روح محمد پھونکنے والا سائباں دوسرا اور آخری حصہ
وفاق درحقیقت ہے توخالص تعلیمی ادارہ، لیکن یہ ایسی تعلیم دینے والاادارہ ہے کہ جوانسان کو انسان بنائے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سب سے پہلے صدر میرے دادا جان شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا عبد الحکیمؒ کے شاگرد رشید شیخ التفسیر مولانا شمس الحق افغانی ؒبنے جو تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے، میرے والد محترم شیخ القرآن و الحدیث مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی ؒ کو عرب و عجم کے بہت سارے اکابرین کے علاوہ تفسیر و حدیث کی اجازت مولانا شمس افغانیؒ نے بھی دی تھی۔
مولانا شمس الحق افغانیؒ کے بعد مولانا خیر محمد جالندھریؒ وفاق کے صدر بنے اور سات سال تک اسی عہدے پر ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ ان کے بعد یہ اس منصب پر چار سال چار ماہ تک مولانا محمد یوسف بنوریؒ فائز رہے۔ مولانا مفتی محمودؒ کے پاس یہ عہدہ دو سال پانچ ماہ اور مولانا محمد ادریس میرٹھیؒ کے پاس آٹھ سال تک رہا۔ مولانا میرٹھیؒ کے بعد شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ وفاق کے صدر منتخب ہوئے اور وہ 27 سال سات ماہ تک وفاق کے صدر رہے۔
مولانا سلیم اللہ خانؒ کے انتقال کے بعداس منصب مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرفائز ہوئے، وہ تادم حیات اسی عہدے پر فائز رہے۔ ان کے انتقال کے بعد اب وفاق کی باگ ڈور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو سونپ دی گئی ہے، ان کے ساتھ ایک بار پھر ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ہی کو منتخب کیا گیا ہے۔
جالندھری صاحب کے خانوادے کی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے لیے گران قدر خدمات ہیں۔ پہلے ان کی والد مولانا خیر محمد جالندھریؒ بطور صدر وفاق کی ذمے داریاں نبھاتے رہے اب کئی سالوں سے قاری محمد حنیف جالندھری یہ خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ بہت احسن طریقے سے وفاق المدارس عربیہ کی ترجمانی اور نگہبانی کر رہے ہیں۔ان کے صاحبزادے مولانا احمد بھی ہر وقت ان کی معاونت میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب اور قاری محمد حنیف جالندھری کے انتخاب پر ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے علم دوست، دین دوست اور مخلص حلقوں میں جس طرح خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مدارس کے ذمے داران ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ سب اللہ رب العزت کا خصوصی فضل وکرم ہے۔
اس حوالے سے ماضی کی طرح آج بھی بہت سے حضرات کا اپنا اپنا کردار اور حصہ ہے۔ بظاہر تو صدارت کے منصب پر حضرت شیخ الاسلام جلوہ افروز ہوئے لیکن حقیقت میں مسلک اہل سنت والجماعت علمائے کے اکابرین خاص طور پر سینئر نائب صدر وفاق حضرت مولانا انوار الحق صاحب، حضرت مولانا مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب، حضرت مولاناحافظ فضل الرحیم اشرفی صاحب، مولاناقاضی عبدالرشید صاحب، مولاناامداداللہ صاحب، مولاناحسین احمد صاحب، مولاناصلاح الدین صاحب، مولاناسعید یوسف صاحب کے علاوہ دیوبند مکتبہ فکر سے وابستہ ہر عالم، تحصیل، ضلع اور صوبائی ذمے داران، مدارس کے مہتمیمین اور ایک ایک طالب علم خاص طور پر وفاق المدارس کے مرکزی دفتر میں مختلف ذمے داریاں سرانجام دینے والے احباب نے بہت بھرپور اور موثر کردار ادا کیا۔
وفاق المدارس کی نئی قیادت کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں، مفتی تقی عثمانی اور قاری حنیف جالندھری کے لیے وفاق کی ذمے داری ہر گز پھولوں کی سیج نہیں ہوگی بلکہ کانٹوں کی راہ گزر ہوگی، جہاں قدم قدم پر انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کالے انگریز بھی گورے انگریز کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔
