غزل
ہجر کا حل نہیں اِس ہجر میں خود حل ہو جا
مجھ سے دانائی مری کہتی ہے پاگل ہو جا
رنگ جتنے بھی مرے پاس تھے سب بھر دیے ہیں
اب تو اے یار کی تصویر مکمل ہو جا
قطرہ ٔ اشک سہی خاک میں کیوں ملتا ہے
اُٹھ کے پلکوں سے مرے شہر پہ بادل ہو جا
کب تلک شانوں پہ سر رکھے گا تہمت کی طرح
آبرو پیاری ہے تو داخل ِ مقتل ہو جا
اور دیکھا نہیں جاتا ترا جانا مجھ سے
جانے والے تُو مری آنکھ سے اوجھل ہو جا
دیکھ نائب ہوں یہاں کُن فیکوں والے کا
ہو جا آسان تُو اے کار ِ جہاں چل ہو جا
( عقیل شاہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
میں کیا بتاؤں تجھے مسئلہ محبت کا
تجھے تو ہے ہی نہیں تجربہ محبت کا
تمھارے ساتھ مری بن نہیں سکے گی کبھی
تو چھوڑ سکتا نہیں مشغلہ محبت کا
ترے تو اپنے مسائل ہیں اس قدر صاحب !
میں کیا بتاؤں تجھے المیہ محبت کا
نہیں حضور یہ ممکن نہیں کسی صورت
کسی نے سمجھا ہے یہ فلسفہ محبت کا
فضا اداس پرندے ہیں مضطرب سارے
ہُواہے کوئی ادھر حادثہ محبت کا
جو بات بات پہ کہتا ہے عشق ہے اس کو
دکھائیں اس کو کبھی آئینہ محبت کا
مری ردیف محبت ہے سو ہے مجبوری
میں باندھ سکتی نہیں قافیہ محبت کا
نکال وقت کسی شاعری کی محفل میں
سنیں گے شوقؔ کوئی واقعہ محبت کا
(مدیحہ شوق۔لاہور)
۔۔۔
غزل
دنیاداری کر لیتے ہیں
بات تمہاری کر لیتے ہیں
لوگ ہمیشہ ہم جیسوں سے
وقت گزاری کر لیتے ہیں
عشق اک دوجے سے ہم دنوں
باری باری کر لیتے ہیں
تھک کے نیند کی وادی میں ہم
خواب سواری کر لیتے ہیں
آج ہم اُن سے دل کی باتیں
کھل کے ساری کر لیتے ہیں
چاند ستارے میرے ہم رہ
شب بیداری کر لیتے ہیں
اکثر تیرے ہجر کو طارقؔ
خود پہ طاری کر لیتے ہیں
( طارق جاوید۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
تمہاری ذات میں پیوستگی سے ڈرتے ہیں
محبتوں کی بھی وسعت گری سے ڈرتے ہیں
یہ کیا کہ پھلجڑی چھوڑی، چمک کے بجھنے لگے
ہم ایک لمحے کی تابندگی سے ڈرتے ہیں
اِنہیں ستایا گیا ہے بغیر جرم و خطا
یہ لوگ موت نہیں زندگی سے ڈرتے ہیں
ہماری آنکھ اندھیروں کی عادی ہو گئی ہے
بلا سبب تو نہیں روشنی سے ڈرتے ہیں
خود اپنی گونج نمایاں سنائی دے گی ولیؔ
چنگھاڑتے رہے جو خامشی سے ڈرتے ہیں
)شاہ روم خان ولی۔ مردان(
۔۔۔
غزل
ایک ہلچل سی ہے مچی مجھ میں
کوئی رہتا ہے آدمی مجھ میں
دور کیا ہو گیا اندھیروں سے
جاگ اٹھی ہے روشنی مجھ میں
پل میں اپنا بنائے جو سب کو
ایسی ہی کچھ ہے سادگی مجھ میں
شعر پڑھتا ہے وہ ترنم سے
ایک محفل سی ہے سجی مجھ میں
میں سلگتا ہوا ہوں اک شعلہ
روز جلتی ہے آگہی مجھ میں
جیسے صحرا میں پیاس کا عالم
کیسی رکھی ہے تشنگی مجھ میں
جو بھی کرنا تھا کر چکا عارفؔ
تو بتا اب ہے کیا کمی مجھ میں
(محمد حسین عارف۔جھنگ)
۔۔۔
غزل
جو اچھے تھے دن وہ ہوا ہوگئے
ہوا کیا جو مجھ سے جُدا ہوگئے
بہاریں ملیں جب وہ مجھ سے ملے
گئے جب وہ، موسم خفا ہوگئے
غمِ یار قسمت سے جن کو ملا
غمِ زندگی سے رِہا ہوگئے
کوئی پوچھتا تھا نہ جن کو یہاں
میرے سامنے کیا سے کیا ہوگئے
میں دھوتا ہوں اب زخمِ دل رات دن
میرے اشک یوں ہی دوا ہوگئے
نہ وہ مل سکے نہ ہی منزل ملی
وہ راہوں میں بزمی جُدا ہوگئے
(شبیر بزمی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
کس طرح سے وصال ابھرے گا
ہر گھڑی یہ سوال ابھرے گا
کون دیکھے گا آ کے اشک مرے
حسرتوں کا ابال ابھرے گا
آئنوں سے ہے دشمنی کیوں کر؟
پتھروں میں سوال ابھرے گا
اس گھڑی ہم کنارے پر ہوں گے
ڈوبنے پر اچھال ابھرے گا
سارے پربت رواں ہوں پانی میں
انتہا میں زوال ابھرے گا
تھک گیا ہوں ریاضتیں کر کے
کس طرح سے کمال ابھرے گا
ساری دنیا کھڑی ہے پہلو میں
کون اس کی مثال ابھرے گا
( بیدل بخاری۔کوہاٹ)
۔۔۔
غزل
دس بارہ برس سے ہے مرا یار کوئی شخص
احساس کا پیکر بھی ہے دلدارکوئی شخص
امید تھی بن جائے گا اچھا سا کمانڈو
اب کرتا ہے کپڑوں کا بیوپارکوئی شخص
ہر شخص میں ہوتی ہیں کئی خوبیاں اپنی
مسکان سجانے میں ہے فن کارکوئی شخص
کچھ شعر کہوں میں تو بڑھائے گا مرا دل
اور دے گا مجھے داد کے انبارکوئی شخص
صد بار ہے تعریف مگر پھر بھی ہے تھوڑی
حیدرؔ ہے بہت خوب سا کردار کوئی شخص
(حیدر علی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
پہلے عام سا عشق کیا تھا
خاص، دوبارہ عشق کیا تھا
دیکھ یہ آنکھوں کی ویرانی
دیکھ یہ کیسا عشق کیا تھا
شیریں ہونٹوں والی نے بھی
ہم سے کھارا عشق کیا تھا
خوب کیا تھا جیون دھندا
تھوڑا عرصہ عشق کیا تھا
ہم نے ڈھابا ہوٹل پر بھی
پانچ ستارہ عشق کیا تھا
اس نمکین بدن سے ہم نے
میٹھا میٹھا عشق کیا تھا
اس کافر کو ڈھونڈ رہا ہوں
جس نے پہلا عشق کیا تھا
نہ ،نہ کرتے کرتے ارشدؔ
اچھا خاصا عشق کیا تھا
(ارشد ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
بستی بستی پہ چھا گئی ہوں میں
تیرے حصے میں آگئی ہوں میں
یوں مِٹی ہوں تمھارے کہنے پر
جیسے دنیا گنوا گئی ہوں میں
شاعری، شوق، خواب اور جیون
دیکھ سب کچھ جلا گئی ہوں میں
بندہ پرور تمھارے کوچے میں
اپنا سایہ مٹا گئی ہوں میں
یہ غنیمت ہے تیرے زخم سبھی
جاتے جاتے بھلا گئی ہوں میں
یار آنکھوں سے قتل کر دینا
تیرے پہلو میں آ گئی ہوں میں
خاک زادوں کو کیا اثر طوبیؔ
خونِ دل تک پلا گئی ہوں میں
(طوبیٰ سہیل۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
راہِ منزل سے جو آشنا ہو گیا
قافلے کا وہی راہ نما ہو گیا
ان کی نظر ِکرم کا یہ فیضان ہے
مجھ سا بگڑا ہوا با صفا ہو گیا
چھٹ گئی تیرگی بغض، نفرت کی سب
صاف دل کا میرے آئینہ ہو گیا
دین، دنیا ،نہ اس کی رہی آخرت
جو یہاں حرص میں مبتلا ہو گیا
رہ گیا میں اسے، وہ مجھے دیکھتا
جو اچانک کبھی سامنا ہو گیا
ان کے جلوؤں میں گم ایسا اخترؔ ہوا
کہ اندھیروں کی روشن ضیا ہو گیا
(اختر سعید۔جھنگ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی