہ سماجی کارکن محترم نسیم سحر اکبرآبادی نے نجی گفتگو اور اخباری مراسلوں میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ نام انھی نے تجویز کیا تھا۔ ہمیں ابھی تک اس بیان کی تصدیق میں کہیں اور سے کوئی بیان دیکھنے سننے کو نہیں ملا، لہٰذا اسے تسلیم کرنے میں بظاہر کوئی حرج یا ہرج نہیں۔ لیاقت آباد بننے سے پہلے یہ علاقہ کس کے نام سے موسوم تھا۔
اس بابت ہمارے فیس بک دوست، معروف محقق جناب گل حسن کلمتی نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہ سردارلال محمد باران عرف لالو سے منسوب، انھی کا کھیت تھا۔ لالوکھیت سے محبت کرنے والوں کے لیے، لاہور میں مقیم، محب کراچی، ہمارے فیس بک، واٹس ایپ دوست محترم محمد سعید جاوید کی یادنگاری کا مرقع ''ایسا تھا میرا کراچی'' اور معروف صحافی شاہ ولی اللہ جنیدی کی بالتحقیق لکھی گئی کتاب 'یہ شارع عام نہیں۔ کراچی کی یادگار سڑکیں' (نظرثانی، ترمیم واضافہ: سہیل احمدصدیقی) کا مطالعہ بھی مفید ہے۔