چند کو چھوڑ کر تقریباً ہر حکمران نے اپنے اپنے انداز سے دینی مدارس کی روح کو مسخ کرنے کی کوشش کی، دینی مدارس کے اثرات کو کم کرنے، دینی مدارس کے نصاب و نظام کو تبدیل کرنے، دینی مدارس کی حریت و آزادی پر قدغنیں لگانے کی اپنی اپنی سی کوششیں کیں لیکن الحمدللہ صرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ہی نہیں بلکہ اتحاد تنظیمات مدارس نے یکساں اور مربوط حکمت عملی باہمی اتحاد و یکجہتی کے ذریعے ان تمام چالوں اور سازشوں کو ناکام بنایا۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے لیے سیاسی ڈھال اور سیاسی میدان میں ترجمانی اور حفاظت کے لیے مولانا فضل الرحمٰن صاحب جیسے قد آور اور موثر شخصیت کی موجودگی ایک نعمت غیر مترقبہ، ان کی بصیرت دفاع کی وجہ سے مدارس کے ہر دشمن کو منہ کی کھانی پڑی، مولانا نے ہمیشہ مدارس کی حریت و آزادی اور فکرو عمل کا دفاع کیا اور کرتے رہیں گے۔
اہل مدارس نے بے سروسامانی کے باوجود اپنی خودداری اور خود مختاری پر حرف نہیں آنے دیا۔ نصاب اور نظام پر بیرونی ڈکٹیشن اور دباؤ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا، اور ان کی استقامت سے مدارس دینیہ کے سارے دشمن ناکام اور نامراد ٹھہر ے۔
اب آگے کے سفر کے لیے وفاق المدارس کے ارباب حل وعقد نے جو حکمت عملی وضع کی ہے۔ جس عظیم ہستی کے ہاتھ میں وفاق المدارس کی باگ ڈور دی گئی ہے اور جن عظیم لوگوں نے دینی مدارس اور وفاق المدارس کے گرد پہرہ دینے کا عزم کیا ہے وہ سب خراج تحسین کے لائق ہیں۔ اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے اہل مدارس کا انتخاب لاجواب ہے۔
آج بھی کالے انگریز باز نہیں آرہے ہیں اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے صرف دیوبند مکتبہ فکر کے لیے پانچ نئے وفاق ان کے مقابلے میں کھڑے کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں، اب تک سرکاری وفاقوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ ان کم عقلوں کو کون سمجھائے کہ خالق کائنات کے آسرے پر قائم وفاق المدارس عربیہ کا مقابلہ کمزور مخلوق کیسے کرسکتی ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، یہ وہ چھت اور سائبان ہے جس کے نیچے بیٹھ کرہم صرف ایک مقصدکے لیے جمع ہوتے ہیں اور وہ ہے مسلمانوں میں روح محمد پھونکنے والے مدارس کاتحفظ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان مدارس کے بوری نشین طلباء کے ذریعے دنیاکی ساری طاقتوں کو افغانستان میں اس طرح ذلیل و رسواکیاہے کہ اس کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ برطانیہ جوپہلی سپرپاورتھی، اس وقت بھی انھوں نے افغانوں کامقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پہاڑوں سے ٹکراکرپاش پاش ہوگئے تھے۔
برطانیہ ، روس اورآخرمیں امریکا کابھی یہ ایجنڈا تھا۔ "کہ ملاکواس کے کوہ ودمن سے نکال دو"، اور روح محمد کو ان کے جسم و جان سے نکال دو مگروہ" مْلا" اتناسخت جان تھاکہ چالیس پچاس ہزارآدمیوں نے تمام تکنیکی اسلحہ سے لیس پچاس ملکوں کی فوجوں کواس طرح رسواکیاکہ آج پوری دنیاچیخ رہی ہے، چلارہی ہے اورخاص طورپر اگر بھارت کامیڈیا سن لیں یااس کے چینل دیکھ لیں تو اس کی چیخیں آسمانوں سے باتیں کرتی نظر آئیں گی، وہ ملا کو نکالنے اور ان کے بدن سے روح محمد نکالنے کے لیے آیے تھے مگر ملا نے ان کونکال باہرپھینکا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ عزت اورشرف الحمدللہ طالبان کوعطا فرمایا۔ وفاق درحقیقت ہے توخالص تعلیمی ادارہ، لیکن یہ ایسی تعلیم دینے والاادارہ ہے کہ جوانسان کو انسان بنائے، جواْس میں ایمان کی روح پھونکے، وہ جو روحِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم، جس کے بدن سے نکالنے کے لیے ساری سازشیں چل رہی ہیں، وہ روح محمد پیداکرنے کے لیے یہ ادارہ ہے اورآج ایک طرف تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دکھا دیاہے کہ "ملا" کیاہوتاہے۔
لیکن اس کے باوجود کالی چمڑی والے انگریز اس فکرمیں ہیں کہ کسی طرح اِس ملا کو پاکستان سے نکالیں، اوراس کے لیے طرح طرح کی سازشیں اور منصوبے بنائے جا رہے ہیں، ہمیشہ دشمنِ اسلام طاقتوں کاجوسب سے بڑاہتھیار ہوتا ہے وہ کوئی اصول اور نظریہ نہیں بلکہ پھوٹ ڈالناہوتاہے، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی ہوتی ہے۔ علماء نے ایسی سازشیں پہلے بھی ناکام بنائی تھیں، آج بھی ناکام بنائی اور آیندہ بھی ناکام بنائیں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت مدارس کو ختم نہیں کرسکتی کیونکہ اس کا پشتی بان اللہ رب العزت ہے۔