طالبان کا افغانستان

طالبان کی موجودہ حکومت بلاشبہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے، یہ ایک اچھی علامت ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کنفیوژن پیدا ہو گیا تھا، وہ کنفیوژن یہ تھا کہ طالبان حکومت میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا، چار عشرے افغانستان میں رہنے کے بعد امریکی سامراج کے لیے آسانی کے ساتھ افغانستان سے دستبردار ہونا مشکل تھا لیکن طالبان جس یقین کے ساتھ افغانستان آئے تھے۔

اس کے پیش نظر امریکا کے لیے افغانستان چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا، اگر امریکا میں موجودہ صدر کے بجائے سابقہ صدر ٹرمپ برسر اقتدار ہوتے تو شاید صورتحال میں کچھ تبدیلی ہوتی، موجودہ امریکی صدر مرنجان مرنج آدمی ہے، غالباً وہ طالبان سے جنگ کی جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے افغانستان طالبان کے حوالے کردیا۔

طالبان کے بارے میں بڑی افواہیں تھیں کہ وہ افغانستان میں طالبانی نظام لا کر افغانوں کی زندگی مشکل کردیں گے لیکن باوجوہ ایسا نہ ہوا، اس کے برخلاف طالبان نے افغان عوام کو بہت ساری آزادیاں دیں جن میں عورتوں کی آزادی کا خاص طور پر ذکر کیا جانا چاہیے، افغانستان میں عورت کٹھ پتلی کی حیثیت سے زندگی گزار رہی تھی، موجودہ طالبان حکومت نے عورت کو بڑی حد تک اپنے فریم ورک میں رہتے ہوئے آزادی دی ہے جو بڑی بات سمجھی جا رہی ہے، اصل بات یہ ہے کہ افغان معاشرہ ایک قبائلی معاشرہ ہے جو قبائلی معاشرے میں سختیاں ہوتی ہیں وہ افغانستان میں بھی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا طالبان حکومت عورتوں کو واقعی آزادی دینا چاہتی ہے یا دنیا کے عوام اور حکومتوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اگر ایسا ہے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ انسان چاند پر پہنچ کر آیا ہے، دنیا اور دنیا کی تہذیب بدل گئی ہے۔

افغانستان ایک دم نئی تہذیب کا ساتھ نہیں دے سکتا لیکن اس سمت میں محتاط طریقے سے پیش قدمی کرسکتا ہے اور دنیا کا کوئی ملک افغانستان کو نئی تہذیب سے جڑنے کا مشورہ بھی نہیں دے سکتا کیونکہ صدیوں سے پھیلے رسم و رواج کسی بھی صورت میں چھلانگ لگانے کی اجازت نہیں دیتے ، افغان حکومت کو بتدریج آگے بڑھنا ہوگا۔بھارت اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ بھارت کو گمان بھی نہ تھا کہ وہ جس بڑے پیمانے پر افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس پر ایک دن ایسا برا وقت بھی آسکتا ہے۔

اگر طالبان حکومت آنے کا سب سے زیادہ نقصان کسی کو ہوا ہے تو وہ بھارت ہے۔ بھارت کے لیے مشکل یہ ہے کہ طالبان کے آنے سے بھارت اپنی سرمایہ کاری کا تحفظ نہ کرسکا، ادھر امریکا بھی اس سے ملتی جلتی مشکلات کا شکار ہے اور امریکا کے لیے فی الوقت کوئی بڑا قدم اٹھانا مشکل ہے۔ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔


پاکستان بھی اس حوالے سے بہت محتاط ہے۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کو تسلیم کرنے میں جلد بازی نہیں کریں گے اور دنیا کے ملکوں کے ساتھ ساتھ چلیں گے، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ دنیا کے ملک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، افغانستان کے بارے میں اس قدر محتاط رویہ رکھے ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ افغانستان میں اب تک کوئی ایسی مضبوط اور عوام کے لیے قابل قبول حکومت نہیں بنائی جاسکی۔

بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ پچھلے عشروں میں بھارت نے افغانستان سے بہت فائدے اٹھائے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب بھارت کے لیے حساب چکانے کا وقت آگیا ہے۔عرب ممالک مجموعی طور پر ایک بڑی طاقت ہے اور مال دار بھی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ طالبان حکومت کے حوالے سے عرب ملکوں کا رویہ کیا ہوتا ہے۔

امکان اس بات کا ہے کہ عرب ممالک جلد بازی میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو بعد میں ان کے لیے مصیبت کا باعث بن جائے۔ عرب ممالک بے پناہ دولت کے مالک ہیں لیکن وہ آنکھ بند کرکے افغانستان کی مدد نہیں کریں گے۔ وہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ بہت محتاط ہے۔ عمران خان اپنے آپ کو موجودہ فریم ورک میں سیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی موجودہ تبدیلیوں میں عمران خان نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن افغانستان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مغربی ملکوں کو جو سب سے زیادہ تشویش ہے وہ ایک تو اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کی ہے دوسرے افغانستان سے مستقبل میں کیا تعلقات ہو سکتے ہیں اس حوالے سے بھی مغربی ملکوں کو تشویش ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ عشروں سے جو سیٹ اپ افغانستان میں موجود رہا ہے اس کو کس طرح تبدیل کیا جائے۔ افغان معاشرہ ایک قبائلی معاشرہ ہے، قبائل کے کچھ اصول اور ضوابط بہت سخت ہوتے ہیں، ان میں آسانی سے تبدیلی ممکن نہیں، اس کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔

طالبان کی موجودہ حکومت بلاشبہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے، یہ ایک اچھی علامت ہے خاص طور پر خواتین اور سوشل سیٹ اپ میں تبدیلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس سے طالبان کس طرح نمٹیں گے، یہ دیکھنا ہے۔ اس حوالے سے امریکا اور مغربی ملکوں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ طالبان قیادت جانتی ہے کہ امریکا کو قابو میں رکھنا بھی ضروری ہے۔
Load Next Story