کرپشن کے خلاف فعال سسٹم بنائیں

قیام پاکستان کے ساتھ ہی کرپشن کے خلاف نعروں اوراقدامات کا آغاز ہوگیا تھا۔ مرض تو دورنہیں ہوسکا البتہ مریض جاں بلب ہے۔


علی احمد ڈھلوں October 01, 2021
[email protected]

ملکی سیاسی اُفق پر گزشتہ دو تین دن سے اوپر نیچے حکومتی اور اپوزیشن کے عہدیداروں کی دسیوں پریس کانفرنس ہو چکی ہیں، ان کا عنوان ایک ہی ہے، اور وہ ہے ''لندن فیصلہ''! لندن فیصلہ کیا اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر دونوں اطراف کو ایک بات کی داد تو دینا پڑے گی کہ بھیا! دونوں کے دلائل بڑے ''مضبوط '' ہیں۔

اتنے ''مضبوط ''کہ جھوٹ بھی پناہ مانگ رہا ہوگا، وہ اس لیے کہ نہ تو اپوزیشن اتنی پارسا ہے اور نہ ہی حکومت۔ اس لیے سب لوگ Face Saving گیم کھیل رہے ہیں، جس کا ملک اور عوام کی معاشی حالت پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔

آپ دیکھ لیجیے گا کہ شہباز شریف کیس کا پاکستان میں بھی کچھ نہیں بنے گا کیوں کہ یا تو موجودہ حکومت اس قابل نہیں کہ وہ کچھ ثابت کرسکے یا پورے کا پورا سسٹم ہی بیٹھا ہوا ہے۔ میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کا ذکر اپنے کالموں میں کر چکا ہوں کہ خان صاحب ان مقدمات پر فضول پیسہ اور وقت برباد کرنے کے بجائے ایسا سسٹم بنا ڈالیں کہ دوبارہ کوئی کرپشن نہ کر سکے ۔

موجودہ حکومت کے پاس اب 2سال سے بھی کم عرصہ رہ چکا ہے۔ عمران خان کرپشن ختم کرنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر پاکستانی قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن حکومت بدعنوانی میں کمی تو درکنار کسی ایسے شخص کے خلاف بھی کوئی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا جنھیں حکومت تواتر سے 'چور اور لٹیرے' قرار دیتی رہی ہے۔

اس لیے خان صاحب اور ان کی کابینہ کو چاہیے کہ وہ لمبی چوڑی بحثیں یا تقریریں کرنے کے بجائے ایسی قانون سازی پر توجہ دیں کہ کرپشن کرنے سے پہلے کوئی سو مرتبہ سوچے۔ یا اس حوالے سے سوچیں کہ بدعنوانی کے خلاف پاکستان کا قانونی ڈھانچہ کیوں تسلسل سے ناکام ہو رہا ہے۔ کیوں کہ جب بھی کسی مرض کا علاج شروع کیا جاتا ہے تو اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر مرض کی شدت اور گہرائی جانچی جاتی ہے اور پھر اس کا ایسا علاج تجویز کیا جاتا ہے جس سے مرض بھی ختم ہو جائے اور مریض کی تکلیف میں بھی کمی واقع ہو۔

بدعنوانی کو اگر سماجی بیماری مان لیا جائے تو اس کے بارے میں بھی ایسا ہی طریقہ علاج اختیار کرنا اہم ہوگا۔جب کوئی مرض کسی ایک علاج سے درست نہیں ہوتا تو معالج دوا یا طریقہ علاج تبدیل کرتا ہے۔ اس طرح حتمی مقصد یعنی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے کام جاری رکھا جاتا ہے۔ کسی نے کبھی کوئی ایسا حکیم یا ڈاکٹر نہیں دیکھا ہوگا جو مرض بڑھنے کے باوجود پرانی دوا جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہو۔

پاکستان میں کرپشن کا علاج کرنے کے لیے البتہ یہی عجیب و غریب طریقہ علاج اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کرپشن کے خلاف نعروں اور اقدامات کا آغاز ہو گیا تھا۔ مرض تو دور نہیں ہوسکا البتہ مریض جاں بلب ہے۔

اور موجودہ حکومت کو یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ اُن کے دور میں کرپشن کم ہونے کے بجائے 124درجے سے 128درجے پر آن پہنچی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 1995 میں 39ویں نمبر پر موجود تھا، اور آج 124 ویں نمبر پر ہے، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 1993 میں کام کا آغاز کیا اس لیے اُس کے پاس تمام ملکوں کا ڈیٹا 1995کے بعد کا موجود ہے، جب کہ اس سے پہلے ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ہی ہلکے پھلکے انداز میں کسی بھی ملک کی کرپشن رینکنگ کیا کرتے تھے۔

اور ایک اندازے کے مطابق 80 کی دہائی میں پاکستان کی کرپشن رینکنگ 25ویں سے 30ویں نمبر میں رہتی تھی، 1995 میں 39ویں نمبر پر ،2000 میں 87ویں نمبر ، اگلے پانچ سالوں میں یعنی 2005 میں 144ویں نمبر ، پھر 2010میں ہم 143ویں نمبر پر تھے۔ جب ن لیگ 2013 میں تیسری بار اقتدار میں آئی تو اُس وقت ہم 127ویں نمبر پر تھے۔ جب ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو ہمارا درجہ 124واں تھااور آج ہم 128ویں پر ہیں۔

اب اگر گزشتہ سالوں کا ریکارڈ دیکھیں تو ہم نے اپنے ملک کے 35سالوں میں 100''درجات'' بلند کیے ہیں۔آپ ان 100درجات کا حکمران طبقات سے حساب مانگ کر دیکھ لیں،آپ کو پتہ چل جائے گا ۔ لہٰذاہمیں ایک دوسرے میں کیڑے نکالنے اور الزامات لگانے کے بجائے ایسی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی جن کی وجہ سے کرپشن کا ناسور اس ملک کی جان نہیں چھوڑ رہا۔

رہی بات امریکا ، لندن ،سوئٹزر لینڈ یا کسی دوسرے ملک کے بینکوں میں جمع کرپشن کی کمائی کو ملک میں لانے کے لیے اقدامات کرنے کی تو میرے بھائی! کونسا ملک ہے جو اربوں ڈالر اپنے بینکوں سے نکال کر آپ کی جھولی میں ڈال دے گا یا اکاؤنٹس تک رسائی دے گا۔ لہٰذا یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ کوئی ملک آپ لوٹی ہوئی رقوم واپس کر دے گا۔ برطانیہ میں ہر سال پانچ لاکھ مشکوک فنانشل سرگرمیاں رپورٹ ہوتی ہیں جب کہ thetimes.co.ukکی ایک رپورٹ کے مطابق دس سال میں صرف پانچ افرادکو منی لانڈرنگ کے الزامات ثابت کر کے سزادی جا سکی۔

اور یہ الزامات ایسے تھے جن میں منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردوں کو رقوم فراہم کی گئی، باقی 4لاکھ 99ہزار 95افراد جو ملک میں پیسہ لے کر آئے انھیں ''معاف'' کر دیا گیا۔ الغرض جب حالات ایسے ہوں تو پھر سب کچھ چھوڑ کر اپنے ملک کو ٹھیک کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے، نہ کہ کسی دوسرے ملک میں جاکر پیسے نکلوانے کی باتیں کرنا۔ اس لیے خان صاحب وطن عزیز میں ایسا سسٹم بنائیں اور کرپشن کے خلاف ایسی سزائیں متعارف کروائیں کہ کوئی کرپشن کرنے کی جرأت نہ کر سکے !

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |